الجمعة, 02 كانون2/يناير 2015 01:18

نقب زن : فرحین چوہدری ۔ اسلام آباد

Rate this item
(0 votes)

 نقب زن
 فرحین چوہدری۔۔۔۔۔اسلام آباد


                     ڈاکٹر نے اس علاقے میں گھر خرید نے سے پہلے خوب جانکاری کرلی تھی صاف ستھرا ،اشرافیہ کا علاقہ ،جہاں ذاتیات میں مداخلت سے پرہیز کرنے والے ،ریشم کے کوبا جیسے ،اپنے خول میں گھٹ مرنے والے لوگ رہتے تھے ۔۔۔بھلے ساتھ والے گھر کو آگ لگ جائے ۔
ڈاکٹر کو تسلی ہوگی وہ پسماندہ علاقے سے نکل کر سعودی عرب جابسا تھا ۔خوب کمایا لیکن عورت کو گھردار ی کی دنیا تک محدود رکھا ۔پہلی بیوی کم پڑھی لکھی کزن تھی ،تین عدد بیٹیاں پیدا کرنے کے باعث مرعوب و مجبور ۔۔۔۔ڈاکٹر نے y chromosome کی کر شمہ سازی سے واقفیت کے باوجود ،بیٹے کے چکر میں کم عمر نرس کو دوسری بیوی بنالایا۔ثمینہ کا احتجاج ،آنکھوں کے راستے بہہ کر ڈوپٹے میں جذب ہوگیا ۔سعودی عرب میں الگ الگ فلیٹ تھے ،سو نہ رابطہ نہ کھچ کھچ ۔۔۔دوسرے وہاں شیوخ کے لمبے حرم ،ثمینہ کے دل کو دلاسہ دئے رکھتے۔
مگر پاکستان آکر ،اکلوتی بیویوں کے راج دل پر گھونسے چلانے لگے ۔حنا اوپر منزل اور ثمینہ نچل منزل کی مالکن بن گئی۔
حنا کے ہاں بھی بیٹ یک پیدائش نے ثمینہ کا جی خاصا ہلکا کردیا تھاچھ سالہ سونی،کی اُٹھان ،نئی نسل کی تما م تر خصوصیات سمیت کسی اور ہی سمت کا اشارہ دے رہی تھی۔۔۔۔مگر بچی سمجھ کر سب فی الحال بے خبر تھے ۔روبی کی منگنی،باہر رہنے والے بھانجے سے کر کے ڈاکڑمطمئن تھا۔خطرہ دور تھا ۔فون پر بھی شاذ و نادر رابطہ ہوتا مگر ماں ک موجودگی میں منگیتر سے رسمی سلام و دعا کے دوران ،کتنی ہی میٹھی میٹھی سرگوشیاں دل ہی دل میں دم توڑ دیتیں۔دوسری جانب شاہد کے رومانوی الفاظ کے جواب میں ’’جی جی ‘‘ کی تکرار ہوتی تو وہ جل کر فون پٹخ دیتا ۔۔۔ٹھک کی وہ آواز کئی دن روبی کے دل اور بدن کو سلگائی رکھتی۔۔۔رابعہ خود میں مگن رہنے والی دبو سی زندگی سے بے زار نظر آتی تھی۔۔۔۔شاید پابندیوں سے گھبرا کر اس نے خواب دیکھنا بھی ترک کردئے تھے۔
رہ گئی انجو ۔۔۔پارہ تھی پارہ،اس کا انگ انگ بولتا تھا ،تھرکتا تھا ،آنکھیں ابرو ہونٹ حتی کہ پاؤں بھی اک خاص ردھم کے ساتھ ہر وقت حرکت میں رہتے ،چاہے وہ لیٹی ہو یا بیٹھی ہو ۔ماں بار بار ٹوکتی اس حرکت پر۔۔۔لیکن یہ تو اندر کا کوئی اضطراب تھا ۔۔۔انجو کے بس میں تھوڑا ہی تھا۔
وہ پورے گھر میں جھونکے کی ماند ،کسی شرارے مانند گھوم جاتی ۔ان کہی کہ جاتی ۔باغیانہ جملے ،اعتراضات ،باپ کی آمرانہ مملکت کی شان میں گستاخیاں۔۔۔ماں کے ہاتھ سبزی بناتے وقت کانپ کانپ جاتے ۔۔۔مگر روبی کی بے زبانی کو زبان مل رہی ہوتی۔حنا انجو کی باتیں سن کر سوکن کی بے بس پر مسکراتی ثمینہ کی نگاہیں التجا کرتیں۔۔۔نہ بولو۔۔۔نہ بولو۔۔۔کچھ نہ بولو۔۔۔کچھ نہ کھولو۔
اس سارے قصے میں موٹی بھد ی برکتے اور اس کا میاں گنگو بہت اہم تھے۔۔۔اس بے رنگ ماحول میں ایک رنگ دار دھبہ تھا گنگو اور وہ بھی سیاہ کالا۔۔۔
گنگو بس پورا گونگا ہونے سے رہ گیا تھا ۔۔۔پورا جملہ پور کہانی ایک دولفظوں میں سمونے کا عادی۔۔۔مالکوں کے آگے بیل کی طرح سر جھکائے رکھتا۔۔۔اپنی بدصورتی بد ہتی کے باعث گھر اور گھر کی عزت کا آئیڈیل محافظ ۔۔۔پردے لگی گاڑیوں کو صرف وہ چلا سکتا تھا ،شاپنگ ،سکول کالج کے لئے خواتین اور بچیوں کو لے جانا اسی کی ذمے داری تھی۔۔۔
دوسری طرف برکتے کی بد صورتی ،دونوں بیویوں کے لئے خطرے کا لال نشان بننے سے قاصر تھی ،سو اندرونی محاذ پر امن تھا ڈاکٹر شانت ۔۔۔مگر دو پلاٹ چھو ڑ کر دائیں ہاتھ والے گھر اور پیچھے والے گھر میں بالترتیب دو اور تین عدد کڑیل نوجوان کی موجودگی کا انکشاف کچھ بے چینی کا باعث بن گیا ۔نئی روشنی کے پروردہ ،انگریزی بولتے،برمودامیں ملبوس،گاڑیاں بھگاتے ہلا گلا کرتے ،یہ کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان کسی بھی وقت سرخ بتی کا روپ دھار سکتے تھے ۔سو گھر کی تمام کھڑکیوں پر باہر کی جانب سے بھی پکی چقیں باندھ دی گئیں۔دیواروں پر کانٹے دار باڑ لگا دی گئی ۔۔۔ پردے لگی گاڑیوں میں حجاب کے ساتھ ساتھ آنکھوں پر کالے چشمے بھی نصب کرنا ضروری تھے تمام ممکنہ حفاظتی اقدامات کے باوجود ڈاکڑ اکژ بچیوں کی صحت چیک کرنے کے بہانے ان کے چہروں اور آنکھوں کو بغور دیکھتا ۔کسی ڈھکے چھپے راز کی تلاش میں ۔۔۔ مگر حیران مردہ لٹکے ہوئے چہرے اور جھکی ہوئی نظریں اسے مطمئن کردیتیں۔
پھر وہ حسبِ پروگرام ،نچلی اور اوپری منزل پر موجود اپنی مملکتوں کو راج کرنے میں مصروف ہوجاتا۔۔۔بیڈ روم کا دروازہ لاک ہو تے ہی مردہ لٹکے چہروں پر تجسس ناچنے لگتا،آنکھوں میں چمک لہراتی، روبی خوف کی آڑ لے لیتی رابعہ بے نیازی کا پردہ ڈال لیتی ،مگر انجو کا تجسس اور احتجاج اس کی زبان سے بہہ نکلتا ۔۔۔وہ جیب خرچ سے چوری چھپے خریدئے ہوئے موبائل پر نیٹ کھول کر روبی اور رابعہ کو بھی سات جہانوں کی سیر کروانے لگتی ۔۔۔وہ دونوں بھی سہمی سہمی سکرین پر بکھرے رنگوں میں الجھتی چلی جاتیں ۔
گھنٹوں بند دروازے کے پیچھے ان کی پر اسرار خاموشی ماں کو خوفزدہ کرنے لگتی مگر ڈاکڑ اپنی کامیاب حاکمیت کے نشے میں مسکرانے لگتا ۔ انجو کچن کی کھڑکی کے باہر لٹکی چق میں میں بڑے طریقے سے درزیں بنالی تھیں ۔جن کے درمیان فاصلے سے اس کی شعلہ اگلتی آنکھیں دائیں بازو والے گھر کے دو سجیلے نوجوانوں کو دیکھ سکتی تھیں ۔ جو جانے کس دنیا میں مست کبھی کبھار ہی نظر آتے تھے ۔ان کی بھاری مردانہ آوازیں انجو کے جسم میں سنسنی سی بھر دیتے ۔۔۔انجو کا جی چاہتا ان میں سے کوئی ایک۔۔۔ اچانک ہی اسے اپنے کلاوے میں بھرے۔۔
ان کی سمارٹ سی ماں جب پورچ میں کھڑی انہیں چومتی آتے جاتے تو انجو کے سینے میں سانس اٹک سی جاتی اس لمحے اس کی سوچ 
پر بھی سنسر لازم ہوجاتا ۔
نیٹ کے ذریعے چوری چھپے کھلا دریچہ اب ایک بہت بڑا گیٹ بن چکا تھا ۔ہر طرح کی آمد و رفت کے لئے ۔۔۔تینوں بہنیں وقت کی چال اور رفتارکو سمجھ رہی تھیں۔روبی تو انجو کے احسان تلے دبی تھی کہ گھر میں نیٹ کی اجازت نہ ہونے کے باوجودانجو نے اپنے خفیہ موبائل کے ذریعے شاہد سے اس کی ویڈیو چیٹ ممکن بنادی تھی ۔وہ رات گئے کمبل میں دبکی سکرین پر شاہد کے چہرے سے چہرہ ملائے ، اُبلتے جذبات کو ٹھنڈا کرتی رہتی۔اتنے ماڈرن زمانے میں ،اتنے پوش علاقے میں ایسے طور طریقے ،آس پاس کے لوگوں کو ابنارمل لگے ،پھر اپنے کاندھے اُچک کر سب To Hell With کے انداز میں اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔
رات گئے کبھی کبھار تمام خواتین ،ڈاکڑ کے ساتھ ڈربے کی مرغیوں کی طرح ٹیرس پر ڈوپٹے لپیٹ کر بتیاں بجھا کر تھوڑی دیر کو ہوا خورری کے لئے آتیں۔۔۔یوں جیسے مچھلیاں سانس لینے کو سطح آب پر ابھرنے اور پانی میں غوطہ لگانے کے عمل میں ہوں۔
ان چند لمحوں کے دوران بھی ،دبی دبی ،خوف زدہ آوازیں ،پر اسرار سکوت کو توڑنے میں ناکام رہتیں سو اندھیرے کی خاموشی میں چند سسکتی سانسوں کا اضافہ کرکے وہ پھر پردوں اور دیواروں میں چھپ جاتیں۔
بقول انجو ’’بھیڑ بکریوں جیسی ڈروعورتوں کے اس گلے میں صرف انجو ہی میں ’کالی بھیڑ‘ بنے کے جراثیم واضع مقدار میں موجود تھے کبھی کبھار تو وہ جھنجھلا کر برکتے کی خوش بختی پر ناز کرتی ۔برکتے کو چق کی درزوں سے مالی اور دوسرے نوکروں سے باتیں کرتے ،ہنستے دیکھ کر وہ روبی اور رابعہ کو بھی بولا لیتی ۔
’’ دیکھو کتنے مزے سے گپیں لگا رہی ہے ۔۔۔آزاد پرندے جیسی ۔۔۔کاش میں برکتے ہی ہوتی‘‘
یہ سن کر رابعہ کی غنودگی بھری آنکھیں لمحے بھر کو اُبلتیں اور پھر کہیں ڈوب جاتیں ۔وہ ہونٹ بھینچ کر وہاں سے کھسک جاتی۔
روبی مسکرانے لگتی کہ شاہد سے طویل گفتگو کے سلسلوں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ گنگو کا اشارہ پاتے ہی برکتے کیوں سارے کام ٹال کر چپکے سے سرونٹ کوارٹر کی راہ لیتی ہے ۔
ایک دن رابعہ آخربول پڑی ’’ انجو گنگو کو دیکھ کر برکتے کی آنکھیں چمکیں یا وہ اس کے پیچھے سرونٹ کوارٹر میں جائے تمھیں کیا مسئلہ ہے؟
رابعہ تڑپ کر بولی ’’ ہر طرف تو مسئلہ ہے اوپر نیچے آگے پیچھے ۔۔نیٹ پر ،موبائل پر۔۔۔اور ہاں تم بی بی حاجن رات چپکے چپکے کس سے باتیں کر رہی تھیں میرے موبائل پر ‘‘ رابعہ صاف مکر گئی ’’ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے ۔۔۔روبی ہوگی شاہد بھائی کے ساتھ‘‘ اور وہاں سے کھسک لی۔۔۔تب انجو رُخ روبی کی جانب موڑ دیتی گفتگو کا ’’ سچ بتاؤ شاہد بھائی کے ساتھ باتیں کرتے وقت تمھیں کیا لگتا ہے ؟ ویسا ہی جیسا ۔۔۔جیسا ۔۔۔۔‘‘ پھر جب چپ کر جاتی ۔۔۔روبی واش روم میں اپنے جسم کے کرنٹ کو ختم کرنے کے لئے منہ پر یخ پانی کے چھنٹے مارنے لگتی۔
انجو اپنے آنچ دیتے جذبوں اور جسم کو بہلانے کے لئے برکتے کا سہارا لیا ۔۔۔کمر پر خارش کے بہانے دن میں کئی کئی بار برکتے کے کالے بھدے نرم ہاتھ ،انجو کی کمر سہلاتے ۔رفتہ رفتہ انجو کو نشہ سا ہونے لگا برکتے کے ہاتھوں کا ۔ماں نے کئی بار معائنہ کیا مگر نرم و ملائم کمر پر نہ دانے تھے نہ خشکی ۔۔۔بس بر کتے کے ہاتھوں کی رگڑ کی وجہ سے سرخ سرخ دھاریاں تھیں۔
جانے رابعہ ایسے موقع پر کیوں غنودگی سے بھر ی آ نکھوں سمیت کسی کونے کھدرے میں غائب ہوجاتی ۔۔۔خارش سیشن کے دوران انجو اور برکتے کے درمیان معمول سے ہٹ کر بھی گفتگو ہونے لگی ،برکتے اپنے بچپن لڑکپن کے قصے ،گاؤں کے معاشقے ،کھیتوں میں ملاقاتوں اور شادیوں کی رودادیں بھی چسکے لے لے کر سنانے لگی ۔۔۔ان کہانیوں میں پراسراریت تھی۔۔۔ملغوف رومانی کہانیاں جسم و جاں کی فتوحات کے قصے ،نیٹ کی کھلی ولی تصاویر سے بہتر لگنے لگے۔
رابعہ کبھی کبھار ناگواری سے دونوں کو دیکھتی اور کروٹ بدل لیتی ایک دن انجو نے شراتاََپوچھ لیا’’ برکتے اتنے کالے دیو ،حبشی جیسے گنگو کے ساتھ کیسے۔۔۔؟
برکتے کے کالے رنگ میں گلابی رنگ کی پچکاری سی چلی۔۔۔باجی جی مرد کا پیار ،رنگ روپ کا محتاج نہ ہووے جی ۔۔۔یہ تو سانپ کے ڈنگ جیسا ہووے جی ۔۔۔۔زہر کے نشے جیسا‘‘
انجو کے بدن پر سانپ رینگنے لگے ۔۔۔رابعہ چادر تلے کانپنے لگی۔۔۔اسے خیال آیا ۔۔۔باپ اوپری منزل میں ہوتا ہے تو ماں بولائی بولائی پھرتی ہے ۔۔۔باپ نیچے ہو تو اوپر چیزوں کا پٹخنا اور چلانا بڑھ جاتا ہے ۔
برکتے کے خارشی اور مالشی سیشن لمبے ہوتے گئے ۔انجو کے لئے برکتے کے ہاتھ سیاہی چوس بن گئے ۔اس کی ضد ،گفتگو کی کڑواہٹ ،بغاوت کا زہر ۔۔۔برکتے کے ہاتھ چوسنے لگے ۔۔۔دھیرے دھیرے ۔۔۔دیر دیر تک!
ماں نے سُکھ کا سانس لیا۔ڈاکڑ کی عدم موجودگی میں وہ کئی بار اب حنا کے ساتھ اپنے بھائی کے ساتھ شاپنگ وغیرہ کو چلی جاتی کہ گنگو بچیوں کو لانے لے جانے پر مامور تھا۔
لیکن سمندر کی پرسکون سطح کے نیچے جوار بھاٹے اُبل رہے تھے ۔۔۔جلد ہی سونامی آگیا ۔۔۔۔ماں نے منہ لپیٹ لیا۔۔۔بات انجو کی ہوتی تو ۴۴۰ واٹ کا کرنٹ نہ لگتا ۔۔۔یہ تو رابعہ تھی ماں نے گنہ گار کا نام پوچھا ۔۔۔رابعہ ٹک ٹک غنودگی لئے آنکھوں میں دیکھتی رہی ۔برکتے کی طلبی ہوئی ۔۔۔اسے کچھ خبر نہ تھی ۔۔۔۔سب کو سختی سے منع کردیا گیا کسی کے منہ سے بات نہ نکلے۔۔۔
آخر مارپیٹ کے بعد رابعہ نے گنگو کا نام لے ڈالاکہ شہرِنارسائی تک اسی بھدے کالے بے ڈھنگے گنگو کی رسائی تھی ۔Beauty of Beast کا خیال شاید کسی ایسی گھٹن زدہ فضا کے کسی کھلے دریچے سے نکلا ہوگا۔
پردہ دار عورت کہاں جاتی ۔۔۔کئی بار اوپر کی سیڑھیاں چڑھی اتری۔۔۔۔آخر ہمت کر کے حنا کے پاس جا بیٹھی ۔۔۔اسے مشترکہ شوہر کی عزت کا واسطہ دیا ۔۔۔حنا نے طعنہ دینے کو منہ کھولا تو ثمینہ نے اس کے گھنٹوں پر ہاتھ رکھ دئیے’’حنا یہ طعنوں کا وقت نہیں۔۔۔رابعہ اور سونی کی رگوں میں ایک ہی باپ کا خون دوڑ رہا ہے کل کلاں۔۔۔‘‘ حنا نے بات کاٹ کر مدد کا وعدہ کرلیا ۔
ڈاکڑ نے چند دن کراچی جانا تھا ،اس کی غیر حاضری میں رازداری کے ساتھ مسئلہ حل کرنے کا سوچا گیا۔آخر حنا کی نرسنگ کام آنے والی تھی۔۔۔۔فلائیٹ کینسل ہوگئی ۔۔۔ڈاکڑ اچانک گھر پلٹ آیا ۔کاروائی جاری تھی ۔۔۔ڈاکڑ کو ائرپورٹ چھوڑنے کے بعد چابی مالی کے حوالے کر کے گنگو بیوی سمیت غائب ہو چکا تھا ۔گھر کی عزت کا جنازہ۔۔۔۔ڈاکڑ کے کاندھوں پر رکھ کر۔۔
اور وہ جو بدصورت بھدا گنگو کو گھر پر رکھ کر مطمئن تھا ،سر پکڑ ے اب سوچ رہا تھا کم بخت بہتر شکل و صورت کا ہوتا تو کوئی نہ کوئی خاندانی پیوند لگا کر ٹاٹ کے ٹکڑے کو مخمل بنا دیتا۔۔۔پر اب رابعہ کو زہر کا ٹیکہ لگا دوں یا خود زہر پی لوں؟ 
تبھی وہ رابعہ ۔۔۔جس کی آنکھیں روشنی میں پوری کھل نہیں پائی تھیں ۔۔۔چیختی چلاتی اندر سے برآمد ہوئی ۔۔۔پیچھے پیچھے بوکھلائی ہوئی ثمینہ اور حنا۔۔۔
رابعہ نے شعلہ اگلتی آنکھوں سے باپ کو دیکھا اور سینے پر دوہتر مارتے ہوئے بولی ’’ خبردار جو میرے بچے کو مارنے کی کوشش کی کسی نے۔۔۔۔
گھر میں کسی مرد کو آنے تو دو ۔۔۔۔چاہے وہ گنگو کی ہی اولاد ہو ‘‘
دھڑدھڑ دھڑ ڈاکڑ پر دیواریں اور چھت گرنے لگی تھیں۔
۔۔۔۔۔ ختم شد۔

Read 3490 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com