مہتاب عالم پرویز صاحب، اسلام علیکم!
بڑی مشکل سے شا ید یہ میل بھیج پا ؤں۔ مزدور ڈے ساری دنیا میں منایا جاتا ہے ، جس کی شروعات امریکہ میں مزدوروں پر کئے گئے بربریت اور ظالمانہ کاروائیوں کی یاد میں ہوئی تھی۔ اسلامیات میں اگر گنجائش ہو تو اسے شامل کرلیں۔
رضوان واسطی
مزدوروں کا حق اسلامی نظام میں
.... رضوان واسطی
ایک حدیث رسول اللہ ﷺ کی مستند اور مشہور ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ محنت کش کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو۔‘‘ صاف ظاہر ہے کہ ایسا نہ کرنا باعثِ گناہ ہے۔ بعد میں صحابہٗ کرام نے بھی اس اصول کو اصولی اور شرعی شکل دے دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مزدوروں کو حد درجہ گرا ہوا سمجھا جاتا تھا۔ آرام اور عیش صرف دولت مندوں کی اجارہ داری تھی۔ کسی تحریک یا ’اِزم کا تصور بھی نہیں تھا۔عمر فاروق ‘ ؓ کے زمانے کا واقعہ ملاحظہ ہو:
’’مصر کا فاتح عمروبن العاصؓ اپنی بہادری اور شجاعت کے ساتھ ساتھ خود شاعر تھے۔ انہوں نے مصر فتح کرنے کے بعدخلیفہ عمرؓ کو اپنی رپورٹ بھیجی اس میں ایک مقام پر کہا گیا۔۔۔ ’اس ملک کے چرواہوں کا ، جو زمین کی سطح کو کالا کئے ہوئے ہیں، موازنہ محنتی چیونٹیوں کے غول سے کیا جاسکتا ہے اور ان لوگوں کی کاہلی کو ان کے مالکوں کے کوڑوں سے دور کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو جائداد یا دولت پیدا کرتے ہیں ، اس کی تقسیم مزدوروں اور مالکوں کے درمیان برابر برابر نہیں کی جاتی ہے۔‘ وہ نظریہ اپنے وقت سے بہت آگے کا تھا۔ تمام ملکوں کے قدیم مسائل میں سماجی عدل کا نظریہ نہیں تھا۔ محنت کرنے والے غلام یا ارذل (کمین)مانے جاتے تھے اور وہ نفرت کے لائق سمجھے جاتے تھے اور ان کا استحصال کیا جاتا تھا۔ ان لوگوں کو انسان نہیں مانا جاتا تھا۔پہلے خلیفہ نے جن معاشی اصولوں کو اپنے فرمان میں شامل کیا تھا ان میں عرب تاجروں کے حقوق کی بنیاد پر پرانے سماجی نظریات میں انقلابی تبدیلی لائی گئی۔اس میں کہا گیا تھا کہ’’ جب محنت کش عوام کی محنت کی کمائی ان کے پاس رہے گی تو اس سے کاروبار بڑھے گا۔ انہوں نے فراعنہ اورپٹولمی لوگوں کی حکومتوں کی تعریف کی تھی اور ان پر عرب فتحیابی کے بعد انہوں نے اپنے سپہ سالاروں کو ان بے اعتدالیوں کو دور کرنے کی ہدایت دی تھی جن سے ان کے شاعرانہ ذہن ودل کو چوٹ پہنچتی تھی۔‘‘ یونانیوں اور روم کے حکمرانوں نے صدیوں سے مصرکو لوٹا تھا ، لیکن عربوں کے غلبہ کے بعدوہاں خوشحالی آئی۔‘‘
***