الجمعة, 19 كانون1/ديسمبر 2014 09:30

آخری پرواز : مہتاب عالم پرویزؔ ( کویت ) AAKHRI PARWAZ - MAHTAB ALAM PERVEZ

Rate this item
(0 votes)

   

            آخری پرواز 

              مہتاب عالم پرویزؔ  ( کویت )                         

 

 

                ٭بجلیاں کوند رہی تھیں۔ کبوتر کا ایک خوبصورت جوڑا کسی گھونسلے کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ شام رات میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اندھیرے کی گھنی چھاؤں اور خاموشی!

                وہ دونوں کافی سہمے ہوئے تھے۔ اور اپنے بکھرے ہوئے گھونسلے میں اپنی اپنی گردن سکوڑے مستقبل کے سنہرے خواب بن رہے تھے۔ بھوک اور پیاس کی شدّت سے وہ نڈھال ہورہے تھے۔ دونوں پژمردہ سے، خاموشی کی چادر میں لپٹے، چونچ سے چونچ ملائے ایک  دوسرے کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے، اُن کے چہروں پر بیک وقت غم، پریشانی اور خوشی کے جذبات ہلکورے لے رہے تھے۔

               گھپ اندھیرا--- رات کا سنّاٹا، اور رات بھی خود اپنی ہیبت سے سہمی ہوئی تھی۔ ویران درختوں کی شاخوں سے لٹکی ہوئی چمگادڑیں ماحول کی نحوست میں اضافہ کررہی تھیں۔ کبھی کبھی اِس ہولناک سنّاٹے میں بہت سارے پرندوں کے پر پھڑپھڑانے کی آوازیں خاموشی کا سینہ چاک کردیتیں۔

               رات کالامتنا ہی اندھیرا اپنے جو بن پر تھا۔ کہیں دُور مسجدوں سے ’اللہ اکبر‘ کی صدائیں اور مندروں میں بجتے ہوئے ناقوس کی ملی جلی آوازیں ایک ساتھ اُبھر رہی تھیں۔ چہچہاتی ہوئی چڑیوں کا شور تھم چکا تھا۔ شاید وہ بھی احترامِ خداوندی میں چپ ہوگئی تھیں۔ بس ہَوا سے سرسراتے ہوئے پتوّں کی کھڑکھڑاہٹ جاگ رہی تھی اور ایسا گمان ہورہا تھا جیسے پتےّ گنگنارہے ہوں۔

                وقت گزرا، اور سورج کی کرنیں بیدار ہوگئیں۔ درختوں کی اوٹ سے نکلتا ہوا سُورج، ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے ابھی ابھی وہ اس معصوم دھرتی (جس کی پاکیزگی کو انسانی درندوں نے خون کے دھبّوں سے داغدار کردیا) کا سینہ چیر کر باہر آیا ہو---

                سورج کی کرنیں ان کے بکھرے ہوئے گھونسلے میں درآئیں اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اور ایسا گماں ہورہا تھا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ آج کا یہ سورج ہم دونوں کے لیے نئی زندگی کا نیا پیغام لے کر طلوع ہوا ہے۔ سورج کی کرنیں پھیل رہی تھیں --- پھیلتی رہیں --- انھیں سب کچھ عجیب مگر انتہائی خوشگوار لگ رہا تھا یہ نئی زندگی کا پیغام--- یہ نئے آشیانے--- سب کچھ نیا تھا--- آنسوؤں کے دو موٹے قطرے ایک کے رُخساروں پر ڈھلک آئے اور ایک نے اپنی چونچ میں ان آنسوؤں کو سمولیا، اور بڑے ہی پیار بھرے انداز میں کہا۔ ”یہ آنسو زمین میں جذب ہونے کے لیے نہیں، بلکہ میرے وجود میں جذب ہوجانے کے لیے ہیں۔ تم رو کیوں رہی ہو آج تو خوش ہونا چاہیے تم اتنی جلدی گھبراکیوں گئیں --- اس طرح نہیں رویا کرتے پگلی، دیکھو آج کا سورج ہم دونوں کے لیے تو طلوع ہوا ہے۔“اور پھر اُن کے درمیان خاموشی کی چادر تن گئی۔

            ”کیا سوچ رہے ہو“---؟

            ”سوچ رہا ہوں، مَیں تو اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا کہ تم اچانک اُجالا بن کر آگئیں مجھے جینے کی نئی اُمید مل گئی، نیا سہارا مل گیا اتنے قریب آکر کہیں تم مجھ سے بہت دُور نہ ہوجاؤ۔“

            ”وہ دیکھو سورج کی کرنیں جب اُن برفیلی چوٹیوں پر پڑتی ہیں تو برف پگھل کر ندی کا رُوپ لے لیتی ہے پھر وہ پہاڑوں، جنگلوں، اور میدانوں کا سینہ چیر کر سمندر کی گود میں جذب ہوجاتی ہے، مَیں بھی اُسی ندی کی طرح ہوں، دیکھنا ایک دن تمھارے پیار کے سمندر میں سما جاؤں گی۔“

            ”کہیں ---!“

            ”---“

            ”بات کیا ہے؟ مجھ سے ناراض ہو کیا؟ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہوتو معاف کردو!“

            ”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“

            ”پھر گم صُم کیوں ہو، بات کیا ہے؟“

            ”دراصل مجھے جانا ہے--- نامعلوم منزل کی اور...“

            ”ایک تو جانے کا کہہ رہے ہو اور دوسرے گم صُم اور اُداس، کوئی تم زندگی بھر کے لیے تو نہیں جارہے ہو--- تم کوئی انسان نہیں کہ بے وفا نکلو، مجھے تمھارے وعدے پر اعتبار ہے۔“

            دِنوں کے گننے میں دیر ہُوا کرتی ہے--- اُن کے بیتنے میں نہیں۔

            مگر اُن میں سے ایک کو کچھ ایسا لگ رہا تھا کہ اِس جمع تفریق میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔

            جن راستوں پر کبھی وہ دونوں اُڑے تھے اب ان پہ صرف ناکام تمنّاؤں کی اُڑتی ہوئی خاک تھی--- کافی بلندی پر وہ دونوں اُڑاکرتے تھے، اُڑتے ہو ئے  گردو غبار سے اُن کا چہرہ اَٹ جایا کرتا تھا--- سورج کی گرم چلچلاتی اور تیر چلاتی ہوئی دُھوپ سے اُن کا بُرا حال ہوجایا کرتا تھا۔

            اور اس کے بعد ہی انھوں نے دیکھا آکاش میں منڈلاتے ہوئے ایک باز کو، باز کی کینہ توز نظریں ان کے سارے وجود کو تھرتھرادیتیں۔ ان کے دِلوں پر ایک عجیب سا خوف طاری ہوجاتا اور اُن کا یہ خوف واجب بھی تھا۔ آب و دانہ کی تلاش سے تھک کر کئی شاموں کے بعد وہ اجنبی منزلوں سے نااُمید سا لوٹ آنے سے بے حد خوش تھی۔ بھوک پیاس سے نڈھال مگر خوشیوں کے جذبات سے سرشار---

            انھیں پہلی بار یہ احساس ہوا کہ زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے۔ باز کی چمکتی ہوئی آنکھیں لگاتار انھیں گھورتی رہیں۔

            اُنھوں نے برسات آنے سے پہلے ہی اپنا آشیانہ بنالیا اور پھر--- اچانک جنگل میں خوشی کی لہر دَوڑ گئی، کبوتری نے انڈے دِیے اور ہوائیں گنگنا اٹھیں اور پتیوں کی پُراسرار سرسراہٹ انھیں باز کی آنکھوں کی چمک کی یاد دلاتی رہی اور وہ دونوں اُداسی کے سمندر میں ڈوبنے اُبھرنے لگے۔

            رات کی گھنی چھاؤں --- سورج کی گرم دُھوپ---  شام کا دُھندلکا--- بارش کا شور اور پھر ایک لامتنا ہی سنّاٹا--- اور پھر تمام مناظر دُھواں دُھواں ہوگئے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کبوتری کے انڈے اپنے آخری مرحلے میں تھے، ایک چھوٹا سا خاندان بننے ہی والا تھا کہ---

 

            کبوتر کہیں گیا ہوا تھا--- آب و دانہ کی تلاش میں۔ جب وہ لوٹا تو اُسے کچھ عجیب سا لگا، انڈے پھوٹے پڑے تھے، کبوتری کا بھی کہیں پتہ نہ تھا۔ نامکمل چوزے خون میں لت پت اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس دُنیا کا مذاق اُڑاتے لگ رہے تھے۔ شاید وہ کہہ رہے تھے کہ اس دنیا کا دستور ہی یہی ہے--- یہاں زندگی کی کوئی قیمت نہیں اور موت بڑی سستی ہے--- ایک دلدوز چیخ اس کے اندر ہی گھٹ کر رہ گئی، وہ  ُکھل کر نہ چیخ سکا، کہ اُسے ڈر تھا باز یہیں کہیں چھپا بیٹھا ہوگا۔ پھر وہ اُڑا ایک جگہ کبوتری کے پَر بکھرے ہوئے نظر آئے، وہیں پر کبوتری بھی خون میں شرابور تڑپ رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں سے گرم گرم آنسو اُمڈ پڑے۔ اس نے کبوتری کا زخمی سر اپنی گود میں لے لیا۔

            ”مَیں اپنا وعدہ نہیں نبھا سکی مجھے معاف کردو۔“ کبوتری اتنا ہی کہہ سکی۔

            اب کی بار کبوتر کے منہ سے چیخ نکل کر ساری کائنات پر پھیل گئی۔اُس نے سر اُٹھاکر آسمان کی جانب دیکھا، بے رحم باز بڑے ہی شاہانہ اندازمیں پرواز کررہا تھا۔اُسے لگا باز اُس کے گھر میں آگ لگاکر اُس کی نسل کو ختم کرکے اُس کا مذاق اُڑارہا ہے---

            اور پھر نہ جانے کہاں سے اس میں اتنی طاقت آگئی کہ وہ اپنے پر پھیلائے باز کی اور جھپٹ پڑا--- باز کی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی مگر یہ دیکھ کر اُس کا دل خوف سے کانپ گیا کہ کبوتر کی پشت پر اب جنگل کے سارے پرندے موجود ہیں۔ ظلم وستم کی داستان کا شاید اب اَنت ہونے والا ہے۔

 

                                                           ()()()()()

 

            مہتاب عالم پرویزؔ   (  کویت  )                      

                       

 

 

 

 

 

 

 

Read 4121 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com