امام حسین ؓ کاخطاب اوراہل ِکوفہ
افروز سلیمی القاسمیؔ
دار القضاء امارت شرعیہ آزاد نگر، جمشیدپور،
8002853919
سیدنا امام حسین ؓ کی شہادت کوئی معمو لی شہادت نہ تھی،یہ شہادت تاریخ اسلام کا ا یک الم ناک واقعہ ہے، عالم ِ اسلام میں یزیداور ابن زیاد کی اس نازیبا حرکت پر نفرت وعداوت کااظہار کیا گیا اور حجاز میں مدینہ تا مکہ مخالفت کی آگ بھڑ ک اٹھی اور کس قدر دردانگیز بات ہے کہ پیارے رسول اللہ ﷺ کے دنیاسے انتقال کے نصف صدی بعد ہی اہل ِبیت کی ایک عظیم شخصیت پرظلم وبربریت کی انتہاکردی گئی، آخر یوم ِ شہادت کاآفتاب طلوع ہوا حضرت امام حسین ؓ نے نماز فجر سے فارغ ہوکراور اپنے بہترجانثاروں واسلامی مجاہدین کو لے کر میدان کربلاطرف قدم بڑھایا ”میمنہ“ نامی جگہ پر زبیربن قین کو، ”میسرہ“ نامی جگہ پر حبیب بن مطہرکومتعین فرمایا اور حضرت عباس بن علیؓ کو اسلامی جھنڈا پیش کیا، اور خود نواسہ رسول حضرت امام حسین ؓ گھوڑے پر سوار ہوئے، اللہ کی کتاب قرآن مقدس کو سامنے رکھااور ہاتھ اٹھاکر بارگاہِ ایزدی میں دعاکی، ہرگز آپ کو یقین نہ تھاکہ کوئی عمل کار گر ہوگی تاہم آپ ؓنے اتمام حجت کے لئے اہل ِ کوفہ کومخاطب کر کے پر زور خطاب فرمایا۔ اور کہاکہ اے لوگو! اے کوفہ کے باشندو! ذرا ٹھہرو، میری بات کو بغور سنو! کہ میں چاہتاہوں کہ اپنی ذمہ داری پوری کردوں، اے کوفہ والوں! اگر تم نے میری بات کوبغورسنا اور میرے ساتھ عدل وانصاف کابرتاؤکیا تو یاد رکھوتم سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہاں یاد رکھو! اگر تم نے میری باتوں کو نظر انداز کردیا اور اس کے لئے تم تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی اور تمہارا اختیار، جوچاہوسوکر و، بیشک میراخالق ومیرامولیٰ اللہ ہے۔اہل ِ کوفہ سے اتنا کہناتھا کہ خیمہ کے اندر سے پردہ نشیں عورتیں آہ وبکاکر نے لگیں اور رونے چلانے کی آواز بلند ہونے لگی، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے ذریعہ عورتوں کو خاموش کیاگیا، آپ ؓ نے دوران خطاب فرمایا کہ اے لوگو! ذراغور کروکہ میں کون ہوں، اور سوچ وفکر سے کام لوکہ کیا تمہارے لئے مجھے قتل کرنا اور میری توہین کر نا جائز ہے؟ کیا میں آقائے مدنی محمد عربی ﷺ کانواسہ نہیں ہوں؟ کیامیں ان کے چچازاد بھائی حضرت علی مرتضیٰ کافرزند نہیں ہوں؟ کیاسید الشہداحضرت حمزہ ؓمیرے والدِمحترم کے چچانہیں تھے؟ کیا ہم دونوں بھائیوں (حسن ؓوحسین ؓ)کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی یہ مشہور حدیث تم نے نہیں سنی۔ کہ اے حسن وحسین! تم جنت کے سردار ہو اور اہل ِ سنت کی آنکھوں کی ٹھندک،اے کوفہ والوں! میری بات کایقین کرو اور اگر یقین نہیں تو پیارے ناناجان کے بہت سے صحابی ا بھی حیات ہیں ان سے پوچھ لو، کہ میں کون ہوں؟ کیا اس درد والی بات کوسن کر بھی میراخون بہانے سے باز نہ آؤگے؟ کیا تم کو فرمان رسول کی حقانیت میں شبہ ہے یا اس بات میں شک ہے کہ میں (حسین ؓ) حضرت فاطمہ زہراکا بیٹا نہیں ہوں۔؟ان ساری باتوں پر اگر تمہیں شک ہیں تو رب ذول الجلال کی قسم تمہیں مشرق ومغرب شمال وجنوب میں میرے علاوہ کوئی رسول اللہ کانواسہ اور حضرت علی ؓ کا لخت جگر، فاطمہ کالال نہ ملے گا، اے کوفہ والوں! تم مجھے کیوں قتل کر تے ہو۔؟ کیا میں نے تمہارے کسی آدمی کاناحق خون بہایا ہے۔؟ کیا تم میں سے کسی کامال ہم نے غصب کیا ہے۔؟ کیا کسی کو میری ذات سے تکلیف ہوئی ہے۔؟ امام حسین ؓ سرداران کوفہ کونام بنام پکار کر کہا کہ کیا تم لوگوں نے مجھے خطوط بھیج کر نہیں بلایاتھا۔؟ اہلِ کوفہ نے ان ساری باتوں کا صر ف ایک جواب دیا”نہیں! ہم نے آپ کو نہیں بلایا “ امام حسین ؓ نے ان لوگوں سے فرمایا۔ تم نے ضرور بلایا۔ہاں یاد رکھو! اگر میری آمد تمہیں ناپسند ہے تو مجھے اپنی جائے پناہ میں جانے دو، اتنے میں ایک آدمی نے کہاکہ ابن زیاد کی باتوں پر عمل کر لیجئے، یہ آپ ؓ کے لئے بہتر ہوگا، امام حسین ؓ نے برجستہ جواب دیا اور کہا کہ رب کعبہ کی قسم میں فاسقوں کی طرح اپناہاتھ دشمنوں کے ہاتھ میں نہیں دے سکتا،اور یادرکھو!غلاموں کی طرح ان کی بند گی کااقرار نہیں کر سکتا، اور اے کوفہ والوں! میں ہر متکبرفرد سے جس کاروز ِ قیامت پر ایمان نہیں ہے، خدا کی پنا ہ مانگتاہوں، ]تاریخ ملت71[
حضرت امام حسین ؓ کی یہ جامع خطاب کار گر ثابت نہیں ہوئی،لیکن سچ پوچھئے تو جس کے دل میں نبی کی قدرے محبت ہوگی تو پتھر دل انسان بھی اس نواسہ رسول اللہ کے جامع خطاب سے اپنے اندر خوف ِ خداضرورپیدا کر لیتا، اورامت مسلمہ ہونے کے ناطے برسر عام ظلم وبربریت کایہ ننگانا چ ہر گز نہ ناچتا، آخر کار اہل ِ کوفہ کی طرف سے ایک تیر پھیکاگیااور جنگ چھڑ گئی، اتنے میں دشمن کی فوج میں سے عمر بن حجاج نے چیخ کر کہا:اے شہسوارو! تمہیں معلوم ہے کہ کس سے مقابلہ کر رہے ہو؟ یہ لوگ اپنی جان اپنے پنجوں میں لئے پھر تے ہیں، خداکی قسم! اگر ان پر پتھر بھی ماروتو نہ بچ پائیں گے، پھر کیا ہو ا بر سر عام لڑائی ہوئی، اہل بیت کے جاں باز مجاہدین نے کوفیوں کو روندنا شروع کیا، حسینی فوج کے بہادر جدھر نکلتے تھے دشمنوں کی صفوں کودرہم برہم کر دیتے تھے، مگر جانبین میں کوئی نسبت نہ تھی، دوپہر ڈھلنے تک کئی مجاہدین شہید ہوگئے تھے، نوجوانان اہل بیت کی باری تھی، سارے مجاہدین اپنی اپنی شمشیر یں لیکر میدان کر بلامیں اتر آئے، امام حسین ؓ کے ساتھ ان کے چاروں بھائی حضرت عباس، عبد اللہ، جعفر اور عثمان ؓکے علاوہ کو ئی نہ رہا،جب تک زورِ بازوو زور سینہ تھا ہر وار کو روکتے رہیں اورآخر شہید ہوگئے،اور اب خود نواسہ رسول اللہ امام حسین ؓ تنہارہ گئے تھے لیکن آپ زخموں سے چور تھے، پیاس کی شدت تھی جوش اور ہمت بھی کم ہوگئی تھی، آخر آپ نڈھال ہوکر زمین پر بیٹھ گئے اور خاموش ہوگئے اتنے میں ایک دشمن شمر نامی شخص نے چیخ کر کہا ”اب کیا انتظار ہے۔؟ قتل کیوں نہیں کرتے“ امام حسین ؓ اپنے مبارک ہونٹ سے پانی کا پیالہ لگائے ہوئے تھے کہ حصین بن نمیر نے نشانہ بناکر ایک تیر ماراجوآپ کے حلقوم میں جاگھسا، زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ پر تلوار چلادی، سنان بن انس نخفی نے نیزہ مارکر آپ کو زمین پرگرادیااور تلوار سے سرِ مبارک کوتن سے جداکردیا۔ ] اخبار الطوال ص 255[
آپ کے جسم پر تیتیس 33 زخم نیزہ کے اور تیس 30 زخم تلوار کے تھے اور تیر کے زخم اس کے علاوہ تھے، شہادت کے بعد ان ظالموں نے اہل ِ بیت کے خیموں کی طرف رخ کیا اور جو سازو سامان تھا وہ سب قبضہ کرلیا۔ حتیٰ کہ عورتوں کی چادریں بھی ان ظالموں نے کھینچ لیں، شمرنے ان بچوں پر تیر چلانا چاہا تو عمر بن سعد نے کہا عورتوں کے خیمہ میں ہر گز نہ داخل ہواور بچوں پر ہاتھ نہ اُ ٹھاؤ۔پھر آئندہ کل اہل ِ غاضریہ نے نماز جنازہ اداکیا اور لاش کو اسی میدان میں دفن کردیا، شہیدامام حسینؓ اور دوسرے شہداء کامبارک سر دشمن اپنے ہاتھوں لے لئے تھے اس لئے بغیر سر ہی جسم کو سپرد خاک کردیاگیا۔یہ شہادت عظمی10/محرم الحرام 61ھ روز جمعہ کو پیش آیا۔
٭٭٭٭
افروز سلیمی القاسمیؔ
دار القضاء امارت شرعیہ آزاد نگر، جمشیدپور،