افسانہ
نئی سوچ کا پرنٹ آؤٹ
ڈاکٹر اختر آزاد
DR.AKHTAR AZAD
شادی سے پہلے میں بھی وہی چاہتا تھا۔
لیکن اس سلسلے میں کبھی اس نے مجھ سے کچھ کہا اور نہ ہی میں نے اس سے کچھ پو چھا۔
شادی میرے خیال سے کچھ پہلے ہو گئی تھی۔ لکچرر شپ کے بعد یہی کوئی تیس کے آس پاس میں شادی کے حق میں تھا۔ لیکن ایک بہن جو میرے بعد کے بھائی سے چھوٹی تھی،اس کی شادی ہوتے ہی بیمار ماں کے کاندھے پر کام کا بوجھ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا۔ ایک بہن چھوٹی تھی۔ جو میٹرک میں تھی۔ اس سے پورے گھر کا کام نہیںلیا جا سکتا تھا۔ دونوں میں ایک ہی کام اُسے دیا جا سکتا تھا۔ گھر کا کام سنبھالنا یا پھر پڑھنا کام دو سروں سے لیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کی جگہ ہر کوئی دوسرا بن کر پڑھ نہیں سکتاتھا؟ اس لیے ماں نے اپنے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے ایک دن مجھے ہلدی لگا کر دُلہابنا یا۔ پھر کیا تھا:بہو کے رُوپ میں صبا جیسی بھولی بھالی خوب سیرت لڑ کی گھونگھٹ کاڑھے گھرآ گئی۔
شادی کی پہلی ہی رات تھی ۔
اس رات نہ جا نے کیسے گھنٹہ بھر کے اندر ہی ہم دونوں باتوں کی سڑک پر اتنی دُور نکل گئے کہ لوٹنا مشکل ہو گیا۔ اور وہ سب کچھ بھی کچھ یوں ہو گیا جیسے با لکل عام سی بات ہو۔ اس عام سی بات کے دائرے میں سمٹتے ہوئے میں نے اس سے بغیر کسی جھجک کے پوچھ لیا تھا۔
” بچےّ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟“
”تین چار سال تک تو“ سانسوں کے زیر و بم کے درمیان یہ کہتے ہوئے وہ کچھ شر ما ئی اور لجائی تھی۔
” میں بھی یہی چاہتا ہوں“۔ وہ مسکرا رہی تھی اور میں کہہ رہا تھا۔” اس سے یہ ہو گا کہ ہم دونوں کو آزادانہ ماحول میں کچھ سال جینے کا موقع ملے گا۔“اور صبا کا کہنا بھی درست تھا۔”اتنے سالوں میں عورت پوری طرح سے Mature ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے عورت کے اندر بھر پور اعتماد اور سب کچھ جھیل جا نے کی لا فانی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔“
لیکن اس کے باوجود تنہائی کے بستر پر دراز ہوتے ہی اکثرمیں یہ سوچا کرتا ماں نے اتنی جلد بازی میں میری شادی کیوں کی ؟ بہو لانے کی ضرورت کیوں پڑی ؟خود ساس بننے کے لیے کیوں مچل اُٹھیں؟
اور ایک دن میرے ان اُلٹے سیدھے سوالوں کا جواب مجھے مل گیا ۔ اس دن ماں کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ پاؤں کے جوڑ جوڑ میں درد تھا۔ چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ چار پائی پر لیٹی ہوئی تھیں اور میں ان کے سرہانے بیٹھا تھا۔ صبا دوسرے سرے پر بیٹھی آہستہ آہستہ ان کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اس وقت اڑوس پڑوس کی کچھ عورتیں چاچی بھابی اور با جی کہتی ہوئی اندر آ گئیں۔ میں وہاں سے سیدھے اپنے کمرے میں آ گیا۔ صبا چائے بنانے کے لیے باورچی خانے میں چلی گئی۔ کمرہ بالکل سٹا ہوا تھا،اس لیے ماں اور عورتوں کے درمیان کی گفتگو میں پلنگ پر لیٹے لیٹے صاف سن رہا تھا۔
”بھابی آپ بہت قسمت وا لی ہیں کہ جیتے ہی اپنے بیٹے کا سہرا دیکھ لیا۔“
پھر اچانک ماں کی بیمار آواز کی تھالی سے خوشی کے چند قطرے گرے جو شبدوں کا روپ لے کر میرے کان کی کی نلی میں ٹپ ٹپ کر کے ٹپکنے لگے۔
”زندگی اور موت کا کیا ٹھکانا بہن۔ اور پھر بیمار آدمی کا بلاوا کب اور کیسے آ جائے یہ کو ن جانتاہے ؟ لیکن سوچتی ہوں کہ پوتا پوتی کو کھلا نے کا موقع مل جائے تو پھر کچھ بھی ہو گا تو اس کا آخری دنوں میں ذرا بھی افسوس نہیں رہے گا ۔اب پتا نہیں پوتا پوتی کو کھلانا میری قسمت میں لکھا ہے کہ نہیں،یہ تو اُوپر والا ہی جانتا ہے۔“
اس وقت میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ اس لیے کہ ایک طرف ماں کو دا دی بننے کابے صبری سے انتظار تھا اوردوسری طرف ماڈرن دور کی سڑک پر ہم دونوں کسی تیسرے کو کم سے کم تین چار سال تک چلنے دینا نہیں چاہتے تھے۔ بیمار آدمی کا کیا بھروسہ کب مِٹّی سے دوستی کر لے ۔اگر ایسا ہوا تو پھر دادی بننے کے بعد بھی پوتا پوتی کو کھلا نے کا خواب؟ میں اس طرح کی اُلٹی سیدھی باتوں پر بوکھلا سا گیا تھا۔ اس لیے اپنے آپ میں اس دن بڑبڑا نے لگا تھا۔”نہیں نہیں! اب تو ہر حال میں ماں کی یہ خواہش پوری ہو کر رہے گی۔“ پھر سوچ کی مکڑی میرے ذہن کے چاروں طرف تیزی سے جالے بننے لگی ۔
آخر اب صبا کو میں کیا کہوں گا ؟ جب کہ پہلی ہی رات یہ بات طے ہو گئی کہ اگر ان سالوں میں کوئی تیسرا ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش کرتا ہے تواُسے اوندھے منہ گرا کر آگے نکل جائیں گے۔ اس لیے اب صبا کو کچھ کہنا بہتر نہیں تھا۔ ویسے وہ جس ماحول میں ملی اور بڑھی تھی اور جو ذہن اس نے پایا تھا اس کے مطابق مجھے صد فیصد اُمید تھی کہ اگر ماں کے جذبات کو سامنے رکھ کر سمجھانے کی کوشش کروں تو وہ انکار نہیں کرے گی۔ لیکن اس کے برعکس میرا ذہن یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو میری باتوں سے اس کا یقین اُٹھ جائے گا۔ میرے بارے میں وہ کچھ نہیں تو یہ ضرور سوچے گی کہ میں اپنے فائدے کے لیے اُس سے کبھی کچھ بھی کروا سکتا ہوں۔ بہت کوشش کے بعد بھی میں کچھ کہنے کی ہمتّ نہیں جٹا سکا۔ لیکن اس کے باوجود ماں کی اس خواہش کا احترام مجھ پر لازم تھا۔
کچھ دنوں تک میں اسی شش و پنج میں پڑا رہا کہ صبا کو بنا بتائے یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے ؟آخرکار اس ادھیڑ بن میں ایک دن میں سوچ کے تاروں سے پلان کے خوبصورت جال بننے میں کامیاب ہوا ۔جس جال میں صبا جیسی بھولی بھالی بیوی کو پھنسانا کوئی مشکل کام نہیں رہا تھا اور جب میں نے ایک عام سی دوا لا کر اُسے پہلی بار دیا، تب اس نے،پہلے مجھے اور پھر دوا کو غور سے دیکھا تھا۔
”آپ کو بچےّ اچھے نہیں لگتے میں کیا؟“
” لگتے تو ہیں لیکن !“
” لیکن کیا؟“وہ میری بات پر ہنس پڑی تھی اور میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی پوچھ بیٹھی تھی۔” دوا کب اور کیسے کھا نا ہے یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں ؟“ ایسی دواؤں پر ڈاکٹروں کی دی ہوئی ہدایت کو میں نے د و ستوں سے پہلے ہی معلوم کر رکھا تھا فوراًرٹے رٹائے توتے کی طرح کہہ ڈالا اور ہدایت کی گولی کھلاتے ہوئے کہا۔ ”پا بندی سے کھا نا ور نہ “اور وہ بھی ہنستے ہنستے سر اور پیر کے درمیان اپنے ہاتھ سے اُبھار بنائے ہوئے مجھ سے چھیڑ چھاڑ کر نے میں ذرا بھی نہیں ہچکچائی تھی۔”ورنہ کیا۔ ؟ارے بہت ہو گا تو یہی ہو گانا“ اس کی اس بات پر ہم دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔ اس کھلکھلاہٹ پر برا بر کے کمرے سے ماں کی ہلکی ڈانٹ اُبھری تھی۔”ارے د و نوں کو آج ہو کیا گیا ہے ؟ اتناہنس کیوں رہی ہے بہو؟“
اس وقت ایسا لگا تھا کہ جیسے یہ کہتے کہتے ماں اپنے درد بھرے پاوں سنبھالے کمرے میں آ جائے گی۔
اس سے پہلے ہم دونوں کی موجودگی میں ماں کبھی کمرے میں نہیں آئی تھی۔ پھر بھی احتیاطاً صبانے د وائی اٹھا کر الماری میں رکھا کہ کہیں ماں آ گئی تو؟ لیکن ماں نہیں آئی۔ صبا کو ہی فوراًنکلناپڑا تھا۔ وہ اپنی ہنسی روکتے روکتے بولی تھی۔ ”وہ کیا ہے امّی کہ آپ کا بیٹا آپ کا بیٹا“ صباکی ہنسی ایک بار پھر اندر سے باہر آ گئی تھی اور اس ہنسی پر ماں بھی ہنستے ہنستے بستر تک لوٹ گئی تھی۔
وقت آ ہستہ آہستہ گزرر ہاتھا۔ وقت گزرنے کے سا تھ سا تھ میری نظر ہمیشہ صباکی حرکات و سکنات پر ٹکی رہتی بھی۔ اس بار مجھے پوری اُمید تھی۔ لیکن اس کی تاکید پر مجھے پانچ دن تک اس سے الگ رہنا پڑا تھا' اور میں کچھ نا اُمید سا ہو گیا صبا ان پانچ دنوں میں کا فی نڈھال نظر آئی ۔ ٹھیک اس طرح جیسے سمندر کی سطح پر سورج کا لہو ٹپ ٹپ ٹپک رہا ہو۔ جیسے سورج آ ہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہو۔ جیسے میرے اِدھر اُدھر ہٹتے ہی وہ اپنے کام پر تیزی سے جھپٹ پڑتی۔ لیکن جیسے ہی میری نظر اس پر پڑ تی یا سامنے سے گزر تے یا آ تے جا تے آمناسامنا ہو تا، اس کے ہاتھ پاؤ ڈھیلے پڑ جا تے۔
اب میں دوسرے مہینے کے انتظار میں اپنی آنکھیں بچھائے بیٹھا تھا۔ اس بار صبا کو ایک دو بار کھانسی آئی ۔ تھوڑی بہت اُلٹی بھی ہوئی ۔ بار وہ خود کو سنبھالتے ہوئے باتھ روم میں چلی گئی ۔ میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی وہ کچھ نہ کچھ بتا دیا کر تی۔ جیسے کھانا کھاتے وقت تھالی میں مکھّی نکل آئی ۔ لیکن اس بار بھی وہی ہوا جس کا ڈرتھا۔
اورایک بار پھر مجھے اس سے الگ رہناپڑ ا۔
ادھر میں کچھ زیادہ ہی پریشان رہنے لگا تھا۔ اور بھلا کیوں نہ رہتا کہ میں چاہتا تھا کہ ماں جلد سے جلد دادی بن جائے۔ لیکن یہاں تو سب کچھ اُلٹاپلٹا ہو رہا تھا۔ ایسے میں میں اکثرشک کے ٹیڑھے میڑھے ڈگر پر نکل پڑتاکہ کہیں دوران ِ سفروہ میری دوا کے ساتھ کوئی اور دوا تو نہیں لے رہی ہے۔ لیکن پھر میری سوچ کے پاؤں سیدھے ہو جاتے کہ اگر وہ دوسری دوا لیتی بھی تو پھر وہ چھپاتی کیوں؟
اس طرح کی باتوں کے بعد مجھے کافی راحت سی محسوس ہوتی کہ چلو اس مہینہ نہ سہی اگلا مہینہ ہی سہی اور اسی امید پر میں آہستہ آہستہ اور چپکے چپکے نئی زندگی کا نیا سفر طے کر تا ہی جا رہا تھا۔
اور یہ ایک مہینہ بھی اسی طرح سے گزر گیا۔ اس وقت میں عجیب کشمکش میں پھنس گیا تھا۔ مجھے رات رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ ہر بار ماں کا چہرہ سامنے آ جاتا تھا۔ اس لیے ایک دن میں ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ چیک اپ کرایا۔ سب کچھ ٹھیک ہو نے کے بعد ایک بار پھر اُمیدبندھی کہ دینے والا تو وہی ہے جو سب کے اُوپر بیٹھا ہے۔ ایک نہ ایک دن وہ ضرور دے گا۔
پھر سوچ کی کالی ڈور میرے چاروں طرف پھیلنے لگی تھی اگر تیسرا دیر سے آ یا تو ؟ یا صبا کی زمین ہی بنجر نکلی توپھر کیا ہو گا ؟ میری ماں کی بوڑھی آنکھیں!نہیں، نہیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ وہ ضرور آئے گا اور میری ماں کی بوڑھی آنکھیںاُسے دیکھیں گی۔ تب ماں اُسے بڑے پیار سے کھیلائے گی ۔ جھو لا جھلائے گی ۔ مالش کرے گی ۔ ہمیں ڈھیر ساری دعائیں دیں گی۔
سب کچھ پہلے کی طرح ہی تھا۔
لیکن ادھر کچھ دنوں سے صبا کی چال میں مجھے ٹھہراؤ سا نظر آنے لگا تھا۔ وہ اکثر کچھ کر تے کر تے بیٹھ جایا کرتی ۔ کام چھوڑ کر کبھی سر درد کی بہانے سے بستر پر لیٹ جا تی اور کبھی گھنٹوں باتھ رُوم کے دروازے بند کر کے کھانساکرتی۔ اس طرح کی کسی بات پر جب ماں کچھ پوچھتی تو وہ ہولے سے مسکرا کر وہاں سے ہٹ جا یا کرتی۔ ایسے وقت میں جب بھی میری نظر پڑتی تو وہ خود کو معمول پر لانے کی کوشش کرتی۔ یا پھر کوئی کام لے کر آڑ میں چلی جاتی یا پھر ہاتھوں میں سر رکھ کر وہیں بیٹھ جاتی۔ ایسی حالت میں کبھی وہ دوا لانے کے لیے مجھے کہتی یا کبھی میں ہی اس کے کچھ کہنے سے پہلے سر درد کی دوا لانے کے لیے گھر سے نکل پڑتا۔
کچھ دنوں سے وہ ایسے کپڑے پہنا کرتی،جس میں وہ بالکل ڈھکی چھپی نظر آ تی تھی ۔ پھر ادھر جلدی کھانا کھا لینا اور سو جانا جیسے اس کی عادت کا حصّہ بنتا جا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے مجھے یہ لگنے لگا تھا کہ صبا پر گھر کے کام کا بوجھ کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس لیے وہ تھک جایا کرتی ہے۔ پھر ادھر یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ ماں، بہو کا بہت زیادہ خیال رکھنے لگی تھی۔ طبیعت ان کی جب کچھ ٹھیک رہتی تو صبا کے آ گے سے کا م کھینچ لیتی ”لابیٹھے بیٹھے تیرا کام تھوڑا ہلکا کر دوں۔“ اسکول سے لوٹنے کے بعد چھوٹی بہن کو اب ماںکام پر لگانے لگی تھی۔ اور اب تو ماں اکثرمجھ سے یہ کہنے بھی لگی تھی۔” بیٹا تو بہو کا خیال رکھا کر۔“ میں یونہی چڑانے کے لیے کہتا۔” کتنا خیال رکھوںماں ؟ دن رات تو رکھتاہی ہوں۔“ میری ان با توں پر پتہ نہیں کیوں ماں اپنی آنکھیں ٹیڑھی کر کے سر کو ہلاتے ہوئے کچھ عجیب انداز میں کہتی۔” کیا خاک رکھتاہے خیال ۔پھل و ل بھی لا کر دیتا ہے بہو کو کبھی؟“
پہلی بار جب اس طرح کی بات ہوئی تھی تب اس وقت صبا کچن میں برتن دھو رہی تھی۔ دھوتے دھوتے برتن پر اُس کے ہاتھ یکا یک رُک گئے تھے۔ میں نے ماں کی باتوں پر اُسے چڑاناچاہاتھا۔” لوسُن لو صبا!امّی کیا کہہ رہی ہیں کہ اب تمہیں کھا نا وانا نہیں پھل ول چاہئے۔“ میری اس بات پر صبا بغیر میری طرف دیکھے ہوئے اپنے رُکے ہوئے ہاتھ کو برتن پر بڑی تیزی کے ساتھ اس طرح آگے پیچھے کر نے لگی تھی جیسے میں اس کی بات اس سے نہیں،بلکہ کسی کی بات کسی اور سے کر رہا تھا۔
ایم۔ اے فرسٹ کلاس سے پاس کر نے کے بعد مجھے اُمید تھی کہ لکچررشپ کہیں نہ کہیںمل ہی جائے گی۔ ایک جگہ جب اُمیدبند ھی تب اس دن میں ضروری کاغذات ڈھونڈ رہا تھا۔ ایک سرٹیفِکیٹ جو اس وقت میرے لیے اہمیت رکھتا تھا، بہت ڈھو نڈنے کے بعد بھی جب وہ میرے ہاتھ نہ لگا تب میں پاگلوں کی طرح سامان کو اِدھر سے اُدھر کر نے لگا ۔ صبا اس وقت باتھ رُوم میں تھی۔ الماری، بکس اور سیلف میں رکھی ہوئی دو سری فائیلوں کے اندر کے سارے کاغذات کو ایک ایک کر کے ہٹانے کے بعد بھی جب وہ نہیں ملا تو میں نے سوچا کہ صبا سے کیوں نہ پوچھ لیا جائے۔صبا نے باتھ روم سے نکلنے میں تھوڑی دیر کیا کہ میرے ذہن نے جلد بازی میں مجھے مشورہ دیا کہ جب اتنی خاک چھان چکے ہو تو گدّے کے نیچے بھی دیکھ لو ۔ اس مشورے پر جیسے ہی میں نے گدّاہٹایا؟ میری آنکھیں سوچ کے دائرے سے اُلجھ گئیں ۔ میری لا کر دی ہوئی ساری کی ساری گولیاں گدّے کے نیچے پڑی ہوئی تھیں۔ ابھی میں کچھ زیادہ سوچ بھی نہیں پایا تھا کہ صبا کے کھانسنے کی آوازباتھ رُوم سے اُبھری۔ اور پھر ایسا لگا جیسے اس نے زور سے اُلٹی کی ہو۔ بہن اس وقت پڑھنے گئی تھی،ماں کی طبیعت آج کچھ ٹھیک تھی۔ وہ باہر کم ہی آیا جایا کرتی تھیں۔ لیکن بغل والی بھابی کے اصرار پر تھوڑی دیر کے لیے اُن کے گھر گئی ہوئی تھیں۔
میں کھانسی کی اس تیزآواز پر گدّے کو اسی طرح چھوڑ کر تیزی سے باتھ رُوم کی طرف دوڑا۔ د روازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ اس لیے کھینچتے ہی کھُل گیا۔ وہ ہاتھ سے منہ کو دبائے بیٹھی تھی، آنکھوں میں پانی بھر آیا تھا اور چہرے کا رنگ بھی لال ہو گیا تھا۔مجھے دیکھتے ہی شرما کر اس نے سر نیچے کر لیا۔ اُس وقت میں نے اُس سے کچھ نہیں کہا۔ جگ اُٹھا یا اور اُلٹی سے سنے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگا۔ پھر اس نے اچھی طرح سے منہ دھو یا۔ میں نے اُسے اپنی مضبوط بانہوں کا سہارا د یا ۔ باتھ رُوم سے کمرے تک وہ اس طرح آئی تھی، جیسے اس نے کوئی بڑاگناہ کیا ہو۔ جیسے وہ ایک مجرم ہو۔ جیسے وہ اس و قت وہ گھبرائی گھبرائی سی تھی۔ کمرے میں اس کے قدم جیسے ہی پڑے اور جیسے ہی اس نے گدّے کو دیکھا اُس کی نظر د و ا کی گولیوں پر پڑی ۔تھوڑی دیرکے لیے و ہ سر سے پیر تک کانپ کر رہ گئی کہ پتا نہیں اب کیا ہونے والا ہے۔
میں اس کی پریشانی بخوبی سمجھ رہا تھا۔ وہ کچھ لڑکھڑا سی رہی تھی۔ اس لیے میں نے اسے پلنگ پر بٹھا دیا۔ بٹھا تے ہی وہ غش کھا کر گری اور بے ہوش ہوگئی ۔میں کچن کی طرف دوڑا۔جگ میں پانی بھر لایا ۔ چہرے پہ پانی کے چھینٹے نے اثر دکھایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہوش میں آ گئی۔ ہوش میں آتے ہی میں نے خو شی سے جھومتے ہوئے اُس کی پیشانی کو چوما۔ وہ لِپٹ گئی اور روہانسی ہو گئی۔
” مجھے معاف کر دیجئے۔“
نااُمیدی کے وہ سارے بادل جو میرے سر پر مہینوں سے منڈ لا رہے تھے۔ صبا کے اس جملے سے اچانک چھٹ گئے۔ آسمان صاف ہو تے ہی چاند میری طرف جھانکنے لگا تھا۔ ایسے وقت میں ،میں خوشی سے پاگل ہو اُٹھا تھا۔ اس کے بھیگے ہوئے چہرے کو سامنے رکھ کر میں نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔
”پگلی! کیسی معافی ؟گُنہگار تو میں ہوں کہ تمہیں اندھیرے میں رکھا۔“
” لیکن آپ تو ایسا نہیں چاہتے تھے؟“ میری بات پر وہ چونک پڑی تھی۔
”لیکن بیمار ماں کی خاطر“
”یہ جھوٹ ہے۔“
”نہیں صبا! یہی سچ ہے ۔“
”پھر ان دواؤں کو کیوں دیا تھا آپ نے مجھے ؟“ وہ سراپا سوال بن کر میرے سامنے کھڑی ہو گئی تھی۔
”اس لیے کہ تم اُنہیں دوا سمجھ کر کھا تی رہو، اور ماں کی گود میں پوتاپوتی اُچھلنے کو دنے کے لیے مچل پڑے۔“سوالیہ نظروں سے گھورتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا۔
”لیکن یہ بتاؤ! کہ تم نے دو اکھائی کیوں نہیں ؟“
میری اس بات پر صبا کا چہرہ کھل اُٹھا۔ اورپھر مسکراتے ہوئے اُس نے اپنے ذہن کے پرنٹرسے پرنٹ کر کے اپنی نئی سوچ کا پرنٹ آؤٹ میری طرف بڑھا دیا۔
” یہی کہ جو کام آپ نقلی دوا کھلا کر اپنی ’ماں‘ کے لیے کرنا چاہتے تھے، وہی کام میں دو ا نہیں کھا کر اپنی، ساس، کے لیے کر نا چاہتی تھی۔“
٭٭٭
DR.AKHTAR AZAD
ROAD NO:-1, HOUSE NO:- 38,
AZADNAGAR , JAMSHEDPUR (832110)JHARKHAND
MOB:-09572683122, E.Mail:- عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.