بیگ احساس نامی ستارہ بھی منوں مٹی کے نیچے ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ اپنی ادارت میں ’سب رس‘ کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے جدت عطا کر نے وا لے بیگ احساس اپنے پیچھے خلا کا سا احساس چھوڑ گئے ہیں۔اپنے افسانوں اور تنقید سے حیران کرنے والے بیگ احساس کی موت نے بھی سب کو حیران کیا ہے۔
’دخمہ‘ کے لیے جب انہیں سا ہتیہ اکا دمی انعام کا مستحق سمجھا گیا تو ہم میں سے کسی کو حیرت نہیں ہوئی کہ آپ کا افسانوی ادب اس معیار کا تھا کہ انہیں یہ انعام پہلے ہی مل جانا چاہئے تھا۔آپ کے کئی افسانوی مجمو عے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے معروف افسانوں میں دخمہ، دار، شکستہ پر وغیرہ کا شمار ہو تا ہے۔
ش۔ اختر کا شمار ترقی پسند ادب کا نقطہئ نظر رکھنے والے فکشن نگار، فکشن ناقد اور محقق اور نا قدین میں ہو تا ہے۔ آپ نے اپنے دم پر برسوں جھار کھنڈ میں ترقی پسندی کے چراغ کو جلائے رکھا۔ آپ کے افسا نوں میں جھار کھنڈ کی قبائلی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ آپ کے افسانوں کے مجمو عے”زنداں کی ایک رات“،چھوٹا ناگپور کی کہا نیاں،ناولٹ”خوں بہا“، تنقیدی کتب”اردو افسانوں میں لیس بین ازم“شناخت(جلد اول،دوم) جھار کھنڈ میں اردو تنقید،تحقیق میں تحقیق کے طریقہئ کار، ریسرچ کیسے کریں، کے علاوہ ہندی میں بھی خاصا کام کیا ہے۔بطور فکشن نگار آپ کی شناخت انفرادیت کی حامل ہے۔
ٖمشرف عالم ذوقی نے کم عمری میں ہی اردو کو درجنوں خوبصورت ناول عطا کئے۔جن میں بیان،پوکے مان کی دنیا،آتش رفتہ کا سراغ، لے سانس بھی آہستہ، مرگ انبوہ،اردو، اور مردہ خانے میں عورت، ان کے ایسے ناول ہیں جو کسی بھی دوسری زبان کے مد مقابل رکھے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کئی افسانوی مجموعے،بھوکا اتھوپیا،منڈی،غلام بخش، صدی کو الوداع کہتے ہوئے، لینڈا سیکپ کے گھوڑے،ایک انجانے خوف کی ریہرسل وغیرہ اردو کو دیے ہیں۔ان کے افسانوں میں کاتیائن بہنیں، حیران مت ہو سنگی مترا، بارش میں ایک لڑکی، بوڑھے جاگ سکتے ہیں،آپ اس شہر کا مذاق نہیں اڑا سکتے،غلام بخش، صدی کو اودع کہتے ہوئے، بھنور میں ابلیس، انار کلی عمر ۴۵ سال،حد، داد ا اور پوتا، احمد آباد 302میل،اصل واقعہ کی زیرو کس کاپی،فرج میں عورت، فزکس کیمسٹری الجبرا وغیرہ اہم افسانے ہیں۔
انجم عثمانی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں،لیکن ان کے افسانے اور کتابیں انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔وہ اردو کے انوکھے افسانہ نگار تھے۔بقول نورالحسنین ”کفایت لفظی انہیں پر ختم ہوتی ہے۔“وہ اپنے چھوٹے چھوٹے افسانوں کے لئے بہت مشہور تھے۔ میں نے سید محمد اشرف کے ناول ”آخری سواریاں“پر تنقیدی مضمون لکھتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ ’سید محمد اشرف سے اچھی زبان انجم عثمانی لکھتے ہیں۔‘انجم عثمانی کے چار مجموعے منظر عام پر آئے۔پہلا شب آشنا، دوسرا سفر در سفر، تیسرا ٹھہرے ہوئے لوگ اور چوتھا کہیں کچھ کھو گیا ہے۔جہاں تک انجم عثمانی کے معروف افسانوں کا سوال ہے تو اس میں شہر گریہ کا مکیں، گمشدہ تسبیح، کھوکھلی راہوں کا مسافر،جنگل،صدقہ، بک شیلف، ایک ہاتھ کا آدمی، مشاعرہ جاری ہے، سیمینار جاری ہے، کبوتروں بھرا آسمان، چھوٹی اینٹ کا مکان، کہیں کچھ کھو گیا ہے،ٹھہرے ہوئے لوگ، وغیرہ نہ صرف ان کی شناخت ہیں بلکہ نئے اردو افسانہ کو بھی یہ افسانے استحکام بخشتے ہیں۔
انجم عثمانی کے کئی کردار مثلا کبوتر والے ماموں، آپی، عبدالغفور، مسز کاظمی،مسٹر خان، چھنگا، گھنٹہ والے بابا، اور مشاعرہ جاری ہے کا بوڑھا، ایسے کردار ہیں جو مختصر افسانوں میں اپنا بھاری بھرکم وجود رکھتے ہیں،اور قاری کے ذہن پر ان مٹ نقوش چھوڑتے ہیں۔
شوکت حیات بہت زمانے تک ایسے افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے رہے جنہوں نے اچھے اور مقبول افسانے تو خوب دئے لیکن جن کا مجموعہ سامنے نہیں آیا۔بہت بعد میں تقریباً چالیس برس بعدجب شوکت حیات نے لکھنا بہت کم کر دیا تھا تو ان کا ایک مجموعہ ”گنبد کے کبوتر“ کے نام سے شائع ہوا۔جس میں ان کے منتخب پچیس افسانے شامل ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ شوکت حیات نے تقریباً (100) سو کے آس پاس افسانے لکھے ہوں گے۔وہ چاہتے تو ان کے چار پانچ مجموعے ضرور منظر عام پر آجاتے۔
شوکت حیات اپنے زمانے کے ہی نہیں اب تک کے مقبول افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کے بعض افسانے تو ایسے ہیں جن کے بغیر اردو افسانہ کاذکر تقریباً نامکمل ہوگا۔ان کے معروف افسانے کوبڑ، گھونسلا، میت، گنبد کے کبوتر، مادھو، سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ، ڈھلان پر رکے ہوئے قدم،گھڑیال، بلی کا بچہ، مسٹر گلیڈ،بانگ، چیخیں اور فرشتے وغیرہ ہیں۔جوا نہیں ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔
تبسم فاطمہ کا شمار گذشتہ صدی کے آخرمیں ابھرنے والے افسانہ نگاروں کی نسل میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں و افسانوں سے اپنی الگ شناخت قائم کی۔ وہ بطور افسانہ نگار جس قدر مقبول تھیں بطور شاعرہ بھی انہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا،بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تبسم فاطمہ نے اپنی نظموں اور افسانوں سے تانیثیت کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ نئی شکل میں بھی پیش کیا۔ان کی متعدد نظمیں اور افسانے ا س بات کے شاہد ہیں کہ انہوں نے اپنی تخلیقات میں مجبور و بے کس عورت کو نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ بخشا بلکہ بطور نمونہ صحافتی اور سیاسی زندگی میں کارنامے انجام دے کر تقویت و استحکام عطا کیا۔ ان کے افسانوی مجموعے، لیکن جزیرہ نہیں، سیاہ لباس، تاروں کی آخری منزل اورشاعری کے مجموعے، ذرا دور چلنے کی حسرت رہی، میں پناہ تلاش کرتی ہوں، سے وہ ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہیں گی۔
اگر دیکھا جائے تو مناظر عاشق ہرگانوی نے اردو کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔صرف طبع آزمائی ہی نہیں بلکہ ہر صنف میں درجنوں کتب کی تخلیق اور ترتیب وتالیف کی ہے۔شاید وہ دنیا کے سب سے زیادہ کتب لکھنے والے مرتب اور مولئف ہوں۔اردو میں تویقینا ان سے زیادہ کتابیں کسی اور نے نہیں لکھیں۔لیکن جہاں تک فکشن اور پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا سوال ہے ان کے متعدد ناول،کئی افسانوی مجموعے اور افسانچوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔مناظر عاشق ہرگانوی کا پہلا ناول ”آنچ“دوسرا ناول”شبنمی لمس کے بعد“ناولٹ”آتشیں لمس کے بعد“افسانوی مجموعے ”بکھری اکائیاں“،”بھیگی ہوئی لڑکی“(ہندی ناول ترجمہ)خواتین کے افسانچے(مرتب)،پرت درپرت،مردافسانچہ نگار(مرتب)،کورونا وائرس افسانچے (مرتب)، اس کے علاوہ انہوں نے بہت ساری کتابیں بچوں کے فکشن کے طور پرتحریر ہیں۔عدنان کا جاسوسی کارنامہ،کھیل ہی کھیل میں، اغوا، جنگل کے ڈاکو،گدھ کے پنجے،ملّا نا بالغ، انمول موتی،فیصل کی جاسوسی،جنگل کی پہچان، جیسے کو تیسا، وغیرہ تخلیقات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بحیثیت فکشن نگار پروفیسر مناظر کا وہ مقام متعین نہیں ہو پایا جو ان کے خالصتاًفکشن لکھنے پر ہوتا۔یہ ایک ایسی خامی ہے جو انہیں کسی ایک شعبے میں استحکام نہیں بخشتی۔
فرقان سنبھلی کاشمار خالصتاً اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ فرقان سنبھلی نے اپنے افسانوں کے ذریعہ نئے مسائل کو عمدگی سے افسانوں میں پیش کیا۔پانی کا مسئلہ ہو یا آنر کلنگ کی بات ہو،یا پھر کمپیوٹر سے تبدیل شدہ حالات ہوں، فرقان سنبھلی نے اپنے افسانوں میں انہیں استعمال کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ پروفیسر ابوالکلام قاسمی کے زیر نگرانی مکمل کیا۔ان کے دو افسانوی مجموعے ”آب حیات“ اور ”طلسم“شائع ہوئے۔بطور صحافی بھی آپ نے متعدد اخباروں کے لئے کام کیا۔اس سلسلے میں آپ کی کتاب ”مرادآباد میں اردو صحافت“ خاصی مقبول ہوئی۔ آپ نے متعدد کتابوں کے ترجمے بھی کئے۔
رتن سنگھ کی بے شمار کہانیوں اور ناولٹس میں، دربدری، مفلوک الخالی، پسماندہ، طبقات کا غم فرقہ وارانہ ہم آہنگی، حب الوطنی جیسے عناصر ملتے ہیں۔آپ کا پہلا مجموعہ ”پہلی آواز“1969ء میں شائع ہوا۔آپ نے بہت سارے افسانے لکھے۔متعدد افسانوں کا رنگ ترقی پسند ہی تھا یہ الگ بات ہے کہ جب آپ نے قلم سنبھالا ترقی پسندی کا چراغ بجھنے لگا تھا۔اور اس کی لوتھر تھرانے لگی تھی اور جدیدیت کا چراغ ٹمٹماتا ہوا روشن ہو رہا تھا۔آپ نے جدیدیت کا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی۔مابعد جدیدیت کاشور بھی سنا، لیکن آپ کے افسانوں پر ان رجحانات کے خاطر خواہ اثرات مرتسم نہیں ہوئے۔ آپ سیدھے سادھے انداز میں بیانیہ کہانیاں ہی لکھتے رہے۔آپ کے کئی مجموعے منظر عام پر آئے، پہلی آواز، کاٹ کا گھوڑا، پنجرے کا آدمی، ہڈپتی،پناہ گاہ،اور آپ کے مشہور افسانوں میں،ہزاروں سال لمبی رات، جس تن لاگے، مریم،میلی گڑیا، رنگوں کی کہانی، واپسی، ایک پرانی کہانی،زندگی سے دور، بابو حمید نہیں آتا، اگا ہوا سورج، سورج کا مہمان وغیرہ نے اردو افسانے کی دنیا میں الگ شناخت قائم کی۔
ترنم ریاض کشمیر کی واحد فکشن نگار اور شاعرہ ہیں جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا اور تانیثیت پر زور دیا۔ ان کے فکشن اور شاعری میں کشمیر کی زندگی اور مسائل کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے خاص کر کشمیری بے روز گار نو جوانوں کے مسئلے کو اپنے فکشن کا موضوع بنایا۔ وہ کشمیری نوجوانوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے اور ان کے ہاتھوں میں بندوق سے غمزدہ اور دکھی تھیں۔ وہ کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم اور کتابیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ ان کی تخلیقا ت میں آپ کو شہری زندگی خاص کر فلیٹ کلچر بھی ملے گا۔
ترنم ریاض فکشن نگار، شاعرہ، مترجم، ناقد اور نیوز ریڈر تھیں۔ ان کے افسا نوی مجمو عے’یہ تنگ زمیں‘،’ابابیلیں لوٹ آ ئیں گی‘،’ہیمرزل‘،’میرا رخت سفر‘،دو ناول’مورتی‘ اور’برف آ شنا پرندے‘ شائع ہوئے تھے۔ تین شعری مجمو عے’زیر سبزہ محو خواب‘،’بھا دوں کے چاند تلے‘ اور”پرا نی کتابوں کی خوشبو‘ کے علاوہ ان کی تنقید پر کئی کتب شا ئع ہو چکی ہیں۔
ان کے معروف افسا نوں میں ابا بیلیں لوٹ آئیں گی، یہ تنگ زمیں،شہر،یمبرزل،میرا رخت سفر، بالکنی، برف گرنے والی ہے، بی بی جی، رنگ، کشتی،آنسو کا شمار ہو تا ہے۔یہ وہ افسا نے ہیں جو ایک طرف ترنم ریاض کی شناخت ہیں،تو دوسری طرف نئے اردو افسا نے کا خزانہ بھی ہیں۔
ایم۔ اے حق صا حب شاید اردو دنیا کے پہلے ایسے افسا نچہ نگار ہیں جو افسانچے کی بدو لت پہچا نے جاتے ہیں گویا کہ انہوں نے اکا دکا ہی افسانے لکھے ہوں گے۔ افسا نچوں کی ان کی تین کتابیں ”نئی صبح“،”ڈنک“ اور تیسرا بچوں کے لیے افسانچہ اطفال کا مجمو عہ”اونچی اڑان“ شامل ہیں۔”اونچی اڑان“ میں افسا نچے اور افسا نچہ اطفال کے متعلق مشاہیر کی آ را شامل ہیں۔یہ ہی نہیں پروفیسر عاشق ہر گانوی نے ایم اے حق کی افسا نچہ نگاری پر پوری ایک کتاب تحریر کی۔ آپ کے افسا نچہ مجرم، سبب، معمول، پسند چسکا،پاگل پن، دستور، فرض شناس، اپنا تماشا،لیٹ لطیف، اپنوں کا دشمن، نئی صبح وغیرہ بہت مشہور ہے۔ اسی طرح”ڈنک“ مجموعے نے بھی خاص شہرت حاصل کی۔
احمد عثمانی کا شمار مہاراشٹر کے980ء کے بعد منظر عام پر آنے والے منفرد فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ احمد عثمانی نے افسانے، افسانچے اور ناول بھی قلم بند کیے ہیں۔ وہ صحا فی اور مصور بھی تھے۔
احمد عثمانی”بے باک“ رسالے کے مدیر کی حیثیت سے بھی معروف تھے۔ آپ کا تعلق ”جواز“سے بھی تھا جس کو جدیدیت کے ترجمان کی حیثیت جانا جاتا تھا۔احمد عثمانی کی تحریروں پر جدیدیت کے واضح اثرات کو بخو بی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے”رات کا منظر“ اور ناز لی،”زندگی تیرے لیے۔بچوں کے لیے کہانیاں اور ترا جم انہیں ادب میں بطور فکشن نگار زندہ رکھے گا۔
احمد کلیم فیض پوری بھی مہا راشٹر سے تعلق رکھنے وا لے سینئر افسا نہ نگار تھے۔ انہوں نے اپنے افسا نوں سے مہاراشٹر میں افسا نے کے لیے ما حول کو سازگار کرنے کا کام کیا۔
ان کا واحد افسا نوی مجمو عہ”ساگوان کی چھاؤں میں“ شائع ہوا۔ وہ کم نویس تھے مگر ان کے افسا نے اپنی انفرادیت کے لیے مشہور تھے۔انہوں نے بچوں کے لیے بے شمار کہانیاں لکھیں ”چندا کے دیس میں“ ان کی بچوں کے لیے تحریر کردہ کہانیوں کی کتاب ہے۔
٭٭٭
Dr. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu.CCS University,
Meerut
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.