افسانہ
برزخ
ثناء غوری
”یہ پیشنٹ پچھلے ایک سال سے ہمارے پاس ہے۔ ہم نے اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کرلی مگر……..“
ڈاکٹرنے اپنے ساتھی کو کیس سمجھاتے ہوئے بتایا۔
”اس طرح کومے میں جانے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟“
”اچھا سوال ہے ڈاکٹر زریاب! کومے میں جانے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ کوئی میجر ایکسیڈنٹ، جس میں ذہن کے کسی ایسے حصے میں چوٹ لگ جائے جس کے ناکارہ ہونے سے انسانی جسم مفلوج ہوجاتا ہے یا پھر کوئی شدید ذہنی صدمہ کہ جس کو برداشت کرنے کی انسانی دماغ صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ اس کیس میں پیشنٹ کے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ گھر والوں کے مطابق یہ ایک عام گھریلو زندگی گزار رہی تھی۔ کسی قسم کا صدمہ بھی نہیں۔ ایک صبح اسے بے ہوش پایا گیا اور فوری طور پر ہاسپیٹل پہنچادیا گیا جہاں اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ پیشنٹ نیند کی حالت ہی میں کومے میں جاچکی ہے۔اور کوئی سوال ڈاکٹر زر یاب؟“
”اسٹرینج…….تو ڈاکٹر ضیغم!اب پیشنٹ کے حوالے سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسے کب تک ہوش آسکتا ہے؟“
”ویل ینگ داکٹر!ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ کئی سال تک اسی حالت میں بھی رہ سکتی ہے اور چند لمحوں میں بھی ہوش آسکتا ہے۔خوش قسمتی سے کل رات سے ہم اس کی پَلز کو بہترنوٹ کر رہے ہیں۔ بی پی کافی اسٹیبل ہے۔ امید کی کرن تو نظر آرہی ہے۔“
”اس کا مطلب ڈاکٹر ضیغم یہ ہماری آواز سْن سکتی ہے؟“ڈاکٹر زریاب کی آنکھوں میں تجسس تھا۔
”شاید ہاں …….یاشاید نہیں۔ میڈیکل سائنس اس حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں بتاتی۔ اس پیشنٹ میں پلَس پوائنٹ یہ ہے کہ فزیکلی اسے کوئی اور مرض نہیں، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بہت جلد ری کور کر سکتی ہے۔ اگر یہ چاہے تو……. کومے کے ایسے پیشنٹ میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں اپنی وِل پاور کتنی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس صورت حال سے نکال سکے۔
so let hope for better "
young doctors move to another patient.''
------------------------------------------------------------------------------------
خیال درخیال دائرے بنتے چلے گئے۔ اندھیروں کے اندر سیاہ اورنیلے سیا ہی ما ئل دائرے اپنا حصار بناتے گئے۔وہ اپنے اردگرد کھڑے ڈاکٹرذ کی آوازیں نہیں سن سکتی تھی۔ وہ اس وقت کہاں تھی؟یہ وہ خود نہیں جانتی تھی۔
یہاں بہت سارے لوگ سفید چادر میں لپٹے ہوئے ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کئے بیٹھے تھے۔ کوئی کسی کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ تاحدِنظر انسانوں کا سفید جنگل پھیلا ہوا تھا……. لیکن مکمل سْکوت…….سْکوت ایسا تھا کہ جیسے اس زمین پر وہ اکیلی بیٹھی ہو۔ سب ہی تو چپ تھے۔ شاید ہر کوئی اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ وہاں خوف نہ تھا۔ وہاں نہ نفرت تھی نہ محبت، نہ آگ اور نہ پانی۔ پتا ہی نہ چلتا تھا کہ کون زاہد ہے اور کون بدکار۔ وہ بہت پْرسکون تھی وہاں۔ہلچل تھی تو فقط اتنی کہ اتنے عرصے بعد اسے وہی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جنھیں وہ بہت پہلے سْننے کی عادی تھی۔ کچھ گھنٹوں سے وہ آوازیں بڑھتی چلی جارہی تھیں اور اس کا سکون گھٹتا جارہا تھا۔وہ یہ آوازیں سْننا نہیں چاہتی تھی۔ گر چہ ان آوازوں سے اسے بہت محبت تھی۔ لیکن اس کی محبتیں اْس وقت، اس سکون کی کیفیت میں اسے جھنجھوڑ رہی تھیں۔وہاں موجود ہر شخص اسی سکون کے ساتھ بیٹھا تھا۔ شاید یہ آوازیں صرف اْسے ہی سْنائی دے رہی تھیں۔ شاید وہاں بیٹھا ہر شخص صرف اپنی اپنی آوازوں کی اذیت میں تھا۔ شاید اسی لئے سب خاموش تھے۔رفتہ رفتہ آوازیں بڑھتی گئیں، بڑھتی گئیں، چیخ بنتی گئیں، گْڈمڈ ہوتی چلی گئیں۔
”میری بیٹی میری شہزادی…….“
”تمھارا باپ مرگیا…….“
یہ کیا پڑھائی کرے گی…….“
”بولو قبول ہے، قبول ہے…….بولو…….“
”تم میری زندگی ہو……“
”تم ہماری عزت ہو، ہمارا مان ہو……“
”آپ بہت قابل اور ذہین خاتون ہیں …….“
”دیکھئے گا، آپ کتنی جلدی آگے بڑھیں گی…….“
”یہ دیکھئے! آپ کی بیٹی پیدا ہوئی ہے…….“
”کتنی بیٹیاں پیدا کرے گی…….“
”کیا کروگی پڑھ لکھ کر…….“
”کچھ بھی ہو وہ تمھارا گھر ہے…….“
”تم سے کہا نا، تمھیں یہ کام نہیں کرنا…….“
”تم اس دنیا کی مخلوق ہو بھی کہ نہیں …….“
”ناکارہ عورت…….“
”بدچلن آوارہ…….“
شور بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کی قوتِ برداشت ختم ہوتی جارہی تھی۔ وہ اتنی تکلیف میں تھی کہ جیسے اس کے سارے جسم سے خون رس رہا ہو۔ لیکن گھاؤ کہیں نظر نہ آتا ہو۔
اس کی نبض اچانک تیز ہوجاتی۔ سرہانے بیٹھی نرس بار بار گھبرا کر میٹرریڈنگ نوٹ کرتی اور واپس بیٹھ جاتی۔ لیکن اسے ہوش نہ تھا کہ اس کے باہر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ اس کے اندر کی آوازیں چیخے جارہی تھیں۔ شور بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کانوں کو بند کرنا چاہا۔ وہ تکلیف کی شدت سے گھٹنوں کے بَل زمین پر گرپڑی۔ اچانک آواز آئی:
”شازمین!“
”شازمین!!“
اس نے نگاہیں اوپر اٹھائیں۔ یہ تو وہی چہرہ تھا۔ اسے چھونے کے لیے وہ آگے بڑھی، مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ چہرہ آئینے میں تبدیل ہوگیا…….ایک شفاف خوب صورت آئینہ۔اس نے اپنے آپ کو اس آئینے میں دیکھنا چاہا۔ وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں حرکت دے کر اس آئینے میں دیکھ رہی تھی۔ شاید آج پہلی بار اس نے اپنے آپ کو غور سے دیکھا۔ وہ بہت خوب صورت تھی۔ کمر تک لہراتے سیاہ گھنگریالے بال، شفاف جلد اور سبز آنکھیں۔خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے اسے جیسے یقین نہ آیا ہو۔ اپنی انگلیاں آئینے پر پھیرتی اور پھر اپنا چہرے چھوتی۔ اپنے آپ میں مگن۔ اس نے خود سے کہا۔
”شازمین یہ تم ہو…… سچ میں یہ تم ہی ہو؟ اتنے وار کھانے کے بعد تو تمھارا چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔ تم تو خود اپنے آپ کو دکھائی نہ دیتی تھیں۔“
”ہاں یہ میں ہی ہوں۔ ہاں یہ تو میرا ہی چہرہ ہے۔“ وہ اس حیرت کدے میں کھوئی ہوئی تھی کہ پھر آواز آئی۔
”شازمین!“
”شازمین!!“
اس نے بجلی کی سی تیزی سے یہاں وہاں دیکھا۔ پر وہ نہیں تھا۔ آواز تو اسی کی تھی لیکن وہ کہیں بھی تو نہ تھا۔ایک بار پھر وہ خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔ایک بار پھر وہ خود سے مخاطب تھی۔
" وہ مجھے اپنی انگلیوں کی پوروں میں جذب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ میں مکمل سکوت کی حالت میں زمین پر لیٹی آنکھیں بند کئے اسے اپنے وجود میں جذب ہوتا محسوس کرتی ہوں۔ وہ ایسا حصہ ہے میرے جسم کاجہاں دھڑکنوں کا کارخانہ رواں دواں ہے۔ میری پہلی سہمی ہوئی خواہش……..
یہ کائنات پہلی محبت کے لفظ کی چھاؤں میں وجود میں آئی۔ میرا مسئلہ تو میری آخری محبت ٹھہرا۔ مجھے نفرت ہے اپنے آپ سے کہ مجھے تم سے عشق ہے لیکن مجھے اس دبے ہوئے جذبے سے کراہیت محسوس ہوتی ہے۔ کہتے ہیں عورت ماں بنتی ہے تو اپنے اندر ایک نئے وجود کی پیدائش اسے سرشار کر دیتی ہے، سرمایہء حیات…….مکمل عورت بننے کی نوید۔ عشق بھی تو ایک وجود کو جنم دے رہا ہے میرے اندر۔ انسانوں نے جسم کو نوچا، بہ ظاہر مکمل عورت بن گئی، مگر روح…….روح کو فرشتے تک نہ چھو سکے۔ میری روح میں تمھارا عشق پل رہا ہے۔ چھو گیا ہے مجھے۔ تم مکمل انسان صحیح لیکن لمحہ لمحہ ہر گزرتے دن تم پھر سے صورت پا رہے ہو میرے اندر۔ ایک تمھاری ماں نے تمھارے جسم کو جنم دیا، ایک میں کیسی پاگل جوگن کہ تمھاری روح کو اپنے بدن میں پلتا دیکھتی ہوں۔ تم سانس لینے لگے ہو میرے اندر۔ لیکن تمھارا وجود نو ماہ کے عرصے میں مکمل ہو کر مجھ سے الگ نہیں ہوگا۔ میں کانپ جاتی ہوں یہ سوچ کر کہ نو ماہ، نو سال، نو صدیاں …….جب تک دنیا قائم ہے……. روحیں فنا نہیں ہوتیں۔ جسم مرتے ہیں اور تم تو پل رہے ہو میرے اندر۔ رفتہ رفتہ میری آنکھیں تمھاری آنکھیں ہو جائیں گی……. میرے لب تمھاری زبان بولیں گے……. میری روح کے کونے کونے پر تم قابض ہوجاؤگے۔ اے میری سہمی ہوئی خواہش! بخش دے مجھے…….یہ روگ مجھے بدروح بنا کر چھوڑے گا۔“
غم سے نڈھال ہو کر وہ گھٹنوں میں سر دیے سسکیاں لے رہی تھی کہ کہیں کوئی اس
کی آواز نہ سْن لے۔ اسے ایسے ہی گْھٹ گْھٹ کر رونے کی عادت تھی۔
اچانک اسے زیورات کی چھنکار سنائی دی۔ اس نے سر اْٹھا کر دیکھا۔ اْس کا وجود آئینے میں سے باہر آگیا تھا۔ وہ حیرت سے پلکیں جھپکاتی اپنے سامنے کھڑی دوسری شازمین کو دیکھ رہی تھی۔ لیکن یہ کیا……. وہ تو سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی مگر اس کے سامنے کھڑی شازمین نے سْرخ لباس پہنا ہوا تھا۔سرْخ لباس میں ملبوس شازمین مسکرائی اور بہت پیار سے ہاتھ آگے بڑھا کر کہنے لگی۔
”گھبراؤ مت، میں تمھاری زندگی ہوں، تمھیں اپنے ساتھ لے جانے آئی ہوں۔ آؤ میرا ہاتھ تھام لو۔“
--------------------------------------------------------------------------------
آئی سی یو میں نصب میٹر کی آواز تیز ہوتی جارہی تھی۔ شازمین نے آنکھیں کھول دی تھیں۔ نگرانی پر مامور نرس کو لگا کہ اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ لیکن نہیں، نبض تیز ہورہی تھی۔ سانس تیز ہوتی جارہی تھی۔ آنکھیں کھلیں اور بند ہوگئیں۔
نرس یک دم چلائی۔
”او مائی گاڈ، پیشنٹ کو ہوش آرہا ہے……. ڈاکٹر…….ڈاکٹر!“
ڈاکٹر بھاگتا ہوا آیا اور شازمین کے سرہانے آکھڑا ہوا۔ Call the other doctors imedediately اگلے دس منٹ اس لڑکی کی زندگی کے لیے بہت اہم ہیں۔ پیشنٹ کے ساتھ کون کون ہے؟“
”باہر اس لڑکی کا شوہر موجود ہے۔“
”بلاؤ اسے فوراً…….“
”یہاں …… آئی سی یو میں؟“
”ہاں، یہ ضروری ہے۔“
-----------------------------------------------------------------------------
سفید کپڑوں میں لپٹی شازمین لال کپڑوں میں ملبوس شازمین کو دیکھتی رہی۔لال کپڑے پہنے شازمین کے لبوں پر اب بھی مسکراہٹ تھی۔
”آؤ میرا ہاتھ تھام لو، میں تمھیں دنیا کی ہر خوشی دوں گی۔ تم جس راستے کو اختیار کرنا چاہو یہ تم پر ہے۔ اپنے حصے کی خوشیاں لے لو اس دنیا سے۔ تم کرسکتی ہو۔ چلو میرے ساتھ۔ میں تمھیں لینے آئی ہوں۔“
”نہیں میں تمھارے ساتھ نہیں جاؤں گی۔ تمھارے سْرخ لباس سے مجھے خون کی بو آتی ہے۔ تم دھوکا ہو، فریب ہو۔ خوشیوں کی نوید دے کر تم مجھے زندگی کی دوزخ میں جھونک دو گی۔ مجھے بھروسا نہیں تم پر۔“
لال کپڑوں میں ملبوس شازمین نے محبت سے ایک قدم آگے بڑھایا۔
”چلو، دیکھو زندگی تمھیں پکار رہی ہے۔ تمھارے بچے تمھیں پکار رہے ہیں۔ اور وہ جو تمھارا ہم سفر تھا……. دیکھو……. سنو اس کی آواز……. وہ تمھیں پکار رہا ہے۔
”میرا وقت ہوگیا مجھے جانا ہے۔ مجھے چند روز کی خوشیاں نہیں چاہئیں۔ اپنے حصے کی مسرتیں میں دنیا سے چھیننا چاہتی تو بہت پہلے چھین لیتی، لیکن مجھے چھیننا نہیں آتا ہے۔ میں جانتی ہوں، میرے لئے راستہ بنانا مشکل نہیں۔ اپنی خوشیوں کو پانا ناممکن نہیں ……. لیکن ……“
لال کپڑوں والی شازمین اب بھی ہاتھ آگے کئے کھڑی تھی۔
سفید کپڑے میں لپٹی شازمین کو اب باہر کی دنیا کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ یہ اس کے ہم سفر کی آواز تھی۔
-----------------------------------------------------------------------------------
”شازمین آنکھیں کھولو، خدا کے لئے آنکھیں کھولو۔ میں تم سے اپنے ہر سلوک پر معافی مانگتا ہوں۔ آنکھیں کھولو شازمین…….ڈاکٹر کچھ کیجیے۔“
”ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اس وقت اس کی اپنی وِل پاور پر ہے کہ یہ خود کو کومے سے باہر لا سکے۔ آپ بات کیجیے اس سے، یہ آپ کو سْن سکتی ہے۔“
”شازمین واپس آجاؤ۔ اٹھو شازمین۔“
”شازمین نے ایک دفعہ آنکھیں کھولیں۔ اسے اپنے ہم سفر کا چہرہ نظر آیا اور اس نے پھر آنکھیں بند کرلیں۔
سفید کپڑوں میں لپٹی شازمین نے قدم پیچھے ہٹانے شروع کردئے۔ وہ لال لباس پہنے شازمین سے دور ہوتی جارہی تھی…….دور اور دور۔ اچانک سرخ کپڑوں میں ملبوس شازمین غائب ہوگئی۔
باہر کی دنیا کی آوازیں آنا بند ہوگئی تھیں۔ ا
آئی سی یو میں مکمل خاموشی چھاگئی تھی۔ ای سی جی مونیٹرنگ مشین کی بیپ بند ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر کی آواز نے سکوت توڑ دیا۔
I am sorry she is no more.