کیا قربانی سے جانور کم ہوجائیں گے۔؟
افروز سلیمیؔ
معاون قاضی امارت شرعیہ جمشیدپور
موبائل 8002853919
قربانی کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عطاکر دہ ایک عبادت واجبہ ہے،اور خود رب کا ئنات نے اپنی کتاب قران مقدس کے سورہ کو ثر میں فرمایا کہ ”آپ اپنے رب کے لئے نماز اداکیجئے اور قربانی کیجئے“ قربانی اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت ہے اور باتفاق جمہور علمائے اسلام ہم امت محمدیہ پر واجب ہے اب اگر کوئی عبادت واجبہ کو ترک کرکے یہ کہنا شروع کر دے کہ قربانی کے ایام میں بیک وقت لاکھوں جا نور ہلاک ہوجاتے ہیں تواس کا مضر اثر قوی اقتصادیات پر پڑتاہے،جانور کم ہوجا تے ہیں،جس کی وجہ سے لوگوں کے دیگر ضروریات زندگی(دودھ، دہی، گھی،گوشت اور کھیت کی جوتائی وغیرہ) پوری نہیں ہوپائے گی، اور ملت کا ایک بڑا طبقہ حرج اور مشکلات و پریشانی میں پڑجا ئیں گے، لیکن یہ خیالات صرف ہماشماکے ذہن پر مسلط ہو تے ہیں جبکہ خالق ِکائنات کی قدرت ِکاملہ اور اس کے نظام کائنات کا ہم بارہامشاہدہ کر تے ہیں اور آئے دن ہم نظام قدرت سے آشناہوتے رہتے ہیں،اور وہ یہ کہ جب دنیا میں کسی چیز کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے تو خالق کائنات بھی اس کی خلقت میں اضافہ کر دیتے ہیں اور جب ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی خلقت میں کمی ہوجاتی ہے، مثلا کوئی شخص کنوئیں کے پانی پر رحم کھاکر اس لئے نکالنا چھوڑدے کہ کہیں پانی ختم نہ ہوجائے۔ توکیا کنوئیں کے سو نتھ بند ہو جائیں گے اور کنواں پانی دینا چھوڑ دے گا؟ نہیں! بلکہ جتنا زیادہ پانی کی کھینچائی ہوگی اسی قدر پانی زیادہ دے گا۔ ہم اندازہ کر یں اور اعداد وشمار کا حساب لگاکر دیکھیں، زمانہ گذشتہ میں جتنی قربانی کی جاتی تھی آج اس قدر قربانی نہیں کی جاتی ہے،دیگر عبادات مثلاََنماز،روزہ، زکوۃ اور حج کی طرح قربانی کا فریضہ انجام دینے میں سستی و کاہلی برتتے ہیں اور اس سلسلے میں دیگردنیاوی حالات کے شکنجوں میں ہم مسلمان جکڑ گئے ہیں،مگر جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کر تے ہیں اور زمانہ خیر القرون پر ہم اپنی نگاہ دوڑاتے ہیں تو ایک ایک فرد ایک جانور نہیں بلکہ سو،سو اونٹوں کی قربانی کر تے تھے۔خودپیارے آقاجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سو اونٹوں کی قربانی پیش کی، اور ان جانوروں میں سے پیارے آقانے خود اپنے دست مبارک سے تریسٹھ اونٹوں کی قربانی کا فریضہ انجام دیا۔] تاریخ قربانی[اس زمانہ خیر القرون میں قربانی کی اس قدر فراوانی وزیادتی کے باوجود یہ شکایتیں نہیں سنی گئی کہ جانور نہیں ملتے یا جانور خریدنے میں کافی روپئے خرچ ہوتے ہیں اور جانور کو حاصل کر نے کے لئے کافی مشکلات کا سامنا کر نا پڑتاہے،اس طرح کی بات ہر گز کسی نے نہ کہی اور نہ سنی گئی،مگر آج لاکھوں انسان جن پر قربانی کر نا شرعاََ واجب ہے او ر وہ شخص اس لائق ہیں کہ قربانی کرسکتے ہیں لیکن پھر بھی قربانی نہیں کر تے ہیں،اورطرح طرح کے حیلہ اختیار کرتے ہیں،کہ قربانی سے جانور کم ہوجائیں گے، یقین مانئے آج بھی بہت سے ممالک ہیں،جہاں مسلمانوں کی آبادی برائے نام ہے، نہ وہاں قربانی ہوتی ہے اور نہ جانور کم ہوتے ہیں،مگر جانور اور گوشت کی قیمت ہمارے ملک سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے اگرمسلم قوم آج بھی ایک سال کے لئے کسی شہر یا ملک میں قربانی بند کر دے تو کیا جانور وگوشت کی قیمت میں کمی ہوجائے گی وہاں کی اقتصادیات میں بہتری ہوجائیگی؟ کیاوہاں جانور کافی تعداد میں پائے جائیں گے؟ دودھ یاگھی کی ندیاں بہہ جائے گی؟ جواب نہیں، نہیں ہر گز نہیں۔۔۔ آج ہمارا ملک ہندوستان ہے اسی ہندوستان میں جبکہ مسلمان اور انگریزی فوج روزانہ لاکھوں گائے ذبح کیاکر تے تھے اور سالانہ قربانی ہواکر تی تھی لیکن گھی اور دودھ کی قیمت اس قدر زیادہ نہ تھی جس قدرا ٓج کے دور میں ہے، وجہ صرف اور صر ف یہ ہے کہ ہم نے نظام خالق کائنات کے خلاف راہ اختیار کر لئے ہیں دیگر فرائض کے ساتھ ہم نے واجبات کو بھی ترک کر دیا ہے،کیا یہ مثال دنیاوالوں کے نظروں تلے نہیں ہے کہ اب سے سوسال قبل میل درمیل کا سفر صرف گھوڑوں پر ہی کیا جاتاتھا، اور ساری دنیا میں جنگ وجدال صرف گھوڑوں ہی کے ذریعہ کی جاتی تھیں، فوج کے لئے لاتعداد گھوڑے پالے جاتے تھے، اور اب موجودہ زمانے میں جب گھوڑوں کی جگہ سا ئیکلوں، موٹر سا ئیکلوں،کاریں،بسوں، ریلوں اور ہوائی جہازوں ودیگر سواریوں نے لے لی تو کیا دنیامیں گھوڑے سستے ہوگئے؟ہر گلی،کوچے میں گھوڑے ہی ہنہنانے لگے؟نہیں لوگو!یہ خالق کائنات کا عظیم کارخانہ او ر نظام خداوندی ہے جو انسانی سمجھ بوجھ،عقل و فہم او ر ان کی خود ساختہ تجویز سے اعلیٰ وارفع ہے۔
کاش کہ قربانی سے ناآشنا مسلمان تھوڑی دیر سوچ لیتے اور خوب اچھی طرح غور وفکر کر لیتے توقربانی جیسے مقد س عمل کو فقط ایک رسم یا عید کی تفریح ہرگز نہ بناتے، بلکہ اس کی حقیقت کو بین النظرین رکھ کر، اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت سمجھ کر،پیارے نبی آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو پڑھکر،سن کر، اورخود عبادت واجبہ کوواجب جان کر،اس مقدس فریضہ کو انجام دیتے تو ایمان و عمل میں قوت واخلاص کی برکات کا مشاہد ہ کر نے لگتے، یاد رکھئے قربانی سے ایمان واخلاص میں قوت اوراعمال شاقہ کے لئے عزم و ہمت پیداہوتی ہے۔
افروز سلیمیؔ
معاون قاضی امار ت شرعیہ جمشیدپور ِِ
ِ