الجمعة, 27 أيلول/سبتمبر 2019 15:30

لکشمن ریکھا کے پار: مہتاب عالم پرویزؔ (کویت) LAKSHMAN REKHA KE PAR : MAHTAB ALAM PERVEZ - KUWAIT

Rate this item
(0 votes)

 

افسانہ

لکشمن ریکھا کے پار
مہتاب عالم پرویزؔ
کویت

   ٭میری آنکھیں جواں ہیں۔

رِم جھم رِم جھم بارش کی بوندوں کی طرح خواب اُترنے لگے ہیں۔
فیوزن کا عمل--- پھیلتا اور سکڑتا سورج۔ رات کی سمٹتی ہوئی سیاہی--- اندھیرے سے پھوٹتی ہوئی سورج کی کرنیں۔ شبنم کا رس پیتی ہوئی نیم شگفتہ کلیاں --- بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا چاند--- اپنے گیسو پھیلاتی ہوئی سرمئی شام --- پیڑوں پہ لدے سُرخ انار--- سمندر میں ڈوبتا گرم سورج اور چہار سمت پھیلا خون آلود پانی---
یہ سب میری جواں آنکھوں میں قید ہیں اور اکثر تنہائیوں میں مجھ سے سوال کرتے ہیں، مجھ سے کہتے ہیں کہ پھولوں سے عاشقی کا ہنر سیکھ لے، تتلیاں خود آئیں گی صدائیں نہ دے۔
میں باشندہئ شہر، شہر کے سنہرے اُجالے میں بارہا کھوسا جاتا ہوں کہ میرا بھی کوئی ہمسفر ہوتا تو شاید یہ سفر آسان ہوجاتا۔ میری تنہائیاں اکثر مجھ سے سوال کرتی ہیں؟ لیکن جواب--- جواب وقت کی گہرائیوں میں دفن ہے۔
تنہائیاں مجھے ڈسنے لگی ہیں۔ سورج کے سکڑنے اور پھیلنے کا عمل، میرا دن ایک سرکش گھوڑے پہ سوار بے مہار اُڑتا جاتا ہے، اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر میں کالج اور ٹیوشن کے مرحلے طے کرتا ہوں، نِت نئے ڈریسوں کے ڈھیر اپنی الماریوں میں سجاکر۔ خوشبو اور ڈریس میری پسندیدہ چیزیں ہیں۔ لباس اور خوشبو بدلتے رہنا میری زندگی کا نصب العین بن چکا ہے۔ ساتھ ہی میرے جوتے اور ہیر اسٹائل بھی وقت کے چلن کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
لیکن ان دِنوں میں شیلے (Shelly) کی نظم کا مطالعہ کررہا ہوں اور اب بارہا اپنے دل سے میں شعوری اور غیر شعوری بس ایک ہی سوال کرتا ہوں کہ میرا کوئی ہمسفر کیوں نہیں؟
سینما کے لگے ہوئے پوسٹر اور بعض اوقات جب بلیوفلمز کی باتیں میری عمر سے بڑے دوست کرتے ہیں تو میں حیران رہ جاتا ہوں اور یوں کہیے کہ چپ کی ایک لہر میرے ہونٹوں پر رینگ جاتی ہے۔ اکثر کچھ گرما گرم میگزین اور ٹیلی ویژن کے اسکرین پر پیش کیے جانے والے Care Free کے Advertisement بہت بھلے لگتے ہیں۔جیسے مستی کی کوئی لہر!!
اسی لیے تو فرائیڈ اور D. H. Lawrance کی کتابیں مجھے بہت اچھی لگتی ہیں، جن کا عمیق مطالعہ کرتا ہوں۔
Philosophyاور Logicکی گھنی چھاؤں والی کتابیں اکثر مجھے بتاتی ہیں کہ میں ابھی ادھورا ہوں۔
میرا ماضی کسی کٹی پتنگ کی طرح میرے ساتھ ہے۔ میرا بچپن اکثر مجھے صدائیں دیتا ہے۔
میں بچپن میں ایک کھیل کھیلا کرتا تھا۔ مجھے تتلیوں کو پکڑنے کا بہت شوق تھا اور یہ شوق میری زیست کا ایک انوکھا سفر تھا، جب بھی میں تتلی کو پکڑنے کے لیے آہستہ آہستہ سنبھل سنبھل کر آگے بڑھتا تو پیچھے سے اس کی آواز آتی:”اُڑ جارے تتلی تیرے پیچھے کالا چور“
میرے ارادے برف ہوجاتے اور تتلی اُڑجاتی مجھے اِس بات پہ غصّہ آتا کہ اُس نے میری تتلی اُڑادی۔
آج میں جوان ہوچکا ہوں۔ وہ بھی جوان ہوچکی ہے مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ میری بچپن کی ساتھی اب کسی تتلی کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ اور زندگی کا یہ سفر اُس کے بغیر ادھورا ہے۔ مجھے یہ احساس ستائے رہتا ہے کہ میری بائیں پسلی مجھ سے جدا ہوچکی ہے۔ مجھ سے کھوچکی ہے اور اُس کے بغیر میری زندگی کی کتاب بے داغ سی ہے جس پہ جلی حروف میں ’اُڑجارے تتلی‘ کے سوا کچھ بھی نہیں لکھا ہوا ہے۔
وہ میرے بچپن کی ساتھی ہے۔ جب ہم دونوں اسکول جایا کرتے تھے میں اُس کا اور وہ میرا انتظار کیا کرتی تھی۔ بچپن ہی سے وہ کم گو اور شرمیلی تھی۔ جب ہم دونوں نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تو آنکھوں کی چور گلیوں سے چاند کی روشنی کی طرح دل کی تاریکیوں میں ایک قندیل جلایا کرتے تھے، جس کی لَو چاندنی کی طرح شفّاف اور چمکیلی تھی۔ ہم دونوں کا چہرہ گلنار ہوجاتا اور آنکھوں کی زبان میں سرگوشیاں شروع ہوجاتیں اور یوں ہوتا کہ ہونٹوں پہ کپکپی طاری ہوجاتی۔ دل کی دھڑکنیں بڑھ سی جاتیں اور بہت سوچ سمجھ کر ہم اپنے دل کی بات دل ہی میں لے کر اپنا سفر ادھورا ادھورا تنہا تنہا طے کرتے رہے۔ مگر وہ بات جو میرے سینے میں تپتی دُھوپ کی طرح سلگتی رہی۔ بسایک لرزہ سا طاری ہوتا اور ہم پسینے میں شرابور ہوجاتے۔

اور وہ سکڑتا ہوا سورج اور پھیلتا ہی رہا--- میری خواہشوں کی طرح۔ 

اور پھر آسمان پہ بادلوں کے ہجوم کو چھانٹتا ہوا ایک چاند نمودار ہوا۔

دوپہر کی تپتی ہوئی دُھوپ میں کسی پیڑ کی چھاؤں میں وہ تنہا میرا انتظار کررہی تھی اور اُس نے اپنی ہیئر ِپن سے پیڑ پہ دل کا نشان کھود ڈالا تھا۔ جس پہ میرا نام لکھا تھا۔ اور میں نے بھی زندگی میں پہلی بار اپنی موٹر سائیکل کی چابھی سے اپنے نام کے ساتھ اُس کا نام بھی لکھ دیا تھا۔
لیکن کیا--- اُس پیڑ پہ صرف اپنا نام اور اُس کا نام لکھ دینا ہی کافی تھا، باتیں کچھ اور آگے بڑھیں اور اُس دن ہم دونوں جب دُھوپ سر پہ کھڑی تھی۔ صنوبر کی گھنی چھاؤں میں ایک دوسرے سے چپک گئے۔ لیکن کیا چپک جانا ہی میری منزل تھی، میری تسکین یہاں بھی نہ ہوسکی اور پھر ہم دونوں ایک دن کالج سے سینما ہال پہنچے--- اور ایک سورج، جس کی تمنّا ہمارے دل میں برسوں سے قائم تھی، اُف وہ دہکتا ہوا کوئی انگارہ! مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ میرے حواس معطل ہوچکے تھے۔ ذہن میں بجلیاں کوندنے لگی تھیں۔ اور پھر یہ بھی ہوا کہ میں نے ڈرتے ڈرتے، سہمتے سہمتے اپنے ہاتھ پھندنے کی طرف بڑھا دِیے۔
ہم ندی میں غرق ہوجانا چاہتے تھے لیکن وہی جانی پہچانی صدا میرے کانوں میں گونج اُٹھی--- کیا ہماری منزل بس یہی ہے؟
یہ وہی صدا تھی جس نے آج زندگی میں ایک لکشمن ریکھا کھینچ کر رکھ دی تھی اور میرے ہاتھ زنجیروں میں قید ہوگئے، صداؤں کی باز گشت پھیلتی رہی، سُکڑتی رہی کہ صبرکر، انتظار کر، لیکن انتظار کا یہ لمحہ بڑا ہی جان لیوا ہوگیا۔ جس کی گھڑیاں صدیوں پر محیط تھیں۔
دو سال کا طویل سلسلہ میرے نظریے سے جدا تھا اور ایسی اُلجھن بن کر مجھ کو ڈستا رہا کہ میرا میں اکثر تنہائیوں میں زخمی زخمی اورپارہ پارہ ہوجاتا۔ اُس کی ساری باتیں مجھ کو پسند تھیں، مگر جب وہ میری گاڑی پہ بریک لگاتی تو مجھے بہت غصّہ آتا۔ ایک دن کالج کی میری ایک کلاس فیلو جو کافی موڈرن تھی اور اسمارٹ بھی،میری موٹر سائیکل کی زد میں آگئی۔ ڈر سے میری حالت خراب ہوگئی تھی، مگر اِس نے میری آنکھوں میں نہ جانے کون سی کتاب پڑھ لی تھی کہ کالج کے پرنسپل کو اور دیگر تمام ساتھیوں کو اِن سب باتوں کا پتہ ہی نہیں چلا اور نہ ہی اِس نے میری کوئی شکایت کی--- اور پھر وہ میرے بے حد قریب آگئی۔
مگر اس کا نظریہ اُس سے کافی جدا تھا یوں سمجھئے جو میرا نظریہ تھا وہی اِس کا بھی، بلکہ پیار سے اِس نے مجھ سے فرائیڈ کی کتابیں مطالعہ کے لیے لے لی تھیں اور جب ہم دونوں میں ڈِسکشن ہوئے تو وہ میرے خیالات سے اکثر و بیشتر متفق ہوجایا کرتی تھی۔
مگر اچانک اسی بیچ اُس کو ہم دونوں کی خوشبو بھی مل گئی اور برجستہ اُس نے ’اُڑجارے تتلی‘ کہہ کر اِس موڈرن تتلی کو اُڑا دیا۔
اور پھر ایک دستک--- بلکہ ایک تیز رفتار گھوڑے پہ چابک کی بوچھار شروع ہوگئی اور اب میرے خیالات بھی، خدوخال بھی، زخمی ہونے لگے لہو لہان ہونے لگے۔
اور میں نے فرار کی راہ اختیار کی---
اپنے ایک تجربہ کار دوست کو جب میں نے یہ ساری باتیں بتائیں تو وہ مجھے ایک ایسے مقام پر لے کر آگیا جہاں تتلیاں ہی تتلیاں تھیں --- رنگ برنگی تتلیاں! ہزاروں کی تعداد میں تتلیاں ہی تتلیاں، چہار طرف تتلیاں ہی تتلیاں ---
نیلی تتلیاں --- پیلی تتلیاں --- اُجلی تتلیاں --- کالی تتلیاں --- سُنہری تتلیاں --- اور تتلیاں ہی تتلیاں۔
یہ تتلیوں کا ایک گنجان جنگل تھا، پل بھر کو ان تتلیوں کی چکاچوند روشنی کے حصار میں جب اُن کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھاتو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اسکول کے ٹین ایج لونڈے میری ہی طرح تتلیوں کا شکار کررہے تھے--- یا تتلیاں اُن کے پَر کتر رہی تھیں؟

اور پھر میری آنکھیں پھیلتی ہی چلی گئیں ---


()()()()()

Read 4164 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com