(افسانہ)
چتون کی چترائی
مہتاب عالم پرویزؔ
(اپنی شریکِ حیات نغمہ ناز مکتومیؔ کے نام )
میں خبروں کا پیامبر ڈھونڈ رہی تھی، تپتی ہوئی دُھوپ تھی، ایک تلاش تھی اور میں تھی۔ میں نے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا... وہ ہمیشہ کی طرح نیلا تھا۔ پرندوں کا ایک خوبصورت جوڑا نیلے آسمان کی انتہائی وسعتوں میں پرواز کررہا تھا۔ بالکل اس طرح جیسے وہ اپنی دِشاؤں سے بھٹک گیا ہو...
دُور برگد کی گھنی چھاؤں میں اس کی لچکتی ہوئی ڈالیوں پہ جھوم جھوم کر لڑکیاں گیت الاپ رہی تھیں۔ اور نہ جانے کیوں میرا دل بیٹھا جارہا تھا:
پنگھٹ کا چِت چور کھوگیا چتون کی چترائی میں
بھری گگری یا خالی ہوگئی ایک بے سدھ انگڑائی میں
ٹونا مار گیا بیراگی جوگن کھا گئی مات
اور میں سوچ رہی تھی کہ اس گیت سے میرا کیا رشتہ ہے۔ آخر کیوں؟ماضی کی شدید یادوں نے کل مجھے مضطرب رکھا۔ دن اضطراب میں گزرا۔ اور ساری رات کروٹیں کیوں بدلتی رہی؟
گیت اب بھی جاری تھا:
ہری ُچنریا کھیت کی مہکے فصلوں کی رعنائی میں
ماضی کی تصویریں اُبھریں دیواروں کی کائی میں
پاؤں میں چبھ چبھ جائے مہاور مہندی کس گئی ہات
اور میں تھی کہ سوچے جارہی تھی۔
میرا بچپن تو گاؤں کی ان ہی وادیوں میں گزراتھا۔ دُور دُور تک پھیلی ہوئی پگڈنڈیوں پر کھیلتے کودتے میں جوان ہوئی تھی۔ اور گزرتے دنوں کے دامن میں وہ یادیں بھی جواں ہوتی رہیں۔
انتظار میں موسم گزرتے رہے۔ اس بار بھی گرمیوں کی چھٹیاں آئیں۔ اور شاید اب گزر بھی جائیں گی۔ نہ جانے یونہی کتنے موسم اور بیت جائیں گے...
گیت کے رسیلے بول اب بھی فضا میں گونج رہے تھے۔ اور میرے خیالوں میں سوچ کی دُنیا آباد ہوگئی تھی۔ تمھارے ساتھ چلتے چلتے مَیں گاؤں کی اُن ہی پگڈنڈیوں پر آج پھر لوٹ آئی تھی اُن قدموں کے نشان ڈھونڈنے... کوئی پیامبر تلاش کرنے یا صرف لمس محسوس کرنے کے لیے۔ لیکن یہاں پہنچ کر یادیں اور بھی زندہ ہوگئیں۔ اُن قدموں کے نشان تو نہیں ملے۔ شاید گردشِ زمانہ نے اُن نشانات کو بالکل مٹا دیا تھا...
لیکن میرے دل کی دہلیز کی نم مٹّی پر تمھارے قدموں کے نشان آج بھی موجود ہیں۔ اور مٹّی کی سوندھی سوندھی خوشبو ہر وقت اُڑا کرتی ہے...
مَیں بچپن سے ہی تمھارے نام سے منسوب تھی شاید... بڑی ہوئی تو امّی نے احساس دلایا... پھر میں کھوئی کھوئی سی رہنے لگی تھی۔یادوں کے دُھندلے نقوش تازہ ہوگئے تھے۔ موسمِ گرماکی چھٹیاں تمھاری یہیں گزرا کرتی تھیں۔
میں تھی، تم تھے، ڈھیر سارے کھلونے، اور گڈے گڑیا کی شادی میں گزرتی ہوئی وہ شامیں تھیں۔ دُھندلی دُھندلی سی جن کے لمس کا احساس آج بھی تازہ ہے۔
جب تم پہلی بار گاؤں آئے تھے۔ امّی کس قدر خوش ہوئی تھیں تمھیں دیکھ کر، اور مَیں جل بھُن ہی تو گئی تھی۔ ایسی بات نہیں تھی کہ تم مجھے اچھے نہیں لگتے تھے۔ تمھارا وہ گڈا کتنا حسین تھا۔ ٹھیک تمھاری طرح اورویسے تم بھی تو کسی شہزادے سے کم نہیں لگتے تھے۔ اور میری گڑیا گاؤں کی الہڑ سی ایک گنوار لڑکی تھی۔
مَیں سیدھی سادی زمانے کے نشیب و فراز سے ناواقف، محبت اور چاہت جیسے جذبات و احساسات سے ناآشنا، حالانکہ دل میں ارمانوں اور تمنّاؤں کا لامتنا ہی سلسلہ تھا۔ اور ذہن میں حسین و دلکش تصوّرات کا سُنہرا جال، جس میں اُلجھی اُلجھی سی میں، اور تاروں بھری راتوں کی کئی نہ ختم ہونے والی کہانیاں۔
وہ تاروں بھرا سیاہ آسمان چاند کا روشن چہرہ... تیز ہواؤں کے مست جھونکے... شانوں سے ڈھلکتا میرا آنچل...
تم بار بار میری طرف دیکھتے تھے اور میں شرم کے بوجھ سے دوہری ہوجاتی... تم مسکراتے اور میرے اندر ایک زبردست طوفان جذبات کا اُٹھتا ہوا محسوس ہوتا۔
منتہاے نظر تک پھیلی ہوئی چاند کی چمچماتی چاندنی، مَیں اور تم...
موسم آتے رہے اور جاتے رہے، موسموں کے مزاج کا پرندہ بھی محوِ پرواز رہا۔ اور ایسے میں تمھارا لوٹ آنا کوئی نئی بات تو نہیں تھی... لیکن اب کی بار شاید مَیں تمھارے لَوٹ آنے سے بیحد خوشی تھی۔ اور تم نہ جانے سوچوں کی کون سی دُنیا آباد کررہے تھے؟
شاید شہر کی بھیڑ بھاڑ سے لوٹ کر آنے والے پرندے گاؤں کی اس کھلی فضا میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہے تھے۔ لیکن تم تو تنہا نہیں تھے... مَیں جو تھی تمھارے ساتھ؟
اور... تمھیں تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ شہر کے اُن ہنگاموں میں، اُس گھٹی گھٹی سی فضا میں تمھیں شدّت سے میری کمی کا احساس ہوتا رہا ہوگا۔ اور یہاں شہر کے اُن ہنگاموں سے دُور گاؤں کی تاروں بھری راتوں میں ... تمھارے خیالوں میں رچی بسی میں تمھارا پورا پورا ساتھ تو دے رہی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ تمھارے طور طریقے تمھارا رہن سہن تمھارا انداز... تمھارے خیالات مجھ سے بہت مختلف تھے۔ اور اتنا فرق تو یقینی تھی۔
یہی ایک تضاد تھا، جہاں فاصلے ہی فاصلے تھے... دُوریاں ہی دُوریاں تھیں ...
تمھاری خوبصورت سی وہ آنکھیں جب بھی میرا تعاقب کیا کرتیں تو میں اپنے آپ میں کچھ تلاش کرنے لگتی... کچھ ڈھونڈتی... وہ شے، جس کی تمھیں تلاش تھی۔ لیکن میں شاید تمھارے اس مفہوم کو سمجھنے سے قاصر تھی۔
ہر طرف پھیلا ہوا سہانا ماحول، لہلہاتے ہوئے کھیت، کچّی سڑکوں پر دُوڑتے ننگ دھڑنگ بچےّ، رنگ برنگے پرندوں سے بھرا آکاش، سبھی تو آزاد تھے۔ لیکن تمھارا شہر ان سب باتوں سے عاری تھا۔
میں جانتی تھی کہ تمھارا شہر اِن رنگ برنگے پرندوں کی آماجگاہ ہے۔ لیکن سبھی تو قیدی تھے۔ مایوس... مایوس... بجھے بجھے سے کیا کبھی تم نے اِن سبھوں کے حالات جاننے کی کوشش بھی کی تھی...؟
تم تو صرف ایک صیّاد تھے۔ ایک شکاری... لیکن شکار کرنا تمھارا پیشہ نہیں بلکہ محض تمھارا شوق تھا... اور تمھارے اس شوق میں نہ جانے کتنے پرندوں کے ارماں تمھاری ہوس کی نذر ہوگئے تھے۔
ایسی بات نہیں تھی کہ مجھے ان سب باتوں کا علم نہیں تھا۔ میں واقف تھی، میں جانتی تھی۔ سب کچھ جانتی تھی۔ اور سب کچھ جان کر بھی تو انجان تھی صرف اس لیے کہ میں بچپن سے ہی تمھارے نام کے ساتھ منسوب تھی۔ اور یہ ایک اٹوٹ رشتہ تھا تو پھر تم میں مجھ میں اتنا فاصلہ کیوں تھا؟ اتنی دُوریاں کیوں تھیں ...؟
مانا کہ میرے لب خموش تھے۔ مَیں تمھیں کسی بھی حالت میں کھونا نہیں چاہتی تھی اور نہ ہی خود کو منتشر کرنا، مجھے خوف تھا کہ گلاب کی پنکھڑیوں پہ گرا شبنم کا وہ قطرہ ہواؤں کے مست جھونکوں سے بکھرکر ہی نہ رہ جائے۔ بس ایک ہی احساس تھا۔ جسے میں اپنے سینوں میں دبائے خاموش تھی۔
پچھلی بار جب تم آئے تھے، تمھارے ساتھ یونہی شہر دیکھنے کی تمنّا جاگ اُٹھی تھی۔ اور تم نے وعدہ بھی کیا تھا۔ لیکن تم نے اپنے ان وعدوں کو ایفا نہ کیا۔ یا پھر یوں کہنا چاہیے کہ وعدہ تم سے وفانہ ہوسکا۔
انتظار میں موسم گزرتا رہا۔
خبروں کا پیامبر خبریں پہنچاتا رہا۔
افواہیں گشت کرتی رہیں ... اور برگد کی گھنی چھاؤں میں لڑکیاں اب بھی جھوم جھوم کر گیت الاپ رہی تھیں ...
آکاش بادلوں سے ڈھکنے لگا تھا اور گیت کے بول فضاؤں میں گونج رہے تھے:
چھم چھم ناچے گگن سانوری ساون کی انگنائی میں
انگ انگ سے چوٹ اُگائے آگ لگے پُروائی میں
پور پور چنگاری چھڑکے یہ بیرن برسات
--------
برکھا آنکھ مچولی کھیلے پینگوں پر امرائی میں
ڈوب گئی الغوزے کی لے کجری کی گہرائی میں
گوری کی دہلیز بھیگی مینہ، کی بوچھاروں کے ساتھ
اور ملاقات کی وہ آخری شام... جب تم شہر لوٹنا چاہتے تھے۔ ہوا میں میرا آنچل لہرایا، گھن گرج کے ساتھ ٹوٹ ٹوٹ کر بارش ہونے لگی۔ میری کھلی کھلی زلفیں اُڑنے لگیں۔ اور بیلے کا پھول بھی، جس کی خوشبو مٹّی کی سوندھی سوندھی خوشبوؤں میں بس کر عجیب سی مہک اُڑا رہی تھی۔
میرا دل چاہ رہا تھا کہ باہر نکل کر بارش میں خوب بھیگوں ... بھیگتی ہی رہوں اور شرابور ہوجاؤں۔ لیکن ایسا کچھ تو نہیں کرسکی تھی مَیں ... شاید اپنی فطری حیا کے باعث۔
”یہ موسم کیسا لگا تم کو...؟“
میں نے بس یوں ہی پوچھ لیا تھا۔
تم نے کچھ دیر خاموش رہ کر کہا تھا۔ ’نہ جانے یہ بارش کب تھمے گی۔؟ جانتی ہو مجھے جانا بھی ہے؟‘
’اگر تم کو جانے کی اتنی ہی جلدی ہے تو مَیں تم کو روکوں گی نہیں۔ اب تمھارا کیا ارادہ ہے جناب؟‘
میں نے شرارت بھرے لہجہ میں کہہ دیا تھا...
آہستگی سے ’خدا حافظ‘ کہہ کر تم بس یوں ہی بھیگتے ہوئے چلے گئے۔ میں تمھیں مناتے مناتے خود بھی رو پڑی تھی۔ لیکن تمھارے اوپر میرے آنسوؤں کا کوئی اثر نہیں ہوا...
تم چلے گئے بھیگتے ہوئے، میں بھی بھیگ رہی تھی، اپنے ہی آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی۔
تم تو چلے گئے تھے دُور بہت دُور اور میں تمھیں جاتے ہوئے بڑی خاموشی سے دیکھتی رہی۔ میری آنکھوں کے سامنے دُھندسی چھائی جارہی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا۔ جیسے تم نے مجھے انا کی صلیب پر لٹکادیا ہو۔ جیسے تم نے مجھے اُڑنے کی قوت دے کر میرے پنکھ تراش ڈالے ہوں۔
میرے دل میں عجیب کشمکش تھی۔ میں لاشعوری طور پر اُن راہوں پر چلنے لگی۔ جہاں کبھی ہم ساتھ چلے تھے۔
اور... تم...دُور... بہت دُور پرندوں کے غول میں کہیں کھو گئے تھے۔
موسم کا پرندہ اُڑتا رہا...
میرے اندر اتنی صلاحیت کہاں تھی کہ اُڑکر تم تک پہنچ سکتی... شاید میں بھی تمھاری قیدی بن کر رہ گئی تھی۔
مانا مَیں شہر کے اِن پرندوں سے بالکل جدا تھی۔ جدا میرے اپنے جذبات تھے... اپنے خیالات تھے۔ تم اتنے ضدی بھی تھے، یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا...
اس بار نہ جانے کیوں گاؤں کی فضا بھی بدلی بدلی سی ہے، ٹھیک تمھارے تیور کی طرح۔ گرم ہواؤں کی شدید لہریں میرے نازک سے وجود کو جھلساتی ہیں۔ دُھوپ کی تمازت میرے پروں کو جلاتی ہے۔ اور ویسے میرا انگ انگ تمھاری انا کی صلیب پر لٹکا یونہی جھلس رہا ہے۔
تمھارے پل پل کی خبر ان جھلستی ہواؤں کے دوش پر مجھ تک پہنچتی بھی ہے۔ پیامبر بن کر، ایک طرف تمھیں پالینے کی تمنّا مجھے زندہ رہنے پر آمادہ کررہی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ تم گئے موسموں کی طرح پھر لوٹ کر آؤ گے...
میری گڑیا... گاؤں کی ا ّلہڑسی سیدھی سادی ایک گنوار لڑکی جس میں تمھارے گڈے کی آنکھیں کچھ ڈھونڈا کرتی تھیں۔ کچھ تلاش کیا کرتی تھیں۔ وہ سارا کا سارا آج اُس میں موجود ہے، تمھارے گڈے شہزادے نے اس میں جو چاہا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اب اس میں مل جائے گا۔
ہواؤں کے دوش پر خبروں کا پیامبر خبریں پہنچاتا رہا۔
افواہیں گشت کرتی رہیں۔ میں ٹوٹ کر منتشر ہوتی رہی اور تم نئے موسموں کی تلاش میں سرگرداں رہے۔
تم تو مرد تھے نا اور مرد جب چاہے اپنے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کرسکتا ہے۔ کاٹ کاٹ کر ریزہ ریزہ، ویسے ہی میرے دل کے ٹکڑے ہوگئے تھے۔ اور میں مزید ان ٹکڑوں کو اور ٹکڑے کرنا نہیں چاہتی تھی۔ہواؤں کے دوش پر خبروں کا پیامبر خبریں پہنچاتا رہا۔
سنا ہے ان دِنوں تم اپنی حدوں سے پارسرحد پار اُڑنے کی کوشش میں سرگرداں ہو۔ تمھیں معلوم ہے ان دنوں میرے دل پر کیا بیت رہی ہے؟
اپنے ہی وطن میں نہ جانے کتنے موسم ہیں۔ اور تم ان موسموں کا مزاج بھی جانتے ہو۔ لیکن موسموں کی طرح تم نے بھی تو اپنی اُڑانیں تبدیل کرلی ہیں ...
کبھی اِدھر کبھی اُدھر تم دُور دُور تک آکاش کی وسعتوں میں پرواز کرتے رہے۔ تم مرد تھے نا... کبھی بھی تھکتے نہ تھے۔ اگر تھک جاتے تو گاؤں کی ان پھیلی ہوئی وادیوں میں تمھارا بسیرا ہوتا۔ جہاں مَیں ہوتی، تم ہوتے، اپنا آشیانہ ہوتا۔ کیا کچھ نہ ہوتا۔ ڈھیر سارے کھلونوں کی جگہ کھیلنے کے لیے کچھ تو ہوتا اپنی محبت کی نشانی...
تم ہی نے کہا تھا کہ ’تمھارے دل کی اتھاہ گہرائیوں کا اندازہ مجھے خوب ہے جب مجھے دیکھ کر مہندی لگے تمھارے وہ ہاتھ مجھے آداب کرنا بھول جاتے ہیں، کاجل سی سیاہ تمھاری وہ آنکھیں مجھ سے ٹکراکر لوٹ جاتی ہیں، گلاب کی پتیوں کی طرح تمھارے وہ نازک سے لب کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں سکتے۔ صرف پھرپھڑاکر رہ جاتے ہیں۔ لمبے لمبے سیاہ گیسوؤں کے درمیان تمھارا چہرا بڑا حسین لگتا۔ اور شانوں پہ بکھری ہوئی زلفیں بڑا حسین منظر پیش کرتیں۔ اور مَیں گاؤں کی پگڈنڈیوں پر کسی شہزادے کی مانند گھوڑے پر سوار تمھارے سپنوں میں قوس قزح کے رنگ بھرنے کی تمنّا کرتا...‘
تمھارے اِن جملوں کی بازگشت دیر تک میرے کانوں میں گونجتی رہی تھی۔ شاید یہ سب خیالی باتیں تھیں کیونکہ خیالوں میں جو محل تعمیر ہوتے ہیں وہ ریت کے گھروندے ثابت ہوتے ہیں جنھیں وقت کی تیز آندھی اپنے ساتھ اُڑاکر لے جاتی ہے۔
شاید میرے سارے سنہرے سپنے ٹوٹ گئے ہیں۔ اور اِن سپنوں کی تعبیریں دُھندلی دُھندلی سی ہوگئی ہیں۔
آج بھی بیلوں کے پھولوں کا وہی موسم ہے... تاروں بھرا وہی آنگن ہے۔ میں ہوں۔ اور میرے جوڑے میں سجابیلوں کے پھولوں کا شگوفہ ہے۔ میں نے آج بھی تمھاری اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ محض اس لیے کہ تمھاری یادوں کی خوشبوؤں میں ہی ڈوبی رہوں۔
لیکن... ایسا نہیں ہوتا...
آخر ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
اس کی خوشبو میرے سانسوں میں رَچی بسی کیوں نہیں رہتی...؟
سب کچھ تو وہی ہے، صرف پھول تمھارے ہاتھوں کے توڑے ہوئے نہیں ہیں۔
بیلے کے پھول تمھیں کتنے پسند تھے اور مجھے بھی...
مجھے احساس بھی تھا۔ جب بیلے کے ان موسموں میں اپنے جوڑے میں بیلوں کے پھول سجائے رہتی تھی۔ جس کی ہلکی ہلکی خوشبو میرے لیے اس لیے بھی بہت زیادہ پُرکشش تھی کہ وہ توڑے ہوئے پھول تمھارے ہاتھوں کے ہوتے اور تمھارے مضبوط ہاتھوں کا لمس مَیں اپنی رگ وپَے میں محسوس کیا کرتی تھی۔ اور اس کی خوشبو میری سانسوں میں رچی بسی رہتی تھی۔
وقت کے پرندے نے ایک اور کروٹ بدلی... اور... ایک روز اچانک تمھارا خط ملا۔ جو تم نے شاید سرحد پار سے لکھا تھا۔
تم اپنے وطن عزیز سے دُور بہت دُور نئے موسموں کی کھوج کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ تم نے اپنے خط میں تحریر کیا تھا کہ کسی بہت بڑی مجبوری نے تمھیں سرحد پار اُڑنے کے لیے مجبور کردیا اور نہ جانے تم اپنے وطن کب واپس لوٹو۔
تم نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس وجہ کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے تم اپنے ملک کی سرحدوں کے پار اُڑنے کی کوشش میں سرگرداں نہ ہوجانا۔
کبھی کبھی تمھارے خطوط اتنے طویل ہوتے جن میں تمھاری سمندر پار کی مصروفیت اُلجھنیں اور ڈھیر ساری پریشانیوں کا ذکر شامل ہوتا۔
تمھارا خط پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ میں تمھارے بے حد قریب ہوں ...اور... پھر---
گزرتے ہوئے دنوں کے ساتھ ساتھ تمھارے خطوط بہت مختصر آنے لگے۔ جن میں محض رسمی جملوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہوتا تھا۔
پھر وقت نے ایک اور کروٹ لی اور تمھارے خطوط کا سلسلہ اچانک تھم گیا... اور مجھے یوں لگا جیسے زمین گردش کرتے کرتے اچانک رُک گئی ہو۔ لیکن پھر بھی میرے پیروں تلے کی زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ اور میرا دل بیٹھا جارہا تھا۔
حالانکہ میرے دل میں ارمانوں اور تمنّاؤں کا لامتنا ہی سلسلہ تھا اور ذہن میں حسین و دلکش تصوّرات کا سرگم گونج رہا تھا...
برگد کی گھنی چھاؤں تلے لڑکیاں اب بھی جھوم جھوم کر گیت الاپ رہی تھیں:
بیکل یاد نِٹھر کی چھیڑے برہن کی شہنائی میں
ساگر ڈوب گیا پیالے میں، پربت گم ہوا رائی میں
مندر کا پیپل مانگے ہے من دیوی سے پات
¡¡
مہتاب عالم پرویزؔ
MAHTAB ALAM PERVEZ