شکست۔۔۔
ارشد علی
اسلام آباد، پاکستان
وہ سب سے اکھڑا اکھڑارہنے لگا تھا۔ بات بے بات غصّہ، ڈانٹ ڈپٹ، نوک جھونک لیکن پھر رویّے میں تبدیلی آئی اور وہ ہروقت کھویا کھویا رہنے لگا۔ خالی خالی نظروں سے سب تکتا رہتا۔ بہت غصّہ میں ہوتا تو آنکھیں نکالتا، کچھ بولنے کے لیے ہونٹوں کو جنبش دیتا اور بنا کچھ کہے دوبارہ گم صم ہو جاتا۔ اور اب تیسرا دن تھا اُسے اپنے کمرے سے بھی باہر نکلے۔اس دوران اس کے چہرے کے تاثرات بتدریج تلخی، ٹوٹ پھوٹ سے ہوتے ہوئے ہر شے سے قطعی لاتعلقی کے رنگ میں تبدیل ہوچکے تھے۔
اُس دن جب وہ گھر لوٹا تو خاموشی سے سیدھا اپنے کمرے میں جا رکا۔ چند لمحوں میں سعدیہ بھی آن پہنچی اور اسے بیڈ پر نیم دراز چھت کو گھورتے چند منٹ تک دیکھتے رہنے کے بعد برابر میں آن بیٹھی۔
’کچھ بنا۔۔۔؟‘
’نہیں۔۔‘
’پھراب۔۔؟‘
’پتہ نہیں۔۔۔‘
’آپ کہیں توبھائی سے بات کروں۔۔؟‘
’ہاں۔۔۔ شاید۔۔۔۔ دیکھ لو۔۔۔‘
’نہیں رہنے دیں۔۔۔ پہلے ہی۔۔۔اور بوجھ بڑھے گا‘
’جو بات نہیں کرنی تھی توپوچھاکیوں‘
’پوچھ لیا تو کیا قیامت آگئی۔۔!‘
’تمھیں شاید اندازہ نہیں کہ میں کتنا اپ سیٹ ہوں۔۔‘
’تو میں نے کیا ہے۔۔!میری تو اپنی زندگی اجیرن ہے۔‘
’خدا کا واسطہ ہے، دماغ خراب مت کر۔۔‘
’میں تمھارا دماغ خراب کرتی ہوں۔۔۔ہاں!۔۔ بولو۔۔۔!‘
’او۔۔۔۔۔۔ دفع ہو جا یہاں سے۔۔۔!‘
سعدیہ جو پہلے ہی کھڑی ہو چکی تھی،’ہاں، ہاں۔۔۔ جا رہی ہوں۔۔۔۔ سڑو یہاں‘ کہتے ہوئے تیز تیز قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔
تب سے وہ کمرے میں اکیلاتھا۔ ویسے بھی گھر میں افراد ہی کتنے تھے۔ وہ، اس کی بیوی اور ایک بیٹی، جو اُن دنوں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے ددھیال میں تھی۔
ویسے تو ہر صورتِ حال کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے کی صلاحیت اس میں موجود تھی لیکن اب کی بار نہ معلوم کن وجوہات نے اسے اس درجہ بے سکونی میں مبتلا کیا تھااور مسلسل ان کہے کرب و اذیت میں روزوشب گزارنے پر مجبور تھا۔ اس گھٹن نے جسمانی کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی استعداد کو بھی بری طرح مجروح کیا۔حتٰی کہ ڈاکٹر نے بھی خصوصی طور پر ہدایت کی تھی کہ اسے کسی صورت تنہا نہیں رہنا چاہیے۔ ان حالات پرً اس کا بھائی کامی چند دن اس کی نگہداشت کو موجود رہا، پھر اس کے اصرار اور دیگر وجوہ کے باعث واپس لوٹ گیا۔ باوجود کہ اعجاز کی حالت سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑی تھی اور اب تو وہ بند کمرے میں تنہا سوچوں کے لامتناہی سلسلے سے نبردآزما تھا۔
کمرے میں وہ انتہائی عجیب معاملات میں الجھا رہتا۔ اس کا بیشتر وقت بستر پر گزرتا اور وہ ٹکٹکی باندھے لگاتار کسی شے کو تکے جاتا۔ کبھی وہ گھڑی پر نظریں جمائے ہے تو پھر اسے ہی دیکھتا رہتا اور غائب دماغی کا عالم کہ یہ تک معلوم نہ ہوتا کہ کب سے گھڑی پر نظریں جمائے ہے۔ کبھی پنکھے کے گھومتے پروں کو گننے میں مصروف رہتا۔ بعض اوقات شیلفوں پر رکھی اشیاء کو دیکھے جاتا۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتاکہ ا س کی نگاہیں کسی شے پر نہ ٹھہرتیں اور اس پنچھی کی مانند جسے آزاد فضاؤں سے پکڑ کر کسی پنجرے میں قید کر دیا گیا ہوکمرے کی چاردیواری تو کبھی چھت یافرش سے ٹکراتی رہتی۔ کبھی وہ آنکھیں موندے لیٹا ہوتا اور اس کا پاؤں ہوا میں یوں حرکت کیے جاتاجیسے کوئی عبارت لکھتا جارہا ہو، جسے وہ آنکھیں کھول کر پاؤں کے تلوے سے مٹا کر دوبارہ آنکھیں بند کر لیتااور پاؤں کی حرکت کسی نئے انداز میں دوبارہ شروع ہو جاتی۔ کئی کئی بار اسے اپنے ہاتھوں، پیروں سے رسیاں سی نکلتی محسوس ہوتیں جو کسی خوف ناک اژدھے کی مانند اس کے گرد لپٹ جاتیں۔ یہ لمحات اس کے لیے سخت آزمائش لیے ہوئے ہوتے اور وہ بڑی بڑی دیر تک ان رسیوں سے خود کو آزاد کروانے کی کوشش میں لگا رہتا۔ کبھی اسے یہ لگتا کہ اس کے ہاتھ اورپاؤں ہتھکڑیوں کی مانند بنے کڑوں میں جکڑنے کے بعد ان کڑوں کو رسیوں سے باندھ کر اسے ہوا میں معلق کر دیا گیا ہو۔اسے کمرے کے چاروں کونوں میں وہ کنڈے بھی نظر آتے جن سے ان رسیوں کوباندھا گیا ہوتا۔جس کی وجہ سے اسے اپنا وجود درد کی شدّت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوتا محسوس ہونے لگتا۔ لیکن اس کی ان تمام حالتوں سے دماغ بالعموم لاتعلق ہی رہتااور سوچوں کے گنجل میں مسلسل اس تار کی تلاش میں رہتا جس کے دوسرے سرے پر اس کے مسائل کا ممکنہ حل موجود ہو۔۔۔
جیسے ہی رات ہوتی تو ا س کا دل چاہتا کہ وہ گھر سے نکل کھڑا ہو اور جہاں کہیں اسے کوئی انسان نظر آئے اسے جان سے مار ڈالے۔اگلے پل ایسا لگتا کہ اسے کہیں بھاگ جانا چاہیے ، تاکہ تمام رشتوں، ناتوں اور مسائل کی قید سے آزاد ہو کر ازسرِنو اپنی زندگی کا آغاز کرسکے۔ رات بھر ا س کے ذہن میں مختلف نام گونجتے رہتے جن میں سے بعض کو وہ گالیاں دینے لگتا، بعض پر رونے لگتا۔بعض پر اٹھ بیٹھتا اور سر کے بال نوچتے ہوئے دوبارہ بستر پر گر جاتا۔ صبح تک اس اذیت کانتیجہ اس کی نیم بے ہوشی کی صورت میں نکلتا۔ اس دوران اس کا دماغ زہریلے اور گندے مواد سے بھرے ہوئے پھوڑے کی مانند دکھتا رہتا۔اور اس کی سوچوں کا تند دریابھی پتھریلے رستوں پر سر پھوڑ پھوڑ کر تھک جاتا، اس تما م صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس پر اکثر خودفراموشی اور بے حسی کی کیفیت غالب رہنے لگی۔
پچھلے کئی گھنٹوں سے وہ بستر پر ساکت لیٹا تھا اور آنسو بہہ بہہ کر بستر میں جذب ہوتے جاتے تھے کہ اچانک وہ اٹھ بیٹھا، آنسو پونچھے، سائیڈ ٹیبل کے دراز سے ڈائری نکالی اور لکھنا شروع کیا۔
’’میں تھک گیا ہوں۔۔۔۔دوڑ دوڑ کر تھک گیا ہوں اور اس سطح پر آن پہنچا ہوں کہ مزید دوڑنا تو کجا ۔۔۔ایک قدم اٹھانے کی سکت بھی باقی نہیں اور۔۔۔اگر دوڑو بھی توکیوں۔۔۔!ہر دوڑ ، ہر ریس کا کوئی فنیشنگ پوائنٹ (Finishing Point) ہوتا ہے پر مجھے تو دور دور تک ایسا کوئی مقام نظر نہیں آتاجس تک پہنچنے کی آس میں جسم کو اگلا قدم اٹھانے پر تیار کروں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں عمر بھراسٹپنی (Stupney) کا کردار ادا کرتا رہا جو دوسروں کی زندگیوں کی گاڑیوں کو چلانے کاباعث تورہا لیکن میری اپنی زندگی کی گاڑی روڈ کنارے کھڑے کھڑے دھول مٹی میں یوں اٹ گئی کہ ریت کاٹیلہ معلوم ہونے لگی۔میں نے بہت سوچا۔۔۔ زندگی کو کئی کئی بار ہرپہلو سے دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔ بہت سے فیصلے کرتا اورانھیں رد کرتاچلا گیااور اب مجھے مزید کچھ سوچنا بھی وقت کا زیاں معلوم ہوتا ہے۔
مجھ سے سب کو شکایت ہے کہ میں پہلے جیسا نہیں رہا لیکن کسی نے یہ سوچنے کی کوشش نہ کی کہ کیوں۔۔!حتیٰ کہ وہ بھی دورہٹتے گئے جو۔۔۔۔آخر آدھی رات کو طویل سڑکیں تنہا ناپنے کا کچھ انجام تو نکلنا تھا۔‘‘
’’اماں تھی۔۔۔جوسب سمجھ سکتی تھی جس کے آگے میں بول بھی پڑتا تھا۔ پر وہ بھی یہی کہتی رہی کہ ’ناشکرا ہے تُو تو۔۔۔اور کیا چاہیے۔۔۔‘ آخر کو پھر کہاں جاتا۔ جب ماں ہی نہ سمجھے تو ۔۔۔‘
اُسے اپنے ماتھے پر پسینے کے قطرے دوڑتے محسوس ہوئے جنھیں قمیض کے بازو میں جذب کرنے کے بعد وہ لکھنے لگا۔
’ایسا نہیں کہ اُس کے پاس نہیں گیا۔۔۔ گیا۔۔ وہاں بھی گیا۔۔ پر پتا نہیں وہ بھی ہے کہ نہیں اور اگر ہے بھی تو اسے رونے والے بہت ہی پسند ہیں۔ تبھی کہتا ہے کہ آؤ!بیٹھو اور روتے رہو۔۔۔ جب چاہوں گا تب د وں گا۔ کچھ وقت رویاوہاں پر۔۔ پھر کیا کرتا۔۔ لوٹ آیا۔۔۔اور اب اس کے بعد کوئی آس ہی نہیں بچتی۔‘
’آخر اب میں کیا کروں۔۔۔ کہاں جاؤں۔۔!ہر جانب اندھے کنوئیں اور گہری کھائیاں ہیں۔ مجھے تو کچھ ایسا چاہیے بھی نہ تھا جو نہ مل سکتا۔میں نے تو بس ایسا کندھاچاہا تھاجس پر سر رکھ کر رو سکتا۔ وہ سینہ جس سے لگ کر سوجاتا یا وہ زانو جو کچھ وقت تکیے کا کام دیتا۔۔ پر نہیں ملا۔۔۔ کچھ بھی تونہیں ملا۔۔۔ پھر میں کیوں رہوں یہاں۔۔ جہاں میرے لیے کچھ نہیں۔۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’مجھے کسی کی پروا نہیں۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔ بس میری بِٹو۔۔ ہائے!۔۔ بٹوکا۔۔۔ بیٹا!میں تیرامجرم ہوں۔۔۔ دیکھ !تجھے تو پتاہے نا سوہنے۔۔ مجھے تو کتنی پیاری ہے۔ یاد ہے جب تو بیمار ہوتی ہے تو میں ساری ساری رات تیرے سرہانے کھڑا گزار دیتا ہوں۔۔۔ پر اب کیا کروں میری جان!۔۔۔ کیا کروں۔۔۔ ٹانگیں جواب دے رہی ہیں۔۔۔ نہیں کھڑا ہوا جاتااب۔۔۔ کیا کروں۔۔۔ دیکھ! تُو میری طرح کمزور نہ نکلنا۔۔۔اور سنبھال لینا سب کو۔۔۔ کہنا، میرے بابا ایسے نہیں تھے۔ بس بہت مجبور تھے۔چندا!میں کیسے بتاؤں۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔۔۔ پر میں جی بھی تو نہیں سکتا۔۔۔ میں جیا تو تم سب مر جاؤ گے۔اوریہ ۔۔۔ بس تقدیر کا لکھا سمجھ لینا۔‘
اس نے رک کر بے ربط ہوتی سانسوں کو دوبارہ سینے میں قید کرنے کی کوشش کی۔اور پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا کر پینے لگا۔ جس میں سے زیادہ تر پانی اس کے ہونٹوں کے کونوں سے بہہ کر اس کے کپڑوں پر گرتا گیاجس کا اسے قطعی احساس نہ تھا۔
اس نے دوبارہ سوچوں کو مجتمع کیا اور نگاہیں ڈائری پر مرکوز کر دیں۔
’میں آج تک یہی سمجھتا رہااور سمجھتا ہوں کہ ہمارے اردگرد بسنے والوں اور رہنے والوں کو ہمارے تمام مسائل و مصائب کا اندازہ ہوتا ہے اور جو انجان بنتا ہے وہ جان بوجھ کر مکر بھرتا ہے۔اسی لیے مجھے کسی کو کچھ بتانا، احساس دلانا۔۔۔ انتہائی گھٹیا اور بے کار ساکام لگتا ہے۔ میرے مرنے پر میری لاش کے سرہانے کھڑے وہ تمام جو ہمدردیاں جتانے اور ترس کھانے والے ہوں گے ،جو علی الاعلان کہتے پھرتے ہوں گے کہ کاش ہمیں ملتا،کچھ بولتا۔۔ بتاتا۔۔۔ میں ان سب کو، جھوٹے، فریبی ، مکار، اور دغاباز سمجھتا ہوں۔ میں عمر بھر اپنا بوجھ خود ڈھوتا رہا۔ سو اب جب میں ایسا سمجھنے لگا ہوں کہ مزید اپنا بوجھ نہیں سہار سکتا تومیں جارہا ہوں۔۔۔‘
’کہنے کوتو بہت کچھ ہے، لیکن کیا فائدہ۔۔!بات لمبی ہوجائے گی بناکسی حاصل وصول کے ۔۔۔اور لکھوں بھی تو کیسے۔۔!ورق بھی تو پانی کی دیوار کے پیچھے دھندلاتا جارہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اپنا کبھی نہ سوچا اور آج پہلی بار کچھ اپنی مرضی کرنے جا رہا ہوں۔میں صحیح ہوں یا غلط ۔۔۔ نہیں جانتا۔۔۔ پر مطمئن ضرور ہوں۔۔۔ مجھے کوئی پچھتاو انہیں۔۔۔ ہاں، اتنی درخواست ضرور ہے کہ میرے اس عمل سے جسے تکلیف پہنچے وہ خدارا مجھے معاف کر دے۔۔۔ مجھے سب بہت پیارے ہو۔۔۔ پر۔۔۔ میں بہت مجبور ہوں۔۔۔
اللہ نگہبان۔‘
اس نے قلم ڈائری میں رکھتے ہوئے ڈائری بند کی ۔۔۔آنکھیں خشک کیں ، ماتھے سے پسینہ پونچھا، لعاب نگلتے ہوئے حلق کی خشکی کو دور کرنے کی کوشش کی،نتھنوں سے تیز سانس خارج کیا ۔۔۔اور ڈائری رکھنے کے لیے دراز کھولاتو ٹھہر گیا، پھر دراز میں سے کچھ تصویریں نکال کر دیکھنے لگا جونجانے کب سے وہاں یونہی پڑی ہوئی تھیں،تصویریں ہاتھ میں لیتے ہی اسے ایسامحسوس ہونے لگا کہ یہ حقیقت میں اس کے ماں باپ، بہن بھائی ہیں جو اسے الوداع کہنے یہاں موجود ہیں اور وہ ان سب سے باری باری ملتا آگے بڑھنے لگا۔
’کامی۔۔۔!‘ اس نے اپنے بھائی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کا کندھا تھام کر کپکپاتی آواز میں کہا،’امّاں، ابّا کا خیال رکھنا‘
کامی نے جواب میں سر ہلا دیا۔۔۔۔اور وہ ایک قدم آگے بڑھ گیا۔
’سیمی۔۔۔!‘
’بھائی۔۔۔‘ اس کی سب سے لاڈلی بہن روتے ہوئے اس کے گلے لپٹ گئی۔
’اے پگلی۔۔! یہ کیا ہے‘
’چل ۔۔۔ چُپ کر۔۔۔ ناں۔۔۔ بالکل ۔۔۔ ہوں۔۔۔۔ شاباش۔۔۔‘ یہ کہتے ہوئے اس کے بازوؤں کی گرفت مزید سخت ہوگی۔
’عاشی۔۔‘
’جی بھائی۔۔۔!‘
’تجھے کیا ہوا۔۔۔!‘
’کچھ نہیں بھائی۔۔۔‘
’عاشی۔۔!تُو تو سمجھ دارہے۔ بجائے سب کو سمجھانے کے خود ہی۔۔۔۔‘
’جی بھائی۔۔۔‘
وہ اسے گلے لگاتے ہوئے کان میں دھیرے سے بولا،
’ماموں کا پیار دینا۔۔۔ ہیں۔۔۔!‘
’جی۔۔!‘ اور یک دم عاشی جھینپ سی گئی۔اس کا چہرہ حیا سے لال سرخ ہوگیا اور وہ اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کو دوپٹے سے ڈھانپتے ہوئے صرف اتنا کہہ پائی۔
’بھائی۔۔!‘
اور وہ آنکھوں میں نمی لیے زیرِ لب مسکراتا آگے بڑھ گیا۔
’نازی۔۔۔!‘
’کچھ بولے گی۔۔ یا ۔۔۔ چُپ سائیں۔۔!‘
وہ خاموشی سے سر جھکائے کھڑی رہی۔اعجاز جب اس کے ماتھے کا بوسہ لے کر آگے بڑھا تو وہ اچانک بولی۔
’بھائی۔۔!واپس کب آئے گا؟‘
اسے یوں لگا جیسے اس کے سینے میں کوئی تیر آن لگا ہو۔ وہ رکا۔۔ایک نظر نازی کو دیکھا اور سسکی لیتے ہوئے بولا،
’میں ۔۔۔ کیا بتاؤں۔۔۔‘ اسے لگا کہ مزید بولنے کی کوشش کی تو اس کی چیخیں نکل جائیں گی۔ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے وہ آگے بڑھا۔
’اماّں۔۔۔!‘ اور دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیوانہ وار ماں سے لپٹ گیا۔
ماں نے بمشکل خود کو کچھ بولنے کے قابل کرتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، اسے جھکا کر اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
’بس کر اب۔۔۔ نہیں تو میرا دل پھٹ جائے گا،جا۔۔ چل!۔۔۔اور جلدی آنے کی کرنا۔‘
’ماں۔۔!تجھے نہیں پتہ۔۔۔ نہیں پتہ ماں۔۔۔‘ اور آنسو پھر سے اس کے رخساروں پر دوڑنے لگے، جنھیں اس کی ماں نے اپنے دوپٹے میں جذب کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔اور پھر دوپٹے کی وساطت سے ان ماں بیٹے کے آنسو گلے لگ کر رونے لگے۔
وہ آگے بڑھا اور باپ کے سامنے کسی مجرم کی طرح سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔اس کے باپ نے کمال حوصلے سے اس کا کندھاتھپکتے ہوئے اسے آگے بڑھنے کی تاکید کی۔
چند قدم آگے بڑھ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو ا س کے سامنے وہ تمام چہرے تھے جنھیں دنیا میں وہ سب سے پیارا تھا۔
اس کا جی چاہا کہ وہ چیخ چیخ کر سب کو بتائے کہ وہ غلط سمجھ رہے ہیں ، میں اس سفر پر روانہ ہو رہا ہوں جہاں سے وآپسی کا کوئی رستہ نہیں ۔ روک سکتے ہوتو مجھے روک لو، اگر میں ایک بار تمھاری نظروں سے اوجھل ہوگیا تو دوبارہ میری پرچھائیں بھی نہ دیکھ پاؤ گے مگر الفاظ اس کی زبان پر آنے سے پہلے ہی اپنا وجود کھوتے جاتے، ہاتھ کی پشت سے آنکھیں ملتے ہوئے وہ ایک بار پھر آگے کی جانب چل دیا، ابھی چند قدم بھی طے نہیں کر پایا تھا کہ اس کی بہن دوڈتی ہوئی آئی اور اس کا راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔
’بھائی بھائی آج نا ں جا ۔۔۔۔ دیکھ صرف آج آج۔۔۔ چل وآپس چل بھائی۔‘
’نہیں ۔۔ نہیں مجھے جانا ہے ۔۔۔۔ تو ہٹ آگے سے ۔۔۔۔‘
لیکن جب بہن کی ضد زیادہ بڑھی تو اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا۔۔۔۔۔ کمرے میں چرررر۔۔ کی آواز گونجی جس پر فوراٌ اس نے آنکھیں کھولیں،، اس کے ہاتھوں میں ایک تصویر کے دو ٹکڑے تھے،، دامن آنسوؤں سے تر، گریبان منہ سے ٹپکتی رال سے لتھڑا ہوا تھا۔ اور وہ حیرت سے، تصویر کے ٹکڑوں کو دیکھے جا رہا تھا، ان ٹکڑوں کو برابر میں رکھتے ہوئے اس نے دوبارہ تمام تصویروں کو اٹھایا، اور پھر دیکھتے دیکھتے وہ ان تصویروں کو پھاڑنے لگا۔۔۔۔اور اگلے پل ان ٹکڑوں کو ہوا میں اچھالتے ہوئے باتھ روم کی جانب چل دیا۔ تصویروں کے پرزے کچھ دیر پر کٹے کبوتر کی طرح ہوا میں پھڑپھڑائے اور پھر زمین سے آن لگے۔ واش بیسن کا نلکا چلا کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے ا س کی نظر سامنے شیشے میں اپنے عکس پر پڑی ۔۔۔ لال سرخ ابلتی ہوئی آنکھیں،پچکے ہوئے گال، بڑھی ہوئی شیو، بکھرے بال۔۔ وہ ہاتھ لگا لگا کر اپنے جسم کو محسوس کرنے لگا، جیسے خود کو پہچان نہ سکا ہواور اپنی شناخت کرنا چاہ رہا ہو۔ پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے ا س کی سوچ بیدار ہوئی اور ذہن سے یہ خیال گزرا کہ وہ خود کو آخری بار دیکھ اور محسوس کررہا ہے تو اس کی ٹانگیں کانپ اٹھیں۔ سانس سینے میں اٹکتی اورخون رگوں میں ٹھہرتا محسوس ہوا، آنکھوں کے آگے اندھیرا ناچنے لگا۔اس نے ہاتھ بڑھا کر دیوار کا سہارا لیااور اپنی تمام توانائی کو مجتمع کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ باتھ روم سے باہر نکل گیا۔ باہر نکلنے تک بے خودی کی کیفیت پھر سے اس پر غلبہ پا چکی، اور وہ پھر ہر سوچ و احساس سے عاری تھا۔
اس نے دروازے کی جانب نگاہ کی اور پردے کو دروازہ ڈھانپے دیکھ کر کھڑکیوں کی سمت بڑھ گیا۔ چٹخنی چڑھا کر پردے پھیلا دئیے۔ روشن دان بند کیے۔۔۔۔اطراف سے تسلی کر لینے کے بعد وہ کرسی اٹھا کر عین کمرے کے وسط میں لے آیااور اس پر سٹول رکھنے کے بعد کمرے کے کونے میں پرانے سامان کے لیے بنے شیلف پر سے حاصل کی گئی سوتر کی بنی رسّی اٹھا لایا۔غیر ارادی طور پر اس کی مضبوطی جانچنے کے بعد ایک کونے میں گول گرہ دی اور کرسی سے ہوتے ہوئے سٹول پر چڑھ کر دوسرا سرا پنکھے کے اوپر والے کنڈے میں باندھنے لگا۔ کنڈے میں گرہ دینے کے بعداس نے تمام وزن دوبارہ رسّی پر ڈال کرگرہ کی اور رسّی کی مضبوطی کو پرکھا اور اطمینان کر لینے کیبعد آنکھیں موندے دوسرے سرے کو اپنی گردن میں پھنسا کر پھندے کو کسنے لگا۔ یوں لگتا تھا یہ تمام اموروہ خالی الذہنی کی حالت میں میکانکی طور پر انجام دئیے جا رہا ہے، لیکن اس تمام دوران آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے رواں تھے جن سے وہ لاعلم نہیں تو لاتعلق ضرور تھا۔
پھندا کسنے کے بعد وہ جھولنے کو تھا کہ کھٹکے کی آواز سے اچانک دروازہ کھل گیا۔اس نے گھبرا کر تیزی سے آنکھیں کھولیں تو سامنے اس کی بیٹی حیرت زدہ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ بیٹی کو یوں سامنے دیکھ کر وہ یک دم ہوش میں آگیا اور اس کے سوئے ہوئے جذبات بھڑک اٹھے، اعجاز بیٹی کو پکارتا، تیزی سے اس کی جانب لپکا۔ایسا کرنے پر قدموں کے نیچے رکھا سٹول پہلے تیزی سے ڈولا اور پھر جھٹکے سے دور جاگرا۔۔۔