آئیڈیل
مہتاب عالم پرویزؔ
(کویت)
وہ اُسے برابر دیکھا کرتا ہے۔
سُورج جب اُفق کے میلے آنچل میں اپنا چہرہ چھپانے لگتا تو وہ آتی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ وہ گھنے درختوں کے درمیانی راستوں سے گذرا کرتی ہے۔
وہ اُسے برابر دیکھا کرتا ہے۔
انسان جب کسی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے تو اُس کو اپنے اندر سمولینا چاہتا ہے۔ وہ بھی اُس کی چال پر مرمٹا۔ اس کے جسم کی آگ میں کتنی ہی لڑکیاں جھلس چکی تھیں پر آج بھی وہ آگ ویسے ہی بھڑک رہی ہے۔
سُورج کو رات نگل گئی۔
جب سانسوں کی تیز رفتار نارمل ہوئی تولڑکی نے کہا۔
”مجھے کپڑے پہنادو۔“
”کیا تم خود نہیں پہن سکتی۔“
”نہیں مَیں نہیں پہن سکتی۔“
”کیوں؟“
”اِس لیے کہ میرے پاس ہاتھ نہیں ہیں ...“
”تمھارے ہاتھوں کو کیا ہُوا؟“
”اِن میں کوڑھ ہے۔“
انسان جب کسی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے تو اُس کو اپنے اندر سمولینا چاہتا ہے۔
وہ اب بھی اُسے دیکھا کرتا ہے۔