افسانہ
"پردیس "
فوزیہ اختر ردا ، کولکاتا
PARDES
FAUZIA AKHTAR RIDA - KOLKATA
"اماں ! ایک خوشخبری ہے۔۔۔۔۔!!" ہر ہفتہ کی طرح اِس اتوار کو بھی عون اسکائپ پر اپنی ماں سے گفتگو میں مصروف تھا
"اچھا۔۔۔۔۔!! تیری تنخواہ بڑھ گئ ہے کیا جو اتنا خوش نظر آ رہا ہے۔۔۔۔۔؟؟"سعیدہ بیگم نے اپنے تئیں درست اندازہ لگانا چاہا
"اِس سے بھی بڑی خبر ہے اماں! سنیں گی تو خوشی سے اچھل پڑیں گی آپ۔۔۔۔۔" عون نے مسکراتے ہوئے کہا
"پہیلیاں کیوں بجھوا رہا ہے۔۔۔۔۔؟؟ کیا قندیل کے لئے کوئ اچھا رشتہ مل گیا ہے؟" قندیل عون کی چھوٹی بہن تھی جس کے رشتے کے لئے سعیدہ آجکل کافی پریشان تھیں۔ وہ گریجویشن کے بعد ٹیچر ٹریننگ کا کورس کر رہی تھی۔
"اِس بار میں مستقل طور پر گھر آ رہا ہوں اماں۔۔۔۔۔! وہیں کانپور میں اپنا بزنس شروع کرونگا۔۔۔۔۔" عون خوشی سے لبریز لہجے میں بولا
"لیکن تُو نے پہلے بتایا نہیں۔۔۔۔۔؟؟" سعیدہ یہ خبر سن کر تقریبا سکتے میں آ گئ
"آپ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔!!" عون کی آنکھوں میں جھلملاتی خوشی سعیدہ کی آنکھوں سے اوجھل رہی تھی
"یہ خبر سن کو آپ بھی چکرا گئیں نا۔۔۔۔۔!! فلائٹ ٹکٹ کنفرم ہوتے ہی خبر کرونگا۔۔۔۔۔" عون اپنی خوشی میں اس قدر مگن تھا کہ سعیدہ کے اترتے ہوئے چہرہ پر اُس نے غور نہیں گیا
"جلد بازی کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا بیٹا۔۔۔۔۔! ایک بار اپنی ماں سے مشورہ تو کر لیتا۔۔۔۔۔!!" سعیدہ نے کہا
"فکرکی کیا بات ہے اماں۔۔۔۔۔! وہاں آ کر تیری خدمت بھی کرونگا۔۔۔۔۔ اِس نیکی سے مجھے محروم نہ کریں آپ۔۔۔۔!!" عون کا لہجہ پر جوش تھا
"پر یہاں کے کاروبار کا تجھے کیا پتہ بیٹا۔۔۔۔۔!! ہر دھندہ مندہ جا رہا ہے۔۔۔۔۔ اوپر سے دن بدن کی بڑھتی مہنگائ نے کمر توڑ رکھی ہے۔۔۔۔۔" سعیدہ اپنے ملک کی سچائ کا اعتراف کر رہی تھی
"اللہ پاک برکت دینے والا ہے اماں۔۔۔۔۔! آپ کے آنچل کی چھاؤں میں مجھے ترقی کرنے سے کون روک سکتا ہے۔۔۔۔۔!!" عون ہندوستان میں اپنے مستقبل کو لے کر بہت پر امید تھا
"ترقی تو تُو وہاں بھی رہ کر کر رہا ہے بیٹا۔۔۔۔۔! دوبئ جیسے شاندار شہر میں رہتا ہے۔۔۔۔۔ پچاس ہزار کی نوکری ہے تیری۔۔۔۔۔ سال میں دو مہینے کی چھٹی میں کمپنی کے خرچے پر ہم سب سے ملنے گھر بھی آتا ہے۔۔۔۔۔ ایسی جنت کو چھوڑ کر یہاں کی بھیڑ میں آنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔؟؟ ابھی تو تجھے اپنے پیر وہیں جمانے چاہئے۔۔۔۔۔!" سعیدہ کے دلائل بھی مضبوط تھے
"بزنس نہ سہی اچھی نوکری تو مجھے ضرور مل جائے گی اماں۔۔۔۔۔ آخر اتنے برسوں کا تجربہ کب کام آئے گا۔۔۔۔۔" وہ بائیس برس کا تھا جب ٹورسٹ ویزہ پر دوبئ آیا تھا۔ یہاں آکر تین ماہ کی تگ و دو کے بعد اُسے ایک ہوٹل میں اسٹیورڈ کی نوکری مل گئ جہاں نوکری کرتے ہوئے آج اُسے آٹھ برس ہو گئے تھے اور اب وہ یہاں کا ہوسٹ ٹرینر بن چکا تھا۔
"نوکری کی تو بات ہی نہ کریں آپ۔۔۔۔۔! یہاں پانچ ہزار کی نوکری کے لئے لڑکے لڑکیاں مارے مارے پھر رہے ہیں۔۔۔۔۔" سعیدہ بیگم نے اپنے دیس کی حقیقت بیان کی۔
" اپنا کاروبار کرنا میرا خواب ہے اماّں۔۔۔۔۔! مجھے نوکری کرنا کبھی پسند نہیں تھا ۔۔۔۔۔ لیکن پیسے بھی جمع کرنے تھے سو اتنے برسوں تک یہاں دن رات کام کرتا رہا۔" عون کے اتنا کہتے ہی ویب کیم آف ہو گیا۔۔۔۔۔ اُس نے جلدی سے اٗسے دوبارہ آن کیا۔۔۔۔۔ سعیدہ سے گفتگو کا سلسلہ دوبارہ جڑ چکا تھا۔۔۔۔۔!!
"گھر کا سارا خرچ تو تیری تنخواہ پر چلتا ہے بیٹا۔۔۔۔۔ تیرے بھیا بھابھی کے اپنے اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ اب تو تیری بھتیجی بھی آٹھ مہینے کی ہونے کو آئ ہے۔۔۔۔۔ اُسکے دوا و علاج میں تو ایک دن میں ہزاروں روپے نکل جاتے ہیں۔۔۔۔۔ جو تھوڑے پیسے میں نے مشکل سے بچائے ہیں وہ تیری بہن قندیل کی شادی کے لئے بھی کم پڑیں گے۔۔۔۔۔ پھر بزنس شروع کرنے کے لئے روپے کہاں سے آئیں گے۔۔۔۔۔؟؟" سعیدہ کے لہجے میں بے چارگی تھی
سعیدہ بیگم کا مرجھایا ہوا چہرہ اب عون کی آنکھوں سے مزید اوجھل نہ رہ سکا۔ اُس کے والد کا دو برس پہلے انتقال ہوچکا تھا۔۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کا افسردہ چہرہ محسوس کرتے ہی بے چین ہو گیا۔۔۔۔۔
"آپ ٹھیک کہتی ہیں اماں۔۔۔۔۔! میں سوچ رہا ہوں کہ اس بار چھٹی میں گھر نہ آؤں تو مجھے اُن دو مہینوں کی تنخواہ بھی ڈبل ملے گی۔۔۔۔۔" عون نے بھی جلد از جلد زیادہ پیسے کمانے کا راستہ سوچ لیا۔
"ایسا ہی کرنا میرے بچے۔۔۔۔۔! اوور ٹائم بھی کرتے رہیو۔۔۔۔۔" سعیدہ اپنی دور اندیشی سے کام لے رہی تھی
"جی اماں۔۔۔۔۔! میں تو لیپ ٹاپ پر سائڈ انکم بھی کر لیتا ہوں۔۔۔۔۔" وہ پرجوش انداز میں سعیدہ کو اپنی سرگرمیوں سے آگا ہ کر رہا تھا
"تیرے جیسا محنتی بیٹا خدا سب کو عنایت کرے۔۔۔۔۔!! اپنی صحت کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔!" سعیدہ نے آبدیدہ لہجے میں کہا
"میرے لئے پچھلے ہفتہ جو رشتہ آیا تھا نا اماں۔۔۔۔۔ آپ منع کردینا اُسے۔۔۔۔۔ جب تک قندیل کو میں اُس کے سسرال نہ بھیج دوں ۔۔۔۔۔ اپنا بزنس اسٹارٹ نہ کر لوں تب تک خود شادی نہیں کرونگا۔" عون نے اپنی چھوٹی اور لاڈلی بہن کا ذکر کرتے ہوئے کہا
"اُنہیں میں کل انکار کہلوا بھیجونگی ۔۔۔۔۔ تُو جی چھوٹا نہ کر۔۔۔۔۔! کچھ وقت کی دیر ہے بس۔۔۔۔۔ پھر تیرے لئے اِس سے بھی اچھے رشتے آئیں گے۔۔۔۔۔" عون کے لئے مائرہ کا رشتہ آیا ہوا تھا جو قبول صورت تھی اور گریجویشن کے بعد ایک پرائیوٹ اسکول میں پڑھا رہی تھی
"جب تک اپنے ملک میں ، میں اپنا بزنس شروع نہ کر لوں ، آپ میری شادی کی جلدی نہ مچانا اماں۔" عون نے نئ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے سے خود کو روکا۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔ جیسا تُو چاہے!" سعیدہ نے حامی بھر لی
" اپنے شوگر لیول کی رپورٹ ہر ماہ مجھے میل کرتی رہنا۔۔۔۔" عون نے تاکید کی
"سدا سکھی رہو میرے لعل۔۔۔۔۔!!" سعیدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
پچھلے دو گھنٹوں کی گفتگو میں وقت کا دونوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔۔ عون کے لیپ ٹاپ کی بیٹری لو ہو رہی تھی اور وہ چارجر بھی ہوٹل میں بھول آیا تھا
اُس نے سلام کر کے سعیدہ سے رخصت ہونے کی اجازت لی۔۔۔۔۔ اپنا لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کیا اور اپنے استعفی کو ڈسٹ بن میں ڈال دیا ۔۔۔۔۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فوزیہ اختر ردا ، کولکاتا