الجمعة, 14 تشرين2/نوفمبر 2014 08:24

گزرے موسم کی تپش : ترنم جہاں شبنم ۔ دہلی

Rate this item
(0 votes)

      گزرے موسم کی تپش
      ترنم جہاں شبنم ۔ دہلی


      ’’میں کب سے تمہارا منتظرتھا شفّو! آج مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ تم میرے سامنے کھڑی ہو۔‘‘ خوشی سے کھلکھلاتی سامنے کھڑی لڑکی سے یہ کہتے ہوئے لڑکے نے اپنی بانہیں پھیلاکر اسے خوش آمدید کہا ۔ لڑکی دوڑ کر اس کی باہوں میں جھول گئی۔ میں جو مراقبوں میں رہنے کی عادی ہو چکی ہوں ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اپنے ماضی کے بھنور سے باہر آئی تھی۔ اور اب اس منظر پہ غش کھا کر پیچھے گرنے کو تیار تھی مگر اس سے پہلے ہی میں نے خود پہ قابو پا لیا تھا۔ ان کھنڈروں میں جہاں انجانے سکون کی تلاش میں بھٹکتے لوگوں کی بھیڑ ہے ۔ جس میں ایک طرف ایک دوسرے سے سر جوڑے محبت کو ایک نیا عنوان دیتے جوڑے ہیں۔ جو جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں اور بھیڑ میں بھی تنہائی ک کا احساس لئے اپنی دنیا میں مست ہیں ۔ اور سکون محسوس کر رہے ہیں۔ تو وہیں دوسری طرف مجھ جیسے بیچین لوگ بھی ہیں۔ جو بھیڑ اور تنہائی دونوں کے شور سے پریشان ان کھنڈرات میں بھٹک رہے ہیں ۔ میں اکثر ہی سکون کی تلاش میں بے سکون ہونے میں یہاں آتی ہوں۔ بڑا گہر ا اور پرانا رشتہ ہے میرا ان کھنڈرات اوراس ویرانے سے ۔ ماضی کی ورق گردانی کرتے ہوئے اکثر میں کانوں پہ لگے ایئر فون پہ غلام علی ،جگجیت سنگھ کی غزلیں یا کبھی رفیع، لتا کے نغمے سنتے ہوئے گھنٹوں اپنا وقت یہاں گزارتی ہوں اور ورق ورق بے سکون ہوتی ہوں ۔ یہاں بیٹھے ان جوڑوں سے مجھے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی اور نہ ہی کبھی کوئی مجھے اپنی طرف موتوجّہ کرسکا۔ مگر اس جوڑے میں ایسا کچھ تھاکہ جو میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ ماضی کے کبوتر نے پھر میرے سر پہ پھڑ پھڑانا شروع کیا تھا،گھبرا کے میں نے اپنا سارا ذہن ان دونوں کی طرف لگا دیا ۔ 
      ’’ شفّو مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میرے پاس آ گئی ہو ، کبھی نہ جانے کے لئے۔ اُف کتنا تڑپا ہوں میں تمہارے لئے ۔ معلوم ہے مجھے میلوں کے فاصلوں نے نہیں سرحدوں کے فاصلوں نے تڑپایا ہے۔ میلوں کے فاصلے تو میں نے نا جانے کب کے عبور کئے ہوتے مگر اس سرحد کا کیا کرتا؟‘‘ آخری جملہ گہری سانس لیتے ہوئے اس نے کہا ۔ پھر وہ بار بار لڑکی کو چھو کر اس کے ہونے کا یقین کرنے لگا ۔ خوشی کی کرنیں دونوں کے چہرے سے پھوٹ رہیں تھیں ۔ ایک دوسرے کی بانہوں میں سما ئے دونوں اپنی اپنی محبت کا ا ظہار کر رہے تھے۔ ’’ شفّو میں تمہارے حوصلے کو سلام کرتا ہوں جو تم نے اتنا بڑاقدم اٹھایا۔‘‘ ’’یہ میرا حوصلہ نہیں منیر تمہاری محبت ہے جس نے مجھے اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ورنہ مجھ میں اتنی ہمت کہاں؟ ‘‘ لڑکی کے اس جواب پہ لڑکے نے اسے اپنے اور نزدیک کر لیا تھا ۔ اب لڑکی کبھی لڑکے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کی آنکھوں کو چومتی تو کبھی لڑکے کے ہاتھوں کو چوم کر اپنی آنکھوں سے لگاتے ہوئے گہرے سکون کا احساس کرتی۔ کبھی لڑکا لڑکی کی پیشانی اور آنکھوں کو چومتا۔ کتنی ہی دیر دونوں یقین اوربے یقینی کے بیچ گھرے ایک دوسرے کو چھو کر ایک دوسرے کو خود کے ہونے کا احساس کراتے ،خوش ہوتے اور کھلکھلاتے رہے۔ جہاں ان کے قہقہوں کا ترنم فضاء کو نغمیت بخشتا ہوا ان کھنڈرات کو بھی تازگی کا احساس کرا رہا تھا۔ مگرپھر اچانک دونو کے بیچ ایک گہری سوچ نظر آئی جس کے ساتھ چہرے کی خوشی ڈوبتے سورج کی طرح اندھیرے میں تحلیل ہوتی گئی۔ 
              ’’شگفتہ بتاؤ نا ! یہ سرحداب تو ہمارے بیچ نہیں آے گی نا ؟‘‘ لڑکا ڈوبتے لہجے میں بولا تھا ۔

              ’’ نہیں آے گی نا اتنا پریشان کیوں ہوتے ہومنیر؟‘‘ لڑکی نے اسے تسلّی دی تھی مگر فکر کی لکیریں اس کی پیشانی پر بھی ابھری تھیں ’’۔تمہیں اپنے اورگھر اپنے وطن کی یاد آئی تو؟‘‘ لڑکے نے دوسرے سوال کے ساتھ سامنے بیٹھی لڑکی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نامعلوم کیا تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ لڑکی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھی مگر ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ فکرات میں پڑ کر ان خوشگوار لمحوں کو گوانا نہیں چاہتی تھی فوراً ماحول کو تبدیل کرنے کی غرض سے چہرے پہ شوخ سی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی ۔ ’’سنو منیر فیس بک ، یاہو، جی میل، اور اسکائپ کے ذریعہ ہی تو ہماری محبت پروان چڑھی ہے۔ انہی کے ذریعہ گھر والوں سے بھی ملیں گے۔‘‘ ’’واقئی اب تم و اپس نہیں جاؤ گی ؟‘‘ لڑکے نے بے یقینی سے پھر سوال کیا ۔ ’’پاگل ہوئے ہوکیوں جاؤں گی واپس ؟ رخصت ہو کر ایک دن تو ہر لڑکی کو اپنی سسرال جانا ہوتا ہے۔ اب میں اپنی سسرال سے کہاں انے والی ہوں؟‘‘ اس بار لڑکی نے لڑکے سے سوال کیا تھا۔ پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسنے لگے تھے۔ اس ملن پہ شاد و نیاز مستقبل کے سنہرے خواب بن رہے تھے۔ انہیں یوں خوش دیکھ کرمجھے بھی ایک عجیب سے سکون کا احساس ہو رہا تھا۔ آج نا جانے کتنے عرصہ بعد میں نے سکون محسوس کیا تھا۔ شائد اس لئے کہ وہاں سر جوڑے بیٹھے ان جوڑوں سے یہ جوڑا کچھ مختلف تھا۔ یا میری اس کہانی کا ایک حصّہ جسے میں یاد کرنا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے پھر اپنے ذہن کو جھٹکا تھا۔ 
       اچانک لڑکے کو پھر کچھ یاد آیا۔ جس کے ساتھ فضاء میں گونجتے قہقہے کہیں گم ہو گئے۔ ایسا لگا مانو جیسے اُونچی اُڑاان کے پرندوں کے پر کہیں پھنس گئے ہیں اور حادثے کے خوف سے وہ پھڑپھڑا رہے ہوں۔ اس پھڑپھڑاہٹ میں پسینے کی بوندیں دونوں کی پیشانی پر نظر آنے لگی تھیں۔ میں کان پہ ایئرفون لگائے ان سے کچھ فاصلے پہ بیٹھی بہ ضاہر توان سے بے نیاز سی تھی مگر میری توجہ کا مرکز وہ دونوں ہی تھے۔ جو مجھے کہیں گم ہوئی اپنی ُ اس کہانی کا دوسرے پارٹ نظر آئے تھے جو سرحدوں میں بٹ گئی تھی۔ انہیں دیکھتے ہوئے وہ محبت میرے اندر تڑپنے لگی تھی جسے سیاست نے ملکوں اور سرحدوں میں بانٹ دیا تھا ۔ ماضی کی وہ کہانی جس نے مجھے مراقبوں کا عادی بنا دیا تھا جسے میں یاد کرنا نہیں چاہتی تھی آج ایک مختلف انداز میں پھر میرے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ ان ہی کھنڈروں میں تو کل وہ کہانی گزری تھی اوریہیں آج مجھے اس جیسی یہ دوسری کہانی نظر آرہی تھی۔
یہ قطب مینار کے آس پاس کے وہی کھنڈر ہیں جہاں کبھی قمر نیازی اور میں سکون کی تلاش میں آتے اور گھنٹوں ان ویران کھنڈروں میں سکون تلاش کرتے۔ یہ وہی کھنڈر ہیں جہاں ایک بار قمر نیازی نے مجھ سے کہاں تھا۔ ’’ نشاط میری تعلیم مکمل ہونے والی ہے ۔‘‘ ’’اچھا ! تو اس میں کونسی نئی خبر ہے، مجھے معلوم نہیں ہے کیا جو مجھے اطلاع دے رہے ہو؟‘‘ میں نے قمر کے عجیب سے انداز پہ جھنجلا کے کہا تھا ۔ ’’ارے تم سمجھی نہیں نشاط، چند ماہ بعد میں اپنے وطن واپس لوٹوں گا ، پھر تمہارا کیا ارادہ ہے ؟‘‘ اس نے بڑی فکرمندی سے اپنی باتیں کہی تھین۔ ’’اُوہو!‘‘ گہری سوچھ کے ساتھ میرے منھ سے صرف ’’اُوہو‘‘ نکلا تھا۔ اور پھر موت کا سا سناٹا ٹریفک کے شور سے آباد ویرانے میں چھا گیا۔ گھبراکے میں نے قمر نیازی کو دیکھا تھا جو آنکھوں میں ناجانے کتنی التجائیں لئے میرے سامنے کھڑا تھا۔ اس کی التجائی نظروں کو دیکھ کر میں نے ہی کہاں تھا ۔ ’’قمر تم یہی رہ جاؤ نا۔ اور پھر ابھی میرا فائنل ایر بھی باقی ہے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے نشی پھر اس کے بعد؟‘‘ قمر نے مجھ سے سوال کیا تھا۔ اس کے بعد گہری سوچ اور ایک گہری خاموشی تھی۔ 
        پھر قمر نے ہی اس خاموشی کو توڑا تھا۔ ’’سنو نشی ہم دونوں میں زبردست ذہنی مطابقت ہے۔ اس وجہہ سے مزاجاً بھی ہم ایک سے ہیں ۔ پھر بھی ہرلڑکی کو ایک د ن رخصت ہو کر اپنے شوہر کے دیس جانا ہوتا ہے۔ ایسے میں، میں تمہیں اپنی دلہن بنا کر اپنے ساتھ لے جانے کی اُمید کر سکتا ہوں؟‘‘ اس کے اس سوال پر اب کی بار میں نے اسے التجائی نظروں سے دیکھا تھا۔ یہ وہی سوال تھا جہاں آکر ہم دونوں ہی خاموش ہو جاتے تھے ۔کیوں کہ ہم دونوں کو ہی اس کا جواب معلوم تھا۔ وہ بھی جانتا تھا کہ مجھے اپنی مٹّی کی سوندھی مہک کتنی پیاری ہے ۔ یہاں سے دور جانے کاتصور بھی میرے لئے عذاب ہے۔ اور میں نے اسے بھی اس کے مٹّی کی یاد میں تڑپتے ہوئے دیکھا تھا۔ حصولِ تعلیم کے لئے وہ یہاں موجود ضرور تھا۔ مگراس کا دل و دماغ بھی کہیں اپنی مٹّی کی سوندھی مہک ہی تلاش کرتا تھا۔ اس دن ان کھنڈرات میں بیٹھے ہوئے ہم گھنٹوں اپنے احساسات سے لڑتے رہے ۔ جہاں اس نے یک سرد آہ کے ساتھ مجھ سے کہا تھا ۔ ’’نشاط! کاش یہ مٹّی سر حدوں میں نا بٹی ہوتی۔ اب میں کیا کروں مجھے جانا ہی ہوگا اور اگر تم۔۔۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب دیکھ کر اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ اور پھر ہم دل بھر کے روئے تھے۔ 
        اس دن ہمارے دو نوں کے پرانے یہ کھنڈر۔۔۔۔ مجھے بہت غمگین نظر آئے تھے۔ اور ہمیں تسلّی دیتے ہوئے ہمارے آنسوؤں کو اپنے سینے میں دفن کرتے گئے تھے۔ ان آنسوؤں کی نمی سے فضاء میں جو سوندھی مہک پھیلی تھی اس نے ان کھنڈروں کے بھی کتنے زخموں کو تازہ کیا تھا۔ امیر خسرو کی رباعِیوں کی روحانی موسیقی سے گونجتے اس شہر کے یہ کھنڈر کتنے ہی دؤر کے گواہ ہیں۔ اور کتنی ہی محبتوں کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے بھی۔ شائد رضیہ سلطان اور یاقوت کی محبت بھی ان کھنڈر ہوئی عمارتوں میں پروان چڑھی ہو؟ اور مغلوں تک آتے آتے سلیم و انار کلی ،شاہ جہا ں اور ممتازکا دوربھی ان کھنڈرات ہوئی عمارتوں نے دیکھا ہو۔ یہ تومحبت کا وہ شہر ہے جس نے اپنے یہاں، ہر آنے والے کا استقبال کیا ہے او ر ماں کی طرح اسے اپنے کلیجے سے لگایا ہے، خود میں سمویا ہے ۔ کتنی ہی محبتیں اس کے کلیجے میں دفن ہیں۔ گواہ ہیں یہ کھنڈر اس بات کے۔ سرحدیں تو کبھی اس کے بیچ نہیں رہیں ۔ پھر اب کیوں اس مٹّی کو سرحدوں میں قید کر دیا گیا ہے؟ 
         سوچوں کے حصارسے باہر آتے ہوئے میں نے ایک نظر پھر ان دونوں پہ ڈالی ۔ جو پیشانی سے پیشانی ملائے نہ جانے کیا باتیں کر رہے تھے اور فکرمند سے تھے ۔ میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ دونوں کے بیچ اب کیا چل رہا ہے۔ کان میں لگے ایک ایئر فون کو کان سے نکال میں بالوں میں چھپا چکی تھی بظاہر ایسا لگتا تھا کہ جیسے میں ایئرفون پر مصروف ہوں مگر حقیقت میں میں نے اپنا پورا دھیان دونوں کی طرف لگا دیا تھا۔ ’’شگفتہ تم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے۔ تم ٹورسٹ ویزا پر یہاں آئی ہو ہماری مہمان ہو ایسے میں تم اچانک اپنے غائب ہونے کا مطلب سمجھتی ہو؟ نہیں نا ؟‘‘ ’’لڑکا لڑکی سے پوچھ رہا تھا اور کچھ سمجھانے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ ’’ سنو تمہیں ابھی اپنے ٹور کے ساتھ واپس جانا ہوگا ۔ پھر میں اپنے بزرگوں سنگ تمہارا ہاتھ مانگنے تمہارے گھر آؤں گا۔ لیکن اِس وقت تمہیں جانا ہی ہوگا۔‘‘ ’’نہیں منیر نہیں میں اب واپس نہیں جاؤگی میں فیصلہ کر کے آئی ہوں۔ تمہیں معلوم نہیں منیرمیرے گھر والے اس رشتے کے لئے راضی نہی ہوں گے۔ ‘‘ ’’کیوں شگفتہ انہیں مجھ سے کیا پرابلم ہے؟‘‘ ’’تم سے نہیں ان سرحدی فاصلوں سے پرابلم ہے ۔ اگر میں واپس گئی تو پھر ہم کبھی نہیں مل پائیں گے۔ پلیز منیر مجھے خود سے جدا مت کرو ۔ ‘‘ ’’نہیں شفّو تمہیں اس وقت جانا ہی ہوگا تم سمجھ نہیں رہی ہو ۔‘‘ ’’نہیں منیر نہیں میں نہیں جاؤگی۔ اور ابھی کچھ دیرپہلے تو تم بھی مجھ سے مل کر کتنے خوش تھے۔ میرے ہونے کا یاقین کر رہے تھے مجھ سے جدا ہونے کے خوف سے لرز رہے تھے اب کیا ہوا؟ ‘‘ لڑکی اس سے الجھ رہی تھی اور اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی۔ لڑکابرابر اسے منانے اور سمجھانے میں لگا تھا ۔ 
        شام کی بڑھتی دھند کے ساتھ مجھے گھر کی یاد آئی او ر ’گھر ‘ سوچتے ہوئے میں خود پہ ہنس دی تھی ۔ ہم تنہا لوگو ں کی یہی تو ایک خاص بات ہے کہ ہم گھر میں نہیں مکان میں رہتے ہیں جہاں ہمارا انتطار کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان دونوں کو الجھتا چھوڑ میں نے چلنے کی تیاری شروع کی ۔ لڑکا اب بھی لڑکی کو سمجھا رہا تھا۔ ’’ شفّو !جان میرا یقین کرو مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے ۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا سچ ہے ۔ مگر اس طریقہ سے ہم کسی طور بھی نہیں مل سکتے ۔ سنوتمہیں معلوم ہے جس مذہب سے ہم تعلق رکھتے ہیں وہ مہمان کو اللہ کی رحمت مانتا ہے۔ اورجس مٹّی کی خوشبو میں میں بسا ہوں میری وہ مٹّی ’’اتیتھی دیو بھوا‘‘ کے ساتھ مہمان میں خدا کو دیکھتی ہے ۔ میں اپنی مٹیّ کی سوندھی مہک کو خاک میں کیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ لوگوں کو کنارے لگاتے شور کے ساتھ لڑکے کا جملہ بیچ میں چھوٹا تھا ۔ اورایک زلزلہ محبت کے گواہ ان کھنڈروں میں نمودار ہو ا تھا۔ جس کا مرکز سرحدوں میں بٹی سوندھی مٹّی کی مہک تھی۔
********************

Read 3306 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com