اِبتدا اُسی کہانی کی .......
مہتاب عالم پرویزؔ
کویت
E - Mail عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
٭ وہ رات، بڑی عجیب تھی۔
اندھیرے میں ڈوبی ہوئی، ہوا کی سرسراہٹوں کا مسلسل احساس، اور ایک عجیب بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبا تیز تیز چلتا ہوامیں --- تھم جاتا چل پڑتا، کبھی آہستہ، کبھی تیز کہ دفعتاجیسے ہواؤں کے دوش پہ رقصاں میرا جسم تھم گیا--- بالکل اس طرح جیسے ہوا ُپرسکوت ہوگئی ہو--- ایک عورت میرے سامنے کھڑی تھی۔
مَیں فورا گھبراکر پیچھے ہٹ گیا۔
”کون ہو تم، اور یہاں اتنی رات گئے، کیا چاہتی ہو۔“
”کچھ نہیں میرے ساتھ آؤ۔“
مَیں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا، چلتے چلتے یکایک محسوس ہوا کہ آبادی سے دُور نکل آیا ہوں اور ایک گلیارہ مجھے اس مقام تک لے آیا، یہ مقام کیا ہے، اجاڑ اور ویران...
خوف کا پرندہ میری رگوں میں پرداز کرنے لگا۔
وہ چل رہی تھی۔ مَیں بھی چلتا رہا... اب اس کے قدم ایک مکان کی جانب اُٹھ رہے تھے۔ مکان کیا تھا دُنیا اور دنیا والوں سے بچاؤ کی ایک سبیل تھی۔صرف ایک کمرے سے روشنی جھانک رہی تھی۔ اُس نے دروازے پر دستک دی تو اندر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ دھیرے سے دروازہ کھلا اور روشنی کی چادر پھیل گئی۔
تجس لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔
وہ ہاتھ پکڑکر مجھے اپنے مکان کے عقب میں لے گئی۔ اور پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے میرا شانہ تھام لیا۔
”مجھے جانے دو!“ الفاظ اچانک میری زبان سے پھسل گئے۔
یہ سن کر اس نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ”نئے نئے معلوم ہوتے ہو۔“
”آخر... آخر تم مجھے یہاں کیوں لے آئی ہو؟“
”یہ شہر کی بدنام گلیاں ہیں، ریڈ لائٹ ایریا، ابھی تک بالکل بھولے نظر آتے ہو!“
اچانک میری آنکھیں حیرت و استعجاب سے پھیل گئیں۔
اس کا برہنہ شباب سنگِ مرمر سے ترشے ہوئے تاج محل کی طرح میری آنکھوں میں سمٹ آیا۔ مَیں نے آنکھیں موند لیں۔ اور کہا ”اپنے جسم کو کپڑوں میں ہی لپٹے رہنے دو نہیں تو شرم کے آبگینے کو چوٹ لگے گی۔ خوبصورتی کے ساتھ حیا نہ ہو تو حسن کی قیمت ہی کیا۔؟“
”تم جانتے ہو---“ اُس نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”آشا پورنا منقسم عورت ہے اور اس کے ہرایک حصّے کی اپنی مخصوص قیمت ہے۔ اب اُس کی حیا، اُس کے حسن اور خوبصورتی کی قیمت ہی کیا۔ مَیں اپنے منقسم وجود کو بیچتی ہوں۔ اور اس وقت مَیں تم سے بکنے کے لیے تیار ہوں۔“
اُس کے لہجے میں عجیب سی تلخی اُبھرآئی تھی۔
”کیا مل جاتا ہے تمھیں روز؟ اور تم خود کو بیچتی ہی کیوں ہو۔؟“
میرے ان سوالات نے اُس کے پھول سے چہرے پہ رنگوں کی تبدیلی کا ایک مسلسل عمل شروع کردیا۔ لب کھل کر کانپنے لگے، جیسے ہوا کا جھونکا پتیوں کو لرزنے پر مجبور کررہا ہو، آنکھیں ڈبڈباگئیں شاید ذہن میں لپٹی ہوئی کفن پوش یادیں تازہ ہوگئی تھیں۔
مَیں نے اُس کے وجود پر پڑے ہوئے پردے کو سرکانے کی کوشش کی تو کتاب زیست کے نہ جانے کتنے ہی اوراق وہ یکے بعد دیگرے سناتی چلی گئی۔
”ایسی ہی ایک رات---
اندھیری اور بیکراں، ایک لاش کی طرح، سرد اور خاموش، ایسی ہی ایک رات جب میری ماں کی چوڑیاں ٹوٹی تھیں۔ ایک کونے میں گم سُم بیٹھی آنگن میں سفید چادر سے لپٹی بابوجی کی لاش کو تک رہی تھی۔ رشتہ داروں نے بابوجی کی ارتھی کو کاندھا دینے کے بعد پلٹ کر بھی نہ دیکھا تھا۔ ان مصیبت کے دِنوں میں ایسا لگا جیسے بابوجی کے ساتھ وہ سارے رشتے بھی ٹوٹ گئے۔ اُن کی موت کے بعد گھر کی چیزیں بکنے لگیں۔ ماں محنت مزدوری کرکے اپنا اور میرا پیٹ پالتی رہی۔ بابوجی کے مرنے کے بعد ماں کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ ماں، بابوجی کے غم میں کانٹا ہوئی جارہی تھیں۔ چہرہ خزاں کے پتوّں کی طرح زرد اور خشک ہوچکا تھا۔ اکثر جب بھی وہ مجھے دیکھا کرتیں تو ان پہ اُداسی اور بھی زیادہ مسلط ہوجاتی۔ دن بدن ان کی صحت گرتی گئی، اور وہ بھی اس کیفیت میں مدتوں مبتلا رہ کر اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
میرا مستقبل اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔ مَیں اندر سے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہی تھی۔ اور جب بھی خود کو جوڑنے کی کوشش کرتی کہیں نہ کہیں سے کوئی خوف سر اُبھارنے لگتا۔
مَیں نئی نئی جوان ہوئی تھی۔ یہ عمر کی وہ نازک منزل تھی جہاں تھوڑی سی لغزش بھی مجھے بدنامی کے کھنڈروں میں دھکیل سکتی تھی۔ اس لیے سہج سہج قدم رکھتی مَیں جوان ہوتی رہی۔ یکایک محسوس ہوا، جیسے زندگی کے پھیلاؤ، باہر کے جھمیلوں، اور اس شور و شرمیں نمایاں کچھ آنکھیں آواز دینے لگی ہیں۔ مَیں ان سب باتوں سے بے نیاز جوان ہوتی رہی۔ اور اس قابل ہوگئی کہ کسی پرائیویٹ فرم کے ٹائپ رائٹر پر انگلیوں کے رقص دکھاکر زندگی کی طویل راہوں کو تھکے تھکے قدموں سے ہی سہی، طے کرسکوں۔
مَیں کافی خوش تھی۔ اِنٹرویو دینے کے بعد سوچ رہی تھی کہ یہ نوکری مل گئی تو زندگی کے پھیلاؤ کی ساری اُلجھنیں سلجھ جائیں گی۔
لیکن؟
ایسا نہیں ہوا۔ناآسودہ خواب میری جواں آنکھوں میں کروٹیں لینے لگا۔ وہ خواب اور بھی جواں ہوتا رہا۔
مجھے نوکری نہ مل سکی۔ اور ملتی بھی کیسے؟ مَیں یتیم اور بے سہارا جو تھی۔ نہ کوئی سہارا تھا، نہ کوئی گوشہئ عافیت اور نوکری کی تلاش کا مسئلہ جوں کا تُوں تھا۔ اگر کوئی مدد کے لیے آگے بڑھتا تو معاوضہ چاہتا تھا۔ میرے جسم کا معاوضہ!
اور وہ ایک رات---
مجھے صرف اتنا یاد ہے۔ کوئی سایہ میرے وجود سے لپٹا تھا اور میں کسی بچے کی طرح سُبک رہی تھی۔ اُس رات مجھے بڑا عجیب سا لگا تھا۔ جیسے میرے وجود سے زندگی نچوڑلی گئی ہو۔ جب مَیں نے اپنے وجود کو ٹٹولا تو بے اختیار خیال آیا کہ کاش میں مرجاتی، لیکن مجھ میں چھپی روندی، کچلی، بھوکی فاقہ زدہ اور کمزور عورت نے ایسا کرنے سے روک دیا---
اور پھر---
اپنے جسم سے لپٹے ہوئے جسموں کی حرارت مجھے دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح جھلساتی رہی، اور مجھے اپنے جُرم کا احساس رُلاتا رہا...
اور میری جوان آنکھوں میں کروٹیں لیتا ہوا وہ ناآسودہ خواب؟ جسے وقت نے خلاؤں میں بکھیر دیا تھا۔ پھر وہ خواب میری آنکھیں کبھی نہ دیکھ سکیں، کاش وہ خواب میری آنکھوں میں جنم نہ لیتا۔
میری ماں کی تمنا تھی کہ میں آرام دِہ اور خوش گوار زندگی گزاروں، لیکن وقت کا بہاؤ مجھے یہاں تک لے آیا تھا، مَیں جب بھی ان بدنام گلیوں اور گھناؤ نے ماحول کے پھیلاؤ اور دائرے سے بھاگنے کی کوشش کرتی، میرے اندر سے کوئی پکارتا۔
کہاں۔؟
باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ میرے قدم واپس لوٹ جاتے اور مَیں، بے بس تنکے کی طرح وقت کے دھارے کے ساتھ بہتی رہی........
مَیں نے ماں کی تمنا کو ہلکتے اور مچلتے ہوئے دیکھا۔ اور میری جوان آنکھوں میں کروٹیں لیتا ہوا وہ ناآسودہ خواب۔؟
تم خود ہی سوچو کیا کوئی شخص جانتے ہوئے بھی اس گھناؤنے وجود کو اپنائے گا۔؟ یہ سماج میرے اس گھناؤنے وجود سے کھیلتا رہا ہے، لیکن جب بھی اپنی زندگی میں شامل کرنے کا وقت آیا تو میری زندگی سے کٹ کر علیحدہ ہوگیا۔
مَیں ایک بٹی ہوئی عورت جو ٹھہری۔
اب میرا وجود ایک خشک درخت ہے، اور میرے ارمان جن میں مایوسیوں کی آڑے ترچھے شگاف پڑچکے ہیں، جو ایک پھٹی ہوئی دیوار کی طرح شکستہ ہیں۔
میری کہانی سن کر تمھیں مجھ سے نفرت تو ضرور ہوئی ہوگی۔“اتنا کہہ کر اُس کی آواز رندھ گئی اور آنسو ڈھلک ڈھلک کر اُس کے رُخساروں پر پھیلنے لگے۔
سفید کپڑے میں لپٹی ہوئی آشا پورنا اس وقت ایک ایسی حُور لگ رہی تھی۔ جو راہ بھٹک کر اس دنیا میں چلی آئی ہو۔ لمبے لمبے سیاہ گیسوؤں کے درمیان اُس کا گورا گلابی چہرہ بڑا حسین لگ رہا تھا۔ اور شانوں پہ بکھری گھٹاؤں جیسی زلفوں کے بیچ گم ہوتی ہوئی مانگ کسی سنسان پگڈنڈی کی طرح ُپراسرار لگ رہی تھی۔
”اب تم اِدھر نہیں میرے ساتھ رہوگی آشاپورنا، اگر تمھیں اعتراض نہ ہوتو، کیوں نہ ہم دونوں ایک نیا جیون، ایک نیا گھربسالیں۔“
آشا پورنا کی آنکھیں برس پڑیں اور وہ میرے شانے سے لگ کر بلک بلک کر رونے لگی۔ جیسے وہ کوئی لمبا سفر طے کرکے تھک کر منزل کے قریب آگئی ہو۔
صبح کا سویرا رات کی سیاہی کو آہستہ آہستہ دور کررہا تھا، جس میں آشا پور ناکی سسکیاں معدوم ہوتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔
اُفق پر درختوں کی اوٹ میں سورج نے آنکھیں کھول دیں۔
آشا پورنا اس وقت تیز بارش کے بعد اچانک نکل آنے والی ساون کی دُھوپ جیسی نکھری ہوئی تھی۔ جیسے اُبھرتے ہوئے سورج کی ساری تمازت اُس کے چہرے نے جذب کرلی ہو۔ اور لبوں پر موسمِ بہار میں کھلے شاداب پھولوں سا تبسم تھا۔
اس گھناؤنی دُنیا سے دُور آشا پورنا میرے ہمراہ ایک سنہری مستقبل کی جانب گامزن ہوچکی تھی۔
اور پھر ایک اور رات---
جگمگاتے عروسی جوڑے میں ملبوس، زیورات سے سجی سنوری، خوشبوؤں میں بسی ہوئی، آشا پورنا میرے پہلو میں سمٹ آئی تھی۔
میری بانہوں کا حصار مضبوط ہوگیا--- جیسے اُسے ساری کائنات، سارے سماج سے بچاکر خود میں جذب کرلینا چاہ رہا تھا۔
مَیں نے اس کی پلکوں پر نمی اور آنکھوں کو سسکتے ہوئے دیکھا اور سمٹے ہوئے درد کا لہو اس کی خوبصورت آنکھوں سے ٹپک کر اس کے رخساروں پر پھیل گیا۔ جس میں ماضی کی چند تصویریں دھندلارہی تھیں اور درد کے سائے کانپ رہے تھے۔
”ارے! تم رونے کیوں لگیں۔؟ یہ رات ہر لڑکی کی زندگی کا خوبصورت سپنا ہوا کرتی ہے۔ اور تم اس رات کا استقبال ان آنسوؤں سے کررہی ہو، زندگی کے سفر میں بعض مقامات تلخ، تکلیف دِہ اور دیر پا تو ہوتے ہی ہیں آشا پورنا!اور تم بیتی ہوئی زندگی کی باتوں کو یاد کررہی ہو۔؟“
پھر اُس نے اپنے آنچل سے ان آنسوؤں کو پونچھ ڈالا۔ جیسے وہ سارے درد بھلا بیٹھی ہو۔
وقت اپنی رفتار میں یکساں تھا--- سفر--- سفر--- ہنوز--- سفر! اور سفر کا ایک موڑ یہ تھا کہ گاؤں کے آسودہ ماحول میں ایک رات ایک معصوم کلکاری گونجی اور آشا پورنا ایک پھول سی بچّی کی ماں بن گئی۔
سماج کے بندھنوں سے دُور رِشتوں کے ماحول میں پیدا ہونے والی ساوتری جب پل کر جوان ہوئی تو شباب کی خوشبو، بجلی کی طرح ہر سمت بکھر گئی۔ یہ خوشبو ہواؤں میں پرواز کرتی ہوئی پہاڑوں سے اُتری اور وادیوں میں پھیل گئی۔اور وہاں سے اُبھری تو بادلوں کی آغوش میں گم ہوگئی۔ اور جب بارش ہوئی تو زمین میں بوئے گئے بیج کو زندگی مل گئی، اور ہر سودھنک رنگ بکھر گئے۔
شہروں کی بلندو بالا عمارتوں میں رہنے والے انسان نما بھیڑیوں کے نتھنوں سے جب یہ خوشبو ٹکرائی اور آنکھوں نے ان نیرنگیوں کو محسوس کیا تو وہ چونک پڑے کہ آخر اتنے دنوں تک ان کے احساس کس طرح دل کی قبروں میں سوئے رہے۔؟
پھر ایسا ہوا کہ---
فضاؤں میں زہر گھل گیا۔
عجیب منظر تھا---
زندگی کے ٹھہرے ہوئے تالاب میں آنکھوں کے جامد بلبلے پھوٹنے لگے اور دُور تک دائرے بنتے چلے گئے۔ تالاب میں دفعتاہل چل مچ گئی۔
چار سُو آنکھیں ہی آنکھیں تھیں، بے شمار کہ ان سے دامن بچانا ممکن نہ تھا۔دو چہروں کی شناخت ایک عجیب مسئلہ پیدا کررہی تھی کہ یہ بھی ناممکن سی بات ہوکر رہ گئی تھی۔
قانون کی زنجیروں سے آزاد خون آلود انسانی ہاتھ، فضاؤں میں جشن منارہے تھے اور مٹھیوں میں دَبے نوٹوں کی پھڑپھڑاہٹ جاگ رہی تھی، پوری فضا خونی چھینٹوں سے داغ دار ہوگئی تھی، سارا ماحول دھواں دھواں تھا۔ آسمان سُرخ ہوچکا تھا۔
مَیں نے آنکھیں موند کر ایک لمبی سانس کھینچی، اور سماج کی ستم ظریفیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
کبھی آشا پورنا نے میرے ساتھ زندگی گزارنے اور سماج کا ایک حصّہ بننے کے جو خواب دیکھے تھے۔ آج اُن کی تعبیریں دُھندلاگئی تھیں۔ اور اس کا وجود اب بھی ناآسودہ تھا۔ اور جسے وقت کے لمحوں نے تاریخ کے ایسے مقام پہ لاکھڑا کیا تھا جہاں سے واپسی کبھی نہیں ہوتی۔
آشا پورنا زندگی کے اُس چوراہے پر آج پھر لوٹ آئی ہے۔ اپنے ساتھ بے شمار سوالوں کا بوجھ اُٹھائے۔
ساوتری کا کیا ہوگا کہ اب وہ جوان ہوچکی ہے۔؟
ہوتا کیا، وہی ہوا کہ آشا پورنا کی کہانی جہاں سے شروع ہوئی تھی پھر اُسی موڑ پر پہنچ گئی--- اُسی موڑ پر کہ اب یہاں سے ایک اور نئی کہانی کی ابتدا ہورہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭
مہتاب عالم پرویزؔ
مکان نمبر ۱۱ ، کروس روڈ نمبر ۶۔ بی
آزاد نگر ، مانگو ، جمشید پور ۔ 832110
جھارکھنڈ ، انڈیا
E - Mail عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.