کبوتر باز KABOOTARBAZ
مہتاب عالم پرویزؔ MAHTAB ALAM PERVEZ
اپنے عزیز دوست ڈاکٹراختر آزاد ؔ کی نذر
*آکاش کی نیلی وسعتوں پر جنگلی کبوتروں کا جُھنڈ پرواز کر رہا تھا۔
اُس وقت اخترؔ اپنی چھت کی سیڑھیوں پر ایک سفید رنگ کے کبوتر کو ہاتھوں میں لئے اُس کے پنکھ کی گنتی میں مصروف تھا۔تبھی اخترؔ کی نگاہ اچانک اُس جنگلی کبوتروں کے جُھنڈ پر پڑی تواُس ؔ نے بغیر کسی تاخیرکے سفیدکبوتر کونیلے آکاش کی اور اُڑا دیا۔
یہ وہی کبوتر تھا جس کی اُڑان مسلسل پانچ یا چھ گھنٹے ہُوا کرتی تھی۔جو بلندی پر اُڑا کرتا تھا ۔اُس کی اُڑان میں کچھ ایسی کشش تھی کہ دوسرے کبوتر بھی اُس کے سنگ چھتری پر اُتر آیا کرتے تھے ۔
یہی وجہ تھی کہ اختر اپنے اُس کبوتر کو بے حد پیار کرتا تھا ۔
زندگی کے شب و روز یوں ہی گُذر رہے تھے۔
اُٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے اخترؔ کے دل و دماغ پہ بس ایک ہی خیال سوار رہتا تھا کہ کاش میں بھی ان پرندوں کی طرح آکاش کی نیلی وسعتوں پر پرواز کرتا۔جہاں جہاں جاتا امن کا پیغام پہنچاتا۔
لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔
اُس کے خیالات پرندوں کے بکھرے سفید پروں کی طرح ہواؤں میں بکھر کر رہ گئے۔
اخترؔ کا مکان میرے مکان کے پاس ہی تھا، جہاں سے پڑوسی ملک کی سرحدیں شروع ہو جاتی تھیں۔جہاں کی آب و ہوا ہمیشہ خُون آلود رہتی تھی۔ جب بھی نماز کے لئے مسجد جانا ہوتا ۔آتے جاتے میری نگاہیں نہ جانے کیوں اخترکو تلاش کرتیں۔ میں اکثر دیکھتا کہ اُس کی نگاہیں آکاش کی نیلی وسعتوں پر مرکوز ہیں جہاں کبوتروں کے جُھنڈپرواز کر رہے ہیں ۔اور اُس کے سنگ اُس کی آنکھوں کی پتلیاں بھی کنچے کی مانندگُھوم رہی ہیں۔
آج بھی ایک تصور میری نگاہوں میں گُھومتا رہتا ہے۔
سانولا سلونا سا وہ لڑکا ،کالے اور خوبصورت گھنے بال ، تیکھے نقوش، بڑی بڑی بولتی ہوئی با وقارآنکھیں، آواز میں ارتعاش جیسے ٹھہرئے ہوئے تالاب میں کسی نے کنکر مار دیا ہو۔
میں شروع سے ہی اُس کی ذات سے متاثر تھا۔
وقت کروٹیں بدلتا ہے۔ زمین اپنے محور پر گُھومتی ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ موسم کے رنگ بدلتے رہتے ہیں ۔
اورموسم کے بدلتے رنگ کے ساتھ اخترؔ کے اندر بھی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ لیکن آج بھی اُس کی آنکھیں آکاش کی نیلی وسعتوں پر ٹکی ہوئی ہیں۔ میں نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا وہ ہمیشہ کی طرح نیلا تھا اور آسمان کے نیلے دبیز تہہ پرکبوتروں کی جگہ ہر سو پتنگ اُڑ رہے تھے۔ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ آکاش کی وسعتوں پہ ہر سوپرندے پرواز کر رہے ہیں۔ امن کا پیغام دے رہے ہیں۔
اور جب میں نے دیکھا کہ پتنگ کی ڈور اخترؔ کے ہاتھوں میں ہے تو میری سوچ سچ ثابت ہوئی ۔ اخترؔ نے اپنی اُڑانیں تبدیل کر لی تھیں۔
وقت کروٹیں بدلتا ہے۔
زمین اپنے محور پہ گُھومتی ہے۔
زندگی کے نشیب و فراز میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
موسم کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔
اور...........
ایسے میں اخترؔ کے خیالات اوراُس کے مزاج کا بدلنا کوئی عام بات تونہیں تھی لیکن ا س میں کوئی بات ضرور تھی۔
پھر اخترؔ نے اپنی اُڑانیں تبدیل کرلیں، پرواز کرتے ہوئے سفیدکبوتروں نے نہ جانے کب پتنگ کا روپ دھا رن کر لیاجس کی ڈور اخترؔ کے ہاتھوں میں تھی۔دور دور تک اخترؔ کی پتنگ کے داؤ پیچ کی مثالیں دی جانے لگیں۔
محلے کے لڑکے اخترؔ کے ارد گردگُھومنے لگے۔
اخترؔ کو سمجھتے دیر نہیں لگی کہ لڑکوں کی یہ بن بلائی ٹولی یوں ہی نہیں اُمڈ پڑی ہے۔ اس کی خاص وجہ میری پتنگ ہے۔ آکاش کی ان نیلی وسعتوں پہ صرف میں اُڑنا چاہتا ہوں،کیوں کہ میں امن کا پیامبر ہوں۔ میں ہی امن کی خبریں لایا کرتا ہوں ۔ان رنگ برنگے پتنگ کاآکاش کی ان کُھلی فضا میں کیا کام..........؟ یہ دھرتی تو خون کے دھبوں سے پہلے ہی داغ دار ہو چُکی ہے۔ اور اب ان نئی نسل نے آکاش کی نیلی وسعتوں پربھی اپنی خونی سازشوں کی پتنگ اُڑانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔
ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اور نہ میں کبھی ایسا ہونے دوں گا۔
آکاش کی ان نیلی وسعتوں پر اب کوئی بھی پرندہ پرواز کرے گا تو وہ امن کا پرندہ ہوگا ۔ سفیدپروں والا اور اگر کوئی پتنگ اُڑائی جائے گی تو وہ بھی سفید رنگ کی پتنگ بالکل سفید رنگ کی پتنگ ، ورنہ سب کے سب امن کی ڈور کے زیر اثر آتے ہی کٹ کر ڈور سے الگ ہو کربے وجود پتنگ کی طرح ڈولتے رہ جائیں گے، یا وقت کی تیز آندھیوں میں سُوکھے پتوں کی طرح بکھر جائیں گے۔
میں امن کا پیامبر ہوں۔
میں ہی امن کی خبریں لایا کرتا ہوں۔
میرے امن کی ڈور اتنی مضبوط ہے کہ یہ رنگ برنگی خونی سازشوں کی پتنگ تو کیا اس ڈور میں شب خون کے پرندے بھی لہولہان ہوکر زمیں بو س ہو جا ئیں گے۔
’’اخترؔ بھائی ایک بات کہوں۔ ناراض تو نہیں ہوں گے نہ آپ۔؟‘‘
’’میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگا۔‘‘
’’آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔؟‘‘
’’ مگر......وہ......‘‘
’’اب آگے بھی کچھ بولو گے یا وہ.....وہ کرتے رہو گے.......‘‘
’’وہ اپنے محلے کے شرما جی ہیں نا وہ آپ کے بارے میں ہمیشہ اُلٹی سیدھی باتیں کیا کرتے ہیں۔‘‘
’’اُلٹی سیدھی باتیں شرما جی کرتے ہیں یا ا س وقت تم کر رہے ہو ۔تم کہنا کیا چاہتے ہو۔‘‘
’’میں کہنا کیا چاہوں گا۔ کہہ تو شرما جی رہے تھے کہ اخترؔ کی عادتیں کُچھ اچھی نہیں ہیں۔ سُورج نکلنے سے لے کر سُورج کے ڈوبنے تک مُحلے کے لڑکوں کی ٹولیاں بنائے پتنگ اُڑایا کرتا ہے اور آوارگی کیا کرتا ہے۔میں اُس کی پتنگ کو اچھی طرح سے پہچانتا ہوں۔ اُس کی پتنگ سب سے زیادہ اُونچائی پہ اُڑا کرتی ہے۔میرا لڑکا روز نئے پتنگ کی ضد کرتا ہے۔ صبح سے شام تک درجنوں پتنگ میں خرید کردیتاہوں ۔لیکن ساری کی ساری پتنگیں پیچ میں کٹ جایا کرتی ہیں۔ ‘‘
کُچھ دیر ٹھہر کر ساحل نے کہا...... شرما جی یہ بھی کہہ رہے تھے کہ.......
’’میرا بیٹا کافی ضدی بھی ہے۔اگر پتنگ نہ لا کر دوں تو سارا د ن محلے کے آوارہ بچوں کے ساتھ کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے کسی آوارہ کُتّے کی طرح دوڑتے رہتا ہے۔ ایک روز تو ایسا بھی ہوا کہ کٹی پتنگ کے پیچھے دوڑتے ہوئے کسی تیز رفتار سائیکل کی زد میں آ گیا ۔ کافی چوٹیں آئیں۔ اُس کے با وجود بھی یہ لڑکا اپنے زخمی پاؤں لئے پتنگ کے پیچھے بھاگتا ہی رہتا ہے۔ جب سے مُحلے میں پتنگ بازی شروع ہوئی ہے مُحلے کے بچے اور اُس کے ساتھ بڑے لڑکے بھی اخترؔ کی ان حرکتوں سے پریشان ہیں کہ اُ س کی پتنگ اکثر اخترؔ کے پیچ سے ہی کیوں کٹ جایا کرتی ہے۔آخر اخترؔ اپنی ڈور میں کس منجھے کا استعمال کرتا ہے۔ کس طرح کا مصالحہ تیار کرتاہے۔
لڑکے حیران و پریشان ہیں۔ میں بھی پریشان ہوں صرف اس لئے کہ میری پتنگ بھی آپ کی ڈورسے کٹ جا یا کرتی ہے۔میر ے سا تھ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میری ڈورنے آپ کی پتنگ کو کاٹا ہو۔‘‘
’’اور کاٹ بھی نہیں پاؤ گے۔یہ میرا یقین ہے۔ تم جس شرما جی کی بات کر رہے ہو میں اُن کو اوراُن کے ضدی بیٹے وشال کو بھی اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ شرما جی اکثراپنے ضدی بیٹے کے لئے لال رنگ کی پتنگ کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا ۔؟ گُلابی اور لال رنگ کی پتنگ تو میں بھی استعمال کرتا ہوں۔‘‘
’’اس لئے تو کاٹ دئے جاتے ہو۔‘‘
’’یہ بھی کوئی بات ہوئی۔پتنگ کے کٹ جانے کا رنگ سے کیا تعلق ہے۔؟‘‘
’’میرے حساب سے تو تعلق ہے۔ اس وقت میری پتنگ کا رنگ کیا ہے۔؟‘‘
’’سفید‘‘
’’ابھی اس نیلے آکاش کی اور دیکھو۔ اور غور سے دیکھو کہ ابھی جتنی بھی پتنگیں اُڑ رہی ہیں سب کا رنگ کیا ہے۔؟‘‘
ساحلؔ نے باریک بین نگاہوں سے آکاش کی اور دیکھا جہاں ڈھیر ساری پتنگیں اُڑ رہی تھیں۔ اور سب کا رنگ سفید تھا۔ ساحل ؔ حیران تھا اور ساتھ ہی ساتھ پریشان بھی۔
’’ساحل ؔ خاموش کیوں ہو۔؟تم نے میرے سوالوں کا جواب ابھی تک نہیں دیا ہے۔‘‘
’’سفید‘‘
’’تو اب تم یہ سمجھ سکتے ہو شرما جی کے بیٹے وشال کی پتنگ میری ڈورسے کیوں کٹ جاتی ہے۔‘‘
’’میں کُچھ سمجھا نہیں۔‘‘
’’ تم سمجھو گے بھی نہیں۔یہ لومیری طرف سے ایک سفید پتنگ بطور خاص تمہارے لئے اورایک اور سفید پتنگ شرما جی کے بیٹے وشال کے لئے شرما جی سے کہنا اخترؔ نے کہا ہے کہ دل میں کوئی ایسی غلط فہمی نہ پیدا کریں جو آنے والے وقت میں خود اُنہیں ڈھیر
سارے سوالوں کے بیچ لا کر کھڑا کر دے اور جواب وقت کی گہرائی میں دفن ہو کر رہ جائے۔‘‘
’’اخترؔ بھائی میں اب جاؤں۔؟‘‘
’’میں نے تمہیں کب روکا ہے۔ کہانی تو تم نے شروع کی تھی۔ ‘‘
’’اور ختم بھی میں کر رہا ہوں۔‘‘
’’کہانی ابھی شروع بھی کہاں ہوئی ہے اور تم ختم کرنے کی باتیں کرنے لگے ۔کہانی ختم بھی میں کروں گا۔ ‘‘
’’وشال کو پتنگ دیتے وقت شرما جی سے کہنا کہ اخترؔ بھائی نے آپ کو یاد کیا ہے۔‘‘
...........................................
ساحلؔ اور اخترؔ کے درمیان جہاں گفتگو ہو رہی تھی، وہاں میں بھی موجود تھا ۔ نماز پڑھ کر مسجد سے واپسی کے وقت میں نے ان دونوں کو آپس میں اِس طرح کی باتیں کرتے ہوئے دیکھ کرسُننے کے لئے رُک گیا ۔
باتیں ہوئیں اور ختم بھی ہوگئیں۔
اخترؔ کی باتوں نے مجھے کافی متاثر کیا۔
’’مہتابؔ تم نے شرماجی کی باتیں نوٹ کیں۔؟‘‘ اخترؔ نے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔
’’میں نے صرف شرما جی کی ہی باتیں نہیں نوٹ کی ہیں، بلکہ آج تمہاری باتوں نے مجھے بے حدمتاثر کیاہے ۔ساحل ؔ کی عمر ہی کیا ہے۔ وہ ابھی اس اہل کہاں کہ وہ تمہاری ان فلسفیانہ باتوں کو سوچ سمجھ سکے۔‘‘
’’تمہیں تو اچھّی طرح سے معلوم ہے کہ میں کبوتروں سے کافی اُنسیت رکھتا ہوں وہ بھی سفید رنگ کے کبوتروں سے، میرے پاس کبوتروں کی اچھی نسلیں موجود ہیں۔ تم نے اُنہیں دیکھا بھی ہو گا۔ اور اب رہی بات ان کاغذی پتنگ کی ، میں سارا سارا دن لڑکوں کی ٹولی بنا کر آوارگی کرتا ہوں۔ یہ میں نہیں شرما جی نے کہا ہے۔اُس روز بھی میں ایسی ہی آوارگی میں مبتلا تھا جب میں نے ہی دوپہر کے سناٹے میں شرماجی کی جواں سال بیٹی کواُن کے ہی کاسٹ کے لوگوں سے آزاد کروایا تھا ورنہ وہ اُن وحشی درندوں کا شکار ہو جاتی۔ بعد میں وہ ساری بدنامیاں میرے حصے میں آگئیں ۔لیکن اللہ گواہ ہے۔ میں شروع سے ہی امن پسند رہا ہوں۔میری امی تواب اس دُنیا میں رہی نہیں لیکن امیّ کی آدرش وادی باتیں زندگی کا ہمیشہ احساس دلاتی رہی ہیں۔دنیا کو نئے طریقے سے دیکھنے کی تلقین کرتی ہیں ۔‘‘
’’اخترؔ میں تمہیں کیسے یقین دلاؤ ں کہ میں نے بھی زندگی کے شب و روز کو بڑے ہی حُسن اسلوبی سے گُذار ا ہے۔ لیکن تم دیکھنا آنے والی نسلیں اپنے پُر کھوں کو بھی پہچاننے سے قاصر رہیں گی۔یہ ساری کائنات خُدا کی دی ہوئی امانت ہے۔ اور کل ہم سب لوٹ جائیں گے اپنے اپنے اعمال کے ساتھ، لیکن آج ہر طرف وحشت و درندگی کے کالے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔اور اُن بادلوں میں بھی امن کی پتنگ اُڑ رہی ہے اور جس کی ڈورمیں تمہارے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں۔سفید کبوتروں کے جُھنڈ در جُھنڈ تمہارے گھر کے مُنڈیروں سے اُڑ کر علی الصباح ساری وسعتوں پر پرواز کرتے ہیں اور امن کا پیغام دیتے ہیں۔‘‘
وقت کروٹیں بدلتا ہے۔
زمین اپنے محور پر گھوم رہی ہے ۔
زندگی کے نشیب وفراز میں تبدیلیاں آ تی ہیں ۔
موسم کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔
’’اور اِن بدلتے موسموں کے رنگ کے درمیان ملک کی خُفیہ ایجنسیاں، بڑے بڑے میڈیا چینل، اخبارکی سُرخیاں، ٹی وی چینل یہ چیخ ، چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ پڑوسی ملک نے وحشت ودرندگی کے نقش پا کو ڈھونڈلیا ہے۔‘‘
’’جنگلی کبوتروں پہ کئے گئے ریسرچ نے کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔ چُھوٹے چُھوٹے کیمرے اُن جنگلی کبوتروں کے وجود پہ چسپاں کر کے اُنہیں ٹرینڈ کیا جا رہا ہے۔ہم لوگ جس علاقے میں رہ رہے ہیں وہ ہمارے پڑوسی ملک کی سرحدہے۔ اوریہ بھی سُننے میں آیا ہے کہ کُچھ جنگلی کبوتروں پہ جدید ٹیکنک کے چُھوٹے مگر کافی پاور فُل بم کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سارے جنگلی کبوتر چُھوٹے چُھوٹے خُفیہ کیمرے او ر پاورفُل بم سے لیس ہوں گے۔ اور جن کی اُڑانیں مسلسل کئی کئی گھنٹوں تک ہو تی ہے اور جب یہ سارے جنگلی کبوتر آکاش کی وسعتوں میں پھیل جائیں گے تواُن کبوتروں کے خُفیہ کیمرے اُن کے کنٹرول روم میں اُن علاقوں کی نشا ندہی کریں گے، اور پھرریموٹ کے ذریعے اُن خطرناک بموں کو ایکٹیویٹ کیا جائے گا۔‘‘
’’مہتابؔ تم نے جو کُچھ بھی سُناہے، میں تمہاری باتوں سے انکار نہیں کر سکتا۔ مگریہ ساری باتیں تو اب پُرانی ہو گئی ہیں۔ اور اب تو اُس کے رزلٹ کا وقت آ گیا ہے۔ اُس کے انجام کا وقت آگیا ہے۔ تم نے دیکھا نہیں میرے اُن کبوتروں کو جو علی الصباح امن کا پیغام پھیلاتے ہیں۔میں بھی ا پنے ملک کی حفاظت کے لئے جن کبوتروں کا استعمال کر رہا ہوں یا پھر شرماجی کی زُبان میں کہہ دوں کہ آوارگی کر رہا ہوں۔ اُس آوارگی کا نتیجہ بھی دیکھ لینا۔میں نے ساحلؔ کے ذریعے شرما جی کو بھی بلوایا ہے۔تم بھی کچھ دیر رُکو تاکہ میرے کبوتروں کا کمال دیکھ سکو ۔‘‘
زمین اپنے محور پر اُسی طرح گھوم رہی تھی ۔
کروٹیں بدلتا وقت شام کی گود میںآ کر کچھ دیر کے لئے ٹھہر گیا تھا ۔
شام کے سائے طویل ہو چُکے تھے۔ سارے سفید کبوتر منڈیروں پہ لوٹ آئے تھے۔
میں یہ دیکھ کر حیران تھاکہ سفید کبوتروں کے سنگ ڈھیر سارے جنگلی کبوتر بھی مہمان ہوئے ہیں جس پر چسپاں خُفیہ کیمرے کو میں دیکھ سکتا تھا۔ اور میں یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ اخترؔ کے سفید کبوتر اُن جنگلی کبوتروں کے پاور فُل اور خطرناک بم کے باریک باریک وائر کو اپنی چونچ سےDIFFUSE کر رہے ہیں۔
****
مہتاب عالم پرویزؔ
مکان نمبر ۱۱ ، کروس روڈ نمبر ۶۔ بی
آزاد نگر ، مانگو ، جمشید پور ۔ ۸۳۲۱۱۰