ڈاکٹر اختر آزاد
مکان نمبر۔۳۸ ، روڈ نمبر ۔ ۱
آزاد نگر ، جمشید پور۔ ۸۳۲۱۱۰
موبائل:۔ 09572683122
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
برادرم مہتاب عالم پرویز!آداب
افسانہ ’’ ریئلیٹی شو ‘‘ کو اپنے ادبی سائٹ ’’عالمی پرواز میں شامل کرنے کے لئے بہُت بہُت شکریہ۔آپ اور آپ کی ٹیم عالمی پرواز کے لئے جس طرح محنت کر رہی ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ ابھی تو ابتداء ہے ۔ لیکن ابتدائی دور میں جس طرح سے لوگوں نے اس سائٹ کو ترجیح دینا شروع کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ مستقبل میں عالمی پرواز کی پہچان ایک مستند ادبی سائٹ کی ہو گی ۔ بس خیال اس بات کا رکھنا ہے کہ جو چیز بھی آپ شامل کریں اس کے معیار کا خاص خیال رکھیں گے ۔
ادھر میں ناول’’ لیمی نیٹیڈ گرل ‘‘ کو مکمّل کرنے میں مصروف تھا ۔ جس کی وجہ سے افسانے کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو گیا ۔ لیکن اس دوران ایک مضمون’’ سیّد احمد شمیم کی خاکہ نگاری ‘‘ پرمیں نے لکھا ہے۔ سیّد احمد شمیم کی ذات اور شاعری آپ سے پوشیدہ نہیں ہے ۔بنیادی طور پر شاعر ہیں اور کچھ حد تک نقاد بھی ۔ پروفیسرکے عہدے سے ریٹائرد ہوچکے ہیں ۔دو شعری مجموعے ’’ بے درو دیوار ‘‘ اور’’ ڈوبتی شام ‘‘شائع ہو چکے ہیں ۔ تنقید پر ایک کتاب ’’ ارژنگ ‘‘ آ چکی ہے۔ ایم فل پر چھودھری چرن سنگھ یونیور سِٹی میں ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کی نگرانی میں کام چل رہا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے فن اور شخصیّت پر ڈاکٹر انوری بیگم کی ایک کتاب منظر عام پر آ چکی ۔ اور عنقریب ایک ضخیم کتاب جناب منظر کلیم ترتیب دے رہے ہیں ۔
شاعری اور تنقید سے ہٹ کرسید احمد شمیم نے خاکہ کے میدان میں بھی قدم رکھا ہے ۔ اپنے پچاس سالہ ادبی سفر میں انہوں نے بہت سارے شاعر و ادیب کو نزدیک سے دیکھا ہے ۔ کچھ ان کے بہت قریب رہے اور کچھ ان کے قلم کی روشنائی میں گھل کر خاکہ کی صورت میں صفحہء قرطاس پر بکھر گئے۔ ان گیارہ شخصیّتوں کے اسم گرامی کچھ اس طرح ہیں جن پر خاکے لکھے ہیں۔ عبدالعلیم آسی ، مظہر امام ، زکی انور ، وہاب اشرفی ، عبدالمنّان طرزی ، محمّد سالم ، جوہر بلیاوی ، اسلم بدر، شمس فریدی ، منظر امام اور منظر کاظمی۔(ان تمام حضرات کا تعلّق بہار سے ہے)ان تمام حضرات پر جس طرح سے خاکے لکھے گئے ہیں دراصل وہی دیکھنے والی بات ہے ۔جسے سیّد احمد شمیم نے’’ بند آنکھوں کا تماشا‘‘ کا نام دیا ہے ۔
اگر خاکہ نگاری پر یہ مضمون کسی قابل ہے تو اسے’’ عالمی پرواز ‘‘کے کسی شمارے میں شامل کر لیں گے ۔
میرا ایک مضمون ’’ منظر کاظمی کے افسانے: اسلامی حقائق و واقعات کی روشنی میں ‘‘ اردو دنیا ، جنوری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے ۔ امید ہے نظروں سے گذرا ہو گا ۔
دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔ آپ کا
خدا کرے آپ شگفتہ ہوں ۔ اختر آزاد
۱۰؍جنوری ۲۰۱۳ء
ڈاکٹر اختر آزاد
مکان نمبر۔۳۸ ، روڈ نمبر ۔ ۱
آزاد نگر ، جمشید پور۔ ۸۳۲۱۱۰
موبائل:۔ 09572683122
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
سیّد احمد شمیم ؔ کی خاکہ نگاری
غیر افسانوی ادب میں ’خاکہ نگاری کو ‘ ایک اہم صنف کی حیثیت حاصل ہے ۔انگریزی میں ’خاکہ‘کے لئے ’’ LiterarySketch, Pen sketch, Sketchاور بھی کئی ناموں سے جانا جاتا ہے ۔لفظوں کی آڑی ترچھی لکیروں سے جب کوئی فنکارکسی شخص کانہایت ہی ہُنر مندی سے’ڈھانچہ‘ یا ’نقشہ ‘تیّار کرتا ہے تو اُسے ادبی اصطلاح میں’ خاکہ‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔
’’مت سہل ہمیں جانو ‘‘ کے دیباچہ میں انور ظہیر خان لکھتے ہیں۔
’’خاکہ میں کسی جسمانی اورذہنی وجود کا ایکسرے ہوتا ہے یا پوسٹ مارٹم ........ اس
میں شخصیات کو اس کے اصلی چہرے مہرے ، رفتارو افکار اور احوال و آثار کے
ساتھ ایک شگفتہ ، شیریں ، سلیس و رواں پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے ، جہاں
دال میں نمک کے برابر تخیّل کی کارفرمائی تو ہو سکتی ہے ۔ لیکن ابہام ، مبالغے، اور
غلو کی آمیزش ناقابلِ قبول ہو تی ہے ۔‘‘ (صفحہ ۔۱۰)
ایسی اور اس طرح کی کئی اور تعریفیں خاکہ نگاری کے متعلّق دانشورانِ ادب نے پیش کی ہیں ۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر خاکہ نگار اس کو ملحوظ رکھ کر تخلیق کرے ۔ہر کسی کا اپنا اسٹائل ہوتا ہے ۔خاکہ نگار جب اپنے ہی اسٹائل میں کسی شخص کا ناک نقشہ، عادات و اطوار، افکار وخیالات ،چال چلن ،گفتگوکے طور طریقے کو بغیر کسی مبالغے کے اس طرح پیش کرتا ہے کہ لفظوں کا یہ ’پورٹریٹ‘ اپنے کینوس سے نکل کرسامنے چلتا پھرتا دکھائی دینے لگتا ہے تو وہ حقیقی زندگی سے قریب تر دکھائی دیتاہے ........لیکن اس کے لئے کسی مناسب شخص کا انتخاب ضروری ہے ۔ یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔ کبھی کبھی غیر دلچسپ دکھائی دینے والا شخص بھی خاکہ کا حصّہ ہو سکتا ہے ۔ یہ لکھنے والے پر منحصرہے کہ وہ کس کے اندر سے کتنامواد حاصل کرتا ہے ۔ویسے جس کی زندگی میں جتنے ڈائمینشن ہوں گے اس کے خاکے میں اتنی ہی رنگا رنگی نظر آئے گی ۔ رنگوں کا یہی وہ حسین امتزاج ہے جس میں خاکہ نگاراپنی فنّی بصیرت اور قوّتِ تخلیق سے الگ الگ لکیراور شیڈس پیدا کرتا ہے ۔ کچھ نئے اور کچھ پرانے پہلوؤں سے قاری کو روشناش کراتاہے۔
اردو میں یوں تو نثر اور نظم دونوں میں کسی نہ کسی شکل میں خاکہ موجود رہا ہے ۔ ویسے جس ’مرقع نگاری‘ کو یا شخصیّت پر لکھے خاکے کو باضابطہ صنف کا درجہ ملا وہ’نثر ‘کے حصّے میں آیا جو کسی نہ کسی طور پر’ انشائیہ‘ سے قریب تر ہے ۔ سعادت حسن منٹوؔ ،مولوی عبدالحق ،فرحت اللہ بیگ ،رشید احمد صدیقی،خواجہ احمد فاروقی،مالک رام ، کرشن چندر ،عصمت چغتائی، ممتاز مفتی ، شوکت تھانوی ،عبدالماجد دریا بادی ، مشفق خواجہ ، مجتبی حسین، ابراہیم جلیس ، یوسف ناظم ، مشتاق احمد یوسفی،اور ایسے کئی ادیب ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور کی اہم شخصیّتوں کی تصویریں اپنی اپنی تحاریر میں اتارنے کی کوشش کی ہیں....... اس کڑی کو اگر آگے جوڑتے جائیں تو اردو کا ایک اہم شاعر و نقّاد سیّد احمد شمیم بھی آپ کو خاکہ نگاروں کی اس فہرست میں جُڑتے ہوئے نظر آئیں گے ۔
سیّد احمد شمیم کی کتاب ’’ بند آنکھوں کا تماشا ‘‘ کے نیچے برائکیٹ میں (خاکے،یادداشتیں ) رقم ہیں۔عنوان اس شعرسے ماخوذ ہے
کوئی منظر کبھی بھولا نہ گیا بند آنکھوں کا تماشا نہ گیا
یہ شعر ان کی غزل کا مطلع ہے ۔جو ان کے دوسرے شعری مجموعے’’ڈوبتی شام‘‘ میں اپنے کھوئے ہوئے چاندعرفیؔ کے نام ہے ۔ وہ غزل کیا ہے ؟ اگر آپ دھیان سے پڑھیں گے تو وہ بھی آپ کووقت سے پہلے گذر جانے والے نوخیز بیٹے کا خاکہ معلوم ہو گا ۔گذرے دنوں کاایک ایک منظر انہیں آج بھی یاد ہے ۔پہلے شعری مجموعہ ’’بے درو دیوار‘‘ کی ایک نثری نظم’’نوحہ:برگِ گل کی گمشدگی کا ‘‘ ہے ،جس میں بھی بیٹے عرفی کا خاکہ کھینچا گیاہے ۔
’’ دن بہر حال گذر جاتا ہے؍اُلجھے سُلجھے؍رات آتی ہے تو ؍جی خوف سے گھبراتا ہے ؍
پھر وہی ........بسترِ بے خواب پہ ؍جلتی آنکھیں؍ذہن کی دھندلی فضاؤں میں ؍
ابھرتے مٹتے؍اپنے بیتے ہوئے موسم کے ہزاروں؍ چہرے؍اور اُن سب میں نمایاں روشن؍
مسکراتا ہوا وہ چاند سا پیاراچہرہ ؍صاف شفّاف، چمکتی ہوئی دلکش آنکھیں؍
برگِ گل .......ہنستے ہوئے ہونٹ؍ملائم نازک ؍اور کانوں میں کھٹکتی ہوئی چنچل آواز؍
اپنی بے تابیِ دل ؍اور بڑھا دیتی ہے ؍ہونٹ تک آنے میں الفاظ پگھل جاتے ہیں ؍
شدّتِ گرمئ احساس میں جل جاتے ہیں!!‘‘
اور یہی وہ یادیں ہیں جو انسان کو ہر لمحہ کریدتی رہتی ہیں ۔ لکھنے پر اُکساتی ہیں ۔ اور جب سیّد احمد شمیم ؔ نے اپنے دوست و احبات ، عزیز و بزرگ جن سے والہانہ تھا ،لکھنے بیٹھے تو اُن کے ساتھ گُزارے لمحات دنیا کے تماشوں میں ڈھل کر قسط در قسط آنکھوں میں خواب کی طرح اترتے چلے گئے ۔ یہی تلخ و شیریں لمحات زندگی کے تماشے بنتے رہے ۔ ’’بند آنکھوں کا تماشا‘‘ کے بیک کور پراپنے تماشوں کے متعلّق سیّد احمد شمیم نے لکھا ہے ۔
’’مفتیانِ ادب خاکہ کی کیا تعریف کرتے ہیں میں نہیں جانتا اور نہ جاننے کی
ضرورت محسوس کرتا ہوں ، اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ایک فنکار پرانے سانچوں کو
توڑنے اور ان کی نئی صورت گری کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ میرے ان مضامین
کو کیا نام دیا جائے گا مجھے نہیں معلوم ۔ میں انہیں’’بند آنکھوں کا تماشا ‘‘ کہتا
ہوں اور میرے لئے یہی سب سے بڑا سچ ہے ۔ ‘‘
سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کون کرے گا؟ ۔لیکن یہ بتا دوں کہ انہوں نے اپنی تنقیدی کتاب ’’ارژنگ‘‘ کے پیش لفظ میں بھی لکھا تھا کہ’’ میں کوئی نقاد نہیں ہوں ۔‘‘یہاں ’’بند آنکھوں کا تماشہ گر ‘‘ہونے سے بھی انکار کیا ہے اور سب کچھ’مفتیانِ ادب‘‘ کے حوالے کر دیاہے..........ایک ڈاکٹر جب تک خود کو ڈاکٹر نہیں کہتا ہے، تب تک مریض ان سے علاج نہیں کرواتا ۔سیّد احمد شمیمؔ شاعر کے ساتھ نقاد اور خاکہ نگار ہیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے ۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا انہوں نے ادبی انکساری کی وجہ سے لکھا ہے۔ لیکن ادب میں ایسے لوگ کتنے ہیں ؟دیکھا تو یہ گیا ہے کہ بہت سارے لوگ جو کچھ نہیں ہوتے وہ بھی بہت کچھ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔تو ایسے میں اگر سیّد احمد شمیم خاکہ کے نئے سانچوں کو توڑتے ہیں اور ان کی نئی صورت گری کرتے ہیں تو اس کا بھی مفتیان ادب کو بڑھ کر استقبال کرنا چاہئے ۔
اس کتاب میں کُل گیارہ خاکے ہیں ۔جن ادباء وشعراء پر خاکے لکھے گئے ہیں ، ان کے اسم گرامی کچھ اس طرح ہیں ۔ عبدالعلیم آسی ، مظہر امام ، زکی انور ، وہاب اشرفی ، عبدالمنّان طرزی ، محمّد سالم ، جوہر بلیاوی ، اسلم بدر، شمس فریدی ، منظر امام اور منظر کاظمی ۔تمام خاکوں کے عنوانات کی انفرادیت اس میں ہے کہ وہ سب کے سب کسی نہ کسی شعر کے مصرے ہیں۔ ’’ یاد آئے تو بہُت یاد آئے ‘‘۔’’ عصرِ نو اپنی نگاہوں میں چھپا لے مجھ کو ‘‘، کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدّس خواب تھے ‘‘،’’ وہ شخص میرا غیر بھی اپنا بھی نہیں ہے ‘‘،’’ طرزی کی ہے کچھ طرزِ ادا اور‘‘ سات سمندر پار جو آ کر دشت فضا کو دیکھا ہے ‘‘،’’ بھول بیٹھا ہوں کدھر جانا ہے ‘‘،’’ اوبہ ناز عجبے من بہ نیاز عجبے‘‘ ، ’’ اس کو سوچا تو کئی رنگ کے پیکر آئے ‘‘،’’ من تو شدم تومن شدی ‘‘اور ’’ ایسا کہاں سے لاؤں کہ اپنا کہوں جسے ‘‘جیسے مصرعے اس خوبصورتی سے عنوانات کے تحت لائے گئے ہیں کہ وہ اس شخصیت کی جلوہ گری میں نمایاں رول ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ جس سے خاکہ نگارکی ذہنیّت کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان شخصیّات کا بھی جن پر خاکے لکھے گئے ہیں۔ ۔یہی وہ سلیقہ ہے جو پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔
جی ہاں گیارہ اسمائے گرامی اور گیارہ مصرعے۔ لیکن میں آپ کو یہ بتا دوں کہ اس کتاب میں گیارہ نہیں بارہ خاکے ہیں اور وہ بارہواں خاکہ ہے خود مصنّف کا یعنی سیّد احمد شمیم کا۔ چوں کہ مصنّف نے اُن پر خاکے لکھے ہیں جن سے ان کے گہرے مراسم تھے ، یا جنہیں وہ بہت قریب سے جانتے تھے۔اس لئے ان خاکوں میں سیّد احمد شمیم کی شمولیت تو ضروری تھی ۔ اپنی بات کہنے کے لئے انہوں نے چند ایک واقعات کا سہارا لیاجِسے ہمیشہ یادداشت کے سہارے آگے بڑھایا ......... خاکے میںیاد داشت جہاں جہاں ضم ہوئی ہے، وہاں وہاں سیّد احمد شمیم کی جلوہ گری ہوئی ہے ۔ اور یہی جلوہ گری بارہویں خاکے کی شکل میں کتاب میں موجود ہے ۔ جن کی حصّہ داری پوری کتاب میں ٹرین کی اس ایک پٹری کی طرح ہے جو دوسری پٹری کے ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔
سیّد احمد شمیم نے اپنے خاکوں کے لئے جس طرح کے اسلوب نگارش کا استعمال کیا ہے ، اس سے ان کی نثر میں شگفتگی پیدا ہوئی ہے ۔بھاری بھر کم الفاظ اوراصطلاحات سے بھی پرہیز کیا ہے ۔مبالغہ آرائی سے بھی خود کو دور رکھا ہے ۔ اور جس کے متعلّق جو بات کی ہے وہ پورے وثوق سے کی ہے ۔اور اپنے انداز میں کی ہے ۔ خاکہ لکھنے کے پیچھے جو خلوص ہے وہ بھی ہر پیراگرف میں کسی زیریں لہر کی طرح موجود ہے۔جس کا احساس قاری کو ہر لمحہ ہوتا رہتا ہے ۔ یہاں ان کے شگفتہ ، دلکش اور پُر اثر اسلوب نگارش کے چند نمونے دیکھئے اور عش عش کیجئے۔
’’وہاب صاحب کا قلم پھول کھلاتا ہے اور کانٹے بھی اگانا جانتا ہے ۔ مگر وہ گفتگو اتنی
خوبصورت کرتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان فورراً مرکزِتوجُّہ بن جاتے ہیں ۔وہ ایک
کامیابconversationalistہیں اور خطرناک حد تک extrovertبھی ۔
کسی بھی موضوع پر بے تکلُّف اور حد درجہ شگفتہ گفتگو کرتے ہیں۔فکشن شاعری ڈرامہ
تصوُّف،مذہب ۔ مگر ان کا پسندیدہ علاقہ سیکس ہے ۔لیکن موضوع کوئی بھی ہو اپنی ذات
کا مرکز نہیں چھوڑتے ۔ اپنی نمائش کا پہلو پیدا کرنے میں یکتا روزگار ہیں ، مگر ہوشیار اتنے
ہیں کہ بندوق دوسرے کا کاندھے پر رکھ کر داغتے ہیں ۔‘‘
’’وہ شخص مرا غیر بھی اپنا بھی نہیں ہے ‘‘ صفحہ۔۴۳
’’تاریخ ادبیاتِ عالم‘‘ اور ’’ اردو ادب کی تاریخ‘‘جیسی تاریخ ساز کتاب لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والے بلند پائے کے نقاد ڈاکٹروہاب اشرفی ؔ کے تعلق سے انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ان کی زندگی میں شائع بھی ہوا ہے۔ اپنے خاکے میں ان کے محبوب موضوع ’سیکس‘ کو فوکس کر کے’کوّے ‘ کوعلامتی انداز میں جس طرح شامل کیا ہے اس سے ایک طرح کا حَظ اُٹھانے کی کوشش کی گئی ہے ، اُس میں طنز کا پہلو کم اور مزاح کا عنصر زیادہ ہے ۔اس طرح کے جُملے کئی اور خاکوں میں بھی نظر آتے ہیں ، جو قاری کی دلچسپی کا سبب بھی ہیں اورشخصیت کے اندر اُترنے کا جواز بھی ۔
اسلم بدؔ ر جدید مثنوی ’’کُن فیّکون ‘‘ کے شاعر ہیں ۔ ان کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں ۔گھر بالکل پاس ہے ۔ ان کی شاعری ، ان کی زندگی اور ان کی شخصیّت پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ان کے ساتھ جب ادب پر گفتگو ہوتی ہے تو پڑوسیوں کو ایسا لگتا ہے جیسے دونوں لڑ رہے ہیں ۔پھر کچھ ہی دیر بعد جب یہ دیکھتے ہیں کہ دونوں ہنس بھی رہے ہیں تو بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پہلے دونوں کس بات پر لڑ رہے تھے کہ اتنی جلدی صلح ہوگئی اور پان کھانے بھی نکل پڑے ۔ اُن پر اپنے قلم کا جادو چلاتے ہوئے بڑی ہی پیاری بات لکھتے ہیں ۔
’’یہ شخص اسلم بدر بھی عجیب ہے عارضۂ قلب میں مبتلا ہے۔ تین بار دل کے آپریشن سے اور
چار بار اینجیو گرافی سے گذر چکا ہے ۔ بستر پر پڑا بھی ہو تو نہ صرف تندرست اور توانا لگتا ہے ،
بلکہ بے شکن پیشانی، مسکراتے ہوئے ہونٹ ، باتوں میں نرمی و گرمی اور جینے کے حوصلے سے
بھر پور ہوا کرتا ہے ۔ کسی کی عیادت کرتے ہوئے بھی اندازِ گفتگو ایسا کہ بستر مرگ پر پڑا ہوا
مریض بھی ہشّاش و بشّاش ہو جائے ۔ ‘‘
’’ او بہ ناز عجبے من بہ نیاز عجبے ‘‘صفحہ۔۸۲
مظہر امام جو اعلی پائے کے شاعر اور آزاد غزل کے بانی ہیں ۔رشتے میں بڑے بھائی منظر شہاب کے سالے ہیں۔ ان سے عقیدت رکھتے ہیں ۔اکثر ان کا ذکر بھی چھیڑ دیتے ہیں۔اپنے مضمون میں انہوں نے اس بات کا اعترف بھی کیا اور ’امیر منزل ‘(دربھنگہ) کے حوالے سے جب بھی بات کی ہے، مظہر امام ادب کی امامت کرتے نظر آئے ........ ان کے دُبلے پن اور لمبے قد کو سیّد احمد شمیم نے طنز ومزاح کے پیرائے میں اس طرح سمویا ہے کہ اس میں بھی ایک طرح کا حسن پیدا ہو گیا ہے ۔بات ممدوح کے کمر درداور پاؤں کی ہڈّی ٹوٹنے کی کرتے ہیں ۔ لیکن پڑھنے والا ان کے شگفتہ اسلوب میں اس طرح اسیر ہوتا ہے کہ وہ اس درد میں بھی خوشی کا پہلو تلاش کر لیتا ہے ۔
’’مظہر امام کی صحت ہمیشہ ان کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے ۔ تنفُّس کا عارضہ تو نفس
کے ساتھ ہے ۔ پھر بھی گردن ، کبھی پشت اور کبھی کمر کا درد انہیں برابر ستاتا رہتا ہے ۔ اس پر
اُن کا دبلا پن اور لمبا قد جسے اُن کے پاؤں سنبھال نہیں پاتے ہیں ، چنانچہ اب تک دو بار
پاؤں کی ہڈّی تڑوا چکے ہیں ۔‘‘ ’’عصرِ نو اپنی آنکھوں میں چھپا لے مجھ کو ‘‘ صفحہ ۔ ۲۵
ڈاکٹر منظر کاظمی ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں اور ان کے دوست بھی ۔ زندگی کے پُر پیچ راستوں میں ساتھ چلے بھی ہیں ۔ اور ساتھ چلتے ہوئے بھی برسوں دور دور رہے ہیں ۔ جس کا ذکر خاکے میں موجود ہے ۔ سیّد احمد شمیم اور منظر کاظمی میں بلا کی ذہانت تھی ۔ ایک شاعر تھے تو دوسرے افسانہ نگار۔بات بن سکتی تھی لیکن دونوں کو نقادی کا بھی شوق تھا ۔
شاعر اور افسانہ نگار ایک ساتھ برسوں رہ تو سکتے ہیں ۔ لیکن دو نقاد............؟ یہی ہوا۔بقول سیّد احمد شمیم کے زمانے کی نظر لگ گئی یا مفاد پرستوں نے اپنے گُل کھلائے ۔ بہر حال آخری دونوں میں تعلّقات بہُت بہتر نہیں تھے ۔ اس کے باوجود منظر کاظمی نے بھی اپنے بیٹے کی شادی میں دوستی کی لاج رکھی اور سیّد احمد شمیم نے بھی اسی زمانے میں خاکہ لکھ کر جذبات کو آئینہ دکھایا ۔
’’نفیس سگریٹ اور اچھّا کھانا کاظمی کی پسند ہے ۔ پھلوں میں آم اس کا مرغوب پھل ہے ۔
قلمی سلیقے سے تراش کر کھاتا اور تخمی چوس چوس کر ........کاظمی مانے یا نہ ما نے وہ بہت جلد
طیش میں آ جاتا ہے ۔ مگر ٹھنڈا بھی جلد ہو جاتا ہے اس میں شعلہ و شبنم کا عجیب امتزاج ہے کہ
وہ اپنے اندر امرت تو رکھتا ہے زہر پالنا نہیں جانتا ، انتقام اس کی سرشت میں نہیں ہے ۔ اس
کے دل کی وسعتوں کا تجربہ مجھے ذاتی طور پر بھی بارہا ہوا ہے ۔ ‘‘
’’ ایسا کہاں سے لاؤں کہ اپنا کہوں جسے ‘‘ صفحہ نمبر۔۱۵۱
زکی انور اردو افسانے کا وہ نام ہے جسے وہ مرتبہ نہیں مل پایا جس کے وہ مستحق تھے ۔ اس میں جتنا قصور ناقدوں کا ہے اس سے زیادہ ان کی ذات کا ہے ۔ آج دس سے بیس افسانے جس بھی معیار کے ہوں اگر شائع ہو گئے توو ہ فوراً کمپوزنگ کروا کر ایک عدد کتاب کا مالک بن بیٹھتا ہے ۔ لیکن تقریباًپانچ سو افسانے اور اٹھائس ناول لکھنے کے بعد بھی انہوں نے خود کو کبھی کتاب چھپوانے کی دوڑ میں شامل نہیں کیا ۔ وجہ صاف تھی کہ بغیر کتاب چھپوائے انہیں گھر گھر پڑھا جارہا تھا تو ایسے میں کتاب چھپوا کراپنے پیسے کا زیاں کیوں کرتے؟۔( جنہوں نے اپنی کتابیں بانٹی وہ ناقدوں کے چہیتے بنے).........اپنے افسانوی کرداروں کی طرح ان میں بھی زمانے سے ٹکرانے کی قوّت تھی ۔ ایک مثالی انسان کی طرح امن کے خواہاں اور دوستی کے پیمبر تھے ۔ لیکن جب بڑے بڑوں کو حق کی خاطر سولی پر چڑھنا پڑا ۔ زہرِ ہِلاہِل پینا پڑا ہو تو زکی انور توایک ایسی زبان’ اردو ‘جسے اپنے ہی گھر سے بے گھر کر دیا گیاہو، اُس کے پروفیسر، افسانہ نگار ، ناول نگار ، ڈرامہ نگار تھے، توانہیں کہاں چھوڑا جاتا ......... امن کے دشمنوں نے بھی ان کے ساتھ وہ کیا جو ہوتا آیا ہے ۔ویسے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جس نے اپنے کنویں کے پانی سے جس پڑوسی کے گھر کی آگ بجھائی ہووہی اُسے مار کر پڑوسی ہونے کا اس طرح سے فرض نبھائے گا ۔زکی انور ان کے استاد تھے اور کلیگ بھی ۔ انہوں نے ’’ کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدّس خواب تھے ‘‘ عنوان کے تحت ان پر خاکہ لکھ کر نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ان کی زندگی کے کئی ان چھوئے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔تحریر دیکھئے:
’’بنیادی طور پر زکی بھائی بے حد معصوم آدمی تھے۔اسی معصومیت نے انہیں
اکثر نقصان بھی پہنچایا ۔ قطعی غیر سیاسی تھے۔ مگر سیاست میں ٹانگ ضرور اڑاتے
تھے ۔ احباب سے لمبی لمبی بحثیں کرتے تھے اورہمیشہ اپوزیشن میں رہنا پسند
کرتے تھے ۔ بے حد محنتی تھے۔ زندگی کی ابتدا دکھوں میں کی تھی ۔ بہت ہی کم
عمری میں گھریلو زندگی کا بوجھ ان پر آن پڑا تھا ۔ مگر کچھ کر دکھانے کی دیوانگی تھی ۔
جس نے انہیں تمام عمر فعال رکھا ...........اپنے گھر کے کنویں سے پڑوسیوں
کے گھر کی آگ بجھاتے رہے اور پڑوسیوں نے زکی انور کو قتل کر کے اسی کنویں
میں ڈال دیا ۔‘‘
’’ کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدّس خواب تھے ‘‘ ، صفحہ نمبر ۔۳۲ اور ۳۹
اس کے علاوہ جن دوست واحباب کا خاکہ انہوں کھینچا ہے وہ بھی پڑھنے سے تعلّق رکھتا ہے ۔ سب سے اہم بات ان کے خاکے میں وہ دلچسپی ہے جو قاری کو باندھ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔نہیں پڑھنے والا بھی اگر ایک دوپاراگراف کہیں بیچ سے پڑھ جائے تو وہ شروع کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ عبد المنّان طرزی کی کئی تصویریں دیکھنے کے بعد سیّد احمد شمیم کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ تصویر کھینچوانے کا سبب کیا رہا ہوگا ۔اور ہر بار جب وہ تصویر کھینچواتے ہیں تو ایک طرف جھکے ہونے کا راز کیا ہے ۔ بہر حال اس راز کا پردہ فاش انہوں نے کس طرح کیا ہے ، اسے دکھانے کا انداز دیکھئے محظوظ ہوئیے اور محتاط ہو جائیے کیوں کہ اگلی تصویر آپ کی بھی ہوسکتی ہے ۔
’’ میں نے کئی گروپ تصویروں میں طرزی کو بھیڑ کے درمیان سے جھانکتے ہوئے
دیکھا ہے اور ایسے میں اس کا سر کسی نہ کسی خاتون کے شانے سے اُلجھا ہو ادکھائی
دیتا ہے ۔‘‘
’’ طرزی کی ہے کچھ طرزِ ادا اور‘‘ صفحہ ۔۵۵
محمد سالم ؔ ان کے بچپن کے دوستوں میں سے ہیں ۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے وہ کبھی بھی اُن کی مٹھّی میں نہیں آ سکے ۔ جس کے باعث ان کی شخصّیت ہمیشہ توجہ کا مرکز رہی ۔ جناب ہندوستان میں رہ گئے اور وہ سات سمندر پار کر کے نیو جرسی امریکہ پہنچ گئے ۔ سالم سے ملنے امریکہ جا نہیں سکتے تھے اس لئے انہوں نے ان کی ذات کو لفظوں میں سمیٹ کر اپنے خاکے کے اندر سمیٹ لیا تاکہ جب ان سے ملنے کی خواہش ہو ’’بند آنکھوں کا تماشا‘‘ کھول کر دیکھ لیں ۔ شخصّیت کے تئیں یہ جذباتی لگاؤ ہی ہے جسے وہ اکثر ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔لیکن سیداحمد شمیم کے ڈھونڈنے کے طریقے کودیکھئے اور داد محمدسالم کی دھمکی کو دیجئے کہ وہ دھمکی میں بھی کیا دیتاہے۔؟
’’میں اس سالم کو ڈھونڈرہا ہوں جو کبھی خوبرونوجوان تھا ، دل پھینک تھا ۔کمیونسٹوں
سے ربط ضبط رکھتا تھا اور پکّا مسلمان بھی تھا .......... ان دنوں صاحب ریش حاجی ہے
......... حج کر کے مجھ جیسے کمزور فقیروں کو اپنی بددعاؤں کی دھمکی دیتا ہے ۔ ‘‘ ’’ سات سمندر پار جو آ کر دشت فضا کو دیکھا ہے ‘‘ صفحہ۔۶۲۔۶۳
جوہرؔ بلیاوی اس شاعرکا نام ہے جنہیں ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کے تمام لوگوں کی عمر ، کون کس سے کتنا بڑا تھا۔ کون کس سے کتنا چھوٹا ہے ، دن تاریخ ، مہینے اور گھنٹے کے حساب سے علم تھا ۔ ان سے جو بھی ایک بار ملا ہو انہیں زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔کیوں کہ وہ کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے رشتے اور عمر کی لمبائی تک بخوبی پہنچنے کا ہُنر رکھتے تھے ۔بحر اور اوزان میں اتنے ماہر تھے کہ غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام میں بھی کمیّاں ڈھونڈ لیتے تھے۔ابتدائی تعلیم مدرسہ میں پائی ۔مدرسہ میں پڑھائے بھی۔ہائی اسکول کی ہیڈ ماسٹری کی۔ زندگی بھی کرتا پائجامہ پہنے۔کبھی کسی کے آگے نہیں جھکے۔ ان سے سیّد احمد شمیم کی دوستی تو تھی ۔لیکن وہ کبھی ان کی دوستی سے لطف اندوز نہیں ہو سکے ۔ ایسے دوست شاعر کے متعلّق بہت ہی دلچسپ پیرائے میں ماں باپ کو کھانے اوران پرجوانی کے نہیں آنے کا ذکرپُرلُطف انداز میں کرتے ہیں ۔
’’جوہر بلیاوی ..........طربیہ سے نہیں مرثیہ سے دلچسپی رکھتا ہے ......... آں جناب
بہت کم عمری میں اپنے ماں باپ کو کھا بیٹھے ہیں ۔ مغل بچّے ہوتے تو معشوق کو کھاتے ۔
پیدا ہوئے حافظ رحیم اللہ کے گھر اور محبّت پائی بوڑھی نانی کی تسبیح گزار آغوش میں ،
جوانی کبھی جوہر پر آئی ہی نہیں ۔ ‘‘
’’ بھول بیٹھا ہوں کدھر جانا ہے ‘‘ صفحہ۔۶۵
شمس فریدی ان کے بہترین دوستوں میں سے ہیں ۔شاعر ہیں اور پوری دنیا گھوم چکے ہیں ۔ ان کے ساتھ سید احمد شمیم کے بہُت پرانے مراسم ہیں۔ہر اچھّے بُرے میں دونوں ساتھ رہے ہیں۔ان کی سادگی ، ان کی معصومیت، اور ان کی مسکراہٹ پر انہوں نے جس طرح سے جملے تراشے ہیں اس سے آپ کو شمس فریدی جیسے خلیق اور ملنسار شاعر کے تئیں محبّت بڑھتی جائے گی ۔
’’میاں شمس فریدی کی مسکراہٹ آج بھی قاتلانہ ہے ، مجھ جیسے اس کے چند اور
عزیز دوست اس مسکراہٹ کے قتیل ہیں .......... راز کی کتنی ہی گہری بات ہو وہ
کہیں نہ کہیں ضرور افشاں کر دے گا ۔اور پھر غصّہ میں پوچھو تو یہ کہہ دے گا کہ ’’ یہ
کون سی ایسی بات تھی کہ سینے میں چھُپا کر رکھتے۔ ‘‘
’’اس کو سوچا تو کئی رنگ کے پیکر آئے‘‘صفحہ۔۹۹
منظر امام ان کے لنگوٹیا دوست ہیں۔ اس لئے ان پر انہوں نے جی بھرکر لکھا ہے ۔وہ بھی لکھ دیا ہے جس پر اعتراض ہو سکتا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ منظر امام نے ماضی کر گربھ میں پوشیدہ راز کے افشاں ہونے سے کس طرح سے ری ایکٹ کیا ہو گا۔ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اس خاکہ کے لکھے جانے اور چھپنے سے پہلے ان کے علم میں آیا ہوگا ۔اگر انہوں نے کسی طرح کا ری ایکشن نہیں دکھایا ہو گا تو یہ ان کی شخصیّت کا مثبت پہلو ہی گا ۔ کیوں کہ یہ ساری باتیں اگر انسان کے اندر نہ ہوں اور سب کچھ فرشتوں جیسا سرزد ہونے لگے تو انسان کی شناخت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا........بہر حال منظر امام ان کے بہترین دوستوں میں ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ادب میں تھوڑی بہت بھی ہلچل اگرسیّد احمد شمیم پیدا کرنا چاہتے ہیں تو وہ خبر بھی پہلے منظر امام تک پہنچتی ہے ۔ یہاں منظرامام اور امیر منزل کے تعلّق سے جو بات انہوں نے لکھی ہے وہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔
’’ہماری معاثرت میں تقسیم وراثت کی جبریت بہت سے المیے جنم دیتی ہے ۔
اس تقسیم کے جبر نے امیر منزل کا سنگھار بھی چھین لیا ۔امیر منزل تقسیم ہوئی ......
دائیں جانب جو بڑا سا باغ تھا منظرامام کو ملا(جسے)انہوں نے تقسیم سے پہلے
ہی اس حصّے کو ایک ہندرررر بنیا سے بیچ دیا ‘‘
’’من تو شدم تو من شدی ‘‘صفحہ۔۱۱۹
جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ سیّد احمد شمیم ایک شاعر کے ساتھ ساتھ نقّاد بھی ہیں ، اس لئے خاکے میں جو زبان انہوں نے استعمال کی ہے اس میں کہیں کہیں شاعرانہ اسلوب کی چاندنی چمکتی ہے اور کہیں کہیں نقّادوں کا لہجہ بھی ۔اور ایسا ہونا فطری ہے ۔لیکن اس بات کا ہر خاکہ نگار کو خیال رکھنا چاہئے کہ وہ جس کسی کے بارے میں لکھیں ، اس کی ذات اور اس کے موجودہ کردار کو سامنے رکھ کر لکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بات جس سے تضحیک کا پہلو نکلتا ہواور اس کے سوا کسی اور کو معلوم نہ ہو ۔ یا معلوم بھی ہو تو دوچار لوگوں کو ۔ اور اس دوران اُن کی ذات میں اتنا بدلاؤ آ گیا ہو کہ کمزوریوں کی وہ شاخ جو کبھی ان کے ذاتی شجر کا حصّہ رہی ہو۔کٹ کر راہ پر گر جائے تو آنے جانے والے لوگوں کو تکلیف پہنچے ۔ ذات پر حرف آ ئے اور پوری کی پوری شخصیّت مسخ ہو جائے ۔ ایسے میں خواہ دوست ہو یا دشمن ۔خاکہ نگار کوقلم سنبھال کر لکھنا چاہئے.......... بیش تر جگہوں میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے ۔ ایک دو جگہ قلم بہکا بھی ۔ لیکن اچھّی بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کوچھپنے سے پہلے خاکہ سپرد کر دیاگیا تھا تاکہ وہ اپنی لفظی تصویر کو تمام زاویوں سے دیکھ سکیں ۔
میں نے سیّد احمد شمیمؔ کے متعلق بہُت کچھ لکھنے کے بارے میں سوچا تھا ۔ کم سے کم دس بار شروع بھی کیا ۔لیکن ہر بار ایک طویل مضمون یا مکمّل کتاب کاخاکہ ادھورا کا ادھورا رہ گیا ۔ان کی شخصیّت پوری طرح سے میری مٹھّی میں ہوتے ہوئے بھی ریت کی طرح پھسلتی رہی .........شاعری پر جب کچھ نہیں لکھ سکا توان کی تنقید اور خاکہ پر لکھنے کا دباؤ بڑھ گیا ۔ آخر کارشاعری اور تنقید کے بجائے خاکہ نگاری میرے لئے آسان ثابت ہوئی ۔ آسان اس معنیٰ میں کہ میں پہلی بار جب لکھنے کے کے لئے بیٹھاتو قلم خود بخود آگے بڑھتا چلا گیا ......... لیکن ہر پیراگراف کے بعد میں یہ سوچتا رہا کہ جو کام میں نے بیس پچیس سالوں میں نہیں کیا ۔ کیا وہ کام دو چار دنوں میں ہو پائے گا۔؟
اللہ کا فضل ہے کہ’’بند آنکھوں کا تماشا ‘‘ جاری ہے ۔تماشہ دیکھنے اور دکھانے والے ہمیشہ بدلتے رہے ہیں ........لیکن مجھے امیّد ہے کہ ابھی اور بھی تماشے سیّد احمد شمیمؔ کی آنکھوں میں محفوظ ہو ں گے ۔آنے والا کل ایک بار پھر بند آنکھوں کا گواہ بنے گا۔اور تب ہم یہ بھی دیکھیں گے مفتیان ادب خاکہ نگاری کی’ نئی میزان‘ لئے ان تماشوں کو تول رہے ہوں گے ۔پلڑا کس طرف جھکے گا یہ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی ۔
***
DR.AKHTAR AZAD,
HOUSE NO. 38, ROAD NO . 1,AZAD NAGAR , JAMSHEDPUR-10 (JHARKHAND)