اصلاحِ معاشرہ میں دینی تعلیم کا کردار
افروز سلیمی ؔ
سب ایڈیٹر ’’عالمی پرواز ‘‘
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
آج امت مسلمہ تعلیمی میدان میں کہاں کھڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ سال گذشتہ حج کے موقع پر عازمین حج کا ایک قافلہ جن کو گیا ایر پورٹ سے روانہ ہوناتھااور وہ دوسو بیس آدمیوں پر مشتمل تھا ان میں سے تقریبا دوسو عازمین ایسے تھے جنہوں نے قلم پکڑ نے کے بجائے اپنے انگوٹھے کا سہارالیااور حج کے فارم پر نشان لگایاِ ، صرف اور صرف بیس عازمین ایسے تھے جنہوں نے فار م پر دستخط کیا ، ضرورت ہے کہ ان حالات میں ہمیں فکر کے ساتھ ساتھ تحریک تعلیم او راس کے لئے جہد مسلسل کی بھی کوششیں کرنی ہوں گی،اگر ہم مسلم معا شرے کو سنوارنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کی ترقی کے خواہاں ہیں تو اس کی ایک ہی صورت ہے ،اور وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو تعلیم سے آراستہ کیا جائے ،اور معاشرے میں اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے ، دینی تعلیم کی روشنی جب معاشرے میں پھیلے گی تو فساد اور بگاڑ کی ظلمت اور تاریکی دور ہوگی،اور معاشرہ پاکیزہ اورصاف و شفاف ہو گا ،اسی لئے آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان مرد وعورت پر دینی تعلیم کے حصول کو لازم قرار دیاہے ،اور اس کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں،حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہر مسلمان (مرد وعورت ) پر علم دین کا حاصل کر نافرض ہے۔[رواہ ابن ماجہ والبیہقی فی شعب الا یمان ،مشکوٰۃ ص:۳۴]
حدیث مذکور کی محدثین کرام نے تشریح کر تے ہو ئے فرمایاکہ ہر مسلمان مرد وعورت پر اتنی ہی دینی تعلیم حاصل کر نا لازم وضروری ہے کہ جس سے عقائد کی اصلاح ہو سکے ،اور عبادات کو بہتر طور پر اداکر سکے ، معاملات ،معاشرت اور اخلاق و کردار کو سنوارسکے۔
علم کا حاصل کر نا ہر مسلمان پر خواہ مرد ہو یاعورت فرض ہے اور فرض کو ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے، یاد رہے کہ جوکام انسان پر فرض ہے اس کا طریقہ بھی جاننا فرض ہے ،اور جو کام مستحب ہے اس کا طریقہ بھی جاننامستحب ہے ،پس جب نماز فرض ہے تو اس کے مسئلے جاننا بھی فرض ہے اسی طرح دیگر فرائض کا حال ہے ،یہ ساری باتیں اس علم کے متعلق ہیں جو ہر انسان پر فرض ہے ،اور بعض علوم ایسے ہیں کہ اگر بعض انسان اس کو حاصل کرلیں تو اوروں کے ذمہ ان علوم کا سیکھنا ضروری نہیں رہتا، مثلا ہر خطہ اور ہر آبادی میں ایک ایسا عالم ہونا ضروری ہے جو قرآن وحدیث ودیگردینی مسائل سے آراستہ ہو اور بسااوقات دشمنان اسلام کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر بات بھی کر سکے اور اس کاجواب بھی دے سکے، ایسے علوم ہر شخص پر فرض نہیں ہو تے ہا ں اگر کسی کو شوق ،تڑپ ،لگن ہو تو ان علوم کو حاصل کرلے یہ مستحب ہے،اور اجرعظیم بھی ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی فہم عطا فرماتے ہیں ۔[متفق علیہ ،مشکوٰۃص:۳۲]
اس ارشاد نبوی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دینی تعلیم کی طرف خاطر خواہ توجہ وہی حضرات کر تے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا اراد ہ فرماتے ہیں ،بہت ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دینی تعلیم حاصل کر تے ہیں ،اور لوگوں کو اچھائی کی تعلیم دیتے ہیں ۔
یاد رکھئے !دینی تعلیم سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ،اپنے معاشرے اورسوسائٹی میں اس کو رواج دینا اور اس کو عام کر نا بہت بڑی دولت ہے، اگر ہم نے اس دولت کی قدر کی تو یقینااللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہونگے اور ہم ہر طرح کی تر قیوں سے نوازے جائینگے اور اگر ہم نے اس دولت کی قدر نہیں کی تو تمام ترقیوں اور اعزازوں سے محروم ہوجائیں گے ،اس لئے ہمارایہ مشترکہ فریضہ ہے کہ دینی تعلیم کواپنے گھروں میں اوراپنے معاشرے میں خوب عام کریں ،اور یہ تعلیم مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لئے بھی نہایت ضروری ہے،اسلئے کہ عورتیں تعلیم یا فتہ ہوں گی تو ہی اپنی اولاد کی صحیح تر بیت کر سکیں گی ،ان کی آغوش میں پلنے والی اولاد اسلامی تہذیب وتمدن، اخلاق وعادات سے آراستہ ہوں گی ،اور معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار اداکریں گی ،اور اگر عورتیں دینی تعلیم سے نا بلد رہیں گی تو ان کی گو د میں پھلنے اورپھولنے والے بچے ہر قسم کے خرافات کا شکار ہوں گے۔
حا صل یہ کہ اگر آپ اپنے معاشرے کو اچھابنانا چاہتے ہیں تو اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے مزین کیجئے ،ان کو اسلامی تعلیمات ،اسلامی تہذیب ،اسلامی اخلاق اوراسلامی وضع قطع سے آراستہ کیجئے،اور غیر وں کی تہذیب وتمدن وغیروں کی بری صحبت سے باز رکھیے، اسی طر ح قوم کے سربراہوں اور ذمہ داروں پر لازم وضروری ہے کہ ہر خطے اور ہر آبادی میں ایسے مکاتب یاادارے قائم کریں ،جس میں دین کی ضروری تعلیم کا مکمل انتظام ہو ،اور تمام مسلمان بچے اور بچیوں کو دینی تعلیم حاصل کر نے پر مجبو ر کریں ،جب تک مسلمان والدین اور مسلم قوم کے سربراہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کریں گے اصلاح معاشرہ کا خو اب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔
()()()()()()()()
افروز سلیمیؔ
سب ایڈیٹر ’’عالمی پرواز ‘‘