الجمعة, 02 كانون2/يناير 2015 13:28

دکاندار: شفان حسن، اسلام آبا د

Rate this item
(0 votes)

 دکاندار
 شفان حسن، اسلام آبا د


                           گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں نہرکے پانی میں جی بھر کر نہانے کے بعدہم تین دوست اپنی،اپنی سائیکل پر سوار، تروتازہ و مسرور گپیں ہا نکتے گھروں کو رواں دواں تھے۔ نہر،شہر سے زیادہ دور نہ تھی، چنانچہ ہم جلد ہی اپنے محلے کے قریب پہنچ گئے۔ ذرا آگے آئے تو ایک عجیب سی افراتفری نظر آئی۔ ہم سائیکل سے نیچے اتر آئے، اور اپنی،اپنی سا ئیکل کو گھسیٹے آگے کی طرف پیدل چل دئیے۔ نعیم اور راشد میرے گھر سے پہلے مڑ جانے والی گلی میں رہتے تھے،لیکن اس عجیب سی صورتحال نے مجھ سمیت ان میں بھی تجسس پیدا کر دیا تھا، لہذا وہ دونوں بھی میرے سا تھ میرے گھر والی گلی میں داخل ہو گئے۔ میرا گھر محلے کے سب سے آخری کونے میں ایک لمبی گلی میں تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر با ہر گلی میں کھڑے ہوئے تھے۔ اب دل میں وسوسوں کی ایک قطا ر اٹھنا شروع ہوئی،جس سے اس وقت مجھے شناسائی تھی،وہ کسی کی وفات کی خبرہو تی تھی چنا نچہ میرے ذہن میں ان تما م لو گوں کی شبیہیں چلنے لگیں، جو بیما ر تھے اور میرے نام نہاد شعور کے مطا بق مو ت ان کی اگلی منزل تھی! بشیرن ْبوا، دادا فضل اور اعجا ز نشی۔ ہما رے تئیں اگر مو ت کو کسی شکا ر کی تلا ش تھی تو یہی تو وہ لو گ تھے، با قی سب تو نہ اسقدر بو ڑھے تھے اور نہ ایسے بیما ر کہ دنیا چھو ڑ جا ئیں؟
لیکن دوسرے ہی لمحے یہ خیال بجلی کی سرعت سے ذہن میں کْوندا کہ ان سب لوگوں کے گھر تو پیچھے چھو ڑ آیا ہوں؟پھر یہ شور یہاں؟ اسی طرح کے خیالات کو جھٹکتے اور لو گوں کو افسردہ کھڑے دیکھتا ہوا، اپنے گھر کی طرف بڑھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ سب سے زیا دہ لو گ ہما رے گھر کے آس پا س ہی جمع تھے۔ بھا نت بھا نت کی آوازیں آرہی تھیں۔ کو ئی کہہ رہا تھا چولہا پھٹ گیا اور آگ لگ گئی۔ ایک صاحب شارٹ سرکٹ کو آگ لگنے کی وجہ بتاتے تھے۔ اب میر ا دل بیٹھ گیا، دل میں خیالات کی ان دیکھی اور ڈراونی تصویریں اْبھرتی رہیں، میں نے ساری ہمت اکٹھی کی اور دیوانہ وار گھر میں دوڑتا ہوا داخل ہوا۔ گھر میں ایک ہجوم تھا، خواتین آہ و زاری کر رہی تھیں۔چا رو ں طرف نظر دوڑائی لیکن اپنے گھر کا کوئی فرد نظر نہ آیا۔ اب تو جیسے پاوٗں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ میری سماعتوں پر وہ تجزئیے تا بڑ توڑ حملے کر رہے تھے جو میں نے گلی میں سے گزرتے ہوئے سنے تھے۔میں نے جا کر کچن دیکھا وہاں آگ لگنے کے کو ئی آثا ر نہ تھے، بجلی کی سب تا ریں دیکھیں، صحیح سلامت نظر آئیں۔
میں عمر کے جس حصے میں تھا، مجھے کسی نے کچھ بتانا مناسب نہ سمجھا۔ قریب تھا کہ دل پھٹ جا تاکہ دفعتارشیدہ آپا دکھائی دیں۔وہ کہنے کو تو سب لوگوں کی آپا تھیں،مگر پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں والی تھیں۔ میں بے چینی سے ان کے سامنے جا کھڑا ہوا، اور ان سے پو چھا، آپا کیا ہوا؟
ان سے لفظ تو نہ بن پڑے مگرانھوں نے مجھے کھینچ کر اپنے گلے سے لگالیا اور زارو قطار رونا شروع کر دیا۔ میں نے حو صلہ کر کے پھر پوچھا آپا آخر ہو ا کیاہے؟
انھوں نے اپنی پور ی توانائی جمع کی اور کہنے لگیں۔ افضال بیٹے!تمہاری بہن جل کر مر گئی۔۔۔۔یہ سننا تھا کہ مجھے لگا جیسے آگ تو میرے بدن میں لگ گئی ہے۔۔شعلے بلند ہوئے، میں دہکتا گیااور آپا رشیدہ کی گود میں کو ئلہ ہو گیا۔ مجھے خبر نہ تھی کہ اسوقت اٹھنے والی آگ پر میرے اور آپا رشیدہ کے کتنے آنسو گرے۔مگر اب میں اس قابل ہوگیا کہ میں نے پوچھا آپا، کب اورکیسے لگی آگ؟ جواب میں آپا نے کچھ نہ کہا اور خاموش ہو گئیں۔ میں جلدی سے با ہر آیا نعیم اور راشد کو بتایاکہ کیاقیامت ہم پہ ٹوٹی ہے، ہم تینوں ملکر ایسے رونے لگے، جیسے ہما ری ماں ہم سے چھن گئی ہو۔ تھوڑے، تھوڑے وقفے کے بعد ہم خاموش ہوتے اور فریدہ آپا کی کوئی بات کرکے پھر رو پڑتے۔
فریدہ آپامجھ سے 25سال بڑی تھیں، اور اپنے میاں اوردوبیٹوں کے ساتھ ہم سے کچھ دور ایک اور محلے میں رہا کرتی تھی۔ وہ مجھے اور میرے دونوں قریبی دوستوں کواپنے بچوں کی طرح چا ہتی تھی۔ہم روزانہ ان کے ہاں بہت سا وقت گزاراکرتے تھے۔ وہ ہمیں اپنے بچوں کی طرح کھلاتی،پلاتی۔ استانیوں کی طرح ڈانٹتیں اور پڑھائی نہ کرنے پر چھوٹی بہنوں کی طرح روٹھ جا یا کرتیں۔ پھر ہم تینوں کھڑے کھڑے دونوں ہاتھوں سے کا ن پکڑکر اس سے معافی مانگتے، اور وعدہ کرتے کہ اب دل لگا کر پڑھائی کریں گے۔ وہ پھر خوش ہو جا تیں اور پھر مغرب کی اذان سے پہلے ہمیں گھر بھیج دیا کرتیں۔ علی بھا ئی اکثر کہتے، فریدہ مجھے لگتا ہے، تمہارے دو نہیں پانچ بیٹے ہیں۔اور مسکرا کہ کہا کرتیں، جی آپ ٹھیک کہتے ہیں، یہ بھی میرے بچے ہیں۔
روتے روتے ہم اپنی ماں جیسی بہن کے گھر چلے جا تے تھے۔ راستے میں ان کے محلے کے لوگ کھڑے تھے۔خواتین علیحدہ ٹولیاں بنا ئے کھڑی تھیں۔ ایک آواز بلند ہوئی پا نچ بیٹوں کو اپنے پیچھے چھو ڑ گئی۔۔ بیچاروں کی ابھی عمر ہی کیا تھی؟ ایک خاتون بولی۔نکھٹو اور جواری شو ہر کے ساتھ رہنا آسان نہیں تھا، اکژ لڑتے رہتے تھے دونوں، پھر بھلا فریدہ کیا کرتی؟ اس لئے فریدہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ لیکن ہم نے تو ایسا کبھی نہ دیکھا تھا، میں نے دل میں سوچا! فریدہ کے گھر کے با ہر ایک اور خا تون کہہ ر ہی تھی کہ میں تو جھوٹ نہ بو لوں گی، میں نے اپنے کا نوں سے سنا تھا، علی اسے جو ئے میں ہا ر گیا تھا۔ کل اسی با ت پہ لڑائی شروع ہو ئی تھی،مگر مجھے یہ نہ اندازہ نہ تھا کہ علی اسے جلا ہی دے گا؟ کہتا تھا فریدہ اپنے باپ کے گھر سے پیسے لادو، تو بچ جا ؤگی ورنہ اس کے سوا کو ئی چارہ نہیں کہ میں تمہیں ان لو گوں کے حوالے کر دوں جن سے ہاراہوں۔ میرادل چاہا کہ میں اپنی پوری قوت جمع کر کے چیخوں، تم کیسے محلے دار ہو، کہ نہیں جا نتے کہ علی کی دکان تو پورے علاقے میں مشہور تھی۔ اس کا کا م ٹھیک ٹھاک تھا۔ وہ اگر جو اری ہوتا تو دکان اب تک کیسے چلتی رہتی؟ ان کے دونوں جڑواں بچے،جو شادی سے پندرہ سال بعدپیدا ہوئے تھے، کیوں شہر کے سب سے مہنگے اور بہترین سکول میں پڑھ رہے ہوتے؟ گھر میں ہر وہ چیز کیوں مو جو د ہوتی جس سے اس گھر کی خوشحا لی کا اندازہ ہوتاتھا؟
جیسے تیسے ہم فریدہ آپا کے گھر پہنچے۔ میرے گھر والے وہاں پہلے سے موجود تھے۔میرے بو ڑھے ماں،با پ کمرے کے درمیان میں بچھی ہوئی ایک چارپائی پر پڑے ہوئے راکھ کے ڈھیر کے پاس بت بنے ہوئے بیٹھے تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں آپا کے شوہر علی بھائی، زمین میں نگاہیں گاڑے بڑے انہماک سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہے تھے۔ ان کے دونوں با زؤں کی اوپر والی جلد ایسی لگ رہی تھی جیسے بہت دیر آگ کے الاؤ میں رہنے کی وجہ سے بھن گئی ہوں۔ نہ جا نے کتنا وقت گزراہو گا جب مجھے کسی نے کا ندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور کہا۔ا فضال بیٹا! اپنی بہن کے کفن دفن کا انتطام تمیں دیکھنا ہے۔ تمہارا بو ڑھا باپ اور بہنوئی تو صدمے کی حالت میں ہیں۔ جا ؤ سب سے پہلے جا کر مسجد میں انتقال اور نما ز جنا زہ کا اعلان کرا دو۔یہ چچا کر امت تھے جنہوں نے مجھے اعلان کے یہ الفاظ بتائے فریدہ بنت محمد اکبر، زوجہ محمد علی بہ رضائے الہی انتقال کر گئیں ہیں۔میں نے بے یقینی کی حالت میں اس طرف دیکھا جہاں فریدہ آپا کی چارپائی پڑی تھی،میرا دل چا ہا کہ فریدہ آپا کوئلے کے اس ڈھیر سے اٹھ کھڑی ہوں اور پکا ریں، افضال بیٹا ادھر آؤ، کہاں رہے تم؟اور پھر اپنی گود میں میرا سر رکھ کر سارے دن کی تفصیلات پوچھیں۔ لیکن،ایسا نہ ہوا۔ چچا کرا مت نے مجھے پھر متوجہ کیا! اوریہ کہ نما زجنا زہ عشاء کی نما ز کے بعد مرکزی جنا زگاہ میں ہو گی۔
وہا ں سے با ہر آ کر ہم تینوں دوست سب سے قریبی مسجد میں گئے۔مو لوی صاحب ایک گا ؤ تکئے کے ساتھ ٹیک لگائے مسجد کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے جا کر مدعا عرض کیاکہنے لگے، ارے او بد بختو! کہا ں کا اور کیسااعلان؟ حرام مو ت مرگئی ہے وہ، تم مجھ سے اعلان کرنے کا کہہ ر ہے ہو؟ کیو ں میری نیکیوں کو بربا د کرنے کے درپے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خود کشی کرنے والے تا قیا مت جہنم میں جلتے ہیں؟۔ کچھ دین کی سمجھ بھی ہے یا نہیں؟ دنیا کی تعلیم کے پیچھے تو بہت بھاگتے پھرتے ہو! میں انہیں کچھ بھی جواب نہ دے سکا۔ ہاں مجھے یہ ضرور پتہ تھا کہ، مو ت کیسی ہی ہو، مرنے والے کو د فن ضرور کیا جا تاہے لیکن، حرام اور حلال موت،یہ تصور میرے لئے عجیب تھا۔ میں سوچنے لگا کہ یہ حلال اور حرام موت کیا ہوتی ہے؟کیا موت کی ان دو قسموں کے علاوہ بھی کچھ اور اقسام ہیں؟کسی ایک ذی روح کا ثواب اور گنا ہ کسی دوسرے کے حصے میں کیسے آ جا تا ہے؟ یہ سوال بھی میرے ذہن میں تھا کہ ایک اعلان کرنے سے مولوی صاحب کی نیکیاں کسیے ضائع ہوں گی؟ میں نے اپنے دوستوں قبرکی تیاری اور کفن کی خریداری کیلئے بھیجااور خو د اگلی مسجد کی طرف روانہ ہو گیا، جو کہ اس مسجد سے تھو ڑے ہی فا صلے پر تھی۔ مو لوی صاحب ہاتھ بھر لمبی د اڑھی کو خضاب سے رنگنے میں مشغول تھے۔ انھیں سلام کیا، سر ہلا کر بے اعتنا ئی سے جواب دیا، میں ان کی مصروفیت کے ختم ہو نے کا انتظار کررہا تھا۔ کہنے لگے کیوں بھئی کسیے آنا ہوا؟ آج مسجد میں کیسے؟ تم تو عیدین پر ہی نظر آتے ہو یہاں؟ میں نے آنے کا مقصد بتا یا۔ ایک دم جلال میں آگئے، کہنے لگے۔ مسجد کا لا وٗڈ سپیکر ان غیر شرعی کا موں کیلئے نہیں ہے۔ اور فو را استغفار، استغفار کی تسبیح شروع کر دی۔ چھوٹا سا شہر تھا، فریدہ آپا کی مو ت کی خبر قریب کے سا رے محلوں میں اسی ڈھب اور رنگ سے پہنچ چکی تھی جیسے لوگ بلا تحقیق با تیں بنا رہے تھے۔ میں نے سوچا یہ شرعی اور غیر شرعی کیا ہوتا ہے؟ کیا میرا مولوی صاحب کے پا س آنا اور ان سے اعلان کا کہنا غیر شرعی ہے یا ان کا مجھے انکا رشرعی؟ مولوی صاحب جب سے اس مسجد میں آئے تھے انکے لئے دو وقت کا کھا نا فریدہ آپا کے یہاں سے با قاعدگی سے میرے بھانجے لیکر آیا کرتے تھے۔ مولوی صاحب اہل محلہ سے باقاعدہ تنخواہ لیا کرتے تھے، اپنے گھر کا کھا ناانہیں خا ص پسند نہ تھا۔ علی بھائی سے ایک دفعہ انھوں نے اس کا ذکر کیا تو علی بھا ئی نے ان کو کھا نا پہنچانے کا ذمہ اٹھا لیا تھا۔ تو کیا یہ سب شرعی تھا؟ فریدہ آپا کو ئلوں کا ڈھیر بنی اگر یوں ہی پڑی رہے اور مٹی کو بھی ترسے تو وہ شرعی ہے یا غیر شرعی؟ تو پھر رب کائنات کا کرم کس پہ ہوگا؟ ہم پر، فریدہ پریامولوی صاحب پر جو ہر وقت اللہ کے گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں؟
بچپن سے دیکھتے آئے تھے جو بھی انتقال کر جا تا، اس کا اعلان مساجد کے لاوٗڈ سپیکر سے ہی ہوتا، نما ز جنا زہ پڑھائی جا تی اور پھر قبرستان میں جا کر مرحوم کو مٹی کے حوالے کر دیا جا تا۔میں بھی تو یہی سب کرنے کا سوچ رہا تھا۔ فریدہ آپا کا شفیق چہرہ میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹتا نہ تھا۔ وہ نما ز کی پا بندی کرتی تھیں، غربا ء کی دل کھول کر مدد کرتی تھیں۔ محلے والیاں اسکا دم بھرتی تھیں۔ پھر یہ اچا نک کیا ہوا۔؟ لو گ کیوں ایسے ان کے بارے میں با ت کررہے ہیں۔؟

یہی سب سوچتا میں اگلی مسجد کی طرف روانہ ہو گیا، جونسبتا دور تھی۔ میں مولوی صاحب کی طرف سے برتی جا نیوالی بے اعتنا ئی پہ حیران ہورہا تھا کہ مجھے یا د آیا کہ سال بھر پہلے سردی کے شدید موسم میں ایک کتے کو زخمی حالت میں اٹھا کر میں نے تھو ڑا سا گرم دودھ پلا یا تھا۔ اور ایک عدد پرانی بوری، اس کے اوپر سردی سے بچا ؤکیلئے ڈال دی تھی۔ چند دن محض اتنا خیال رکھا کہ محلے کے شریر بچے اسے تنگ نہ کریں۔ پھر وہ بھلا چنگا ہوگیااور اپنے جیسے دوسروں کے ساتھ جا ملا۔ کچھ دنوں بعد میں شا م کو کھیل کود کر تھو ڑا لیٹ گھر وآپس ا ٓرہا تھا، تو مجھے گلی میں آتے دیکھ کر اور شاید اجنبی جان کر دو عدد کتے اکٹھے ہو گئے، اور میری طرف بڑھتے ہوئے، بھو نکنے اور غرانے لگے۔ میں شدید خوفزدہ تھا، اور یہ فیصلہ نہ کر پاتا تھا کہ کہاں جا ؤں؟ اتنی دیر میں ایک اور کتا آنکلا، اب تو جیسے میرے اوسان ہی خطا ہو چلے تھے۔ لیکن میں نے دیکھا تیسرا کتا میری طرف نہیں بلکہ، دوسرے دونوں کتوں پر پورے غیض و غضب سے بھونک رہے تھے۔ یوں غراتے ہوئے اس نے دونوں کو وہاں سے جا نے پر مجبو ر کر دیا۔ میرا حو صلہ کچھ بڑھ چکا تھا۔ میں اس غیبی امداد پر خو ش تھا اور اپنے گھر کی طرف بڑھتا جا تا تھا۔ میرے گھر کے دروازے تک وہ میرے پیچھے چلتا آیا۔ دروازے کے با ہر موجود روشنی میں مجھے اسے پہچاننے میں ذرا دیر نہ لگی۔ یہ وہی سفید رنگ والا کتا تھا، جو ایک دن زخمی حالت میں پڑا سردی میں کا نپتا تھا۔اور جسے میں نے اپنی توجہ کے صرف چند لمحے دئے تھے۔ اور گھر سے تھو ڑا دودھ لا کرپلایا تھا۔ میں اس دن کو یا د کرتا ہوا،ایک اور مسجد میں پہہنچا۔
اما م مسجد وضو والی جگہ پر بیٹھے اپنے استعمال کے برتن دھو رہے تھے۔ پا س ہی وہ چٹائیاں جن پرلوگ نماز پڑھتے ہیں، پر انھوں نے اپنے گیلے کپڑے دھو پ میں سوکھنے کیلئے پھیلائے ہوئے تھے۔ میں انھیں بیٹھ کر دیکھتا رہا تو، ایک دم سے چونک گئے، خود ہی سلام میں پہل کی، محبت سے بولے بیٹا! کیوں افسردہ ہو۔؟ خیریت تو ہے۔؟
میں سلام کا جواب دے کر کہا! مولوی صاحب موت کے بعد کسی بھی شخص کے ساتھ کیا معاملہ ہونا ہے، اس کا علم خدا کے علاوہ اور کس کس کو ہو سکتاہے۔؟ وہ غور سے مجھے دیکھتے رہے پھر بولے، بیٹا،اس چیز کا علم میرے رب کے علاوہ کسی کو بھی نہیں ہو سکتا! میں نے پھر پوچھا، فرض کریں ایک شخص حلال موت مرا او ر دوسرا حرام موت، کیا کوئی آج یہ کہہ سکتا ہے،کہ ان میں سے کون خدا کے غضب یا رحمت کا شکار ہو گا۔؟ بولے، بیٹا اس چیز کے فیصلے کا اختیار صرف اور صرف اللہ کی پا ک ذات کو ہے۔ یہ سنناتھا کہ میں نے جلدی سے انھیں بتایاکہ میری بہن کا انتقال ہو گیا ہے، لوگ کہتے پھر رہے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ خو د کر لیاہے۔ مجھے ان کے انتقال اور جنازہ کی نماز کا اعلان کروانا ہے۔ انھوں نے مجھ سے اعلان کے لئے درکار معلومات لیں۔ اگلے ہی لمحے لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہو گیا۔ واپس آ رہا تھاکہ گلی کے نکڑ پر چچا کرامت ملے، کہنے لگے بیٹا، نماز جنا زہ کون پڑھائے گا۔؟
میں بولا، چچا آپ پڑھا دیجئے۔؟ کہنے لگے بیوقوف، کبھی ایسا بھی ہوا ہے، یہ کا م تو مولوی صاحبا ن کاہے۔ میں کیسے پڑھا ؤں۔؟
جوابامیں نے کہا میں نے عا م لوگوں کو نما ز کی اما مت کراتے دیکھا ہے، تو نما ز جنا زہ بھی تو پڑھا ئی جاسکتی ہو گی۔؟ کہنے لگے یہ آج کل کی نسل بھی نہ۔۔۔ دین کی سمجھ نہیں اور لگے ہیں بڑی، بڑی با تیں کرنے! چچا مجھے نما ز جنا زہ کا سارا طریقہ اور اس میں پڑھی جا نیوالی سا ری دعائیں، فریدہ آپا نے یا د کروائی تھیں۔ میں پڑھا دوں؟ کہنے لگے، نہ تمہا ری پوری داڑھی ہے، اور تم تو قرآن کے حا فظ بھی تو نہیں؟ چچا دین میں کتنی دا ڑھی پوری ہو تی ہے، کیا آپ جتنی دا ڑھی پو ری میں شما ر ہوتی ہے؟میری بہن کیلئے مجھ سے زیا دہ کو ن دعا کر پائے گا؟ کہنے لگے افضال تمہیں کچھ پتہ نہیں، جا وٗ جا کر فلا ں مدرسہ میں قاری عبدالرشید صاحب سے کہو، وہ پڑھا دیں گے۔ بڑے خدا ترس آدمی ہیں۔ میں سو چتا جا رہا تھا، اے میرے اللہ، کا ش میری داڑھی مولوی صاحب جتنی لمبی ہوتی اور میں قرآن کا حا فظ ہو تا تو اپنی آپا کے لئے کچھ تو کر سکتا۔۔۔ مدرسہ میں قاری صاحب سے نما ز مغرب کے بعد ان کے حجرے میں ملا قات ہوئی۔ وہ آکر حجرے میں مو جو د نشست پر بیٹھے ہی تھے کہ مدرسہ میں مقیم دو طا لب علم آ کر ان کے پا ؤں دبا نے لگے۔۔۔ حجرہ کیا تھا، کتا بوں کی دکان تھی، ڈھیروں اسلامی کتا بیں وہاں پر مو جو د شیشے کی الماریوں میں سجی ہو ئی تھیں۔ قرآن و حدیث کے خوبصورت اور دیدہ ذیب نسخے تھے۔ کتا بوں کے نسخے ایسے لگ رہے تھے جیسے ابھی لا کر رکھے ہوں۔ میں نے انھیں جنا زہ پڑھا نے کیلئے درخواست کی۔ انھوں نے جگہ اور وقت کا پو چھا اور مجھے تسلی دی کہ وہ مقر رہ وقت پر پہنچ جا ئیں گے۔ میں واپس آنے کیلئے اٹھنے ہی والا تھا کہ کہنے لگے عا م طو ر پر میں کم ہی جا تا ہوں جنا زہ کی نما ز پڑھا نے کیلئے مگر چو نکہ تمہیں کرا مت صا حب نے بھیجا ہے، اور ویسے بھی خدمت خلق ہے، اس لئے تیا ر ہو گیا۔ کیا انھوں نے تمہیں کچھ اور بھی کہا؟ میں نے نفی میں سر ہلا یا۔ اپنی با ت جا ری رکھتے ہوئے کہنے لگے۔بیٹا، مدرسہ میں سینکڑوں بچے، دور دراز کے دیہات سے آکر پڑھتے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا، کہ شہر کے کیوں نہیں؟ وہ پھر کہنے لگے، تمہیں حسب توفیق نذرانے کا بندوبست کرنا ہوگا، ان معصوم بچوں کی ضروریا ت کے کا م آئے گا۔ مجھ پر تو اللہ کا بڑا فضل ہے۔ با ت سمجھ آنے پرمیں نے کہا جی ضرور قا ری صاحب! اور مدرسہ سے نکل کر فریدہ آپا کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
میت تیا ر ہو چکی تھی، نما زجنازہ کا وقت ہو ا چاہتا تھا۔جیسے ہی میت اٹھا کر ہم قبرستا ن کی طرف چلنے لگے، خواتین کے رونے کی آوازیں اور بلند ہوگئیں۔ ان میں وہ تما م بھی تھیں، جو اس المنا ک موت پر اپنے تبصرے بلا سوچے سمجھے اوریہ جانے بغیر کر چکی تھیں کہ با ت چلتی، چلتی کیا سے کیا ہو جا تی ہے۔۔۔ ایک خاتون شدید غمزدہ حال میں کہتی تھیں،ہما رے غریب گھر کو اب کون چلائے گا۔ ایک اور اٹھیں اور چلانے لگیں، میرے بچوں کے سکول کے تما م اخراجات اب کون پورے کر ے گا، کاش اے بیٹی تیری جگہ میں مر گئی ہوتی۔ میں حیران تھا کہ آپا یہ سب اتنے اہتما م اور خا موشی سے کیسے کر لیتی تھیں۔ چلتے، چلتے ہم ان دونوں مساجد کے پاس سے گذرے، جہاں وہ دونوں مولوی صاحبان ہم نے دیکھے، جو آپا کی موت کو حرام قرار دے چکے تھے، حالا نکہ انھوں نے اس ضمن میں کو ئی تحقیق و تصدیق کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ جیسے ہی جنا زہ انکے سامنے سے گذرا انھوں نے عجیب طرح سے جنا زہ میں شریک لوگوں کو دیکھا۔ کچھ دیر میں ہم جنا زگاہ پہنچے۔ یہ دیکھ کر میر ی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ تقریباَ سو لوگوں پر مشتمل جنازہ اب سمٹ کر تیس سے چا لیس لوگوں تک محدود ہو گیا تھا۔اس بیچارگی پر میرا دل بھر آیا،اور میں نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا، دیکھا دیکھی آسمان پر بادل چھا گئے۔ اور موسم خوشگوار ہوگیا۔قا ری صاحب تشریف لا چکے تھے۔ انھوں نے مو سم دیکھ کر ہمیں جلدی کرنے کا کہا اور نما زجنا زہ شروع کی۔ نما ز کے دوران مجھے آپا فریدو کا شفیق چہرہ مسکراہتا ہو ا نظر آتا رہا۔ اسکے بعد نعیم، راشد اور دوسرے لوگوں نے میت کو لیکر ملحقہ قبرستان کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ مجھے قاری صاحب کو نذرانہ دینا تھا۔ میں ان کے پا س گیا اور انکا شکریہ ادا کرکے، ان کی ہتھیلی پر 500روپے رکھ دئیے، انھوں نے پیسے دیکھ کر شدید نا گواری کا اظہار کیا، بولے، او میاں! تمہاری بہن خودکشی کرکے مری ہے، تم نہیں چاہتے کہ اس کی بخشش ہو؟ اتنے پیسے تو ہم عام موت کے لیتے ہیں۔ کیا مغفرت نہیں کروانی؟ میں نے اپنی جیب سے سا رے کے سارے پیسے نکا لے اور دیکھے اور گنے بغیر انکی ہتھیلی پر رکھ دئیے اور قاری صاحب کو دیکھے اور ملے بغیر قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا، جہاں آپا کاہنستا مسکراتا چہرہ مجھے پکارتا تھا! (شفان حسن۔ اسلام آبا د)

Read 2927 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com