٭شب ِ برات قرآن وحدیث کی روشنی میں ٭
محمدافروز سلیمیؔ
8002853919
شبِ برا ت کی حقیقت اور اس کی فضیلت یقینا اپنی جگہ مسلم ہے، اس کے فضائل ومراتب سے انکاربھی نہیں کیاجاسکتا ہے، جیساکہ قرآن کریم کی سورہ دخان کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”انا النزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ“ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نے خوب وضاحت فرمائی،بعض مفسرین کرام نے اس سے شب ِ قدر مراد لیا ہے اور بعض نے شبِ برات مراد لیا ہے،اور زیادہ مشہور یہی دوسراقول ہے، چونکہ بدیہی طور پرقرآن کریم کانزول تیئس سال میں ہوااور نزول شبِ قدر میں ہویا شبِ برا ت میں، ہرحال میں اس سے وہ نزول مراد ہے جوبیک وقت عرش سے آسمان ِدنیاکی طرف شب برات میں یہ نزول تجویز کیاگیاہواور شبِ قدر میں اس کاوقوع ہواہو، اورمبارکہ سے اس کے فضائل مراد ہے ] خطباتِ حکیم الامت ج7،ص395[ لیکن صاحب تفسیر ابن کثیروصاحب تفسیر مظہری کے ساتھ ساتھ دورحاضرکے ایک باکمال مفسرومحقق اور عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت، ہزاروں کتاب کے مصنف مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فی لیلۃ مبارکۃ سے شبِ قدر ہی مرادلئے ہیں ] آسان ترجمہ قرآن ص 1037[ اس رات میں عبادت کرنا، ذکر واذکار میں مشغول رہنا، نوافل کا اہتمام کرنا اور قبرستان جاکر دعائے مغفرت کر نا یہ ساری باتیں اپنی جگہ مسلم ہے، اور دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت کردہ وہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات اپنے پاس نہ پایاتو میں آپ کی تلاش میں گھر سے نکلی تو دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرماہیں، آپ نے فرمایاکیاتمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لئے گئے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناََ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیاپر(اپنی شان کے مطایق)جلوہ گر ہوتاہے، اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتاہے(ترمذی ج۱، ص156، ابن ماجہ، مسند احمد، مصنف ابن شیبہ) یہ حدیث چہ جائے کہ ضعیف ہے لیکن عند المحدثین ایسی ضعیف حدیث جس کی سند یں کئی ہوتو وہ درجہ صحت کوپہونچ جاتی ہے، اس کے علاوہ احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل میں استدلال کے لئے فقہاء وعلماء ومحدثین کرام کی تین رائے ہیں (1) احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل دونوں میں استدلال کیا جاسکتا ہے(2) احادیث ضعیفہ سے احکام وفضائل دونوں میں استدلال نہیں کیاجاسکتاہے(3) احادیث ضعیفہ سے عقائد یا احکام تو ثابت نہیں ہوتے، البتہ قرآن یااحادیث صحیحہ سے ثابت شدہ اعمال کی فضیلت کے لئے احادیث ضعیفہ قبول کی جاتی ہے، جمہور محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء کی یہی رائے ہے، اور مشہورمحدث مسلم شریف کی سب سے زیادہ مقبول شرح لکھنے والے امام نوویؒ (مولف ریاض الصالحین)نے علماء امت کا اس پر اجماع ہونے کاذکر کیاہے۔ اورزمانہ قدیم سے جمہور محدثین کااصول یہی ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں معتبر ہے انہوں نے ضعیف حدیث کوصحیح حدیث کی اقسام کے ضمن میں ہی شمار کیاہے، امام نوویؒ فرماتے ہیں: کہ محدثین، فقہاء اور جمہور علماء نے فریاماہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنافضائل وترغیب وترہیب میں جائز اورمستحب ہے،(الاذکار، ص8۔7) اور اسی اصول کو دیگرعلماء ومحدثین کرام نے تحریرفرمایا ہے، جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں: شیخ ملاعلی قاریؒ(موضوعات کبیرہ، ص5، شرح العقاریہ، ج۱، ص9)شیخ امام حاکم ابوعبد اللہ نیشاپوریؒ (مستدرک حاکم، ج۱،ص490)شیخ علامہ الشوکانیؒ (نیل الاوطار1044-3) شیخ حافظ ابن رجب حنبلیؒ (شرح علل الترمذی74-42-1)شیخ علامہ ابن تیمیہ حنبلیؒ (فتاویٰ ج۱، ص39) شیخ نواب صدیق حسن خانؒ(دلیل الطالب علی المطالب ص889)
بہر حال موجودہ دور میں شب برات کے متعلق امت مسلمہ کا ایک بڑاطبقہ افراط وتفریط کا شکاربن کر رہ گیاہے بعض حضرات شبِ برات کی نفلی عبادت میں غلو کرجاتے ہیں، مثلاَنوافل، ذکر اذکار، روزہ ومغفرت، اور قبرستان پر جانالازمی شمارکرتے ہیں، اور بڑے اہتمام سے اس کے انتظام میں منہمک رہتے ہیں، اپنے گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں کو چراغاں کرتے ہیں، اور حلوے کھانے وپکانے کا خوب زوروشور کے ساتھ اہتمام بھی کرتے ہیں، چہ جائے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت کردہ مذکورہ حدیث میں گھروں ومسجدو ں اورقبرستانوں کوچراغاں کرنے اور حلوے کھانے و پکانے کاذکر نہیں ہے، لیکن پھر بھی ضروری اورلازمی سمجھ کرانجام دیتے ہیں،اسی کے برعکس ایک دوسراطبقہ شب ِ برات کی حقیقت اور اس کے فضائل کوماننے سے انکارکر تے ہیں، اور مذکورہ تمام چیزوں کے اہتمام کو بدعت شمار کر تے ہیں، حالانکہ بخاری ومسلم شریف میں ایک دوسری حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں: ومارایتہ فی شھراکثرمنہ صیاماََ فی شعبان، یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں ] بخاری ومسلم [ماہ شعبان میں آقاصلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ نفلی روزے کااہتمام کرتے تھے اس میں کئی وجوہات اور حکمتیں بیان کی گئی ہیں،بعض حدیثوں سے بھی اشارہ ملتاہے چنانچہ حضرت اسامہ بن زید ؓ سے مروی ایک حدیث ہے کہ اس بارے میں پیارے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیاتوآپ نے فرمایاکہ: اسی ماہ کے اندر بارگاہ الہٰی میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے، اورمیں اس بات کی خواہش رکھتاہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہوتومیں روزے کی حالت میں ہوں، علاوہ ازیں رمضان کا قرب اس کے انواربرکات سے مزید مناسبت پیداکرنے کاشوق اورداعیہ بھی غالباََ اس کا سبب اورمحرک ہوگا، اور شعبان کی نفلی روزوں کورمضان کے فرض روزوں سے وہی مناسبت ہوگی جوفرض نمازوں سے قبل پڑھی جانے والی نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے، اسی طرح ماہ شوال کے چھ نفلی روزوں کی تعلیم وترغیب میں وہی مناسبت ہوگی جوفرض نمازوں کے بعد والی سنتوں ونفلوں کو فرض نمازسے ہوتی ہے (معارف الحدیث، ج4،ص379)
اگر کوئی صاحب ِ ایمان حدیث مذکورکی وضاحت کو اپنے ذہن ودماغ میں رکھتے ہوئے ماہ رجب وشعبان کی فضیلت کو اپناتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ” اللّھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنارمضان“ ] مسنداحمد، طبرانی، بیہقی[کوسنتِ رسول جانتے ہوئے شبِ برات میں نوافل و اذکار ومستحبات اور اس کے صبح کبھی نفل روزے کااہتمام کرے اور کبھی نہ کرے توان کے بدعتی ہونے کافتویٰ صادر کرناکونسی عقلمندی ہے؟ہم نے ماناکہ فضائل ِشب ِ برات کے متعلق احادیث ضعیف ہیں،لیکن زیادہ ممکن ہے کہ وہ حدیث حسن ہو، صحیح ہوجس کی وجہ کر نبی صلی اللہ علیہ کے فرمان کا انکارلازم آئے، اور یہ توفضائل کی بات ہے ساتھ ہی اصول بھی ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں معتبر ہے، اس کے علاوہ جید علماء، فقہاء اورمحدثین ِکرام کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ پندرہویں شعبان سے متعلق احادیث کے قابل قبول اور امت مسلمہ کا عمل ابتداء سے اس پر عمل ہونے کی وجہ سے پندرہویں شعبان کی رات میں انفرادی طورپر نفل نمازوں کی ادائیگی، قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اور دعاؤں کاکسی حدتک اہتمام کرناچاہئے،لہذااس نوعیت سے پندرہویں شعبان کی رات میں عبادت کرنابدعت نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
محمدافروز سلیمیؔ
8002853919