ڈاکٹر اسلم جمشید پوریؔ
ادب ،سماج کا عکاس ہو تا ہے۔یہی سبب ہے کہ آئے دن سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کا ادب پر خاصا اثر ہو تا ہے۔میر کی شاعری میں دہلی کے اجڑنے ،برباد ہونے اور مفلوک الحالی کا عکس بخوبی دیکھا گیا۔خطوطِ غالب میں1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بیشتر واقعات، انگریزوں کی چالیں ہندوستانیوں کے حوصلوں کا ذکر ملتا ہے۔متعدد افسانوں،ناولوں اور ڈراموں میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے احوال ملتے ہیں۔ترقی پسند تحریک نے تو ادب کی کایا ہی پلٹ کر دی۔ملک تقسیم ہوا۔دونوں طرف خون کی ہولیاں،عصمت دری،قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا۔منٹو ،کرشن چندر،بیدی ،عصمت ، خواجہ احمد عباس،احمد ندیم قاسمی ،ممتاز مفتی،اشفاق احمد،قدرت اللہ شہاب،حیات اللہ انصاری،خدیجہ مستور وغیرہ نے اپنے ادب پاروں میں نہ صرف اسے پیش کیا بلکہ احتجاج بھی کیا۔ عالمی سطح پر بھی فلسطین پر ہو نے والے مظالم ،ناین الیون ،بوسنیا،چیچینیا،عراق،افغانستان،کے شعلے زدہ علاقے،آلودگی کے خطرات،زہریلی گیسیز کا رساؤ۔جیسے متعدد واقعات ایسے ہیں جو ادب پر اثر انداز ہو ئے ہیں۔سچا ادب سماج کا تخلیقی اظہار ہے۔
و السلام
ڈاکٹراسلم جمشید پوریؔ