ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ
موبائل:08860438994
اردونثر پر سرسیدکے احسانات
جب کوئی شخص کسی بات کو قطعیت ووضاحت سے پیش کرنا چاہتا ہے تو وہ عموماً نثر کا سہارا لیتا ہے۔ استدلالی ومنطقی انداز سے اپنی بات کو ثابت کیا جائے تب بھی نثر کا سہارا لینا ضروری ہوجاتا ہے ۔ اس ترقی یافتہ دور میں مختلف نوعیت کے مسائل کی گھتیوں کو سلجھانے میں نثر کی افادیت مسلم ہے۔
1850 ء میں مرزا غالب نے سلیس اور عام فہم نثر میں خطوط نگاری کے ذریعہ جدید نثر کی داغ بیل ڈالی جیسے سرسید اور ان کے رفقاء نے غدر کے بعد فروغ دیا۔ اور ایک اصلاحی تحریک کی شروعات کی۔ اس کا ایک بہت بڑا مقصد یہی تھا کہ اردو میں اصلیت اور واقفیت کی فضا پیدا کی جائے۔ نثر میں تنقید، سوانح نگاری، تاریخ نویسی، صحافت نگاری، مضمون نگاری، ناول نگاری وغیرہ کو رائج کر کے سرسید اور ان کے رفقاء کار نے جدید نثر کی مضبوط اور پائیدار عمارت کی تعمیر میں اہم حصہ لیا ہے۔
1832 ء میں فارسی کے بجائے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیاگیا۔ لہٰذا یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت وقانون کی وہ تمام اصطلاحیں جو پہلے فارسی اور انگریزی زبان میں تھیں۔ اب اردو میں منتقل کی جائیں۔ اسی زمانے میں اردو میں وہ قانونی اصطلاحات رائج ہونے لگیں جو آج بھی عدالتوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ اسی زمانے میں اخباروں کو آزادی دی گئی۔ ہندوستانی زبان کے چھاپے خانے کھلنے لگے۔
آزاد کے والد نے اردو اخبار اور سرسید کے بڑے بھائی نے سیدالاخبار کا اجراء کیا جو اردو کے ابتدائی اخبار ہیں۔ ابتدا میں خود سرسید کی نظر میں بھی سلیس نثر کی کامیابی مشتبہ تھی۔ اپنی کتاب آثارالصنادید کو جو 1847 ء میں چھپی ۔ سرسید نے مولانا امام بخش صہبائی سے مسجع اور مقفع نثر میں لکھوایا۔ لیکن سرسید کی دو اندیشی نے زمانے کے تقاضے کو جلد ہی سمجھ لیا اور آثارالصنادید کو اپنے ہی قلم سے سلیس اور بے تکلف اسلوب میں تحریر کیا۔
1863 ء میں سرسید نے ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ قائم کی تاکہ مغربی زبانوں کی علمی اور سائنٹفک کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اردو کے مصنفین کو نئے اور کارآمد موضوعات واسالیب سے واقفیت ہوئی۔
1882 ء میں سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی گزٹ نکالا۔ جو اس سوسائٹی کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ دلی کالج نے اردو نثر کے اس پہلو کی تکمیل کی جسے فورٹ ولیم کالج نے نظرانداز کردیاتھا۔ دلی کالج نے جغرافیہ ، تاریخ، سائنس اور قانون سے متعلق بہت سی کتابوں کا ترجمہ کروایا۔ ماسٹر رام چندر جو اس کالج سے وابستہ تھے۔ اردو نثر کو جدید موضوعات سے روشناس کرانے میں پیش پیش رہے۔ وہ ریاضی کے بڑے ماہر تھے۔ دلی کالج نے جس راستے کو اپنایا تھا سرسید نے بڑی تندہی اور جانفشانی سے اس راستے پر آگے قدم بڑھایا۔
1857 ء کی جدوجہد ہندوستانی قوم کی آزادی حاصل کرنے کی آخری کوشش تھی۔ لیکن تنظیم اور ڈسپلن کی کمی، جدید جنگ کی ٹیکنیک سے ناواقفیت، آپس کا نفاق، دیسی ریاستوں کا تعاون سے انکار اور اسلحہ اور جنگی مصارف کی کمی کے سبب آزادی کی یہ جنگ کامیاب نہ ہوسکی اور انگریزوں نے اسے بغاوت کا نام دے کر ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھاے۔ سرسید نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ رسالے میں بغاوت کی بہت کچھ ذمہ داری حکومت پر عائد کی اور مسلمانوں کو اس سے بری الذمہ قرار دیا۔ انہوں نے حکومت کو چند مفید مشورے بھی دئے اور یہ حقیقت ہے کہ سرسید نے اپنی آئندہ کی سیاسی پالیسی کی بنیاد اسی رسالے کو بنایا۔ 1858 ء میں جب کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور لارڈ کیننگ کو گورنر جنرل کے بجائے وائسرائے ہند بنایا گیا اور انگلینڈ کی حکومت نے ملکہ وکٹوریہ کو قیصر ہند کا لقب دے کر ہندوستان کی حکومت کو براہ راست اپنے اختیار میں لے لیا تب سرسید کے مفید مشوروں پرحکومت نے خاص توجہ دی۔
1859 ء میں سرسید نے رسالہ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر حکومت کو یہ بات ذہن نشین کرانی چاہی کہ ہندوستان کو سیاسی مراعات دی جائیں اور اپنے ہی ملک میں حکومت کرنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی جائیں۔ سرسید کو یہ احساس تھا کہ مسلمانوں کے مذہب میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ لیکن چند غیرضروری نقصان دہ رسم و رواج اور غلط عقائد نے نیز مذہبی احکام کی غلط تاویلات نے اسلام کو مسلمانوں کے لیے فراریت اور گریز کا ذریعہ بنادیا ہے اور ان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی ترقی پسند روح کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ ایک طرف سرسید نے مغربی علوم سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے غازی پور میں مدرسہ قائم کیا۔ سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور علی گڑھ کے مدرسۃ العلوم کوقائم کیا تو دوسری طرف مسلمانوں کے خیالات انقلاب لانے کے لیے خطبات احمدیہ، تفسیرقرآن، اور تہذیب الاخلاق کے بہت سے مضامین میں اسلام کے نظریات کی جدید تاویلات پیش کیں اور عیسائی مشنریوں کے حملوں سے اسلام کے نظریات کادفاع کیا۔
ہنٹر کمیشن نے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے خاص بندوبست کرنے کی سفارش کی۔ سرسید نے اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ حکومت خود مسلمانوں کے لیے تعلیمی میدان میں کچھ کام کرے، بلکہ اپنی کوششوں سے اس میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئے جس کا اعتراف سب ہی کو ہے۔
اردو نثر نگاری میں 1875 ء کا سال ہمیشہ یادگار رہے گا اسی سال سرسید نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجراء کیا۔ جدید موضوعات افکار اور اسالیب کی طرف راغب کرنے میں اس رسالے نے سب سے اہم حصہ لیا۔ مذہبی ، معاشرتی، سماجی، تمدنی، سیاسی او رادبی اصلاح کے لیے سرسید نے اس میں پرمغز تنقید اور نہایت کار آمد مضامین قلمبند کیے۔ سرسید کا اسلوب تصنع سے پاک ہے ان الفاظ کو جو عوام الناس کی زبان پر جاری ہوں اور جو عام فہم اور روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ہوتے ہوں جان بوجھ کر استعمال کرتے اورلغت و قواعد کی پابندیوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے ایک فطری انداز بیان کو سرسید نے اس لیے اپنایاتھا کہ پرخلوص اور فطری جذبات کو پیش کرنے کے لیے ایسے ہی اسلوب کی ضرورت تھی۔ سرسید صنائع و بدائع کا استعمال بہت کم کرتے تھے ۔ تشبیہوں اور استعاروں میں فطری بے ساختگی، سلاست اور عام فہم انداز کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ جس قسم کا مضمون ہو اسی قسم کا پیرایہ اور لہجہ استعمال کرنا ان کی ایک اور خصوصیت تھی۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے بیشتر مدلل اور منطقی پیرایہ بیان اختیار کرتے تھے۔
تہذیب الاخلاق 1875 ء میں جاری ہوا اور 1877 ء تک نکلتا رہا۔ اس دور میں اس میں دو سو چھبیس (226) مضامین لکھے گئے ۔ تین سال کے بعد یعنی 1880 ء میں یہ پھر جاری ہوا اور 2سال 5مہینے تک شائع ہوتا رہا۔اور تقریباً بارہ برس کے بعد یعنی 1896 ء میں یہ تیسری مرتبہ جاری ہوا اور تین برس تک نکلتارہا یعنی 1899 ء تک اور پھر بند ہوگیا۔
مقالہ نگاری اور انشاء پرداشی کا جو مہذب، سنجیدہ اور بلند معیار سرسید نے اس پرچے کے ذریعے قائم کیا وہ تب تک فراموش نہیں کیا جاسکتا جب تک اردو زبان زندہ ہے۔ سرسید کا مشن یہ تھا کہ مسلمانوں کی معاشرت اور عادتوں میں جو جامد اور غیر متحرک خیال داخل ہوگئے ہیں انہیں اور اوہام پرستی، قدامت پرستی، رجعت پرستی اور احساس کمتری کو دور کرکے انہیں جدید ترقی یافتہ خیالات سے روشناس کرایا جائے۔ انگلینڈ کے سفر نے ان کے اس خیال کو او ربھی تقویت بخشی۔ انگلینڈ کی حیرت انگیز ترقی انگریزوں کی صنعتی، تہذیبی، تمدنی ترقی اور وہاں کے جمہوری اقدار اور سیاسی افکار سے سرسید نے بہت زیادہ اثر قبول کیا۔
جدید علم الکلام کی بنیاد بھی سرسید ہی نے لکھی، ولی، روح ، فرشتے ، الہام وغیرہ کو بھی سرسید نے عقل اور نیچر کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ سرسید کی اس مذہبی دخل اندازی کو اس دور کے قدامت پرست مسلمانوں نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ مگر پھر بھی ان کے ارادہ میں کوئی لرزش نہیں پیدا ہوئی اور ان کے قائم کردہ علی گڑھ کالج نے ترقی کر کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا روپ لے لیا۔ اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے مسلمانوں میں ایسی کئی عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے ملک اور قوم کی قابل قدر خدمات انجام دیں۔ مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو جدید علوم سے واقف کراکے انہیں ترقی یافتہ اور کارآمد شہری بنانے میں یونیورسٹی نے سب سے زیادہ حصہ لیا ہے۔
ہندوستان کے پرآشوب دور میں سرسید نے مسلمانوں کے مذہب، تعلیم اور معاشرت کی اصلاح کی جان توڑ کوششیں کیں۔ علوم مادی سے مذہبی تعلیم کو ہم آہنگ کیا۔ قدامت پرست اور رجعت پرست لوگوں نے سرسید کو کافر، ملحد اور نیچری کے خطابات سے نوازا ۔ اودھ پنچ نے ان کا مضحکہ اڑایا۔ اکبرالہ آبادی نے طنز سے تیر برسائے، کٹھ ملاؤں نے کفر کے فتوے صادر کیے لیکن آج سارا زمانہ اس بات کا قائل ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کی پستی اور تباہی کو دور کرنے میں عدیم المثال کارنامے انجام دئے۔ انہوں نے اردو ادب پر احسان عظیم کیا اور انہیں کے ایما پر حالی ؔ ، شبلیؔ ، آزاد اور نذیر احمد وغیرہ نے اردو ادب میں عقلیت ، واقعیت اور اصلاح پسندی کو فروغ دیا۔ اور ان لوگوں نے اردو نثر ونظم کو زمین سے آسمان پر پہنچادیا۔ سرسید نے سب سے پہلے اردو ادب میں ہیئت اور اسلوب کے بجائے موضوع اور خیال پر زوردیا۔ ادب اور زندگی کا راستہ استوار کیا۔ ادب اور سماج ، ادب اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی مفید کوششیں کیں ۔ ادب میں افادیت، اجتماعیت، عقلیت اور واقعیت کے پہلے علمبردار سرسید ہی تھے۔
ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ
فیکلٹی ایسوسی ایٹ:اسکول آف ہیومانیٹیز اینڈ سوشل سائنس (اردو)
گوتم بدھ یونیورسٹی، گریٹرنوئیڈا، گوتم بدھ نگر ، یوپی
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
Ph: 08860438994
09868410962
2401477