الأربعاء, 30 كانون2/يناير 2013 16:31

ہڑتال : نیاز اختر

Rate this item
(0 votes)

ڈیر مہتاب بھائی 
اسلام و علیکم 
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔آپ نے جمشید پور کی سطح پر ادبی ویب سائٹ ’’ عالمی پرواز ‘‘لانچ کر
ایک بڑا اورخوش آئند قدم اٹھایا ہے۔ا ﷲ تعالی کامیابی عطا فرمائے۔ آمین !
حسب ارشاد ایک تازہ ترین افسانہ بعنوان ’’ ہڑتال ‘‘ ارسال کر رہا ہوں امید ہے پسند آئے گا۔
آپکا خیر اندیش
نیاز ااختر
ایس۔ ڈی۔او ۔آفس
جمشیدپور

















ہڑتال 

نیاز اختر
ایس۔ڈی۔او۔ آفس ،جمشیدپور
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. 

ہڑتال ! ہڑتال !! ہڑتال!!

’’ہماری مانگیں پوری کرو۔۔۔۔۔۔ انقلاب زندہ باد۔‘‘
پچھلے کئی مہینوں سے گنگا رام جوٹ میل میں بھی ہڑتال کا سلسلہ چل رہا تھا۔ پانچ د س دنوں کی کئی ہڑتالیں ہوچکی تھیں۔مگر ناکام رہیں ۔ دنوں دن مزدور اور مالکوں کے بیچ کی کھائی پٹنے کے بجائے اورگہری ہوتی جارہی تھی ۔ یوں آسمان چھوتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے لگ بھگ سارے ڈپارٹمنٹ میں تنخواہ بڑھانے کے سلسلے میں ہڑتالیں ہورہی تھیں اور مانگیں بھی پوری ہورہی تھیں۔ لیکن گنگا رام جوٹ میل نے بہت دنوں سے مزدورں کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا۔ 
مل مالکوں نے جب چھوٹی چھوٹی ہرتالوں کو نظر انداز کردیا اور کوئی نوٹس نہیں لی تو مزدوروں نے مل جل کر یہ فیصلہ کیا کہ غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی جائے اور پھر مانگیں پوری نہ ہوئی تو تشدد کی راہ اپنائی جائے ۔
ہڑتال نے ایک نیا موڑلیا اورمزدوروں نے مل کو مقفل کر کے بھوک ہڑتال اوردھرنا کا سہارالیا۔ ان ساری کارروائی کے سرگرم عمل رہنما رگھوناتھ بابو تھے جو مل کے ایک سیکشن میں چارج مین تھے ۔ اور یونین کے لیڈر بھی ۔ رگھوناتھ بابو کے پیٹھ پر دربان گلاب سنگھ تھا جو بڑاہی گھٹیلا تھا۔ گلاب سنگھ رگھوناتھ بابو کو چاچا ہی کہتاتھا۔ رگھوناتھ بابو جو کہتے اس پر گلاب سنگھ بے دریغ عمل کرتا۔ اب ہرٹال کے تقریباً چار ماہ گزرچکے تھے ۔ اس عرصے میں سینکڑوں مزدوروں کے یہاں روٹی کے لالے پڑگئے تھے ۔ بہتوں نے پیٹ پالنے کے لئے چھوٹے چھوٹے دھندے شروع کر دئے تھے ۔ اوربہتوں نے قلی کباڑی کے کام شروع کردئے تھے تاکہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے ۔ ادھر مل مالکوں کے کانوں پر جوں نہ رینگتی ۔ وہ مزدوروں سے بات چیت تک کر نے سے گریز کرنے لگے ۔ 
ادھر گلاب سنگھ باربار اپنے لیڈر رگھوناتھ چاچا سے اجازت مانگتا رہتا کہ کیوں نہ مل کے کسی حصے میںآگ لگادی جائے یا مالکوں کے ساتھ تشدد کا حربہ استعمال کیاجائے ۔ لیکن رگھوناتھ چاچا اسے یہ کہہ کر سرد کر دیتے کہ وقت آئے گا تو میں خود ہی تمہیں کہوں گا۔ 
لمبی ہڑتال کا اثر گلاب سنگھ کے خاندان پر بھی پڑا کیونکہ وہ صرف رگھوناتھ چاچا کے پیچھے ہی چل رہاتھا۔ کوئی دوسرا دھندا شروع نہیں کیاتھا ۔ آخر کب تک ایک دن اس نے رگھوناتھ چا چا سے دبی زبان میں کہہ دیا۔ 
’’چاچا سوچتا ہوں کوئی دوسرا دھندا شروع کردوں ، کافی کڑکی ہوگئی ہے ۔‘‘
’’ارے تم نے پہلے کیوں نہیں کہا۔ تجھے دوسرا دھندا کرنا پڑے گا آخر تیرا یہ چاچا کس دن کام آئے گا۔ لے تجھے کتنے روپئے چاہئے ۔‘‘ اور رگھوناتھ چاچا نے سوسو کے دس نو ٹ اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے ۔
گلاب سنگھ چاچا کی فراخ دلی پر کھل اٹھا اور اب تو پورے تن من سے چاچا کے پیچھے پیچھے ہی چلتا رہا چاہے جیسی مٹنگ ہورگھوناتھ اسے اپنے ساتھ ضرور لے جاتے ۔
ایک دن دوپہر کا وقت تھا ۔ اچانک کسی نے مل کے مالک تک یہ افواہ پھیلادی کہ مزدوروں نے مل میں آگ لگادی ہے ۔ بس کیا تھا مل مالک نے تھانے میں وپورٹ کی اور پولیس پارٹی کو لے کر مل پہنچ گئے ۔
لیکن مل مالک کا اندازہ غلط نکلا ۔مل کے آس پاس بھی آگ زنی کی کوئی بات نہیں تھی ۔ ہاں مل کے مین گیٹ پر مزدوروں کی گرما گرم سبھا ہورہی تھی اور رگھوناتھ بابو ا اونچی آواز میں اپنی تقریر کررہے تھے ۔ اس وقت رگھوناتھ کی تقریر سارے مزدوروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ جوں ہی مزدوروں نے مل مالک کو پولس والے کے ساتھ آکر رکتے دیکھا ۔ تو ان لوگوں کا غصہ ایک دم شعلہ کی طرح بھڑک اٹھا اور مزدوروں نے مالک کی کار پر پتھر پھینکنا شروع کردیا۔
پولیس پارٹی نے جو یہ حال دیکھا تو اس نے بھی مورچہ سنبھالا اور ڈنڈے بر سانے شروع کردئے ۔ ایک کراراڈنڈا رگھوناتھ بابو کو بھی جا لگا۔ بس کیا تھا گلاب سنگھ کا پار ابالکل چڑ ھ گیا اور اس نے آ�ؤ دیکھا نہ تاؤ لپک کر مل مالک کو دھر دبوچا اورگھونسوں کی بارش کردی۔
کئی گھنٹے کی مسلسل جدوجہد کے بعد پولیس نے ہڑتالیوں پر قابو پالیا اور گلاب سنگھ کو قاتلانہ حملے کے جرم میں گرفتا ر کر کے لے گئی ۔ لیکن اس حادثہ نے بہت ہی اچھا اثر چھوڑا اور مل مالکوں اور مزدورں کے بیچ کی کھائی پاٹنے کی کوشش کی جانے لگی۔
رگھوناتھ کی مصروفیت اب اوربھی بڑھ گئی۔ پھر بھی وقت نکال کر وہ دو ایک بار گلاب سنگھ کو ڈھارس بندھانے کے لئے جیل خانے تک گئے تھے ۔ رگھوناتھ چاچا کو دیکھ کر گلاب سنگھ بے فکر ہوجاتا۔ ہاں اس کی ایک ہی بنتی رہتی ۔
’’چاچا میرے بچوں اور چترا کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔۔‘‘
مل مالکوں نے پندرہ دنوں کے بعد مزدوروں کے ساتھ مل کر ان کی مانگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی تجویز پیش کی ۔ سوموار کے دن یونین کے ممبران اور مالکوں کے بیچ میٹنگ بلائی گی ۔ مزدوروں کے نمائندہ اور مالک ایک جگہ اکٹھا ہوئے اورگھنٹوں دونوں طرف سے ردوقدح چلتارہا ۔ فائلوں کی اٹھا پٹک ہوتی رہی ۔ آخر کار مالکوں کو مزدوروں کی لگ بھگ سبھی مانگوں کو منظور کرنا پڑا۔ اور اعلان کیا گیا کہ کل سے مزدور اپنے کام پر چلے آئیں۔ بس کیا تھا سارے مزدوروں میں امنگ اور ترنگ کی نئی لہر یں امنڈ نے لگیں۔ وہ لوگ خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے ۔ 
لیکن اس خوشی میں کسی بھی ممبر یا مزدور کے لب پر گلاب سنگھ کانام تک نہ آیا۔ سارے لوگوں نے اسے یکسر بھلا ڈالا ۔
ہڑتال ٹوٹنے اور مزدوروں کی مانگیں پوری ہوجانے کی خوشخبری سن کر گلاب سنگھ ایک دم سے جھوم اٹھا۔ اوربڑی بے صبری سے رگھوناتھ چاچا کا انتظار کر نے لگا۔ اس کی آنکھیں جیل کے پھاٹک کی طرف ہی مرکوز رہتیں لیکن چوبیس گھنٹے گزر گئے رگھوناتھ چاچا کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ 
دوسرے دن مہینوں سے بند پڑا مل کھلا اور معمول کی طرح سارے مزدور خوش خوش اپنے اپنے کاموں پر لگ گئے ۔
ادھر گلاب سنگھ کی بیوی اور بچے دانے دانے کو ترس رہے تھے ۔ کئی روز گزر گئے رگھوناتھ چاچا نہ تو گلاب سنگھ سے ملنے کے لئے جیل گئے اور نہ ہی اس کے گھر اس کے بچے کو دیکھنے کے لئے گے ۔ مجبور ہو کر گلاب سنگھ کی بیوی نے ہی ہمت کر کے اور رگھوناتھ چاچا کے گھر کا پتہ ڈھونڈکر ان کے یہاں پہنچی ۔
جس وقت گلاب سنگھ کی بیوی رگھوناتھ چاچا کے گھر پہنچی اس وقت رگھوناتھ چاچا اپنے کپڑے تبدیل کر رہے تھے ۔ اوربڑی جلدی میں تھے۔ لیکن رگھوناتھ چاچا کو دیکھتے ہی چترا ایک دم سے پھپھک پڑی اور رو رو کر کہنے لگی ۔ 
’’چاچا ہڑتال تو کھتم ہوگئی مگر وہ نہیں چھوٹے ۔۔۔ چا چا بڑی مصیبت میں ہوں ۔۔۔ کچھ تو کرو چاچا ۔۔۔ ؟ 
’’ ہاں ہاں ۔۔۔ کیوں نہیں ۔۔۔ لیکن آج تو میں بہت جلدی میں ہوں۔ آج ورکروں کے درمیان بقایا رقم بٹوانا ہے ۔ اورکہتے ہوئے رگھوناتھ چاچا رکشہ پر چڑھ کر مل کی طرف چل پڑے اورچترا امید بھری آنکھوں سے اپنے ہمدرد رگھوناتھ چاچا کو جاتے دیکھ رہی تھی ۔ اسے خبر نہیں تھی اور شاید ہی کبھی خبر ہو پائے گی کہ مالک نے رگھوناتھ بابو سے سمجھوتے سے قبل ہی یہ شرط قبول کرو الی تھی کہ گلاب سنگھ کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ اس نے مالک پر ہاتھ اٹھایا تھا۔
*****

Niyaz Akhtar 
S.D.O office jamshedpur 
E-mail- عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 3128 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com