الأحد, 31 آذار/مارس 2013 18:32

منٹو کے فکشن میں حقیقت نگاری : سیدہ فرحت زرتاج (ریسرچ اسکالر) Featured

Rate this item
(3 votes)

منٹو کے فکشن میں حقیقت نگاری


سیدہ فرحت زرتاج (ریسرچ اسکالر) 


        *سعادت حسن منٹو ۱۴ اگست ۱۹۱۲ ؁ کو لدھیانہ کے نزدیک موضع سمبرالہ میں پیدا ہوئے ۔ان کے اسلاف کشمیری تھے ۔ذات کے من وٹی تھے۔
شائد اسی وجہ سے اُنھوں نے منٹو نام اختیار کیا۔پروفیسر وہاب اشرفی تاریخ ادب اردو میں لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے کئی فرضی نام اختیار کئے، مثلاً مفکر، کامریڈ، ،آدم،وٹنم اور خواجہ ظہیرالدین وغیرہ۔‘‘ان کے والد کا نام خواجہ غلام السیدین تھا۔ ۱۹۳۵ ؁ میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی میں داخلہ لیا لیکن وہاں بیمار ہو گئے اور انہیں علی گڑھ چھوڑنا پڑا ۔ان کے قابل ذکر اساتذہ میں خواجہ محمد عمر جان ،فیض احمد فیض اور صاحبزادہ محمودالظفر کے نام لئے جاسکتے ہیں۔انکے قابل ذکر ہم جماعت ابو سعید قریشی ،خواجہ احمد عباس،مجاز ، جاں نثار اختر ،جذبی ،شاہد لطیف اور سردار جعفری تھے۔
( مندرجہ بالہ جانکاری میں نے تاریخ ادب اردو سے حاصل کی ہے)
عام طور پر منٹو کی شناخت حقیقت پسند افسانہ نگار کے طور پر ہوتی ہے ۔لیکن منٹو متنوع ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے صرف جنس کو ہی موضوع
نہیں بنایا بلکہ انہوں نے تقریباً تمام موضوعات پرطبع آزمائی کی ۔ منٹو نے جب افسانہ لکھنا شروع کیا اس وقت ہندوستان کی حالت نہایت دگر گوں تھی ۔ہر طرف افرا تفری کا ماحول تھا۔جنگ آزادی نیز فسادات سے متاثرہ حالات اور اشخاص کی عکاسی بخوبی انکے افسانوں میں جابجا موجود 
ہیں۔منٹو بندھے ٹکے خیالات کے پابند نہیں تھے ۔انہوں نے اپنے وقت کے سماج کو ، ماحول کو ، حالات کو جیسا دیکھا ویسا ہی پیش کیا ۔اپنے ایک مضمون میں منٹو اپنے بارے میں لکھتے ہیں : 151

’’ زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے واقف ہیں تو میرے افسانے پڑھئے ۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے ۔میری تحریر میں کوئی نقص نہیں ۔دراصل موجودہ نظام میں نقص ہے ۔جب کسی کو اپنی بد ہیئتی کا احساس ہوتا ہے تو آئینہ دیکھنے سے کتراتا ہے ۔‘‘
(منٹو کے نمائندہ افسانے ، اطہر پرویز ص۱۱ ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ) 

منٹو پر جب فحش نگار ہونے کا الزام لگایا گیا اور ان پر مقدمے چلائے گئے ، اس موقعے پر انہوں نے احمد ندیم قاسمی کو ایک خط میں لکھا کہ: 151 
’’پتی ورتا استریوں کے اور نیک دل بیویوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے 151 کیوں نہ ایسی عورت کا دل چیر کر دکھایا جائے ، جو پتی سے دور ہو کر دوسرے مرد کے پاس چلی گئی ہے ۔زندگی کو اسی شکل میں پیش کرنا چاہئے جیسی کہ وہ ہے نہ کہ جیسی وہ تھی۔یا جیسی ہونی چاہئے ۔‘‘
(منٹو کے نمائندہ افسانے ، اطہر پرویز ، ص۲۱ ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ) 

تاریخ کی روشنی میں منٹو کا پہلا افسانہ ’’تما شہ ‘‘ہے۔جس میں جلیاں والاباغ کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔یہ افسانہ ۱۹۱۹ ؁ کے مارشل لا اور جلیاں والا باغ کے خونیں مناظر اور جنرل ڈائر کے وحشیانہ مظالم کی یادگار ہے۔ اس افسانے کا تانا بانا باپ اور بیٹے ہیں۔اس افسانہ میں ایک چھ سال کا بچہ ہے جس کا نام خالدہے ۹۱۹ ۱ ؁ میں منٹو کی عمر بھی چھ یا سات سال ہی رہی ہوگی، اسلئے یہ گمان گزرتا ہے کہ کہین چھ سال کا بچہ منٹو تو نہیں ۔اک اقتباس پیش خدمت ہے۔
’’بازار آمدورفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائیں سائیں کر رہا تھا ۔دور فاصلے سے کتوں کی دردناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں ۔ چند لمحات کے بعد ان چیخوں میں ایک انسان کی دردناک آواز بھی شامل ہو گئی ۔خالد کسی کو کراہتے سن کر بہت حیران ہوا ۔ابھی وہ اس آواز کی جستجو کے لئے کوشش ہی کر رہا تھا کہ چوک میں اسے ایک لڑکا دکھائی دیا ۔جو چیختا ،چلاتا ، بھاگتا چلا آرہا تھا۔ خالد کے گھر کے عین مقابل وہ لڑکا لڑ کھڑا کر گرگیا اور گرتے ہی بیہوش ہو گیا ۔ اس کی پنڈلی پر ایک گہرا زخم تھا ۔جس سے فوارہ کی مانند خون نکل رہا تھا ۔یہ سماں دیکھ کر خالد بہت خو ف زدہ ہو گیا۔بھاگ کر اپنے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا ۔’’ ابا ابا بازار میں ایک لڑکا گر پڑاہے ۔اسکی ٹانگ سے بہت خون نکل رہا ہے۔‘‘ 
(تما شا) 
منٹو کے مختلف افسانوی مجمو عے سے متعلق بہت سی جانکاری میں نے انٹرنٹ سے حاصل کی۔مثلاً یہ کہ منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آتش پارے‘‘ ہے۔ یہ افسانہ۱۹۳۶ ؁ میں لاہوری دروازہ ،لاہور سے شائع ہوا ۔ ’’آتش پارے ‘‘کے دیباچے میں انہوں نے لکھا ہے کہ: 151

بچپن سے ہی اُن کی آنکھوں نے ایسے ہی مناظر دیکھے اور ایسے ہی ماحول کو جھیلا ۔اُن کے دِماغ میں جو کچھ نقش بنتاگیا افسانوں کی صورت میں ڈھلتا گیا۔ ٹھیک اسی طرح کا واقعہ افسانہ ’’۱۹۱۹ ؁ کی بات ‘‘میں بھی ہے ۔یعنی وہی خونیں مناظر اور انگریزوں کے ذریعہ ڈھائے گئے مظالم۔ یہ افسانہ بھی جلیاں والا باغ کے واقعے سے ہی تعلق رکھتا ہے ۔افسانہ میں دو طوائف بہنوں کاایک بدمعاش بھائی ’’تھیلا‘‘ آزادی کی لڑائی میں شریک ہوکر انگرایزوں کا نشانہ بنا اور اس کی لاش کو دیکھ کر طوائف بہنوں کا کیا حال ہوا ۔ دونوں میں ہمت تھی ، حوصلہ تھا لیکن بے رحم انگریزوں نے انھیں بھی نہیں بخشا۔
منٹو کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’دھواں‘‘ ہے۔ تیسرا افسانوی مجموعہ ’’سیاہ حاشئے‘‘ اور چوتھا افسانوی مجموعہ ’’منٹو کے افسا نے ‘‘ہیں۔منٹو کے افسانوں کے ذریعہ ان کی شخصیت اور ذہن کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے۔ان کے خون میں گرمی تھی ۔وہ انقلاب پرور تھے۔ وہ ادب اور سماج کے باغی تھے۔ انہوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کیا اور افسانوں کے ذریعہ سماج کو روشناس کرایا ۔ان کی حقیقت نگاری سے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ 

’’یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں ۔ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔‘‘ 
(دیباچہ: آتش پارے) 

منٹو کے افسانوں میں کہیں بچپن اور لڑکپن کی شرارت ہے تو کہیں نفسیا ت اور فلسفہ ۔ منٹویوروپی مصنفین سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ: 151 

منٹو پر تقریباً چھ مرتبہ مقدمہ چلا ۔تین مرتبہ ہندوستان کی جانب سے ،تین مرتبہ پاکستان کی جانب سے۔کیونکہ وہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے ۔اُن کے خیالات کو کبھی لوگ فحش کہتے تھے اور کبھی باغیانہ۔ جب ان پر فحش نگاری اور باغیانہ خیالات کے لئے الزام لگایا گیا ، تب انہوں نے اپنے مضمون میں اس الزام کے جواب میں لکھا، کہ: 151

’’منٹو Doxa کی نقاب اس لئے نوچ پھینکتا ہے کہ وہ اشرافیہ کو ننگا کر سکے ۔منٹو کا فن عورت کی گھائل روح کی کراہ اور درد کی تھاہ پانے کا فن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر منٹو کے کردار گوشت پوست کے عام انسانوں سے کہیں زیادہ پائیدار اور کہیں زیادہ دردانگیز بن جاتے ہیں ۔وہ ہمیں صدمہ پہنچاتے ہیں ۔جھنجھوڑتے ہیں۔‘‘
(منٹو کی نئی پڑھت ،متن،ممتا اور خالی ٹرین ’جدیدیت کے بعد ‘ ص ۲۲۳ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور ، ۲۰۰۶ ؁ء) 

’’جن مصنفین کا ذکر ان کے یہاں بار بار آتا ہے وہ روسو ، مارکس، لینن ، اسٹالین،گورکی اور ان سب کے علاوہ وکٹر ہیو گو ہیں۔ یہ سب ان کے مطالعے میں رہے تھے۔‘‘ 
(تاریخ ادب اردو ، حصہ دوم ، پروفیسر وہاب اشرفی ص ۸۶۳ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی) 

’’ اگر ویشیا کا ذکر فحش ہے تو اس کا وجود بھی فحش ہے۔ اگر اس کا وجود فحش ہے ،اگر اس کا ذکر ممنوع ہے تو اس کا پیشہ بھی ممنوع ہونا چاہئے ۔ویشیا کو مٹائیے ،اس کا ذکر خود بخود مٹ جائے گا۔ ‘‘
(مجھے کچھ کہنا ہے ، منٹو کے مضامین) 

منٹو کے ایسے بہت سے افسانے ہیں جس میں وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کس طرح Pimps عورتوں کے ذریعہ ناجائز طریقے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔دیکھئے اُن کے افسانے کا ایک اقتباس: 151 

’’بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو میرا دماغ چکرا گیا ۔مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ۔لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دور کردی ۔بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مالدار آدمی کی داشتہ بن جائے ۔ایسے طریقے سیکھ جائے جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپئے وصول کرتے رہنے میں کامیاب ہو سکے۔‘‘
(بابو گوپی ناتھ) 

منٹو کے اس طرح کے افسانے’’ ہتک‘‘ ،’’ ٹھنڈا گوشت‘‘ ، ’’ممی ‘‘، ’’بو‘‘ ، ’’جانکی‘‘ ، ’’ سڑک کے کنارے‘‘ اور’’ پھندنے‘‘ ا سی قسم کے کے افسانے ہیں۔اور ہاں’’ کالی شلوار‘‘ اور’’ بری عورت‘‘ بھی۔ان افسانو ں میں عورت کی مجبوری اور بے بسی کو دکھایا گیا ہے۔اگر چہ وہ غلط دھندہ کررہی ہیں ۔یہ طوائفیں ضرور ہیں جن کو سماج بری عورتیں کہتا ہے برا سمجھتا ہے لیکن ان عورتوں کے بھی دل ہیں اور وہ بھی انسان ہیں وہ جو غلیظ بستیو ں میں رہتی ہیں۔ گندے میلے کپڑے پہنتی ہیں، وہ بھی کسی کی بیٹی ہیں لیکن قسمت کے ہاتھوں ذلت کی زندگی جینے پر مجبور ہیں ۔یہ ماں بن کر بھی ماں نہیں، بیوی بن کر بھی بیوی نہیں۔
طوائفوں سے متعلق مرزا ہادی رسوا بہت پہلے ’’امراؤ جان اد ا‘‘ لکھ چکے ہیں ۔ اس ناول میں بھی طوائفوں کے مسائل کو دکھایا گیا ہے۔ کہ ایک لڑکی طوائف بن جانے کے بعد کہیں کی نہیں رہ جاتی ہے چاہے وہ خوبیاں رکھتی ہویا نہیں جبکہ اس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں ۔وہ مجبورہے۔مظلوم ہے ۔تاہم رسوا اور منٹو میں فرق یہ ہے کہ منٹو نے کوئی شے پردے میں نہیں رکھی جبکہ رسوا نے ہرشے پردے میں رکھی ۔
بیدی نے بھی اپنے افسانوں میں عورت کی مجبوری اور بے بسی کو ہی دکھایا ہے ۔لیکن بیدی کے یہاں عورت ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی ہے ۔ان کا رشتہ پاک ہے ۔منٹو نے سب سے منفرد اور جدا گانہ طرز تحریر اختیار کیا ۔ان کے ایسے افسانو ں میں عورت صرف عورت ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی لکھا کہ منٹو متنوع ذہن رکھتے تھے ۔انکے فسادات سے متعلق افسانے بھی شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔فسادات ہوئے ہندو اور مسلما ن آپس میں لڑے۔ملک کا بٹوارہ ہوا۔ان تمام مسائل کو افسانوں کا رنگ دے کرمنٹو نے اپنی فنکاری کا ثبوت دیا ۔
افسانہ ’’دو قومیں ‘‘ جس میں مرکزی کردار شاردا ہے جو مختار نامی شخص سے محبت کرتی ہے لیکن جب مذہب اور قوم کی بات آتی ہے دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں یہاں مذہب محبت کے درمیان دیوار بن جاتا ہے ۔یہ ایک مسئلہ ہے یہاں دوسرا مسئلہ قوتِ اِرادی کی کمی کا بھی ہے۔ اگر شاردا مذہب تبدیل کرلے .............. اور اس کے بعد کچھ سوچ کر وہ غم زدہ ہو جاتی ہے اور ر وتی ہو ئی کمرے کا دروا زہ بند کرلیتی ہے ۔
جنگ کے دوران افرا تفری ، بھا گ دوڑ ، گھرچھو ڑ کر کیمپ کی طرف روانگی اور پھر ان پر وحشیانہ حملہ ،ان واقعات کی منظر کشی ’’کھول دو‘‘میں کی گئی ہے ۔مرکزی کردا ر سکینہ حالات کی ستائی ہوئی ہے ،کسی قدر مجبور ہے ،بے بس ہے ۔مظلوم ہے ،ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے ۔یہا ں تک کہ سائکلو جیکل مریض بن چکی ہے اور جب کمرے میں روشنی ہوتی ہے تو اس کی نیم مردہ آنکھو ں نے مرد صورت ڈاکٹر کو دیکھ کر اور ادھورا جملہ’ ’ کھول دو ‘‘ سن کر اس مریض پر کیا رد عمل ہوا وہ افسانہ کے آخری جملے سے بخوبی عیاں ہو جاتا ہے۔
منٹو سے متعلق وقار عظیم لکھتے ہیں کہ: 151

’’منٹو میں اچھے افسانہ نگار کی ساری خوبیاں موجود ہیں ۔نئی سے نئی بات سوچ سکنے والا دماغ ،نئی بات کو نئے انداز سے کہ سکنے کا سلیقہ ، زبان و بیان پر قدرت ، اپنے ماحول کو غور سے دیکھ کر اس میں سے کام کی باتیں چن لینے والی نظر اور ہر چیز میں طنز و مزاح کا پہلو تلا ش کر سکنے کی صلا حیت۔‘‘
(نیا افسانہ ، وقار عظیم ، ص ۱۶۴ ایجو کیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ) 

افسانہ ’’گور مکھ سنگھ کی وصیت ‘‘ میں افسانہ نگار نے ہندو مسلم فسادکا نقشہ کس ڈراما ئی انداز میں پیش کیا ہے۔ کس طرح فسادات کے ذریعے ہندو مسلم ایکتا پر ضرب لگائی گئی ۔ ملاحظہ فرمائیے: 151
افسانے میں مرکزی کردار گور مکھ سنگھ ہے ۔گورمکھ سنگھ نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹے سنتوکھ سنگھ کو یہ نصیحت کی تھی کہ جج عبدالحئی صاحب بڑے بھلے آدمی ہیں۔ ان کا ہم پر بڑا احسان ہے، اسلئے بیتا ان کی عزت کرنا ۔گور مکھ سنگھ کا انتقال ہو جاتا ہے۔عید کے دن سنتوکھ سنگھ جج عبدالحئی سے ملاقات کی غرض سے سوئیاں لے کران کے گھر جاتاہے ۔جج صاحب نیم بیہوشی کی حالت میں بستر مرگ پر ہیں ۔ فساد اپنے شباب پر ہے۔سنتوکھ سنگھ جج صاحب کی بیٹی صغرا سے ان کا حال معلوم کرتا ہے۔ صغراسے انکی حالت معلوم کرنے کے بعد وہ اسے سلام کرکے گھر سے باہر نکلتا ہے ۔اور اس کے بعد جوہوا ۔وہ مندرجہ ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائیے: 151

’’ وہ مکان سے باہر نکلا اور وہاں ڈھاٹا باندھے ہوئے چار آدمی اس کے پاس آئے ۔دو کے پاس جلتی ہوئی شمعیں تھیں۔ اور دو کے پاس مٹی کے تیل کے کنستر اور کچھ دوسری آتش خیز چیزیں ۔ایک نے سنتوکھ سنگھ سے پوچھا ۔
’’کیوں سردار جی اپنا کام کر آئے ؟‘‘
سنتوکھ نے سر ہلا کر جواب دیا ۔ ’’ہاں کر آیا۔‘‘
اس آدمی نے ڈھاٹے کے اندر ہنس کر پوچھا۔ ’’تو کر دیں معاملہ ٹھنڈا جج صاحب کا ۔‘‘
’’ ہا ں ۔ ۔ جیسی تمہاری مرضی ۔‘‘ یہ کہہ کر سردار گورمکھ سنکھ کا بیٹا چل دیا ۔
(گورمکھ سنگھ کی وصیت ) 

افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ جس میں بٹوارے کا ماحول ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ایک طرح سے یہ بٹوارے کا المیہ ہے ۔جس میں مرکزی کرداربشن سنگھ ہے ۔پچھلے پندرہ برس سے وہ پاکستان کے پاگل خا نے میں بند ہے ۔اس کے رشتہ دار اس سے مہینے میں ایک بار ملنے ضرور آتے ہیں ۔ اس کے لئے پھل اور مٹھائیاں لاتے ہیں ۔ بشن سنگھ کوان کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے بشن سنگھ کی ایک بیٹی روپ کور ہے جو پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی ہے۔ بشن سنگھ اس کو نہیں پہچانتا ۔جب بھی پاگلوں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے وہ غور سے ان کی با تو ں کو سنتا ہے اور اگر کو ئی اسکی رائے جاننا چاہتا ہے کہ وہ ہندوستان میں ہے یا پاکستان میں تو وہ لوگو ں پر برس پڑتا ہے۔
ایک دن تبادلہ کے دوران جب بشن سنگھ کو واگہ بورڈر پر لایا جا رہا تھا تو اس کی ذ ہنی اور جسمانی کیفیت کو کس طرح حقیقت کے آئینے میں پیش کیا گیاہے۔ایک اقتباس پیش خدمت ہے : 151

’’اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ۔اگر نہیں گیا تو فوراً اسے وہاں بھیج دیا جائے گا، مگر وہ نہ مانا ۔جب اس کو زبر دستی دوسری طرف بھیجنے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔آدمی چونکہ بے ضررتھا۔ اس لئے مزید زبر دستی نہ کی گئی اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔ سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی ۔ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا اوندھے منہ لیٹا ہوا ہے ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ۔ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان ۔درمیانی زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا بشن سنگھ پڑا ہوا تھا ۔‘‘
(ٹوبہ ٹیک سنگھ) 

’’منٹو کا زمانہ وہی ہے ۔ جو ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ ہے مگر زندہ رہنے والے فنکار تحریکات کے کبھی شکار نہیں ہوتے ۔سو منٹو ترقی پسند رہا اور نہ غیر ترقی پسند ۔وہ ایک افسانہ نگار تھا۔ اور صرف افسانہ نگار۔‘‘
(منٹو کے بعد اردو افسانہ ، شخصیات و رجحانات ، رسالہ ادیب پٹنہ ص ۹۶) 

’’منٹو کے افسانوی فن پر گوگول ، ترگنیف ، چیخوف اور گورکی کے واضح اثرت ہیں۔‘‘

’’ منٹو بنیادی طور پر انسان دوست ہے ۔وہ جب کچھ انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے ۔انہیں گالیاں دیتا ہے ۔برا بھلا کہتا ہے تو اس وقت بھی اس کے اندر کے انسان سے قربت محسوس کرتا ہے۔ انکے اندر انسانیت کے بہترین عناصر کو تلاش کرتا ہے۔‘‘
( منٹو کے نما ئندہ افسانے ، پیش لفظ، ڈاکٹر اطہر پرویز ، ص۱۱ ایجو کیشنل بک ہاؤس علیگڑھ)

’’ گو رے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھو ں میں شرا رے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چلا نا شرو ع کیا ۔اس کی چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہو ں کا کام اور بھی تیز کر دیا ۔وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا تھا ’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں۔ اب ہمارا راج ہے بچہ ۔‘‘ 
(نیا قا نون)
’’افسانے کی جان منگو کوچوان کا کردار ہے۔ ایک عام اور بالکل معمولی آدمی میں دلچسپی کے اتنے پہلوپیدا کرنا
منٹو کی کردار نگاری کا امتیازی وصف ہے۔‘‘
(سعا دت حسن منٹو ، وارث علوی ، ص ۴۴ ، ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی) 

’’ پہلا سماجی حقیقت نگار ی کا رجحان ہے ۔جس کی نمائندگی (بشمول پریم چند ) حیات اللہ انصاری ، اپندر ناتھ اشک، علی عباس حسینی ، رشید جہاں ، احمد علی ، راجندر سنگھ بیدی ، اختر اورینوی ، سہیل عظیم آبادی ، ہاجرہ مسرور،
بلونت سنگھ ، پرکاش پنڈت ، ہنس راج رہبر ، شوکت صدیقی اور ابوالفضل صدیقی کر رہے تھے۔ دوسرا انقلابی 
حقیقت نگاری کا رجحان ہے ،جس کے نما ئندہ افسانہ نگاروں میں کرشن چندر ، احمد ندیم قاسمی ، خواجہ احمد عباس ، مہندر ناتھ ، اے حمید ، ابراہیم جلیس اور انور عظیم وغیرہ پیش پیش تھے ۔تیسرا بے باک حقیقت نگاری کا رجحان جس کی نما ئندگی کرنے والوں میں سعادت حسن منٹو ، عصمت چغتائی ، عزیز احمد ، علی عباس اور خدیجہ مستور وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔‘‘
(ترقی پسند افسانے کے پچاس سال ، پروفیسر قمر رئیس، ص ۳۶۱ ) 

منٹو کے خیالات سے متعلق پروفیسر ابو الکلام قاسمی ایک مضمون میں را ئے زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: 151

خلیل الرحمن اعظمی منٹو کو ترقی پسند افسانہ نگار تسلیم کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ اشتراکی فکشن کے اثرات ان کے فن میں محسوس کرتے ہیں:۔

میرے خیال سے منٹو نے جو کچھ لکھا وہ ان کا آنکھوں دیکھا حال تھا ۔جنگ آزادی کی تباہی اور بربادی کا حال دیکھنا ہو ، یا وطن کے تقسیم ہو جانے کے بعدکا حال جاننا ہو ۔ کیو ں عورتیں بیوہ ہو گئیں ؟ کیو ں عورتیں طوائفیں بن گئیں ؟ کیوں بچے یتیم ہو گئے ؟کس طرح جوان دوشیزائیں وحشیوں کی ہوس کاشکار بن گئیں؟ان سوالوں کا جواب معلوم کرنے کے لئے منٹو کے افسانے پڑھئے ۔منٹو کے افسانے صرف افسانے نہیں ہیں بلکہ اپنے زمانے کی تاریخ ہیں۔
منٹو سے متعلق ڈاکٹر اطہر پرویز لکھتے ہیں کہ: 151

’’ نیا قانون ‘‘ جنگ آزادی کے بعد کا افسانہ ہے ۔یہ افسانہ اپنی قسم کے افسا نوں میں شاہکار کا درجہ رکھتا ہے ۔اس افسانے کے ذریعہ آزادی حاصل کرنے کے بعد عوام الناس میں کس قدر جوش اور جذبہ تھا ۔اسی کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے۔دیکھئے افسانے کا ایک اقتباس : 151

منگو کوچوان جوش میں آکر انگریز کی پٹائی تو کر دیتا ہے لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ قانون تو وہی ہے ۔جبکہ اسے ’’نیا قانون ‘‘ کے تحت سب کچھ بدل جانے کی امید تھی ۔اس افسانے میں آزادی کے بعد انگریزوں کے خلاف نفرت کو فنی حسن عطا کیا گیا ہے ۔ افسانہ ’’نیا قانون‘‘ سے متعلق وارث علوی کی رائے پیش خدمت ہے: 151

ہندوستان کو آزادی کے لئے کن کن مرحلوں کا ، مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ۔عوام نے کن کن مصیبتوں کا ، دکھوں کا سامنا کیا ۔کس طرح خون کی ندیاں بہہ گئیں ، لا شوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ پاگل خانے اور جیل خانے بھر گئے ۔ کیمپ سے نوجوان دوشیزائیں غائب ہو گئیں اور ان دوشیزاؤں پر کس طرح کے قہربرپا کئے گئے۔ عوام الناس ان دنوں کن حالات سے گزر رہے تھے ۔ان کے ساتھ کیا پریشانیاں تھیں۔ہندوستان اور پاکستان میں بٹوارے کے بعد کن کن مسائل اور مصائب نے جنم لیا ۔انہیں مسئلوں اور مصیبتوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں منٹو
کے بیشتر افسانے۔ 
پروفیسر صادق حسین منٹو کو ایک بے باک حقیقت نگار اور ترقی پسند افسانہ نگار لکھتے ہیں۔

اس طرح مختلف افسانوں کا جائزہ لینے کے بعد منٹو کو ہم مختلف النوع رجحان کا افسانہ نگار تو ضرور کہہ سکتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ ہم اُنھیں ایک حقیقت نگار تسلیم کرتے ہیں۔ منٹو نے ایسے دبے کچلے عوام کا حال اپنے افسانوں میں بیان کیا جس کی طرف بہت کم لوگوں کی نظر جاتی ہے انھوں نے واقعیت کو اپنے افسانوں کا مو ضوع بنایا ۔طوائفوں کا ایسا سچ لکھا کہ جس پر اب تک پردہ پڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے انہیں بہت سی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ پاگل خانے گئے ۔جیل گئے۔پھر بھی عا م ا نسانوں کے مسائل سے اپنے قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی۔عام انسانوں کے درمیان رہ کر افسانہ لکھا، جو لکھا سچ لکھا۔
غرض یہ کہ اپنی قلیل عمر یعنی بیا لیس یا تینتالیس سال کی زندگی میں دنیا میں جو دیکھا لکھ دیا ۔انہوں نے بے شمار افسانے ، خاکے ، ڈرامے اور فلمی دنیا کے لئے بھی بہت کچھ لکھا ۔آج کوئی ایسا قاری ، کوئی ایسا ادیب ، کوئی ایسا ناقد نہ ہوگا جو منٹو کو نہیں جانتا ہوگا صرف اردو ادب ہی نہیں بلکہ دوسری زبان وادب میں بھی منٹو کی پہچان بن چکی ہے ۔لوگ منٹو کو اردو کا موپاساں کہتے ہیں۔منٹو کا انتقال ۱۹۵۵ ؁ء میں ہوا ۔میں ان کی سوویں سال گرہ پر ا ن کو والہانہ خراج عقیدت پیش کرتی ہوں۔

**** 
سیدہ فرحت زرتاج (ریسرچ اسکالر)

Read 6254 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com