الخميس, 01 كانون2/يناير 2015 18:10

جُولاہَن: ممتاز شارق، جمشیدپور

Rate this item
(0 votes)

  جُولاہَن


  ممتاز شارق، جمشیدپور

                      پروفیسر رضیہ بیگم کواپنے اکلوتے بیٹے شاہد علی کے لئے ایک عرصہ سے جس لڑکی کی تلاش تھی وہ انہیں کے ویمنس کالج کے ایک سمینار کے دوران مل گئی۔ انکی متلاشی نگاہیں بی اے فائنل کی غزالہ بانو پر ٹک گئیں۔ غزالہ بانو کی تنظیمی صلاحیت، گروپ لیڈرشِپ کی اعلیٰ کوائلیٹی کے ساتھ ساتھ اسکی تقریر اور تحریر سے وہ بہت متاثر ہوئی تھیں۔انہیں جب معلوم ہوا کہ ٹاٹا اسٹیل کے چیف انجینئر سیّد امتیازالحسن کی یہ تیسری بیٹی ہے تو انہیں اور بھی تعجب ہوا کیوں کہ انکے گھر پرسیّد صاحب کی دونوں بڑی بیٹیوں کا رابیعہ کے ساتھ آنا جانا رہتا تھا۔ یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ غزالہ سے چھوٹی اُسکی دو اور بہنیں بھی ہیں۔ پانچ سال قبل جب غزالہ کی دوسری بڑی بہن کی شادی ہوئی تھی تو اُس وقت غزالہ غالبا ہائی اسکول کی طالبہ رہی ہوگی۔ ابھی تو ماشاء اللہ خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اتنی ذہین اور ہونہار ہے کہ بس اسے ہی لاکھوں میں ایک کہا جا سکتا ہے۔
                     گھر آتے ہی رضیہ بیگم نے اپنے شوہر پروفیسرعابد علی انصاری سے غزالہ کے متعلق تمام جانکاریاں شیئر کرتے کرتے اچانک رک گئیں اورایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہنے لگی ” پتا نہیں سیّد امتیاز الحسن صاحب اور ا نکے اہل خانہ کو غزالہ کا رشتہ ایک انصاری فیملی میں منظور ہوگا کہ نہیں۔؟ “ گلاس کا ادھا پانی پینے کے بعد عابد علی کہنے لگے.
                      آپ کا اندیشہ بجا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ امتیازالحسن کی پہلی بیٹی پٹنہ میں اپنے ہی کسی رشتہ دار کے یہاں بیاہی گئی ہے۔ دوسری بیٹی کی شادی جمشیدپور میں ایک خان برادری میں ہوئی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میرے اکلوتے اور ہونہار انجینئربیٹے کے رشتے کو وہ لوگ منظور نہ کریں۔۔۔“ خالی گلاس میں شیشے کے جگ سے پانی اُنڈیلتے ہوئے رضیہ بیگم اپنے موضوع پر واپس آتے ہوئے کہتی ہیں۔ ”بات یہاں شیخ، سیّد، صدیقی یا خان کا نہیں بلکہ اصل معاملہ انصاری کا ہے۔ تقریباسبھی برادریوں کا کسی نہ کسی طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شادی بیاہ کارواج عام ہے۔ شیخ کے ساتھ سیّد یا صدیقی، شیخ کے ساتھ خان، مگر انصاریوں کی شادیاں غیر انصاریوں میں شاز و نادرہی دیکھا گیا ہے چند ایک کو چھوڑ کر۔ اسلئے مجھے تشویش ہو رہی ہے۔“
                        اپنی عینک کو ناک پر جماتے ہوئے پروفیسر عابد علی بالکل نرم لہجہ میں کہنے لگے۔”بس، اتنی سی بات پر آپ پریشان ہو رہی ہیں۔ رشتے تو آسمان پر طئے ہو چکے ہوتے ہیں۔ بس ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔آپ نے تو تمام عزیز واقارب کے گھروں کو اچھی طرح جھانک لیامگر کہں بھی کوئی لڑکی پسند نہیں آئی۔ اگر شاہد کے ساتھ غزالہ کا نام من جانب اللہ طئے شدہ ہے تو ٹھیک ہے۔ ورنہ رشتہ ڈھونڈنے کا جو سلسلہ آپ کا ایک سال سے چل رہا ہے اُس مہم کو مزید جاری رکھتے ہیں۔ کیوں کہ رمضان المبارک کا چاند دس یا گیارہ دنوں کے بعد دیکھنے ہی والا ہے اورآپ کے لاڈلے کی فلائٹ پندرہ رمضان تک ممبئی کے شیواجی ائیر پورٹ پر پہنچنے والی ہے۔ اس سلسلے میں آج ہی شام کو امتیاز الحسن سے بات کرتے ہیں۔“کہتے ہوئے پروفیسر عابد علی اپنے کمرے کی طرف چل پڑے۔
                     دوپہر کے کھانے کے دوران ڈائنگ ٹیبل پررضیہ بیگم کی خاموشی میں چھپے نا اُمیدی کو بھانپتے ہوئے عابد علی نے کہا کہ ”میڈم آپ کالج میں لڑکیوں کو ہسٹری پڑھاتی ہیں۔ورلڈ ہسٹری کے باب میں اسلامی تواریخ سے بھی آپ کو بخوبی واقفیت ہوگی کہ رحمت العالمین حضور اکرم ﷺ قبیلہ قریش کی معزز ترین شخصیت، اعلیٰ حسب نسب کے باوجود حضور ﷺ کی کئی ازواج مطہرات غیر قریش اور غیر قبیلے سے تھیں۔ آپؐ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کا نکاح اپنے غلام زید بن حارثہ سے کروایا۔“
رضیہ بیگم ڈائنگ ٹیبل پر خالی ڈِشیز کو سمیٹتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہنے لگیں۔ ” ہاں، ہاں مجھے ہی کیا؟ساری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ مذہبِ اسلام ذات برادری، اعلی و ادنیٰ،حب نسب اور جغرافیائی حدود کو توڑتے ہوئے عالمی برادری کو انسانیت کا درس دیتا ہے۔ تقویٰ کی بنیاد پر انسان کی برتری اور عظمت قائم کی گئی ہے۔ لیکن موجودہ مسلم معاشرہ میں عملی طور پرجو کچھ عام ہے،اس سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں۔“ اتنا سنتے ہی پروفیسر عابد علی اپنی بیگم کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگے۔”بیگم آپ کا کہنا اپنی جگہ درست ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ ہی کی طرح سوچتے ہیں۔امتیاز الحسن کو میں اپنے کالج کے زمانے سے ہی جانتا ہوں۔ کُھلے ذہن کا ہوتے ہوئے بھی صوم و صلاۃ کا پابند۔سچ کہا جائے تو میری نماز کی پابندی ا نکی صحبت کی دین ہے۔ بی ایس سی،ہم دونوں نے ایک ہی کالج سے کیا اسکے بعد میں علیگڑھ، ایم ایس سی کرنے چلا گیا اور وہ بنگلور سے انجینئرینگ کرنے کے بعد ٹاٹا اسٹیل میں ملازم ہوگئے اور میں لکچرار بن کر چند برسوں بعد آپ کے کالج میں آگیا اسکے بعد آپ میرے ساتھ ہمارے گھر آگئیں۔۔“ اتنا سنتے ہی رضیہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ کے کئی جلترنگ بکھرگئے۔
غزالہ بانو اور شاہد علی کی شادی کے موضوع پرسیّد امتیاز الحسن و انکی اہلیہ ارجمند بانوکے ساتھ پروفیسر رضیہ بیگم و پروفیسر عابد علی کی پہلی میٹنگ میں ہی شک وشبہات کے بادل چھٹ گئے اور اس کے بعد دوسری میٹنگ سے خلوص و اعتماد کے موسم کا آغاز ہوگیا۔رضیہ بیگم کے تمام تر منفی خیالات خاص کر امتیاز الحسن کے اس جملے سے ” میرا تو ماننا ہے کہ نام سے پہلے یا نام کے بعد جوٹائٹل چپکائے جاتے ہیں اسکا استعمال بالکل ختم ہونا چاہئے۔ اس سے ایک وسیع اور مستحکم مسلم معاشرہ کی تشکیل ہوگی۔“ دوہفتے کے بعد بات پکّی ہوگئی اور عید کے پانچویں دین یعنی ۰۲/ اگست کو بغیر لین دین کے شادی کی تاریخ طئے پا گئی۔ نہایت ہی سادگی اور نفاست سے بعد نماز عصر جامع مسجد میں قاضی شہر نے نکاح پڑھایا اورتیسرے دن پروفیسر کالونی میں طعام ولیمہ کا شاندار اہتمام کیاگیا۔ شہر کے سبھی باشعور، تعلیم یافتہ سماجی و سیاسی حلقے اوردانشور ان شہر کی جانب سے دونوں خاندان والوں کی بہت بہت پزیرائی ہوئی اور کئی دنوں تک مقامی اخبارات میں اس شادی کا خاص چرچا رہا۔ خودساختہ اونچ نیچ، اعلیٰ ادنی اور برتری کی ساری فرضی دیواریں مسمار ہو چکی تھیں۔
اس شادی سے سب سے زیادہ خوشی پروفیسر رضیہ بیگم کو ہوئی کیونکہ غزالہ بانو اُنکی پہلی پسند تھی۔شادی کی خوشیوں کے ماحول میں دونوں گھرانے اس قدر شرابور تھے کہ گذرتے وقت کا احساس بھی نہیں ہو پایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا۔
آج شاہد علی کی روانگی کا وقت بھی آگیا۔ غزالہ کا رو رو کر برا حال تھا۔ آنکھیں سوج گئیں تھیں۔شاہد نے اپنے والدین و اقارب کی موجودگی میں غزالہ کو سعودی بلوانے کے لئے بہت جلد ویزہ بھیجنے کا وعدہ کیا۔ اس پر اس کے دوست و احباب اپنے اپنے طور پر ریمارکس دے رہے تھے۔ ”واہ یار بچپن کی یاری کے لئے کچھ بھی نہیں اور بھابھی کے لئے ابھی سے ویزہ۔۔“ دوستوں کی ہنسی مذاق کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ اچانک ریلوے انکوائری کاونٹر سے ٹرین کے متعلق اعلانات نشر کرنے والی خاتون کی آواز اسپیکرس کے ذریعہ بلند ہوئی ”یاتری گن دھیان دیں، ممبئی جانے والی گیتانجلی ایکسپریس اپنے نردھاریت سمئے سے چالیس منٹ ویلم سے چل رہی ہے۔چھ بج کرپندرہ منٹ پر پلیٹ فارم نمبر ایک پر آنے کی سمبھاونا ہے۔“
اتنا سنتے ہی پلیٹ فارم پر موجود سبھی لوگوں میں ایک عجیب ہلچل سی مچ گئی۔ اور آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کابے چینی سے انتظار تھا۔ گیتانجلی ایکسپریس رینگتی ہوئی پیلٹ فارم نمبر ایک پر آکر رکی۔ جانے والے مسافر اپنے اپنے کمپارٹمنٹ میں جانے کی کوشش میں اُترنے والے مسافروں سے دَھکّمُ دِھکّا کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے تھے۔ کیوں کہ ٹاٹا نگر اسٹیشن پر صرف پانچ منٹ کا وقفہ تھا۔ دوستوں کی مدد سے شاہد کسی طرح ایک بیگ لیکر اپنے ریزرویشن کوچ میں داخل ہوا کہ سیٹی بجاتی ہوئی ٹرین پلیٹ فارم پر سرکنے لگی۔ آہستہ آہستہ رفتار پکڑتی ہوئی ٹرین کی کھڑکیوں کے قریب سے مسافر ہاتھ ہلا ہلا کر بائی بائی کہہ رہے تھے اور انکے متعلقین نم آنکھوں سے الوداع کہتے ہوئے، مرجھائے چہرے لئے اسٹیشن سے باہر نکل رہے تھے۔
اسٹیشن سے باہرنکلتے ہی شاہد کو الوداع کرنے والے عزیز و اقارب اپنی اپنی سواریوں کی طرف چل پڑے۔رضیہ بیگم کا ڈرائیور بھی
کار لیکر اُنکے سامنے آگیا۔ لیکن غزالہ اپنے والدین کے ہمراہ اُنکی کار کی طرف یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ ”میں اپنی ممی کے گھر جاؤ نگی اور ۔۔“یہ سن کررضیہ بیگم کو عجیب سا لگا وہ لپک کر اُس کے سامنے آئی اور کہنے لگی۔
”بیٹا میرے ساتھ ابھی اپنے سسرال چلو، گھر پرمہمان موجود ہیں، تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔ایک دو روز بعد اپنے میکے چلی جاؤگی۔ لیکن ابھی تمہارا میرے ساتھ جانا ضروری ہے۔“ اتنا سننا تھا کہ غزالہ کا غصّہ ساتویں آسمان پر آگیا اور اخلاق و تہذیب کے تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے اُونچی آواز میں جواب دینے لگی۔ ”۔۔ میں آپ کے بیٹے کی بیوئی ہوں، جوٹھے برتن مانجھنے، جھاڑو اور پوچھا کرنے والی خادمہ نہیں۔میرا شوہر جب آئیگا تب میں سسرال جاؤنگی۔میں ایک سیّد گھرانے کی بیٹی ہوں کوئی جُولاہن نہیں۔“
اتنا سُنتے ہی رضیہ بیگم کو ایسا لگا کہ گویا اُسکا سارا وجود شیشے کے مجسمہ کی طرح ایک جھٹکے سے گر کرچور چور ہو گیا ہو۔
٭٭٭٭٭
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
mobl: 09234783928, 8292452445

نوٹ؛ مورخہ26/ اکتوبر2014  کو ا دارہ ادب اسلامی، جمشید پور کے زیر اہتمام رانچی سے تشریف لائے نامور ناقد و محقق ڈاکتر احمد سجّاد کے اعزاز میں ایک ادبی محفل کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں یہ افسانہ پڑھا گیا اور حاضرین نے اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔

Read 3038 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com