’’اردوشاعری کا انقلابی کردار‘‘
اہمیت و معنویت اور معانی و مفاہیم کا مختلف الجہات اور توضیحی مطالعہ
ڈاکٹر زین رامشؔ
ادب و فکر ودانش کا ایک سلسلۃ الذہب ایسا بھی ہے جو ایک طرف تو علمیت و دانشوری کا حق ادا کرتا ہے اور دوسری طرف اپنی روشنی سے سماجی و سیاسی فعالیت کی راہوں کو بھی منور کرتا ہے۔ آزاد ہندوستان میں یہ سلسلۃ الذہب مولانا ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین سے سید مظفر حسین برنی ،اخلاق الرحمٰن قدوای اور ڈاکٹر سید احمد تک پہنچتا ہے۔ ڈاکٹر سید احمد نے اپنی سیاسی اور سماجی ترجیحات سے قومی زندگی کے مختلف گوشوں کو آراستہ تو کیا ہی ہے اپنی علمی اور ادبی فتوحات کے ذریعہ بھی ایسے نقوش مرتسم کئے ہیں جو قابل تقلید بھی ہے اور ناقابل فراموش بھی۔
میرے پیش نظر اور زیر مطالعہ موصوف کی انتہائی اہم تحقیقی کاوش’’ اردو شاعری کا انقلابی کردار‘‘کا تیسرا ایڈیشن ہے ظاہر ہے یہ اپنے آپ میں ایک بے حد اہم دل چسپ اور نتیجہ خیز موضوع ہے اور ڈاکٹر صاحب نے موضوع کا جس طرح حق ادا کیا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ انصاف کیا ہے تو بس یہی کہتے بنتا ہے کہ
سلیقہ دامن دل می کشدکہ جاایں جاست
اور شاید اسی لئے حرف آغاز کے تحت ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد نے جہاں اپنی بات کا آغاز دانشورانہ فکر کے اس اظہار کے ساتھ کیا ہے کہ’’علم و دانش تلاش و تحقیق اور جستجو و آرزو کی کوئی منز ل ،منزل آخر نہیں ہوتی نئی شہادتیں پرانے مسلمات کو رد بھی کرتی ہیں اور پرانے مسلمات نئی شہادتیں پا کر اور بھی زیادہ معتبر اور ناقابل تردید ہوتے رہتے ہیں۔رد و بدل اور حذف و اضافہ کا یہ سلسلہ ادبی تحقیق میں بھی جاری و ساری رہا ہے۔ ہم صرف شاہراہ علم پر اپنے اکتسابات سے چراغ روشن کرتے ہیں اور ہمارے بعد آنے والے انہیں کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں‘‘ وہیں اپنی ان تمہیدی سطور کے بعد وہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ڈاکٹر سید احمد کا تحقیقی مقالہ ’’اردو شاعری کا انقلابی کردار‘‘ان چند معیاری تحقیقی کارناموں میں شامل ہے جن پر بجا طور سے فخر کیا جا سکتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے بعد جس تیز رفتاری سے دانشگاہوں میں لکھے جانے والے تحقیقی مقالات انحطاط پذیر ہوئے ہیں ان میں یہ مقالہ مستثنیات میں شامل ہے اور تحقیق و تنقید دونو ں کا بھرم قائم رکھنے میں ممدو معاون ثابت ہوا ہے۔
بے شک ’’اردو شاعری کا انقلابی کردار‘‘ ایک ایسا اہم اور یاد گار تحقیقی اور تنقیدی کارنامہ ہے جسے اردو کی علمی و ادبی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جا سکتا شاید یہی وجہ ہے کہ کتاب پر تبصر ہ کرتے ہوئے معین اعجاز نے بھی بلا بلیغ اشارہ کیا ہے۔انکا خیال ہے کہ ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب کوئی ایسا تحقیقی مقالہ نظر آتا ہے جس میں واقعی محقق کا خون جگر شامل ہو تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے ادب میں خوشگوار ہوا کا جھونکا سا آیا ہو۔ ڈاکٹر سید احمد کا مقالہ ’’اردو شاعری کا انقلابی کردار‘‘ایک ایسا ہی مقالہ ہے جسے پڑھ کر لگا کہ واقعی کوئی چیز پڑھی جیسا کہ عنوان ہی ہے ظاہر ہے کہ اس کے تحت کسی ایک دور یا کسی خاص تحریک کا احاطہ نہیں کیا گیا ہوگا بلکہ مجموعی طور پر اردو شاعری کے تمام ادور کو کھنگھالا گیا ہوگا ان عناصر کی نشاندیہی کی گئی ہوگی جس میں اردو شاعری کا انقلابی کردار ابھر کر سامنے آسکے۔ اس مقالے میں واقعی یہی بات ہے بلکہ اس سے بھی سوا ہے‘‘۔
باب اول سے باب آخر تک کل سات ابواب میں عہد بہ عہد اور قدم بقدم اردو شاعری کے انقلابی کردار کو جس تفصیل ،توضیح اور انفرادیت و تنوع کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہ محض ایک رسمی تحقیقی کام کا حصہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تب ہی ممکن ہے جب فکر ونگاہ کی گہرائی و گیرائی اس کا سرنامہ بن جائے اور محقق و ناقد موضوع کے تمام پہلوؤں کے ساتھ اس طرح انصاف کرے جس طرح ڈاکٹر صاحب موصوف نے کیا ہے۔ ڈاکٹر سید احمد کی شخصیت سے واقفیت رکھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں فی الوقت ریاست جھارکھنڈ کے اہم ترین اور پر وقار عہدۂ جلیلہ پر متمکن ہونے سے قبل بھی وہ ایک انتہائی مصروف ترین اور سرگرم سیاست داں کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرتے رہے ہیں۔ گویا ریاست جھارکھنڈ کے گورنر ہونے سے قبل مختلف اوقات میں انہوں نے چار مرتبہ ریاست مہاراسٹر کی کرسی وزارت کو سرافراز کیا ہے اور جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاسی مصروفیات کے ساتھ ہی ساتھ پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ مہناز ادب اردو کی زلف سوارنے کا کار مستحسن بھی انجام دیتے رہے ہیں اور ان کے مساعی کو قبولیت عوام و خواص بھی حاصل رہی ہے ۔حلقۂ سیاست میں جہاں ایک طرف محترمہ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے لے کر سونیا گاندھی ،شرد پوار ،سشیل کمار شنڈے ، شیو راج پاٹل، گرو داس کامت، غلام نبی آزاد ، شنکر راؤ جوہان ، ولاس راؤ دیشمکھ وغیرہ کے علاوہ صدور جمہوریہ ہند آر ۔ونکٹ رمن ،شنکر دیال شرما،اے۔ پی جے ۔عبد الکلام وغیرہ کے ساتھ ان کے قریب ترین تعلقات رہے ہیں وہیں دوسری طرف اردو ادب کی نابغہ شخصیات کیفی اعظمی ،ظ۔ انصاری ،علی سردار جعفری،مجروح سلطان پوری ، واجدہ تبسم اور ملک زادہ منظور احمد وغیرہ کے ساتھ بھی ان کے قابل ذکر مراسم رہے ہیں۔ جس کے ثبوت موصوف کی تازہ ترین تصنیف (خود نوشت سوانح حیات)پگڈنڈی سے شاہراہ تک سے پوری طرح فراہم ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب موصوف کی زیر تذکرہ کتاب ’’اردو شاعری کا انقلابی کردار‘‘جیسا کہ سطور بالا میں بھی عرض کیا جا چکا ہے سات ابواب پر مشتمل ہے جس کا ساتواں باب تلخیص و نتائج ہے جب کہ چھ ابواب اس طرح ہیں:۔
باب اول انقلابی کردار، حقیقی مفہوم اور تشکیلی عناصر
باب دوم دکنی دور ،تہذیبی آمیزش کا اظہار
باب سوم شمالی ہند میں پہلا دور، سماجی اور اقتصادی بحران کی نمائندگی
باب چہارم پہلی جنگ آزادی، عوامی نقطۂ نظر کی ترجمانی
باب پنجم 1857تا1936 قومی شعور اور تاریخی بصیرت کی عکاسی
باب ہشتم 1936تا1947 قومیت و اشتراکیت،سیاست و انسانیت کے امتزاج کی پرداخت
باب اول میں نہایت محنت ،وضاحت اور ارتکاز کے ساتھ موضوع کے پہلوؤں اور اس کے حدود کو متعین کیا گیا ہے اور اس کی اہمیت ، معانی و مفاہیم اور مختلف جہات کا سیر حاصل مطالعہ کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اس حقیقت کے اظہار پر زور دیا گیا ہے کہ اردو شاعری میں انقلابی عوامل اس کے آغاز سے موجود رہے ہیں ہر چند کے طرز و ادا میں ہر عہد کے اپنے امتیازات رہے ہیں۔حقیقت نگاری ، انسانیت اور سماجیات کارشتہ اردو شاعری کے ساتھ اردو شاعری کے ساتھ ایسا پائدار رہا ہے جو اس کے انقلابی کردار پر دال ہے بقول محترم ڈاکٹر سید احمد ’’حقیقت یہ ہے کہ اردو شاعری میں ترقی پسندی یا انقلابیت ابتداء سے موجود رہی ہے البتہ اس کے روپ رنگ ،نقش و نگارہر دور میں الگ تھے۔‘‘
باب دوم میں دکنی شاعری کے حوالے سے بھر پور گفتگو کی گئی ہے اور اس کو انقلابی کردار کی شناخت کا دور آغاز بتایا گیا ہے جس کے تحت سلاطین دکن کی انسان دوستی اور وسیع المشربی پر خاص گفتگو کی گئی ہے ایک طرح سے سلاطین دکن کے سیکولر اور انسان دوست مزاج نے شاعری اور ادب کو بھی متاثر کیا تھا اور اس عہد کے سماجی منظر نامے پر بھی گہرے نقوش مرتسم کئے تھے۔ڈاکٹرصاحب موصوف رقم طراز ہیں کہ :۔
’’اکبر سے پہلے دکن کے مسلم حکمرانوں نے ہندو مسلم اتحاد کی زبردست داغ بیل رکھ دی تھی ۔‘‘جب کہ علی عادل شاہ کے تعلق سے ڈاکٹر صاحب نے بہت خوبصورت بات لکھی ہے’’اس نے شاہی تخلص نہ استعمال کرتے ہوئے خود کو مدن روپ یا مدن گوپال یعنی محبت کا راجا کہا ہے‘‘
باب سوم میں شمالی ہند کی سماجی و ادبی فضا اور شہر آشوب کی انقلابی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے اور ناجی کے شہر آشوب سے نظیر اکبر آبادی کی نظموں تک گفتگو کو پھلایا گیا ہے ۔باب چہارم میں 1857ء کے انقلاب اور اردو شاعری پر اس کے اثرات کو اس کا موضوع بنایا گیا ہے اور خصوصاً حب الوطنی کے پہلو کو نہایت خلوص کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔باب پنجم میں1857ء سے1936 تک حب الوطنی اور جذبۂ آزادی کے بڑتے ہوئے اثرات کو نہایت جانفشانی اور عرق ریزی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جو اہم اور لازمی تھے۔باب ششم میں 1936ء سے1947ء تک اردو شاعری کے اہم ترین انقلابی کردار پر نہایت جامع اور با معنی گفتگو کی گئی ہے اور اس عہد کی نمائندہ شاعری کے اہم اقتباسات پیش کئے گئے ہیں۔باب ہفتم کو محاکمے کی حیثیت حاصل ہے جب کہ باب ہشتم کتابیات کے اشاریے پر مشتمل ہے۔
اختتام کلام سے قبل ضروری محسوس ہوتا ہے کہ دانشورانہ فکر کے اظہار کا وہ انداذ بھی پیش کیا جائے جو ’’عرض مصنف‘‘ کے تحت سامنے آتا ہے۔سطور ذیل سے نہ صرف دانشورانہ فکر کے نمونے سامنے آتے ہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے انفرادی اسلوب کا تنوع بھی اپنی جلوہ سامانی دکھاتا ہے۔
’’اردو شاعری کے مختلف موضوعات ، رجحانات اور اسالیب پر معتدبہ تحقیقی سرمایہ فراہم ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف
اردو زبان وادب کے ساتھ اپنوں اور بیگانوں نے ناانصافیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ روا رکھا ہے، جو اردو اکیڈمیوں
کے قیام کے بعد بھی ختم نہ ہو سکا اور اردو کو بدستور مسلمانوں کی زبان قرار دیکر فرقہ پرستی کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور اردو
کے لئے مراعات کے اعلان کو سرکار کی اقلیت نوازی کہہ کر خوب شور مچایا گیا۔ پس اردو زبان کے حسن کی برق پاشیوں
کو عام کرنے کے لئے ضروری معلوم ہوا کہ اردو شاعری نے ابتدا سے ہندوستانی سماج کے تہذیبی ارتقاء ، ایک متحدہ قومیت
کی تشکیل اور سیاسی آزادی کی جد و جہد نے جو ممتاز کردار انجام دیا ہے اسے عوام کے سامنے پیش کیا جائے‘‘
محترم ڈاکٹر سید احمد مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اتنے اہم موضوع کو اتنے سارے ابواب میں تقسیم کر کے اس کے تمام پہلوؤں کا جامع اور کثیر الجہات مطالعہ پیش کیا اور وہ کام کیا جو کہیں صدیوں میں ہوا کرتا ہے ۔اردو افسانے کے ارکان اربع کے سر فہرست رکن کرشن چندر نے جب اپنا شہرت یافتہ افسانہ ’’کالو بھنگی‘‘لکھااور وہ منظر عام پر آیا تو گویا اسلوبیاتی اعتبارسے اردو افسانے کے ٹھہرے ہوئے پانی کے سینے پر ایک وزنی پتھر آگرااور وہ ارتعاش پیدا ہوا کہ جس کی لہروں کا شور دور دور تک سنائی دیا اور یہ بات موضوع بحث و تذکرہ بنی کہ افسانہ
’’ اس طرح کے موضوعات پر ‘‘اور ’’اس طرح‘‘لکھا جاتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب موصوف کی کتاب’’ اردو شاعری کا انقلابی کردار ‘‘بھی یہ اعلان کرتی نظر آتی ہے کہ تحقیقی کاوش ’’اس طرح کے موضوعات پر‘‘اور ’’اس طرح‘‘کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر سید زین الحق (زین رامشؔ )
شعبہ اردو، ونوبابھاوے یونیورسٹی
ہزاریباغ
Mob:-9431160183
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.