الأربعاء, 30 كانون2/يناير 2013 16:14

ریئلیٹی شو : ڈاکٹراختر آزاد

Rate this item
(0 votes)

ڈاکٹراختر آزاد 
مکان نمبر ۔۳۸، روڈ نمبر ۔۱
آزاد نگر ، جمشیدپور ۔۸۳۲۱۱۰
موبائل۔09572683122

برادرم مہتاب عالم پرویزؔ !
آداب 
اردو ویب سائٹ’’عالمی پرواز‘‘ کی خبرپہلے ہی مل چکی تھی ۔لیکن جب اسے نیٹ پر دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی۔اس کا’ لوگو ‘بہت دیدہ زیب ہے۔ یہ بہت محنت طلب کام ہے ۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کام کو سراہنے کے بجائے کچھ لوگ ٹانگ کھینچنے کی بھی کوشش کریں گے کہ اچھّا خاصہ افسانہ نگاری کر رہے تھے یہ کون سا کام شروع کر دیا۔تو ایسے لوگوں سے بھی بچنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن کچھ لوگ یقیناً ایسے بھی ہوں گے جو’عالمی پرواز‘ کے سلسلے میں اچھّی رائے رکھتے ہوں گے ۔ ان کی روشنی میں اپنا مشن آگے بڑھاتے رہیں تاکہ آپ کی ( پرویز کی) جوویب’ پرواز ‘ ہے وہ جمشید پور سے شروع ہو کرصرف ہندوستانی آسمان میں ہی اپنا جلوہ نہ دکھائے، بلکہ اپنے نام کی طرح’ عالمی پرواز‘ بن کر بین الاقوامی آسمان پر قوس و قزح کے رنگ بکھیر دے ۔
جھارکھنڈ کی سر زمین سے یہ پہلا اردو ویب سائٹ تو نہیں ہے ۔ اس سے قبل جناب اسلم بدر بھی اپنا ویب سائٹ لانچ کر چکے ہیں۔لیکن اس کے باوجود مجھے امید ہے کہ اردو میں جتنے بھی ویب سائٹ ہیں اس میں’’ عالمی پرواز ‘‘آنے والے دنوں میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ویب میگزین ہو گا۔ وہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ کے اندرا س کام کو کرنے کے لئے جو جنون دیکھ رہا ہوں وہ کسی ادبی پاگل کے اندر ہی ہو سکتا ہے ۔جس کا بچھونا ادب اور اوڑھنا کمپیوٹرہو۔اور یہ دونوں چیزیں آپ کے اندر بدجہ اتم موجود ہیں۔
میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔اللہ آپ کو کامیاب کرے تاکہ اس بہانے ہمیں بھی تھوڑا بہت سُرخرو ہونے کا موقع ملے۔ 
سرپرست کے طور پر ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کا نام ’عالمی پرواز.کوم‘کے لئے خوش آئند مستقبل کی ضمانت ہے۔ 
حکم کی تعمیل میں ایک غیر مطبوعہ افسانہ’’ ریئلیٹی شو ‘‘ ارسال کر رہا ہوں ۔ پسند آ جائے تو شامل کر لیں گے۔
افسانے کی اشاعت کے متعلّق جواب سے نوازیں گے ۔ 
خدا کرے آپ شگفتہ ہوں ۔
خیر اندیش
اختر آزاد 
۲۵؍جنوری ۲۰۱۳ء



ڈاکٹر اختر آزاد  DR. AKHTAR AZAD
مکان نمبر۔۳۸، روڈ نمبر۔۱
آزاد نگر ، جمشید پور۔۸۳۲۱۱۰(جھارکھنڈ)
موبائل: 09572683122
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
 ریئلیٹی شو

  REALITY SHOW


’’یہ وہ زمانہ نہیں کہ بچّوں کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنایا جائے ۔ یہ سب ریئلیٹی شو کی پیداوار ہیں۔ میں تو اسے ڈانسر بناؤگی۔‘‘ 
ڈاکٹرکپل تھکے ہارے ڈسپنسری سے جب گھر لوٹے تو آتے ہی انہوں نے اپنی پانچ سالہ بیٹی کے گلے میں اسٹیتھو اسکوپ پہنایا۔ ائرپیسیس کو کانوں میں ڈا ل کر ڈایافرام ہاتھوں میں دیا ۔اور گود میں اُٹھاکر ابھی دن بھر کا پیار اس پر نچھاور کرنا ہی چاہا تھاکہ تبھی شوبھا دوڑی ہوئی آئی اور اُن کی گود سے پریتی کو اُتار کر پہلے اسٹیتھو اسکوپ چھینا۔پھر ایک طرف پھینکتے ہوئے چلائی ۔اُس وقت ڈاکٹر کپل نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے اُسے سمجھانے کی کوشش کی ۔ 
’’ سب کچھ گیت سنگیت اور ڈانس سے نہیں ہوتا۔ تم نے بھی ہائر ایجوکیشن حاصل کی ہے۔اس لئے تمہیں ایجوکیشن کا ویلو معلوم ہونا چاہئے۔‘‘
’’ ویلو...!‘‘وہ مسکراتی ہے ۔’’وہ اپنے بازو والے انجینیئر ہیں نا ؟ ان کی سات سالہ بیٹی نے ڈانس کمپٹیشن میں ایک کروڑ جیتا ہے ۔چار مہینے تک مسیز شرما بیٹی کے ساتھ کبھی دہلی اور ممبئی کے اسٹار ہوٹلوں میں رہی ہیں ۔ ٹی وی پر ماں کی بھی تصویریں آرہی تھیں ۔ میں تو کل تک خود کو اس سے سُپر سمجھتی تھی ۔ لیکن اب اس گنوار سے بھی مجھے ٹِپس لینے پڑیں گے۔‘‘
’’دیکھو میں ڈسپنسری سے تھکا ہارا لوٹا ہوں۔چائے وائے پلاؤ۔یہ سب باتیں چھوڑو ۔ پہلے پریتی کو پڑھنے دو۔پھر دیکھیں گے کہ اُسے کیا بننا ہے ۔ یہ ڈانس وانس اور گیت سنگیت میں رکھا ہی کیا ہے ۔ کل تک یہی بھانڈ منڈلی میں ہوتے تھے ۔ شادی بیاہ کے موقعے پر گھر گھر ناچتے گاتے تھے ۔ ‘‘
’’کون ناچتا گاتا تھا مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ۔ٹھیک سے سن لو ۔ بعد میں یہ مت کہنا کہ میں نے نہیں بتایا.....کالونی کی عورتوں کے ساتھ آج میں بھی ڈانس کلب گئی تھی ۔بڑی مشکل سے پریتی کا ایڈمیشن بیس ہزارمیں کروا یا ہے ۔ سنڈے سنڈے ایک ٹیچرکوبھی گھر پر بلا لیا ہے ۔ وہ مہینے میں صرف پانچ ہزار لے گا۔‘‘
’’پانچ ہزار ....؟‘‘منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ’’تم پاگل تو نہیں ہو گئی ۔صبح دس بجے سے دو بجے تک اور پھر پانچ بجے سے آٹھ بجے تک ۔یہاں تک کہ لنچ کے ٹائم نرسنگ ہوم میں بیٹھتا ہوں تاکہ زیادہ کما سکوں ۔ تمہارے کہنے پر ہی باپ دادا کی نشانی کو اونے پونے میں بیچ کرمیں ہائی سوسائٹی میں رہنے آیا تاکہ پریتی کو ایجوکیشن کے لئے بہتر ماحول مل سکے ۔‘‘
’’ایجوکیشن...!؟‘‘وہ تیکھی ہنسی ہنستی ہے ۔ ’’ جسے تم بھانڈمنڈلی سمجھتے ہو نا؟اس کا رتبہ بڑے بڑے ایجوکیشنسٹ سے اوپر ہے۔ وہی نئی نسل کے آئیڈیل ہیں ....آج کون ہے جو شاہ رُخ اور ایشوریہ کو نہیں جانتا ؟ گیت سنگیت اور ڈانس کی خوبصورت سڑک ہی فلم انڈسٹری تک جاتی ہے ۔خوبصورتی تو آج ایک اے ٹی ایم کارڈ ہے ۔‘‘
’’تم ماں ہو کر بیٹی کوکیش کرانا چاہتی ہو۔‘‘ ڈاکٹر کپل نے ’’کیش ‘‘پر زور دیتے ہوئے ماں کی عزّت کو للکارا تو ماڈرن دور کے فیمنزم کلچر کو جسے آدھی دنیا قبول کر چکی ہے اُسے شوبھا نے نئے سیناریو کے پیشِ نظر کچھ اس طرح سامنے رکھا جیسے اس کی غلطی نہ ہو ۔سب پتی کی ہی غلطی ہو ۔
’’ٹی وی میں جتنے اشتہار آتے ہیں اس میں پروڈکٹ چاہے سوئی ہو یا جہازسب میں خوبصورت لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں ۔ اچھّی آواز کیا صرف گوری لڑکیوں کے پاس ہوتی ہے ۔ تم نے کبھی کسی چینل میں کالی یا بدصورت لڑکی کو خبریں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔ میگزین کا کور ہو تو لڑکی۔ بینک کا کاونٹر ہو تو لڑکی۔ سیلز مین ہو تو لڑکی۔ پی اے ہو تو لڑکی ۔ ہر فرم میں کمپیوٹر پر نازک انگلیاں تھرکاتی نظر آئیں گی لڑکیاں ۔ دنیا کی اس ریئلیٹی سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جس کی بیٹی جتنی خوبصورت ہو گی اُن کے یہاں رشتے دروازوں سے ہی نہیں کھڑکیوں اور روشن دانوں سے بھی آتے ہیں ۔میں تو کہتی ہوں کہ بازار میں جس چیز کا ڈیمانڈ ہو اُسے گوڈون میں رکھ کر سڑانا کون سی عقل مندی ہے....؟ ‘‘
*
ڈاکٹر کپل نے جب آس پاس کا جائزہ لیا تو اُنہیں سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ بچّے چاہے کسی سوسائٹی کے ہوں اُن کے اندر ریئلیٹی شو کے بخار کا ایسا وائرس داخل ہو گیا ہے جو پڑھ لکھ کر آئی اے ایس ، ڈاکٹر ، انجینیئر ، پرفیسر اور وکیل بننے کو بے وقوفی سمجھتا ہے ۔ الکٹرونک میڈیا نے انٹرٹینمینٹ کے نام پر معصوم بچوں کے سامنے گیت سنگیت ڈانس اور ہنسی مذاق کی تھالی میں ڈبل میننگ جیسی سیکسی پکوان پروس کر ان کے ذہن کو ایسا اسٹیریو ٹائپ بنا دیا ہے کہ رات دن ان کی زبان پر وہی ذائقہ چڑھا رہتا ہے ۔ذرا سوچئے کہ اگر سبھی بچّے ڈانسر ، گیت کار ،لافٹر یا پھر جوکر ہو گئے تو پھر ملک کی ترقّی کا کیا ہو گا ۔؟کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے۔؟
لیکن شوبھا کو فکر صرف اپنی تھی ۔اس لئے آنکھوں میں ریئلیٹی شو کا ایسارنگین چشمہ لگارکھا تھا کہ روشنی سے شرابوراسٹیج پر چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہونٹوں سے نکلتے مدھر گیت اور گیتوں پر تھرکتے پاؤں اور وی آئی پی باکس میں سج دھج کر بیٹھی عورت اوراس کے چہرے پر جیت کی بھینی بھینی خوشبوؤں میں لپٹی مسکراہٹ اور اس مسکراہٹ میں زندگی کا سارا حسن جو میڈیا کی چکا چوندھ نے عطا کیا تھا ۔اس کے سوا اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔اوروہی اب اس کی زندگی بن چکا تھا ۔ وہ پریتی کو بھی ڈانس کے گُر سکھا کر منچ پر اُتارنا چاہتی تھی ۔تاکہ وہ بھی وی آئی پی باکس کا حصّہ بن سکے ۔ وہ بھی کیمرے کے مرکز میں سمٹ سکے۔ اس کے چہرے پر بھی جلتے بجھتے قمقمے آنکھ مچولی کا کھیل کھیلیں اور اس کے چہرے پر بھی چاندنی جیسی مسکراہٹ ہو ۔ پریتی کے ہر پرفارمینس پر اس سے بھی انٹرویو لئے جائیں ۔پریتی ٹیلینٹ کا پرچم لہرائے اور لاکھوں کروڑوں کا چیک اس کی گود میں آکر گرے۔
ڈاکٹر کپل کی اب اپنے ہی گھر میں ایک نہیں چل رہی تھی ۔ شوبھا اپنے سنہرے منصوبے پرعمل پیرا تھی ۔ اب وہ اسکول اور چھوٹے چھوٹے کلبوں میں پریتی کے ڈانس کی نمائش لگانے لگی تھی۔شہر کے اخباروں میں تصویریں شائع ہورہی تھیں ۔ ہرجگہ پریتی ماں کی گود میں نظر آتی ۔ایک دن مشہور اخبار ’’ نمبر ون ‘‘ کے ایک رپورٹر نے معصوم بچّی سے اس کی عمر سے بڑا سوال کر دیا ۔
’’بیٹا چھ سات سال کی عمر میں آپ اتنا بہترین پرفارمینس کیسے کر پاتی ہیں ...؟‘‘
’’ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو اس کی طرف سے میں جواب دیتی ہوں ۔‘‘ پریتی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی شوبھانے مائک اپنی طرف گھما لیا ۔’’ کیا ہے کہ یہ جب تین سال کی تھی تب سے ہی اس کے پاؤں میوزک کی تھاپ پر تھرکنے لگے تھے ۔میں تو اسے پڑھانا چاہتی تھی ۔ لیکن بھگوان نے بچپن سے ہی ڈانسر کے سارے گن بھر دئے تھے۔ ڈانس سے بے انتہا پیار کی وجہ سے میں نے اسکول چھُڑوا کراسے ڈانس کلب جوائن کرا دیا ۔اب تو اس کے انگ انگ میں ڈانس رچ بس گیا ہے ۔ڈانس ہی اس کا عشق ہے ۔ ڈانس ہی اس کا پیار ۔اور ڈانس ہی اس کابھگوان بھی۔ کیابیٹی میں سچ کہہ رہی ہوں نا ....؟ ‘‘آنکھ مٹکاتے ہوئے اس نے پریتی کی طرف دیکھا ۔
’’جی ۔ جی مما ۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی ٹانگیں کپکپا رہی تھیں ۔ویسے تو اس کے دل میں آیا کہ وہ کہہ دے کہ پیسے کے لالچ میں میری ماں دن رات مجھ سے ڈانس کرواتی ہیں ۔ نہیں کروں تو مارتی پیٹتی ہیں ۔ کھانا بند کر دیتی ہیں ۔اس ڈر سے کہ کہیں پریکٹس نہیں کی توالیمنیٹ ہو جاؤں گی اور لاکھوں روپئے ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے .... میں بھی آزادانہ زندگی جینا چاہتی ہوں ۔ لیکن زبان کھولتے ہوئے ڈرتی ہوں کہ کہیں وہ مجھے جان سے مار نہ ڈالے ۔
’’ایک آخری سوال : جب بچّوں کی عمرکھلونے خریدنے کی ہوتی ہے تب ماں باپ قانون کی آنکھوں میں آرٹ کلچر اور انٹرٹینمنٹ کی پٹّی باندھ کر ریئلیٹی شو کے لئے شفٹوں میں کام کر واتے ہیں ۔اس میں کتنی سچائی ہے؟۔‘‘
اس سوال پر شوبھا پہلے مسکراتی ہے ۔ ’’ ہاں اس میں سچائی ہے۔میں ایسی کئی ماؤں کو جانتی ہوں.... ‘‘ اصل سوال کو ہضم کرتے ہوئے بات کا رخ دوسری طرف کچھ اس صفائی سے موڑ دیتی ہے کہ رپورٹر بھی شوبھا کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے ۔ ’’میں نے پریتی کے فیوچر کی خاطر پتی کو چھوڑا ہے ۔ وہ اسے بھی اپنی طرح ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔کیا رکھا ہے آج کل کے ڈاکٹر میں ....؟ میں نے بہت سمجھایا ۔ لیکن وہ نہیں مانے ۔اب جب بیٹی کو میں نے لائن اپ کر دیا ہے اور کچھ ہی دنوں میں کروڑوں میں کھیلنے جا رہی ہے تو وہ سمجھوتہ کے لئے تیار ہیں ۔‘‘
*
ڈاکٹر کپل گھر کے دو چار لوگوں کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرنے کے حق میں تھے۔لیکن شوبھا تیّار نہیں ہوئی کہ آج کل فیصلے گھر کی چہار دیواری میں نہیں بلکہ لائٹس ،کیمرے اور اوڈیئنس کو سامنے ٹی وی چینل کے دفتروں میں ہوتے ہیں۔جسے پوری دنیا دیکھتی ہے ۔ اس لئے اس نے اس پاپولر چینل کا انتخاب کیا جس میں ایک نچنیا نیم عریاں لباس زیب کئے فحاشی کی زبان میں چٹخارے لے لے کر اُلٹے سیدھے فیصلے سناتی ہے۔
’’ ہاں تو جناب اب یاد آپ کو بیٹی آرہی ہے جب وہ کمانے لگی ہے۔بیٹی کو ڈانسر تو آپ کی پتنی نے بنایا ہے۔ اس لئے اس کے پیسے پر پورا ادھیکا ر ....’’کیوں بھائیو اور بہنو! ان کی پتنی کا ہونا چاہئے یا نہیں ؟ ‘‘ اوڈیئنس کی طرف سے ’’ہاں ہاں ‘‘ کا شور اور اس کے ساتھ ہی ساتھ تالیوں کی گڑگڑاہٹ ۔ ڈاکٹرکپل کے کان پھٹنے لگتے ہیں۔اس دوران وہ کھڑی ہو کردو چار ٹھمکے لگاتی ہے اور پھوہڑ ہنسی ہنستی ہے۔ ’’ اگر یہ سب منظور ہے ڈاکٹر!تو پھر میں آپ کی شوبھا شری کو سمجھاؤں گی کہ وہ آپ کواپنے گھر بلا لے ۔لیکن اتنایاد رکھناکہ جب تک وہ خود سے یہ ناکہے کہ میں بیمار ہوں تب تک انجیکشن لگانے کی غلطی نہیں کرنا ۔سمجھے....؟‘‘
ڈاکٹر کپل کسی بھی قیمت پرجہاں شوبھا رہ رہی تھی وہاں جانا نہیں چاہتے تھے ۔ لیکن عمر کی بارہویں سیڑھی میں قدم رکھتے ہی بیٹی کی فکرستانے لگی تھی۔وہ جانتے تھے کہ شوبھا ریئلیٹی شو کے آسمان سے برستے پیسے کی بوندوں سے پریتی کو قبل ازوقت اتنا شرابور کر دے گی کہ اس کے چھوٹے اور جسم سے چپکے کپڑے خود بخود ٹرانسپرنٹ ہو جائیں گے۔وہ بھاگنے کی کوشش بھی کرے تو بھی کسی چھت تک پہنچتے پہنچتے وہ بھیگ ہی جائے گی ۔اس لئے وہ چھتری بن کر اس گھر میں رہنا چاہتے تھے ۔
لیکن کچھ ہی دنوں میں شوبھا کو بیٹی کے اوپر تنی باپ کی چھتری پسند نہیں آئی۔جھنجھلاہٹ اور غصّے میں ایک دن اس نے ڈاکٹر کپل کی طرف طنز بھرے شبدوں کی برچھی پھینکی ..... ’’ اے سی کار میں بیٹھنے والوں کو بارش سے بچنے کے لئے کسی چھتری کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ میں اسے پجارن نہیں ڈانسر بنارہی ہوں۔ جو قیمت چکانی پڑے گی میں چکاؤں گی۔ کرپیا آپ یہاں سے جائیں۔‘‘
انڈر سکسٹین سُپر ڈانسرریئلیٹی شو کے فائنل پانچ کنٹسٹینٹ میں پریتی کے لئے جگہ بنانے میں شوبھا نے کئی بارقیمت چکائی۔ اور ہر قیمت کے بدلے ہرہفتے ایک ایک زینہ وہ اوپر اُٹھتی رہی ۔ یہاں تک کہ پریکٹس کے بعد کئی بار پریتی نے ماں کے کان میں کچھ کہا..... لیکن شوبھا اُسے ہر بار سمجھاتی رہی ۔ ’’ بیٹی جس اونچائی پر تمہیں پہنچنا ہے ۔ اس میں سے سمجھو یہ ایک سیڑھی ہے۔ لیکن ذرا سوچو کہ اگر کسی نے اس وجہ سے سیڑھی کھینچ لی تو سارے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ بیٹا سکھانے والوں کا اتنا حق تو بنتا ہی ہے۔اس لئے جتنا ان کا حق ہے وہ لیتے ہیں تو لینے دو ۔ چھونے چھانے سے کیا ہوتا ہے ۔‘‘
اس کے بعد پھر پریتی نے ماں کے کان میں کبھی کچھ نہیں کہا۔کہا تو باپ کے کان میں بھی کچھ نہیں ۔ لیکن آتے جاتے سیاہ بادلوں کو دیکھ کر انہیں ایک طرح کا ڈر ستانے لگتا تھا ۔جب بھی بارش کا امکان ہوتا وہ چھتری لے کر سڑک پر آجاتے کہ کہیں پریتی نظر آجائے تو وہ اس کے سر پر چھتری تان سکے ۔ لیکن کبھی ایسا نہ ہو سکا۔اور ہر بار وہ مایوس قدموں کے ساتھ گھر لوٹتے رہے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ چھتری پرانی ہوتی گئی۔ اس میں جگہ جگہ سوراخ بننے لگے۔اب بارش میں ا س چھتری کا استعمال بے معنی ہو گیا تھا ۔اس لئے چھتری کو اسٹور روم کی قبرگاہ میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا۔
اب ڈاکٹر کپل کی زندگی کے تالاب میں تلخی کی کائی پرت در پرت اور بھی جمنے لگی ۔ جمتے جمتے جب پانی کی اوپری سطح پر ہرے بھرے میدان آباد ہو گئے تو ان کی زندگی اُس الگی کے پودے کی طرح ہو گئی جو ہوا کے زور اوربرساتی پانی کے بہاؤمیں اپنے وجود کو بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں ۔ایسے میں اُنہوں نے اپنے اندر کی کائی کوخود سے الگ کرنے کی بہت کوشش کی ۔لیکن جتنا وہ کوشش کرتے کائی اور بھی جمتی چلی جاتی ۔ 
ڈاکٹر کپل نے نوکرانی کے بیٹے شیام سندر کو پریتی کی کتابیں دے کراور اس کی پڑھائی کا خرچ اُٹھا کر شوبھا کے خلاف زندگی کی جنگ میں شامل کر لیا تھا۔شوبھا اُسی شیام سندر کو ہر روز کچھ ایسے کپڑے دھونے کے لئے دیتی تھی ۔جس سے اُسے گھن سی آتی تھی ۔ وہ ہر روز اسے چھوڑ دیا کرتا تھا۔ پیر دبانے اور مالش کی بات کو وہ ٹالنے کی کوشش کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے اُسے ہرر وز شوبھا کی مار کھانی پڑتی تھی۔ ماں اُسے بچانے کے لئے آگے آتی کہ لاؤ میں دھو دیتی ہوں۔مالش کر دیتی ہوں۔لیکن شوبھااسے دھکّے دے کر شیام سندر سے زبردستی دُھلواتی۔ پیر دبواتی ۔ مالش کرواتی کہ نوکر ہو کر اگر ابھی سے یہ سب کی عادت نہیں رہی تو پھر جوان ہو کر کیا کرے گا ۔؟
*
شوبھا نے جب یہ دیکھا کہ اتنی قیمت چکانے کے بعد بھی پریتی فائنل تک نہیں پہنچ پائی ہے تو اس نے اسے ماڈلنگ اسکول جوائن کروادیا ۔ اُن دنوں شوبھا کے پسندیدہ چینلوں میں ایف ٹی وی جیسے کئی چینل شامل ہو گئے تھے ۔ ماڈلنگ کی مقناطیسی کشش اُسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ کیٹ واک کرتی ادھ ننگی لڑکیوں کی طرح شوبھاپریتی کوبھی ویسا ہی کرنے کے لئے کہتی ۔’’ بیٹا کپڑے تھوڑا اور اوپر اٹھا لو ۔ بٹن ایک دو زیادہ بھی کھل جائیں تو کوئی بات نہیں ۔ نمبر اسی کے تو ملتے ہیں ۔ سب کچھ چھپا رہ گیا تو بے چارے ججیز کیا دیکھیں گے۔؟ نمبر کہاں دیں گے۔؟ ‘‘
ماڈلنگ اسکول جاتے ہی فٹنس کے نام پردرجنوں مرد پریتی کی خوبصورتی کو اُبھارنے کے لئے تندہی سے جٹ گئے۔ اسے صبح و شام ٹرائل سے گذرنا پڑتا ۔ سینہ ناف کمر اور نہ جانے کس کس چیز کی ناپ لی جاتی ۔ کبھی کبھی شوبھا بھی فیتہ لے کر بیٹھ جاتی ۔ کپڑے اتروادیتی ۔ پریتی شرماتی تو وہ کہتی۔ ’’یہ سب مالش کرنے والے ہاتھوں کا کمال ہے کہ کم وقت میں تمہارا انگ انگ سیکسی سانچے میں ڈھلنے لگا ہے ۔ میں تو دن رات بھگوان سے یہی پرارتھنا کرتی ہوں کہ تمہارا جسم اتنا خوبصورت ہو جائے کہ دنیا کا ہر مرد تمہیں اس روپ میں دیکھنے کے لئے میان سے اپنی اپنی تلواریں کھینچ لے۔‘‘
ٹرانس پرینٹ کپڑے کالیمینیشن کروا کر جب شوبھا نے پہلی بار لیمی نیٹیڈ گرل پریتی کورینپ پرکیٹ واک کے لئے اُتاراتو ہزاروں آنکھوں نے آپس میں تلواریں کھینچ لی تھیں ۔ اس کی چال ، کمر کا لوچ ۔ ناف کے بھنور اور سینے کے اُبھاروں کو دیکھ کر لوگ پاگل ہو اُٹھے تھے ۔ اس نے ایسی قیامت برپا کی کہ بڑے بڑے فیشن ڈیزائنراپنے اپنے برانڈ کو پرموٹ کرنے کے لئے منہ مانگی قیمت دینے پر مجبور ہو گئے ۔ کچھ دنوں تک یہاں بھی خوب ہنگامہ آرائی رہی ۔ لیکن رینپ پر جیسے ہی فریش لیگس نے نمائش کے لئے انٹری ماری توشوبھا کی ٹانگیں کپکپا نے لگیں ۔کیوں کہ بازارِ حسن کے نشیب وفراز سے وہ اب بخوبی واقف ہو چکی تھی۔
یہاں سے اُس نے سیدھا بیچ پارٹی کا رُخ کیا ۔جہاں دنیا بھر کے سیلانی موج مستی کے لئے آتے ہیں ۔پریتی کی خوبصورتی اور ڈانس کو دیکھ کر اُسے ایک سال کے کونٹریکٹ پر رکھ لیا گیاکہ اگرپرسنل کونٹریکٹ نے سیلانیوں کی تعداد میں اضافہ کیاتو اُسے دو بارہ سائن کیا جائے گا۔ لیکن سال ختم ہوتے ہی بیچ کی خوبصورتی بڑھانے کئی ٹین ایجر لڑکیا ں ایسی آگئیں جو اس سے زیا دہ دھماکے اور جلوے بکھیر نے میں ماہر تھیں ۔
پھر کچھ نئے جلوؤں کے ساتھ شوبھا نے اسے کلینڈر کی رنگین دنیا میں اُتارا ۔ یہاں کبھی سمندری لہروں کے درمیان پریتی ہیجانی کیفیت میں تصویر کھینچواتی نظر آتی تو کبھی بھیگی ریت پرسن باتھ لیتی ادھ ننگی لیٹی رہتی ۔ کبھی اوپر غائب تو کبھی نیچے غائب .....
جب سال کے کلینڈر بدلے تو وہ بھی وہاں سے غائب کر دی گئی ۔ 
کلینڈر سے نکالے جانے کے بعد شوبھا کو یہ اُمید تھی کہ اوپر نیچے کے حاضر غائب کھیل میں پریتی نے نئے فراز کے ساتھ کچھ ایسے نایاب نشیبی جوہر دکھائے ہیں جس کی بدولت اُسے کہیں نہ کہیں کام مل ہی جائے گا ۔ اور ایسا ہوا بھی ۔ اسے کام کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ۔سیکسی بُک کی زینت بننے کے لئے اُسے کئی فوٹو گرافر س کے آفر ملے ۔ یہاں بھی خوب شہرت حاصل ہوئی ۔ خوب پیسے کمائے ۔ لیکن فریش لیگس کے آتے ہی اس کے کام کی رفتارر میں بریک لگنے لگی..... پھر اس نے کئی چھوٹے موٹے پروڈکٹ کے ایڈ کئے ۔ پینٹی برا اور کنڈوم نے اُسے آسمان پر چڑھایا ۔ لیکن کوئی بڑی کامیابی نہیں ملنے کی وجہ سے بڑے برانڈ کے ایڈس جھولی میں کم گرے ۔ آہستہ آہستہ اشتہار کے دروازے بھی اُس کے لئے تنگ ہونے لگے ۔شوبھا اور بھی پریشان رہنے لگی ۔ وہ یہ اچھّی طرح جانتی تھی کہ فریش لیگس کی آمد سے ایک نہ ایک دن پریتی کے حسن کا سنسیکس کچھ اس تیزی سے نیچے گرے گا کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا ..... گرتا ہی رہے گا ۔اور گرتے گرتے مندی کے بازار میں یہ حسن ، کلب کے راستے طوائف کے کوٹھے تک مجرا کے لئے پہنچ جائے گا ۔
شوبھا کو ا یسی بھی اُمید تھی کہ گرتے سنسیکس کے باوجود کوئی نہ کوئی ڈائریکٹر یا پروڈیوسر فلم یا ٹی وی کے لئے کسی نا کسی آئٹم ڈانس یا اے سرٹیفیکیٹ میں پریتی کو سائن کر لے گا ۔ وعدہ بہتوں نے کئے ۔ لیکن چھوٹے موٹے آئٹم سونگ میں ایکسٹرا ڈانسر سے زیادہ کی حوصلہ افزائی کے لئے کسی نے بھی پیٹھ پر ہاتھ نہیں رکھا ۔اس طرح سے جب پریتی کو مس بیوٹی بنانے کا سپنا شوبھا کے سامنے چور چور ہونے لگاتو اس نے آخری پناہ گاہ کے طور پر ڈانس کلب کے انتخاب میں چھٹّی حِس کا سہارا لیا ۔
*
میٹرو سِٹی کے سب سے پرانے کلب ’’راج بار اینڈ ڈانس ‘‘جوائن کرتے ہی پریتی کی قسمت کا ستارہ ایک بار پھر حسن کے آسمان میں چمکنے کے لئے بے تاب ہو گیا۔یہاں پہنچتے ہی شوبھا کا اُٹھنا بیٹھنا ہائی پروفائل لوگوں کے ساتھ ہونے لگا ۔ بڑے بڑے منتریوں کی پارٹی میں وہ پریتی کو لے جا نے لگی ۔ وی آئی پی کی خوشنودی کی خاطرشوبھااسے کبھی بلیک شیشے والے اِمپورٹیٹ کار میں گھنٹے دو گھنٹے کے لئے سڑکوں کی پیمائش کرنے بھیج دیتی تو کبھی ڈنر پارٹی میں مزے اُڑانے کے لئے کمرے تک پہنچا دیتی ۔ اب اس کی آنکھیںیہ خواب بھی دیکھنے لگی تھیں کہ اِس عزّت کے عیوض اُسے آئندہ انتخاب میں عزّت پور سے ایم پی کا ٹکٹ ملے گا۔۔
اِدھر چائلڈ ریئلیٹی شو کی مقبولیت دن رات بڑھتی جا رہی تھی ۔ بچّے کی آنکھیں ریئلیٹی شو کے پالنے میں کھُل رہی تھیں۔اُنہیں ماں کی پستانوں سے اب دودھ کے ساتھ ساتھ گیت سنگیت اور ہنسی کے کیلشیم بھی ملنے لگے تھے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکول بند ہونے لگے ۔ اور اس کی جگہ سونگ ڈانس اور لافٹر اسکول ہزاروں کی تعداد میں کھلنے لگے ۔ مستقبل کو اندھیرے میں گھرتا دیکھ بہت سارے پڑھے لکھے نوجوا ن بھی راتوں رات یو ٹرن لے کر سنگر ، ڈانسر اور لافٹر ٹیچر ٹریننگ کے فارم لئے لمبی لائن کا حصّہ بن گئے ۔ 
ایجوکیشن سے جڑے لوگوں نے جب علم کے تئیں بچوں اور گارجین کی عدم دلچسپی کو دیکھا تو اُنہیں سمجھتے دیر نہیں لگی کی یہ سب مغرب کی نقالی میں حسن پرستی کے چولہے پر بچّوں کی ہانڈی چڑھا کراپنے لئے عیش کی گرما گرم روٹی سینکنے میں لگے ہیں۔ رہنُماؤں نے تو دانشورانِ قوم کا بھر پور ساتھ دیا ۔ لیکن جب کروٹ بدلتا وقت ہر چیز میں ریئلیٹی تلاش کرنے لگا تب دیکھا دیکھی ان کے بچّے بھی ریئلیٹی کے رنگ میں رنگنے لگے ۔ کیوں کہ وہ جب اپنے جیسے بچّوں کے ہاتھوں میں طبلہ ، ڈھولک ، بینجو ، گیٹار دیکھتے تو بس میں کتابیں لے کر سیٹ شیئر کرنے میں اُنہیں ذلّت محسوس ہوتی۔اس وقت بچّے عجیب نظروں سے اُسے دیکھتے۔گھر آتے ہی کئی بچّے کتابیں پھینک دیتے۔پڑھائی کے نام پر اُنہیں گھن سی آتی ۔ گھُٹن کا احساس ہوتا ۔
ایسے ہی ماحول میں کچھ ایسے بھی گارجین تھے جو ڈانٹ ڈپٹ کر ، مار پیٹ کر ،ڈرا دھمکا کر بچّوں کو اسکول بھیجتے رہے۔ان کی بدولت ہی اکّا دکّا اسکول کہیں کہیں چل رہے تھے ۔ لیکن اس کا چلنا نہ چلنا کوئی مطلب نہیں رکھتا تھا ۔ایسے گارجین کو لوگ دیکھ کر ہنستے۔جان بوجھ کر چھیڑتے۔’’ آپ اپنے بچّوں کو کہاں بھیج رہے ہیں ‘‘۔؟’’ اسکول ‘‘ سنتے ہی وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ۔ ہنستے اور پھر نصیحت کرنے سے باز نہیں آتے۔ ’’ آپ بچوں کو زبردستی پڑھانے پر کیوں تُلے ہیں ۔؟ تھوڑا پیسہ خرچ کر کے بچّے کو سنگیت ونگیت یا ڈانس اسکول بھیجیں ۔ورنہ فیوچر کے سٹلمینٹ میںآپ کے بچّے پیچھے رہ جائیں گے ۔ ‘‘
*
پیچھے تو پریتی بھی رہ گئی تھی۔
نہیں نہیں وہ تو بہت آگے گئی تھی ۔خود سے بھی آگے ......خود سے آگے جانااور خود سے پیچھے رہ جانا۔ یہی وہ فرق تھا جسے اب پریتی شدّت سے محسوس کرنے لگی تھی کہ اگر زندگی میں سب کچھ گیت سنگیت اور ڈانس ہے تو پھر کل آنے والی نسل کا کیا ہو گا.... ؟ ایسے بہت سارے سوالات اس کے ذہن کے آسمان میں ستارے بننے لگے تھے ۔لیکن شوبھا کی سورج آنکھوں کے سامنے اس کے جھلمل کرتے تارے روپوش ہوجاتے ...... اب توباپ کا چہرہ بھی آنکھوں میں گم ہونے لگا تھا ۔ لیکن یادیں باقی تھیں ۔جسے وہ چھپا کر رکھتی۔جو اکثر اس کے اندر ہلچل برپا کرتی رہتی...... کورٹ سے لمبی لڑائی کے بعد ماں نے اُسے جس طرح ہتھیا یا تھا وہ اُس کے معصوم ذہن میں محفوظ تھا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ماں کے خلاف نہیں جاسکتی تھی ۔ عیش وآرام پر بریک نہیں لگا سکتی تھی ۔کیوں کہ وہ جینا چاہتی تھی ۔ اپنی مرضی سے۔ اپنی خواہش سے .... لیکن یہ سب کچھ اس کے اختیار میں نہیں تھا ۔ کیوں کہ وہ ابھی اٹھارہ کی نہیں ہوئی تھی ۔ 
پریتی کے ٹین ایج بیوٹی کو شوبھا جتنا کیش کرانا چاہتی تھی ۔کرا چکی تھی۔اب وہ میچوریٹی میں قدم رکھنے لگی تھی ۔نئی گلوبل بیوٹی کی نظریاتی تھیوری کے مطابق حسن کی عمر چودہ سے اٹھارہ سال ہے ۔ اس عمر سے جو لڑکیاں تجاوز کرگئیں ،سمجھو اس کے حسن میں اسٹیگ نیشن آگیا ۔ اس کے بعدوہ صرف بچّہ ہی جن سکتی ہے۔
اس تھیوری کے مدّنظر حسن کے نئے گلوبل ویلیج میں ٹین ایجر کی مانگ میں جب کچھ اور تیزی آگئی تو شوبھا سوچ میں پڑ گئی کہ کہیں راتوں رات کوئی فریش لیگر راج ملہوترہ کے دل پر راج نہ کرنے لگ جائے ۔ اس لئے وہ چاہتی تھی کہ پریتی جلد سے جلداُسے پھانس لے اور بار اینڈ ڈانس کلب کی راج رانی بن جائے ۔بچّے پیدا کرے تب بھی ٹھیک ہے۔ نہیں کرے تب بھی ٹھیک ہے.... اس کی آخری زندگی عیش کی چھاؤں میں گذرنی چاہئے۔
شوبھا کی آنکھیں اب یہ دیکھنے لگی تھیں کہ راج ملہوترہ تمام بار بالاؤں میں پریتی کوعزیز ہی نہیں رکھتے بلکہ اس پر دل و جان سے مرتے بھی ہیں ۔ بات ہی بات میں اُس نے راج کے دل کو ٹٹولنا چاہا۔وہ توایک اور بازی کے لئے دل وجان سے تیّارہی تھا ۔لیکن پریتی نے یہ کہہ کر بات ٹال دی ۔ ’’ بھلے ہی دواؤں نے جسمانی طور پروقت سے پہلے جوان کر دیا ہو لیکن قانوناَ میں ابھی بالغ نہیں ہوئی ۔اس لئے آپ کو جوسوچنا ہے سوچیں ۔راج ملہوترہ کوکیا کہنا ہے وہ آپ دیکھیں .....‘‘
اس میں شوبھا کے لئے دیکھنے والی کیا بات تھی ۔؟ سیدھے اس نے راج سے مل کرسگائی کی تاریخ رکھ دی ۔ 
اٹھارویں سالگرہ کا جشن بڑی دھوم دھام سے منایا جا رہا تھا ۔راج با ر اینڈ ڈانس کلب کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا ۔ پریتی اور راج کی سگائی کے اس موقعے پر شوبھا بہت خوش نظر آرہی تھی کہ اس نے بہت صحیح وقت پر پریتی کاسٹلمینٹ کر دیا تھا۔ دوسری طرف پریتی ماں سے بھی زیادہ خوش تھی کہ آج وہ قانونی طور پر اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے سنبھالنے لے لائق ہو گئی ہے۔راج ملہوترہ کی خوشی بھی قابل دید تھی ۔وہ تو پاگل سے ہو رہے تھے کہ پریتی کی آمد نے قلیل مدّت میں بار کی آمدنی میں حیرت انگیز اضافہ کرکے اسے لائف پارٹنرکا جوحسین تحفہ دیا ہے ۔وہ صدیوں میں کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔
سگائی پارٹی شام میں تھی ۔ لیکن پریتی کی خوشی کا عالم یہ تھا کہ وہ صبح سے کئی بار قد آدم آئینے کے سامنے اپنا اسٹائل اور میک اپ بدل چکی تھی۔آخر دوپہر ہوتے ہوتے اس نے بیوٹی پارلر جانے کا ارادہ کرلیا ۔ شوبھا ساتھ جانا چاہتی تھی ۔ لیکن پریتی نے یہ کہہ کراُسے روک دیا ۔’’ آپ یہاں راج ملہوترہ کے ساتھ پارٹی کا انتظام دیکھیں ۔میں ابھی گئی اور ابھی آئی۔‘‘
مہمان آگئے تھے ۔ ہر طرف لڑکیاں میوزک پر تھرک رہی تھیں۔جلتے بجھتے رنگین قمقمے ایک ایسا طلسماتی ماحول پیدا کر رہے تھے کہ آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ہر کسی کو اس انوکھی سگائی کا انتظار تھا ۔وقت نکلا جا رہا تھا ۔ سبھی شوبھا سے پوچھ رہے تھے کہ پریتی کہاں ہے۔؟ اور وہ ہر کسی کو یہی کہہ رہی تھی۔ ’’ بیوٹی پارلر گئی ہے ۔ بس آتی ہی ہو گی ۔ ‘‘
اس دوران شوبھا نے کئی بار فون لگانے کی کوشش کی ۔ ہر بار انگیز ملا ۔ راج ملہوترہ نے بھی اپنی طرف سے کوشش کی ۔کئی اور ہاتھ ٹرائی کے لئے آگے آئے۔لیکن کسی کو کامیابی نہیں ملی .... حادثہ یاکڈ نپ کے خیال سے شوبھا اور راج کا بُرا حال ہو رہا تھا۔ دونوں اپنی پریشانی کوکسی پر ظاہر کرنانہیں چاہتے تھے ۔ اس لئے آرکیسٹرا اسی طرح بج رہا تھا ۔بالاؤں کا ڈانس اسی طرح جاری تھا ..... کچھ قریبی لوگوں کو ہدایت دے کر یہ دونوں ابھی پولس اسٹیشن جانے ہی والے تھے کہ شوبھا کے موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی ۔ اسکرین پر پریتی کا نام روشن ہو گیا ۔ اس کے اندر سے باہر نکلتی روح اچانک اس کے جسم کے اندر دوبارہ حلول کر گئی ۔
’’پریتی کا فون ہے۔‘‘ اس نے میوزک کے شور میں چلّاکراپنے قریب کھڑے راج سے کہا ۔
راج نے آرکیسٹرا والے کو اشارہ کیا توپاپ میوزیکل ہنگامہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ سبھی شوبھا کو دیکھنے لگے ۔اس وقت تک شوبھا نے موبائل کان سے لگا لیا تھا ۔
’’ بیٹا کہاں ہو۔؟جلدی آؤ ۔سگائی کے انتظار میں بے چارے راج کا برُا حال ہو رہا ہے۔‘‘
پھر مسکراتے ہوئے اس نے راج ملہوترہ کی طرف دیکھا ۔’’ اب زیادہ پریشان مت ہومیرے راج!۔ بس وہ آہی رہی ہے۔لیکن کب ؟یہ تم خود سے سن لوتاکہ تمہارا دل ایک بارپھر سے جوان ہوجائے......‘‘ شوبھا نے اسپیکر آن کرکے راج ملہوترہ کو دے دیا ۔
پریتی کی آواز ہال میں گونجنے لگی۔
’’اسّی سالہ بوڑھے راج ملہوترہ کی پراپرٹی پر تمہاری نظر ہے۔تم اس کی رکھیل بن جاؤ....میں مندر میں پھیرے لی چکی۔ انڈرگارمینٹ دھونے والاشیام سندراب ڈاکٹر بن چکا ہے ماں۔‘‘
*** 
Add:-
DR.AKHTAR AZAD
HOUSE NO:-38 , ROAD NO:- 1
AZADNAGAR
JAMSHEDPUR-832110
(JHARKHAND)
MOB-09572683122, E.Mail- عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 11366 times

2 comments

  • Comment Link Dr.akhtar Azad الإثنين, 04 شباط/فبراير 2013 18:15 posted by Dr.akhtar Azad

    Bahut bahut shkriya Mahboob

  • Comment Link mahboob alam الأحد, 03 شباط/فبراير 2013 14:11 posted by mahboob alam

    very nice, sir ji

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com