السبت, 20 نيسان/أبريل 2013 13:28

ادب اور اخلاقیات : اسلم بدر Featured

Rate this item
(0 votes)

 ادب اور اخلاقیات
 اسلم بدر

  دو شاہکار تصویریں آپ کے سامنے ہیں۔ ایک کا عنوان ہے’ مونالیزا‘ ، دوسری تصویر کا عنوان ہے ’دی ریپ‘ ( انقلاب فرانس کے پس منظر میں) ۔ دونوں تصویریں مصور ی کی دنیاکا شاہکار سمجھی جاتی ہیں۔ مونالیزا ایک خوبصورت عورت کی شبیہ ہے ، جس میں مصور نے اپنا تمام ہنر اُس عورت کے لبوں پرکھیلتی ہوئی پر اسرار مسکراہٹ پر صرف کیا ہے۔ ’دی ریپ ‘ میں بھی ایک عورت ہی ہے، مگر مادر زاد برہنہ ہے جس کے ارد گرد کچھ فوجی اس کے ناموس کی دھجیاں اڑانے کے در پئے ہیں۔ مصور نے اپنی ساری ہنر مندی اُس برہنہ عورت کے بدن کے قوس اور مختلف اعضاء کے پیچ و خم پر صرف کر دی ہے۔ ایک عام ناظر جب پہلی تصویر دیکھے گا تو اس کی نظر سب سے پہلے اُس عورت کے پُر وقار حسن پر پڑے گی، وہ عام ناظر اگرناقد بھی ہے تو یہ بھی محسوس کرے گا کہ اس عورت کے ہونٹوں پر سجی ہوئی خفیف سی مسکراہٹ کس قدر پر اسرار ہے اور تب اسے ایک روحانی سر شاری محسوس ہو گی ۔دوسری تصویر کو دیکھتے ہوئے عورت کا حسن تو کہیں دور جا پڑے گا، ایک برہنہ عورت کے بدن کے قوس پر اس کی نگاہیں جم جائیں گی ۔ وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کس فوجی کا دست تصرف عورت کے بدن کے کس حصے پر کیساہے اور یہ بھی دیکھے گا کہ فوجیوں کے چنگل سے آزاد ہونے کے لئے اس برہنہ عورت کے بدن میں کیسی کھینچا تانی چل رہی ہے۔ایک عام ناظر کو یہ تصویر ایسے جنسی ہیجان میں مبتلا کردے گی کہ وہ چٹخارے لے لے کر بار بار اس تصویر کو دیکھنا چاہے گا ، ہو سکتا ہے اس کا بے حس دل یہ تمنا بھی کرے کہ کاش فوجیوں کے بیچ وہ بھی ہوتا۔اور اگر ناظر، ناقد بھی ہے اور اس کے دل میں سماجی شعور زندہ ہے تو اس مجبور عورت کے تئیں ہمدردی کا جذبہ بھی جاگ سکتا ہے۔ ایک بات اور، کیا ایک مجبور عورت کی بے بسی کے اظہار کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ اسے ننگا کر کے درندوں کے حوالے کر دیا جائے۔ فیصلہ آپ کر لیں۔
عرض کر چکا ہوں کہ دونوں ہی تصاویر مصوری کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ مصور کیا دکھانا چاہتا ہے؟ کیسے دکھانا چاہتا ہے؟ جو کچھ وہ دکھانا چاہتا ہے ، اس کا اثر دیکھنے والوں پرکیا پڑے گا ؟ دونوں تصویروں کو اپنے سامنے رکھ کر آپ سوچیں ، آپ کے اندر سے ایک آواز ضرور آئے گی.....پہلی تصویر کو ہم اپنے اہل و عیال کے ساتھ دیکھ سکتے اورمصور کی ہنر مندی پر سیر حاصل گفتگو بھی کر سکتے ہیں۔ دوسری تصویر کے لئے ہماری سماجی تہذیب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ ہم اسے اپنے اہل و عیال کے ساتھ دیکھیں ، تصویر کے حسن و قبح پر گفتگو تو دور کی بات ہے۔ 
ادب کا معاملہ بھی مصوری کے معاملات سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے۔مصوری میں مصور کے ہاتھوں میں مو قلم ہے ادب میں ادیب کے ہاتھوں میں قلم۔مصوری میں لکیروں ، رنگوں کی ہنر مند آمیزش ہوتی ہے، ادب میں الفاظ ( زبان، بیان) کا ہنر مند استعمال۔ مگر جس طرح مذکورہ بالا دو نوں شاہکار تصویروں میں ہم نے موقلم کی جنبش اور رنگوں کی ہنر مند آ میزش کے علاوہ بھی کچھ اور دیکھا ہے، یہی ’ کچھ اور ‘ ادب کا بھی لازمی جزو قرار پائے گا۔ یہی ’کچھ اور‘ ہے ..... اخلاقیات۔ 
کبھی آپ نے اس نکتے پر ضرور غور کیا ہو گا کہ ہم ادب کو ’ادب‘ ہی کیوں کہتے ہیں۔غور کیجئے گا تو لفظ ا’دب ‘کا ماخذ دو بنیادی ستونوں پر کھڑا نظر آئے گا ، ایک لفظ (یا زبان و بیان) اور دوسرا اخلاق (یاتہذیب )۔ اسی اخلاق کی بنیاد پر ہم ادب کو ’ادب ‘ کہتے ہیں۔صرف لفظوں کی مخصوص ترتیب و ترکیب اور اس کے حسن کو ہی ہم ادب نہیں کہہ سکتے ، اسے ادب کہنے کے لئے لفظوں کے حسین ترکیب و ترتیب کے ساتھ ہماری تہذیب و اخلاق کی بنفشی شعاعوں کا منعکس ہونا بھی لازمی ہو گا۔ یہاں لفظوں کے حسن پر بھی غور کیجئے۔لفظوں کا یہی حسن ترتیب، ادب میں جمالیات کہلاتا ہے۔ اللہ خود حسین ہے اور حسن کو پسند کرتا ہے۔ اگر حسن ایسا ہے تو اسے سر تا سر خیر ہی خیر ہونا چاہئے۔ شر سے اس کا کیا تعلق؟ دنیا کے تمام فنون لطیفہ کا تعلق ایسے ہی حسن سے ہونا چاہئے۔ ادب میں بھی اسی حسن کی جلوہ گری مقصود ہو گی ۔اپنی منزل حیات تک پہنچنے کے لئے ہمارے سامنے دو راستے ہیں، خیر اور شر ۔ ہمارے ادب میں بھی ہماری زندگی کے نقش و نگار ابھرتے ہیں ، سوادب کے سامنے بھی یہی دو راستے ہوں گے ، خیر اور شر۔ادب میں، خصوصی طور پر شعری ادب میں بغیر جذبۂ عشق تخلیق ا دب ممکن نہیں۔ اہمارے ادب میں اگر حسن کا پہلو خیر کا ہے تو عشق ہے اور اگر حسن مائل بہ شر ہے تو ہوس۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ادب میں عشق کو راہ دینا چاہتے ہیں یا ہوس کو۔ دونوں ہی راہیں آپ کے سامنے کھلی ہوئی ہیں۔عشق بھی شاہکار ہو سکتا اور ہوس بھی۔ ’مونا لیزا ‘بھی شاہکار ہے اور ’دی ریپ‘ بھی۔
عرض کر چکا ہوں کہ ادب کے دو ماخذ ہیں، ایک ہے لفظ (یعنی زبان و بیان) ، دوسرا اخلاق و تہذیب۔ اب اخلاق و تہذیب کے بارے میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اس کا ماخذ صرف اور صرف ’خیر‘ ہے،’شر ‘ نہیں۔ اس کا پیمانہ سماج ہے فرد نہیں۔ فرد کی فکر اگر سماجی فکر سے ہم آہنگ نہ ہو تو اسے بے ادبی، بے راہ روی،فحاشی، گندگی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔لہذا ادب کو ادب ہم اسی وقت کہیں گے جب الفاظ (اپنی جمالیات کے ساتھ) اخلاق و تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ادب پاروں میں ان دونوں عناصر کا پایا جانا لازمی قرار پاتا ہے۔ اگر کسی ادب پارے میں صرف اخلاقیات ہی اخلاقیات ہے ، لفظوں کے استعمال میں تخلیقی جمال نہیں ہے تو اسے کچھ اور کہہ لیجئے ، ادب نہیں کہا جا سکتا۔ ٹھیک اس کے بر عکس اگر لفظیات کے رکھ رکھاؤ میں انتہائی جمالیاتی عناصر کے با وجود بیان، اخلاق و تہذیب سے خارج ہے تو ایسے ادب کو بھی ادب سے خارج ہی سمجھنا چاہئے۔ ایک ہی مثال کافی ہو گی۔مثنوی سحر البیان کی پوری داستان ادب پارہ کہلاتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مثنوی میں زبان و بیان کی ایسی جمالیاتی فضا تیار کی گئی ہے کہ ایک ایک شعر پر منہہ سے واہ نکل جائے ۔ مگر جب شاعر ایک دوشیزہ کے بدن (سینے) کا بیان کرتے ہوئے کہتا ہے .....
گیا باغباں حسن کا رکھ کے بھول کنول کی کلی پر بنفشے کا پھول 
تو اس شعر کو ادب کا نام نہیں دیا جا سکتا۔حالانکہ شعر میں سجے سجائے الفاظ بھی ہیں، خوبصورت تمثیل بھی ہے، شعر جمالیات کی بہترین مثال ہے۔ مگرکنول کی کلی اور بنفشے کا پھول جیسی تمثیل کا چٹخارہ تو ہم لے لیتے ہیں مگراس کی تشریح اپنی نوخیز بیٹی یا جوان طالبہ کے رو برو نہیں کر سکتے۔ہمارا سماج ، ہماری تہذیب اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنی بیٹیوں کو بتائیں کہ کنول کی کلی اور بنفشے کا پھول کیا ہیں اور کیوں ہیں۔ شعر کو زبان و بیان کے اعتبار سے خوبصورت تسلیم کرتے ہوئے بھی اخلاقی و تہذیبی فقدان کی وجہ کر ادب سے خارج کرنا ہو گا۔کیا ضروری تھا کہ ایسی معیاری مثنوی میں یہ اور اس جیسے دوسرے غیر اخلاقی اشعار شامل کئے جاتے ۔ اس کے بر عکس ایک شعر اور دیکھیں:
رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی
اس میں نہ کوئی غیر اخلاقی بات ہے نہ بد تہذیبی ، مگر اسے بھی ہم ادب نہیں کہہ سکتے ۔کیونکہ اس شعر میں زبان کی جمالیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،محض لفظوں کی ایک سپاٹ بندش ہے۔ نثری ادب میں لفظی جمالیات کے فقدان کے با وجود کسی حد تک اس طرح کی سادہ بیانی کھپا لی جا سکتی ہے کہ نثری ادب میں سادہ بیانی سے کام لینا اور خط مستقیم پر چلنا کام کی چیز ہوتی ہے وہیں شعری ادب میں تہہ داری اور خط منہنی کا سفر اہم ہے۔
اخلاق کا وہ تصور جو با لعموم اصلاحی ادب میں ملتا ہے ، مثلاً فکشن میں ڈپٹی نذیراحمد جیسا اخلاقی رنگ بہت دیر پا نہیں ہو سکتا ۔مگر ایسے ہی اصلاحی ادب میں جب ہم شبلی نعمانی، مولانا ابو الکلام آزاد، کی طرف رجوع کرتے ہیں تو حسن یا جمالیات کی رنگ در رنگ دھنک سی بکھرتی دکھائی دیتی ہے۔
افسانوی ادب میں منٹو کو لے لیجئے، اس میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی سادہ بیانی اور خط مستقیم کے سفر میں انتہائی کامیاب افسانہ نگار گزرا ہے۔مگر ایک عجیب حیرت ناکی ہے کہ ہمارے ناقدین، منٹو کی عظمت کے بیان میں گھوم پھر کے وہی سات آٹھ افسانوں کے حوالے پیش کرتے ہیں جن میں جنسی تلذز کی بھر مار ہے، مثال کے طور پر ٹھنڈاگوشت، کھول دو وغیرہ ۔حالانکہ منٹو نے دو سو تیس سے زاید افسانے لکھے ہیں ، جن میں کئی اعلیٰ افسانہ نگاری کی عمدہ مثال ہیں۔ منٹو کے متعلق ناقدین فن کی ایک عام رائے یہ بنتی ہے کہ ’گندگی میں اتر کے اس نے گندگی کو سمجھنے اور سمجھ کر من و عن پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘۔ جہاں تک سمجھنے کی بات ہے تو مجھے کہنے دیجئے کہ گندگی کو گندگی سمجھنے کے لئے سنڈاس میں کودنے ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور جہاں تک حقیقت کومن و عن پیش کرنے کا سوال ہے ، تو میرے بھائی ! یہ کام اخباری نامہ نگاروں کا ہے۔جیسا دیکھا ویسا ہی بیان کر دیا ۔ شاعر و ادیب کو بھی ان حقیقتوں سے واسطہ پڑتا ہے ، مگر وہ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے ، نقاشی کرتے ہیں۔کسی منظر کی عکاسی میں کمال تو عکاس کیمرے کا ہے، نقاشی میں مصور کا موقلم اور ادیب کا قلم اپنے جوہر دکھاتا ہے۔
ہم جسے جمالیاتی شاعری کہتے ہیں وہ استعارہ سازی کا ایک عمل ہے۔ جہاں االفاظ اپنے لغوی معنی سے اوپر اٹھ کر معنی آفرینی کی فضا قائم کرتے ہیں۔جہاں ا لفاظ تھرتھراتے ، پگھلتے ہیں ، بکھرتے ہیں ، سمٹتے ہیں،سنورتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی عمل کائناتی نظام میں بھی جاری و ساری ہے، جہاں خالق اپنی تخلیق مکمل کر کے فارغ نہیں بیٹھتا بلکہ ایک ایسا تخلیقی ماحول بھی تیار کرتا ہے کہ ہمہ دم ، دم بدم ٹوٹنے بکھرنے بننے سنورنے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے...... کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون۔ 
دوسرے لفظوں میں جمالیاتی شاعری دراصل خط منہنی پر چلنے والی تخلیقی شاعری کا دوسرا نام ہے۔ مگر خط منہنی کے اس سفر میں شاعر اکثر الجھ بھی جاتا ہے، ٹھوکریں بھی کھاتا ہے، منہ کے بل بھی گرتا ہے۔ اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ ناک کے بغیر اس کا اصلی چہرہ پہچان میں نہیں آتا۔ میر تقی میر جیسا شاعر جس نے انسانی تخلیق و شناخت کے تعلق سے ایسا لازوال شعر کہا:
مت سہل ہمیں جانو ، پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
وہ ’خدائے سخن ‘ میر جب منہ کے بل گرتا ہے تو یہ کہنے سے بھی باز نہیں آتا کہ...... اُس کی دوا تو عطار کے لونڈے کا پاس ہے۔ عام قاری کے لئے معاملہ بڑی الجھنوں کا ہو جاتا ہے کہ اِس ’خدائے سخن میر‘ کو اب کون سا نام دیا جائے؟۔
اپنے تمام شعری محاسن سے سجا سجایا غالب کا شعری دیوان ،جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ہندوستان کو مغلوں نے دو عظیم شاہکار دئے ، ایک تاج محل دوسرا دیوان غالب۔اسی دیوان کا پہلا شعر : 
نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا 
اس بے بہا شعر میں غالب ایرانی شہنشاہوں کی درباری تہذیب کے حوالے سے کائنات کی بے ثباتی کی بات کرتا ہوا جہاں وہ واقعی ’اسداللہ ‘ نظر آتا ہے،وہیں .... کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے ....یا ...... دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
..... کہتا ہواسد اللہ خاں غالب منہ کے بل گر کے محض ایک عیاش مغل بچہ ’خاں‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ جاتا۔
شعری جمالیات سے بھر پور فرا ق گورکھپوری کے اس شعر کو لے لیجئے....!
شام بھی تھی دھواں دھواں ، حسن بھی تھا اداس اداس دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
اس شعر میں فراق منظر نگاری،پیکر تراشی، استعارہ سازی،تخلیقی جمالیات کی بلندیوں پر کھڑا نظر آتا ہے۔مگر اسی فراق کی ایک رباعی میں ،وہی اداس حسن ،دوران وصلت یوں پینگے لینے لگتا ہے کہ قاری کے ماتھے سے پسینہ اور منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو حقیقت نگاری ہے،دوران وصلت یہ سب کچھ تو ہوتا ہی ہے، بلکہ اس سے بھی بہت کچھ سوا ہوتا ہے۔ جی ہاں! آپ بالکل صحیح فرما رہے ہیں۔فراق کو تو چھوڑئے ، ایک عالم دین ، ایک چتر ویدی پنڈت بھی اپنی ازدواجی زندگی میں ایسے پینگے لیتے ہوئے جسم سے گزرتا ہے، گزرتا رہتا ہے ۔ مگر اوروں کی نگاہ سے چھپ کر، بند دروازوں کے اندر۔ بعض اوقات تو ایسی بے حجاب تنہائی میں بھی حجاب کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بتیاں بجھا لی جاتی ہیں، ایک دوسرے کو یوں بے حجاب دیکھنے میں بھی حیا آتی ہے۔اب ذرا اس صاحب وصلت سے کہئے کہ اس حقیقت کو وہ سر بازار بھی بے حجاب کر دے تاکہ اوروں کو بھی ایسے پینگے لیتے ہوئے بدن کے جمالیاتی منظر سے لطف اندوز ہو نے کا موقع ملے۔پینگے مارتے ہوئے بدن کو تو چھوڑئے، سر بازار اپنے محبوب کے بدن کی بے حجابی بھی اسے منظور نہیں ہو گی۔یہی ہماری تہذیب ہے، یہی ہمارے اخلاقی پہلو ہیں، زندگی کے بھی اور ادب کے بھی۔
اب تک میں نے شعری ادب کے میناروں کے غیر اخلاقی پہلوؤں کے حوالے پیش کئے ہیں۔ چلئے ایک پست قد ،بلکہ لا وجود شاعر کا بھی حوالہ پیش کر دوں۔ دوسروں کی طرف انگشت نمائی آسان ہے، دیکھنا یہ چاہئے کہ دوسروں کی طرف ایک ہی انگلی اٹھتی ہے، جبکہ ا نگلی اٹھانے والے کی طرف تین انگلیاں اشارے کرتی ہیں۔تو چلئے ، خود اپنی شاعری کے ایک مخرب الاخلاق شعر کے چہرے سے بھی نقاب الٹتا چلوں۔جمشید پور کی عمومی فضا ۱۹۶۴ء اور ۱۹۷۹ء کے فسادات کے بعد زہر آلود ہو چلی تھی۔ ادبی فضا پر بھی اس زہر کا اثرپڑنا تھا سو پڑا۔ فسادی غزلیں کہی جانے لگیں۔ میں نے بھی بے شمار فسادی اشعار کہے اور مشاعروں میں داد بٹورتا رہا، یہاں تک کہ ایسی داد لوٹنے والی شاعری کو ہی شاعری کا معیار بھی سمجھ بیٹھا ۔ مگر ایک شعر نے مجھے وہ لعنت ملامت کی کہ آج تک سر اٹھانا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ حالات کے پیش نظر ۱۹۷۹ء میں بس یہ شعر ہو گیاتھا۔ غلطی سے یہ شعر ایک مشاعرے میں بھی سنا دیاگیا۔ میری ہی طرح ذہنی افلاس کے شکار سامعین نے داد کے ڈونگرے بھی برسا دئے۔ مجھے ایسا لگا کہ اس شعر میں کچھ ہے۔ ۱۹۸۸ء میں شائع شدہ شعری مجموعہ ’سفر اور سائے‘ میں وہ شعر شامل بھی کر لیا گیا۔ایک سوچ ہی تو تھی، ایک انتقامانہ جذبہ ہی تو تھا جس کے اظہار نے سر بازارمجھے ننگا کر دیا تھا۔سوچ کو زنجیر پہنانا مشکل ہے مگر اظہار پر تو قابو پایا جا سکتاہے ۔ بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔کتاب بازار میں آ گئی ، ناقدین نے سانچے میں ڈھلے ڈھلائے مضامین بھی لکھ مارے مگر کسی نے اس شعر کی طرف انگشت نمائی نہیں کی۔ مگر میرے بزرگ دوست سید احمد شمیم نے اپنے مضمون میں لکھا ....... ’’رجزیہ شاعری کی فضا کاڑھتے ہوئے کبھی کبھی اسلم بدر کا لہجہ ایسا انتقامی ہو جاتا ہے جو اعلیٰ انسانی قدروں سے میل نہیں کھاتا‘‘ مگر فوراً ہی میرا دفاع کرتے ہوئے یہ بھی کہہ گزرے کہ ........ ’’وقت کا بہاؤ اور حالات کی ستم ظریفی کبھی کبھی ہمیں انسانی اعلیٰ قدروں سے دور ہٹا دیتی ہے‘‘ ۔اب آپ بھی وہ شعر سن لیں۔ بلکہ اس غزل کے دو شعر سن لیں، پہلے شعر میں حالات کی منظر کشی ہے ، دوسرا شعر وہ ہے جسے سناتے ہوئے میرا سر جھکا ہی رہے گا۔
میان باقی ہے شمشیر گر پڑی ہے تو کیا کہ اب بھی حوصلۂ معرکہ سپاہ میں ہے
ہے دشمنوں کے قبیلے کی ایک لڑکی وہ کہ انتقام کا بھی ذائقہ گناہ میں ہے
میری پوری شعری کائنات میں یہی ایک شعر ایسا ہے جس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا ہے۔ میں نے ایسا سوچا ہی کیوں؟، سوچا تو لکھا کیوں؟، لکھا تو اسے بازار کے حوالے کیوں کر دیا ؟۔ آج بھی میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا ہے۔
ضمنی طور پر ایک بہت ہی اہم بات اور عرض کر دوں۔ آج کے نوجوان شاعروں میں ’’عطار کے لونڈے سے عشق‘‘..... ’’محبوب سے دھول دھپا‘‘ یا ’’پینگے لیتا ہوا بدن‘‘ جیسے اشعار کہنے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ میری سمجھ میں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ناقدین نے شعری ادب میں ایسی جنس زدگی کو کبھی معیار تسلیم نہیں کیا ۔ مگرآج کے افسانوی ادب کا مطالعہ کیجئے تو آپ بھی یہ محسوس کریں گے کہ آج کے اکثر نوجوان افسانہ نگار ’منٹو‘ بننے کے لئے فحاشی کے اعلیٰ مدارج طئے کرنے کو فن سمجھے بیٹھے ہیں۔ منٹو کے ’کھول دو‘ جیسے افسانے پر ناقدین کی داد انہیں ایسا ہی لکھنے پر اکساتی رہتی ہے۔
ناقدین کو ہوشیار ہو جانا چاہئے کہ ان کے اس روئیے سے افسانہ نگاری کی دنیا میں ایک عجیب سی مکروہ فضا تیار ہو رہی ہے۔ ہمارے نوجوان افسانہ نگاروں نے راتوں رات بڑا بننے کی فکر میں جنسی بے راہ روی، لذت پرستی، خود لذتی جیسی پستی کو معیار بنا لیا ہے تاکہ انہیں بھی آج کا منٹو تسلیم کر لیا جائے۔منٹو بننے کے لئے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘ کی انتہائی پیچیدہ نفسیاتی واردات سے الجھنے کے بجائے انہیں شلوار کا ازار بند کھولنا آسان معلوم ہو تا ہے۔ 
ہمارے کلاسیکی ادب میں بھی اعلیٰ کلاسیکیت کے ساتھ عریانیت و فحاشی کے اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ملا وجہی کی دو مثنویوں ’سب رس ‘ اور ’قطب مشتری‘ کی مثالیں کافی ہو نگی ۔یاد رکھئے کہ ملا وجہی عالم دین بھی تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنے شاہزادے کی اخلاقی تربیت کے لئے ملا وجہی سے ’سب رس ‘ نام کی مثنوی فرمائش کر کے لکھوائی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مثنوی میں ’رموز حکومت‘، ’اسرار زندگی‘ ، ’مذہبی آگاہی‘ کے علاوہ اکثر حصے تعلیمی اور اخلاقی ہیں۔مگر اسی مثنوی میں کچھ مناظر ایسے بھی ہیں جن پر دانشوران کی ترچھی نگاہیں اٹھنی چاہئیں، جن کے خلاف ناقدین کا بے باک قلم اٹھنا چاہئے۔ مگر وہ ایسے اشعار کو بھی جنسی جمالیات کے شربت میں گھول کر پی جاتے ہیں۔ ایسے مناظر سے شہزادے نے کیا اخلاقی درس لیا ہو گا ، یہ تو ملا و جہی جانیں یا خود شہزادہ۔ ہو سکتا ہے شہزادے کی جنسی نا کارگی ایسے اشعار کی شان نزول رہی ہو۔ کونارک کے مندر میں بھی جنسی افعال میں غلطاں و پیچاں شاہکار مورتیوں کا بھی شاید یہی مقصد تھا۔ ملا وجہی کی ’قطب مشتری‘ کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ دونوں مثنویاں کالج کے نصاب میں شامل ہیں۔ میں نے کالج کے اردو اساتذہ سے سنا ہے کہ وہ ایسے اشعار سے کترا کے گذر جاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کیوں گزر جاتے ہیں؟۔ جواب ملتا ہے ہماری سماجی تہذیب اجازت نہیں دیتی کہ ہم اپنے طلباء و طالبات کے سامنے ایسے اشعار پڑھ کر ان کے معنی سمجھائیں ۔شرم آتی ہے۔ یہی شرم تو ادب میں اخلاقیات کی حدیں مقرر کرتی ہے۔
مارکسی ادب کی طرح ان دنوں اسلامی ادب، اصلاحی ادب، تعمیری ادب کے خوب خوب چرچے ہیں۔ ان تمام رجحانات کو ادب کی اعلیٰ قدریں سمجھتے ہوئے بھی میں ادب کو ادب کی عینک لگا کر ہی دیکھنا پسند کروں گا۔تخلیق ادب کو ادیان، نظریات ، فلسفہ، سائنس کے خانوں میں بانٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ہاں! یہ ضرور ہے کہ اگر فلسفیانہ افکار یاسائنسی حقیقتوں سے آپ آشنا ہیں تو فلسفہ اور سائنس کے عناصر آپ کی تخلیقات میں ضرور در آئیں گے ۔ میں اپنے کرم فرما و رہنما ڈاکٹر احمد سجاد اور ڈاکٹر حسن رضا کی مخلصانہ تحریک سے وابستگی کے با وجود معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ادب کو میں ’اسلامی ادب‘ کی قید با مشقت میں بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ دوبارہ عرض گذار ہوں کہ اگر آپ ادب کی ماہیت کو سمجھتے ہیں اور اسلامی فکر سے آشنا ہیں تو اسلامی قدریں خود بخود آپ کی تخلیقات میں در آئیں گی ۔
اب ذرا ایک اور بات دل تھام کر سن لیجئے۔اخلاقی ادب پر بہت بحث ہو چکی ، مگر سچ تو یہ ہے کہ اخلاقی ادب کا محفوظ آنگن بھی ادب کی وسیع و عریض وادی میں کہیں گم ہو کر رہ جائے گا۔ بقول کسے .... کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لئے۔بات اگر محض اخلاق کی ہو گی تو اخلاق کے پیمانے تراشتے ہوئے مشرقی اخلاق ، مغربی اخلاق، سقراطی، کنفیو شسی اخلاقیات تک بات جا پہنچے گی۔ادیان و مذاہب کے خانے بھی ادب کے لئے محبس ٹھہریں گے اور ہمارا بے چارہ و بے ضرر ادب ، اسلامی ادب، ہندو ادب، جین ادب ، بودھ ادب،عیسائی ادب ، یہودی ادب، تاؤ ادب، ماؤ ادب اور نہ جانے کتنے خانوں میں بنٹ جائے گا ۔ ہماری فکر کی وسعتیں محدود ہو جائیں گی۔ اگر آج اسلامی ادب کا ایک الگ خانہ بنا بھی لیا جائے تو اسے سنی ادب اور شیعی ادب کے خانوں میں بنٹنے سے کون روک سکے گا۔ پھر مختلف مسالک کی طرح ، حنفی ادب، شافعی ادب، مالکی ادب، حنبلی ادب، غیر مقلد ادب ،یہاں تک کہ حنفی ادب میں بھی بریلوی ادب، دیو بندی ادب کے خانے در خانے بنتے چلے جائیں گے۔ کتنے خانوں میں بانٹئے گا ادب کو؟
موضوع کے مرکز سے ذرا ہٹ کر ، مگر موضوع کے محور کے اندر ہی رہ کر ایک آخری بات اور ۔ ہمارے آج کے مرغ و ماہی پسند ملاؤں کی طرح ادب کو ہرگز ہرگز شرعی عینک لگا کر دیکھنے کی کوشش کبھی نہ کیجئے گا ۔ ورنہ ہمارے شاعر اسلام علامہ اقبال بھی رد کر دئے جائیں گے:
غافل تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں اپنا یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
بردشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ
یہاں تک کہ وہ اقبال بھی شرعی عدالت میں گناہگار ٹھہریں گے جن کی جبین نیاز میں تڑپتے ہوئے سجدے، حقیقت منتظر کو لباس مجاز میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ادب کو بس ادب رہنے دیا جائے۔بس ہمارا با شعور ذہن ہم سے بار بار ایک ہی سوال کرتا رہے۔ ادب کو ہم ادب ہی کیوں کہتے ہیں؟ اسی سوال کا جواب ، ادب کا علاقہ ہو گا۔جہاں ہماری تہذیب، ہمارا اخلاق ، ہماری ثقافت، ہمارا سماج ...... جیسے عناصر، ہمارے ادب کو زوال آمادہ ہونے سے بچاتے رہیں گے اور ہمارا ادب عروج کی منزلیں طئے کرتا رہے گا۔ انشاء اللہ۔
Aslam Badr, Jamshedpur (07-04-2013)
Mobile:09631476773, email:عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 4442 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com