الأحد, 31 آذار/مارس 2013 17:31

محبت : صدام غنی Featured

Rate this item
(0 votes)

      محبت 


      صدام غنی 
      ایم۔اے(اردو)
      ورکرس کالج جمشیدپور 


      *محبت ایک پاکیزہ جذبے کا نام ہے ،جو دل سے پیدا ہوتی ہے اور جان تک بن جاتی ہے۔محبت ایک لافانی شے ہے جو کبھی ختم نہ ہونے کی قسم کھائی ہے۔جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے ہوا اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح محبت انسانی زندگی کاوہ اہم پہلو ہے جس کے بنا زندگی موت بن کے رہ جاتی ہے۔عمومی طور پر دل کے حسین جذبے کو محبت کہتے ہیں،لیکن زندگی کے ان سنگین پہلوؤں کی طرح محبت کو وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے۔ عام طور پر تو محبت ایک حسین جذبے کا نام ہے ،جو انسانی زندگی کے ارد گرد گھومتی ہوئی نظر ۱ٓتی ہے۔یوں تو کائنات کے ہر جاندار ،زی روح اس محبت کے کسوٹی پر کھڑے اترتے ہیں ۔بہر حال انسانی زندگی میں یہ بات بہت وسیع تر نظر آتی ہے ۔ اس کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ جس مخلوق کے یہاں زیادہ سے زیادہ سوچنے سمجھنے کی قوت و صلاحیت ہوتی ہے اس کے پاس یہ جذبہ بڑے وسیع طور پر پایا جاتا ہے۔
بہر حال محبت ،ملاقات اور پھر ملاقات سے رابطہ ،رابطہ سے دوستی ،دوستی سے دل لگی اور دل لگی سے محبت کی بنیاد پر قائم ہے ۔مختلف افرادوں نے محبت کی تعریفیں جداگانہ اندازسے پیش کی ہیں،لیکن بات وہیں پہنچتی ہے جہاں ایک پاکیزہ جذبے کا ذکر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔محبت کوزندگی کا اہم ترین جز قرار دیا گیاہے،کیونکہ محبت کا اثر ہمہ گیر ہے۔اس طرح جگر مرادآبادی لکھتے ہیں کہ۔
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے 
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
انسان اپنے جذبے کا اظہار اپنے انداز میں کر ہی دیتا ہے اور یہ اظہارمحبت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یوں تو جان بوجھ کر کوئی کسی سے محبت کا اظہار نہیں کرتا بلکہ یہ دل لگی ایک جذبے کے تحت ممکن ہوتی ہے۔انسان تو عشق کے دائرے فکر میں گرفتار ہوتا ہے ،بنا محبت کے انسان کی زندگی بے بنیاد نظر آتی ہے۔اس طرح یہ انسان کے ذہن ودل میں آسانی سے گھر کرتی ہوئی اپنی پاکیزگی کا احساس دلاتی ہے۔جب انسان محبت کے دولت سے مالامال ہوجاتا ہے۔اپنے محبوب کی زلفوں میں گرفتار ہو جاتا ہے تو زندگی اور حسین ہو جاتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سوکھے پیڑ میں جان پڑ گئی ہو۔اور پھر وہ عاشق اپنے محبوب کی تعریف و تحسین میں مبتلاہو جاتا ہے اور بڑی سنجیدگی سے پیش کرتا ہوا نظرآتا ہے۔کبھی لب ورخسار کی باتیں توکبھی زلفوں کے پیچ وخم کا ذکر ،اور بعض دفہ تو اپنے محبوب کی آنکھوں کو مے کا پیالہ بتاتا ہوا نظر آتا ہے۔اس کی نشاندہی خواجہ میردردؔ کرتے ہیں کہ۔
کرے ہیں مست نگاہوں میں ایک عالم کو
لیے پھرے ہیں یہ شاقی شراب آنکھوں میں
حسن یار کی بے ساختہ اداؤں اور محبوب کی ہزار رنگ جلوؤں کی جھلک اس رعنائی سے ملتی ہے کہ عاشق اس کیفیت میں ڈوب جاتا ہے اور اپنے زندگی کو ایک حسین پل میں شمار کرتا ہے۔عاشق اپنے محبوب کی ہزاروں رنگ و روپ میں بڑی رعنائی و دلکشی اور رنگینی کا احساس کرتا ہے۔اور اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے محبوب کے رخ روشن کے سامنے سورج کو بھی ماندپڑتا ہوا دیکھتا ہے۔ایک سچاّ عاشق اپنے محبوب کی خرام و ناز کا بھی نقشہ پیش کرتا ہے کہ اس کا محبوب کس طرح خوشبو بکھیرتا ہوا چلتا ہے۔اس موضوع سے متعلق کسی نے خوب کہا ہے کہ۔
اگر دل بہلنے کا کوئی سامان ہو جائے
ابھی جو زندگی دشوار ہے آسان ہوجائے
زندگی میں دل کو بہلانے کے لئے محبت میں یہ سامان عاشق کو فراوانی کے ساتھ فراہم ہو جاتا ہے ، وہ دشوار زندگی کو آسان بناتا ہوا ایک پر لطف زندگی گزارنے کا دعویٰ کرتا ہے۔محبوب کی تعریف میں تو عاشق نہ جانے کیا کیا کہہ دیتا ہے۔اور پھر اپنے محبوب سے باتیں کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔کہتا ہے کہ اگر تم کو ہم سے محبت ہے ،تم ہمارے محبوب ہو تو کسی اور کی طرف اپنی مست نگاہوں سے مت دیکھنا ،کیونکہ اگر تم کسی دوسروں کے طرف دیکھوگے تو تمہارے جادو بھرے نگاہ سے اور بھی کوئی تیرا دیوانہ نہ بن بیٹھے ۔اس طرح وہ اپنے محبوب کے ساتھ ایک پاکیزہ سلوک سے عشق کرتا ہوا اپنے کو مٹا دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ۔
کیا کیا نہ سہے ہم نے ستم آپ کی خاطر
یہ جان بھی جائے گی صنم آپ کی خاطر
دوسری جانب،جب انسان محبت کے بندشوں میں بندھ جاتا ہے تو عاشق کو عشق میں بہت مزا آتا ہے۔لیکن جب جدائی کا مرحلہ پیش آتا ہے تو دل پر ایک ناقابل برداشت صدمہ پہنچتا ہے۔دل غم کے ساغر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کو اپنے غم محبت کے سوا دنیا میں کچھ اور نظر نہیں آتا ۔اپنے مرض کی دوا کے لیے عمر بھر بھٹکتا پھرتا ہے ،آخر کار اس کو اپنے مرض کی دوا مل ہی جاتی ہے،وہ دوا بعدد میں اس کا درد ہی نکال جاتا ہے۔انسان کے دلوں پرغم محبت کے زخمو ں کا اثر اتنا ہوتا ہے کہ وہ خود ہی دوا کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔اور انسان کے دلوں سے یہ بات برجستہ نکل پڑتی ہے کہ۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا 
راہتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
انسان کا دل رفتہ رفتہ اس ناکامی کے طرف سے منتقل ہونے لگتا ہے ،وہ چاہتا ہے کہ نجات مل جائے لیکن اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے۔پھر بھی محبت ایک پاکیزہ جذبے کا نام ہے جو انسانی ذہن و دل میں بہت بے تابی سے پائی جاتی ہے ،اس میں وفائی ہو یا بے وفائی ۔اس طرح انسان اپنے جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیتا ۔وہ محبت کرتا ہے،کیونکہ خدا نے اس لافانی جذبے کو انسان کے دلوں میں بھر دیا ہے۔آخر کار انسان اس بات سے اپنے دل کو تسلّی دیتا ہے کہ۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہے لگالے ڈر کیسا 
جو جیت گئے تو کیا کہنا اور ہار گئے تو بازی مات نہیں

......................


صدام غنی 
ایم۔اے(اردو)
ورکرس کالج جمشیدپور 

Read 3996 times

1 comment

  • Comment Link Irfan Ahmad الأربعاء, 03 نيسان/أبريل 2013 16:03 posted by Irfan Ahmad

    Keya bat hai Saddam Bhai
    Very Fantastic

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com