الجمعة, 10 تشرين1/أكتوير 2014 19:26

مسیحا : ناصر علی وارثی

Rate this item
(0 votes)

                   مسیحا                     

                   ناصر علی وارثی

 

                   ایک ماہ سے بھی کم وقت میں , میں ڈاکٹر بن کر گاؤں سے شہر آگیا تھا۔۔۔۔۔

یہ ایک دلچسپ بات ہے جو نہ تو پہلے کبھی دیکھی، سوچی اور سنُی ہو گی۔لوگ ڈاکٹر بن کر شہر سے گاؤں جاتے ہیں لیکن میں گاؤں سے ڈاکٹر بن کر شہر آیا تھا۔شہر کے ڈاکٹروں کے قصے تو پہلے سن رکھے تھے مگر دیکھنا پہلی بار نصیب ہو رہا تھا۔بہر حال ڈاکٹر، ڈاکٹر ہی ہوتا ہے گاؤں کا ہو یا شہر کا۔

                میں نویں جماعت میں پڑھتا تھاایک رات میری آوارگی کو دیکھتے ہوئے گھر والوں کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا کہ کل شام سے تم گاؤں کے ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس ڈاکٹری سیکھنے جایا کرو گے۔میں دل ہی دل میں خوش تو ہوا کہ اب ہم بھی ڈاکٹر بن جائیں گے۔لوگ ہماری عزت کریں گے، اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پہ نادم بھی تھا کہ میں اور ڈاکٹر۔۔۔۔۔اوہ!!  وہ انگریزی کیسے پڑھنی ہے۔؟ گولیوں کے نام کیسے یاد کرنے ہیں۔؟ ٹیکا کیسے لگاناہے۔؟  خون کا بہاؤ کیسے دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

                لیجئے۔۔۔۔                 صاحب ہم پہلے دن ڈاکٹر بننے کے شوق میں اپنے ڈاکٹر صاحب کی دکان پر پہنچے۔دکان کیا تھی بس اپنے گھر کی بیٹھک میں ایک الماری تھی اور ایک کرسی،میزپر دل کی دھڑکن دیکھنے والا پائپ رکھا ہوا تھا۔ساتھ میں ایک دو پنسل اور کاغذ بھی پڑے تھے۔وہ شاید اس لیے تھے کہ ڈاکٹر صاحب مریض کو نسخہ لکھ کر دیتے تھے۔

                دکان کے باہر ایک پرانا نیم کا درخت تھا وہیں دو کرسیا ں باہر نکال کر مریضوں کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے۔اُس دن گاؤں میں لوگ کم بیمار ہوئے یا پھر اُس دکان میں ہی کم آئے۔۔۔یاد نہیں۔ ہاں یہ

ضرور یادہے کہ ہم دکان کے باہر بڑے فخریہ انداز میں ڈاکٹر بن کر بیٹھتے تھے اور یہ فخریہ انداز اُس وقت اور بھی بڑھ جاتا تھا جب بڑے ڈاکٹر صاحب وہاں موجود نہ ہوتے تھے۔مگر ساتھ والے گھروں کے سامنے بندھی بکریاں اور بھینسیں اس بات کا ثبوت دے رہی تھیں کہ شاید بڑے ڈاکٹر صاحب تھوڑا بہت ان کی ڈاکٹری کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔خیر یہ تو مریض کے آنے پر ہی منحصر تھاکہ کس طرح کا مریض آتا ہے۔یہاں سب چلتا ہے۔

                گاؤں کے ڈاکٹر عموما سرجن ہی ہوتے ہیں اور وہ بہت محنتی اور اعلیٰ ذہن کے مالک ہوتے ہیں کیوں کے چائے کی دکانیں،ہوٹل،سا  ئیکلوں کے کاریگر، ڈاکٹری اور حکمت وغیرہ وغیرہ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر عوام کی خدمت کیلئے دستیاب ہیں۔یاد رہے کہ یہ سرجن شہروں کے سرجنوں کی طرح نہیں ہوتے جن کو کہا جائے کہ میرا بایاں گردہ خراب ہے نکال دو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ صاحب نے دائیں طرف کا نکال دیا ہے۔

                ہمیں ڈاکٹری سیکھتے ہوئے آج تیسرا دن تھا۔دکان پر پہنچتے ہی پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کسی گھر میں مریض دیکھنے گئے ہیں۔ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر صاحب کے آنے سے پہلے تک مریضوں کو دوا دے دی جائے۔لیکن پھر سوچا کہ کہیں ان کا آپریشن وغیرہ ہی نہ کرنا ہو۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ڈٖاکٹر صاحب واپس تشریف لائے اور خاموشی سے اپنی الماری میں ایک نسخہ تیار کرنے لگے۔دو منٹ بعد ہی ہمارے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے جب ڈاکٹر صاحب نے ہمارے ہاتھ میں ایک عدد ٹیکا تھماتے ہوئے حکم دیا کہ فلاں گھر میں اس لڑکے کے ساتھ جاؤ اور مریض کے ٹیکا لگا آؤ۔آج ہم پہلا ٹیکا لگانے جا رہے تھے۔میرے ڈر اور حیرانی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے مجھے چار آنکھیں دکھائیں اور پیار بھرے لہجے میں آہستہ سے قریب ہوکر فرمایا  ”کوئی بات نہیں بس آرام سے لگا دینا اس پہ کون سے منتر پڑھنے ہیں“۔

                دوسروں مریضوں کے سامنے ہم اپنا وقار نہ کھونے کے ڈر سے جلد ہی مان گئے اور یوں ہم نے مریض کے گھر کی راہ لی۔

                دل کی کیفیت۔۔۔۔دھک دھک۔۔۔بازو۔۔۔قدموں کے ساتھ ساتھ اور چوڑے ہوتے جارہے ہیں۔گاؤں کی وہ گلیاں جہاں لوگ مرے اُلٹے نام لیتے نہ تھکتے تھے آج اُس گلی میں کوئی نظر نہیں آرہا۔ ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی نظر آئے اور ڈاکٹر صاحب ہاتھ میں پکڑا ٹیکا اس کو دکھائیں مگر بے سود۔ ایک تو مریض صاحب بھی نا۔۔۔۔ کتنا نزدیک گھر ہے ان کا۔۔۔ اتنے میں ہم مریض کے دروازے پر تھے۔

                اندر سے ایک عورت کی آواز۔۔۔۔۔وے مر جانیاں!! ڈاک ٹر شاب نوں اندر لیہ آ۔۔

                 ایک طرف گھر کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی جہاں درختوں کی چند شاخوں کی مدد سے پردہ کرنے کی بیکار کوشش نظر آ رہی تھی۔ دیکھ کر حیرت ہوئی یہ تو ہمارے گاؤں کا بوڑھا کوچوان تھا جس کے پاس ایک ہی ٹوٹا پھوٹا تانگا تھا جو کہ اس کی روزی روٹی کا باعث تھا مگر دوسری طرف خوشی یہ تھی کہ اگر ٹیکا غلط لگ گیا تو خیر ہے۔یہ بوڑھا ہی ہے جس کے مرنے پر گھر والے مجھے زیادہ نہ کوسیں گے۔ دل کو اس بات پر بھی تسلی تھی کہ یہ اَن پڑھ اور غریب ہی ہیں اگر بوڑھا مر گیا تو میرے خلاف قانونی کاروائی نہیں کرسکیں گے۔

                ڈاکٹر صاحب خود کیوں نہیں آئے۔؟

                 بوڑھے کے استفسار پر ہم نے بتایا کہ دکان پر مریضوں کا کافی رش تھا۔ الحمد اللہ میں بھی ڈاکٹر ہوں۔میں آپ کے ٹیکا لگا دوں گا۔

                نہ چاہتے ہوئے بوڑھے نے پوچھا کہ بازو پہ لگانا ہے یا پھر اُلٹا لیٹ جاؤں۔؟۔۔چلو بازو پر ہی لگا دو۔ میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر اُلٹا لیٹنے کو کہا مگر بوڑھا بازو پر ہی ٹیکا لگانے کے لئے ڈٹا رہا۔ جلد ہی عورت کی مداخلت سے بوڑھا اُلٹا لیٹ گیا۔

                 بوڑھے سے زیادہ شاید میں گھبرایا ہوا تھا۔۔۔مگر میں تو ڈاکٹر ہوں۔۔۔

                  ”چاچا جی اگر آپ کو درد ہو تو بتا دینا۔“

                 اور یوں کانپتے ہاتھوں سے آرام آرام سے ٹیکا لگا دیا۔ ایک ٹیکا لگاتے ہوئے تین سے چار بار پوچھا کہ آپ کو درد تو نہیں ہو رہا ہے۔؟ ڈر تو اپنا تھا اور فکر اس کے درد کی۔۔۔۔۔

                لو جی ٹیکا لگ گیا۔

                 ”مجھے ذرابھی درد نہیں ہوا۔تم نے تو ڈاکٹر صاحب سے بھی اچھاٹیکا لگایا ہے۔ اللہ تجھے بڑا ڈاکٹر بنائے۔“ 

                ساتھ میں اس قسم کی دعائیں خاتون کی طرف سے بھی ملیں۔

                ”پُتر بیٹھ جا۔چا پی کے جانا۔“

                 گھر کے صحن میں چھوٹے سے چولہے میں آگ جلاتی ہوئی خاتون کی آواز آئی۔چائے پینے کو دل تو کر رہا تھا مگر ایک اور بھی ڈر تھا کہ پتہ نہیں ٹیکا ٹھیک بھی لگا ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔کیونکہ بوڑھے کو درد نہیں ہوا۔ اس سے پہلے کہ بوڑھے کو کچھ ہو مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔

 

                 ”وہ۔۔۔آ۔۔۔۔خالہ دکان میں مریض بہت ہیں اس لیے مجھے جلدی جانا ہے۔

                میں جلدی سے اُن کے گھر سے نکلا اور ڈاکٹر صاحب کو ٹیکا لگنے کی خوشخبری سنائی۔پھر کیا تھا اگلے پانچ روز تک موت سے متعلق مسجد سے ہونے والے اعلانات بڑے غور سے سنتا رہا۔

                پتہ نہیں میری قسمت اچھی تھی یا پھر کوئی نیکی کام آ گئی تھی کہ ان دنوں موت کے فرشتے کا گاؤں میں آنا نہ ہوا۔ یا تو کسی دوسرے گاؤں کے دن تھے یا پھر۔۔۔۔اپنے ذہن کے مطابق سوچ لیں۔یہ بھی شہادتیں موصول ہوئیں کہ مولوی صاحب بھی ان دنوں مصروف تھے۔بہر حال واللہ عالم ہم تو ڈاکٹر بن گے تھے۔کوئی مرے یا بچے اس سے غرض نہیں۔

                کوئی کتنا ہی سنگدل کیوں نہ ہو انسانیت کا جذبہ ہرکسی کے دل میں ضرور ہوتا ہے۔ہماری یہ سنگدلی اس دن ہم پر عیاں ہوئی جب ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بتایاکہ ”کسی بھی انسان کے ڈاکٹر بننے کے لیے سب سے پہلی اصلاح۔۔۔۔۔ اس کے اندر انسانیت کی رحم دلی کو ختم کرنا ہوتا ہے۔“  ڈاکٹر صاحب کی یہ بات سنتے ہی میں تھوڑا گھبرایا۔

                 ”مگر ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔ ڈاکٹر تو مسیحا ہوتا ہے۔؟“۔

                  ”ہاں ہاں وہ مسیحا تب ہی بنے گا جب کسی کے پیٹ کو چیر سکتا ہو۔کسی کی ٹوٹی ٹانگ کو ہاتھ میں پکڑ سکتا ہو۔ جب اس کے پاس اتنا حوصلہ ہو گا  تب ہی وہ مسیحائی کر سکے گا۔ورنہ حادثے کا نشانہ بننے والے لوگوں کی حالت دیکھ کر مریض کو چھوڑ کر ڈاکٹر صاحب کو دودھ یا جوس وغیرہ پلانا پڑ جائے“۔

                ڈاکٹر صاحب کی یہ باتیں میرے دل کو بھلی لگیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ڈاکٹر تو ہر کوئی بن سکتا ہے مگر مسیحا بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔تمھارا ڈاکٹر بننا اتنا ضروری نہیں جتنا کہ مسیحا۔“

                یہ وہ بات تھی جو شاید ایک پڑھا لکھا ڈاکٹر بھی نہ کر سکتا ہو کیونکہ وہ تو ڈاکٹر ہے اگرچہ مسیحا نہیں۔مگر گاؤں کا ڈاکٹر جیسا بھی ہو مسیحا ضرور ہوتا ہے۔ایک دن ایک مریض آیا جس کے پیٹ کا آپریشن ہوا تھا۔اور اس کے ٹانکے خراب ہو چکے تھے۔ کچھ دن تو ڈاکٹر صاحب نے اس سے طبع آزمائی کی مگر بے سود۔آخر ڈاکٹر صاحب نے اسے کہا۔۔۔۔۔

                  ”کل تم شہر میں بڑے ہسپتال میں آنا۔ میں نے اُدھر اپنے بڑے ڈاکٹر سے بات کی ہے۔تم کو اُن سے ملواؤں گا اور اُن سے مشورہ لیں گے۔

                مریض نے آنے کی حامی بھر لی۔ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر صاحب نے مجھے پابند کیا کہ آپ بھی ان کے ساتھ آؤ گے۔میں دل ہی دل میں خوش ہوا کہ اب مجھے بھی شہر کے ڈاکٹر سے ملنے کا موقع ملے گا اور اب ان سے بھی ڈاکٹری سیکھوں گا۔

                رات کو میں گھر آیا اورا پنی تیاری شروع کر دی۔گھر والوں نے بھی اجازت دے دی۔ کہاں میں اور کہاں شہر کے بڑے ڈاکٹر۔کل ان سے ملنا ہے۔میں پھولے نا سما رہا تھا۔گاؤں میں سب کو بتاؤں گاکہ میں شہر سے ڈاکٹری سیکھ کر آیا ہوں۔یہ خیالات دل میں لے کربستر پہ لیٹ گیا کہ اچانک یاد آیا اپنے کپڑے تو استری کیے ہی نہیں۔جلدی سے اُٹھا اور ٹرنک میں سے سب سے نیا سوٹ نکالا۔اس کو اچھی طرح تہہ لگا کر اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیا تا کہ یہ اچھی طرح سیدھا ہو جائے۔ادھر خوابِ خرگوش میں جانے کے لیے بستر پہ لیٹتا ادھر اپنی تیاری یاد آ جاتی اور پھر اُٹھ کر کچھ نہ کچھ کرنے لگ جاتا۔

                صبح صبح باہر کھیت میں نالے پر جا کر مُنہ دھویا۔کیکر کے درخت کی ٹہنی توڑ کر مسواک کی۔پھر گھر آ کر اپنا نیا سوٹ سرہانے کے نیچے سے نکالا۔اس کی تہہ کھولی تو ایسے لگ رہا تھا جیسے دھوبی سے دھلوا کر سیدھا کروایا ہو۔بہر حال اس کی تہہ کے نشانات ضرور تھے۔آٹھ بجے وہ مریض میرے گھر آگیا۔

                ”آج کیسا دن ہے کہ مریض میرے گھر آ رہے ہیں“۔ دل ہی دل میں خوش ہوا اور اُسے باہر ہی انتظار کرنے کو کہا۔دس روپے کا گلا سڑا نوٹ دس ہزار سمجھ کر اپنی نیچے کی جیب میں ڈالا۔تین چار خالی کاغذ اس نیت سے اپنی جیب میں ڈال لیے کہ شاید کوئی نسخہ لکھنا پڑجائے۔جیب کو بھرنے اور خو د کو ڈاکٹر ظاہر کرنے کے لیے تین چار اسٹیکر بھی جیب میں ڈال لیے جو کہ سیرپ والی شیشی کے اوپر لگے ہوتے ہیں وہ ایک دن پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کی دکان سے لے آیا تھا۔

                ہم آٹھ بجے ٹانگے پر بیٹھ کر شہر کے بڑے ہسپتال پہنچے۔کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد ہمارے گاؤں کے ڈاکٹر صاحب مل گئے۔

                میں سوچ رہا تھا کہ یہ بھی ادھر بڑے ڈاکٹر ہی ہوں گے۔ان کا اپنا علیحدہ سے کمرہ ہو گا۔ہم وہاں جائیں گے تو ہماری خاطر مدارت ہو گی۔مگر سب کچھ میری سوچ کے بر عکس نکلا۔وہ تو ایک بڑے ڈاکٹر صاحب کے دروازے پر کھڑے ہونے والے چوکیدار تھے۔انہوں نے ہمیں ملا کر ایک طرف کھڑا ہونے کو کہا اور خود اندر اپنے ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔ان کے کمرے کے سامنے ایک بڑا سا گھاس کا پلاٹ تھا جس میں رنگا رنگ پھولوں کے پودے لگے ہوئے تھے۔سامنے برآمدے میں کافی تعداد میں مریضوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں رکھی گئی تھیں۔مریض زیادہ ہونے کے سبب لوگ گھاس کے پلاٹ میں بیٹھے تھے۔ہم بھی ان کے ساتھ جا بیٹھے۔

                مریضوں کا نہ ختم ہونے والا تانتا بندھا ہوا تھا مگر وہ بڑے ڈاکٹر صاحب مزے سے اپنی کُرسی پر بیٹھے تھے۔جیسے جیسے دن گزرتا گیا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ہمیں بھی چار پانچ گھنٹے انتظار کرنے کے بعداپنے ڈاکٹر صاحب سے دوبارہ ملنے کا موقع ملا۔انہوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ        ”یہ شہر کا ہسپتال ہے یہاں ہر کوئی اپنی جگہ بڑا مریض ہے مگر باری پہلے اُسی کی آئے گی جس کی سفارش بڑی ہو گی۔آپ فکر نہ کریں میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہہ دیا ہے۔جلد آپ کو بلا لیں گے“۔یہ ڈاکٹر صاحب کے مزاج پر منحصر تھا کہ وہ کس مریض کو کب اور کیسے دیکھتے ہیں۔ مزاج، فیس اور سفارش کے ساتھ بدلنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

                کچھ ہمارے جیسے مریض صُبح ہم سے بھی پہلے کے آئے بیٹھے تھے۔ کچھ مریضوں سے ذراآشنائی بڑھانے اور خود کو ڈاکٹر بن کر ان کی میسحائی کرنے کا موقع ملا۔تو معلوم ہوا کہ جناب ایک دن پہلی رات کو ہی ڈاکٹر صاحب کے دروازے پر نمبر لگائے بیٹھے ہیں۔

                دن ڈھلنے لگاتھا۔ مریضوں کے علاوہ ان کی دیکھ بھال کرنے والے بھی مریض بننے لگے تھے۔مگر وہ تو بڑے ڈاکٹر صاحب ہیں۔ نمی دانم چہ حالِ  من۔پھر بھی بڑے ڈاکٹر صاحب سے ملنا اور ان کو اپنی ڈاکٹری کے متعلق بتانے کا شوق دل میں تھا۔خداخدا کرکے ہمارا نمبر بھی آگیا۔ہم اندر گئے ایک موٹا سا آدمی اپنی کرسی پر براجمان تھا۔آدھی ادھوری بات سننے کے بعد ساتھ پڑی چارپائی (اسٹر یچر) پر لیٹنے کو کہا۔ہاتھوں پر شاپر کے دستانے چڑھاکر دو تین مرتبہ پیٹ میں لگے ٹانکوں پر ہاتھ لگایا اور اُٹھنے کو کہا۔ہمارے ڈاکٹر صاحب سے کچھ باتیں کی اور فارغ ہوگیا۔انہوں نے باہر آکر ہمیں بتایا کہ آپ کے ٹانکے بالکل ٹھیک ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے ہی پٹی کرنے کا کہہ دیا ہے۔میں دل ہی دل میں مسکرایا۔”بس اتنا سا کام تھا سارا دن ذلیل کیا۔۔۔۔۔ اورپیسے الگ سے اور احسان سر پر۔ میری ڈاکٹری اس سے اچھی ہے کم از کم کسی کو ذلیل تو نہیں کروں گا۔“

                اپنے ٹانگے پر بیٹھتے ہوئے اور گھر واپس لوٹتے ہوئے اپنے اس سفارشی اور مظلومانہ نظام کے متعلق سوچ رہا تھا۔کیا میں اس نظام کو بدل سکتا ہوں۔؟ کیا غریب اور وہ لوگ جن کے پاس بڑی سفارش نہیں وہ بھی اس نظام کے تحت چل سکتے ہیں۔؟ نہیں بالکل نہیں۔

                تیسرے دن مجھے شہر منتقل ہونا تھا۔مگر اس عزم کے ساتھ کہ میں ڈاکٹر نہیں بلکہ مسیحا بنوں گا۔۔۔۔

                                         ٭٭٭٭

Read 3014 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com