الثلاثاء, 30 نيسان/أبريل 2013 14:39

ناصر ملک کی ’’تریل‘‘۔۔۔ ایک مطالعہ تحریر: پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین Featured

Rate this item
(0 votes)

  جناب ایڈیٹر صاحب!
 السلام علیکم و رحمتہ اللہ! خدائے لم یزل آپ کو معتبر رکھے۔ 
 پچھلے دنوں معروف شاعر و افسانہ نگار جناب ناصر ملک کے شائع ہونے والے مجموعہ کلام ’’تریل‘‘ پر تبصرہ ارسال خدمت ہے۔ اسے ’’لہراں ادبی بورڈ لاہور‘‘ نے شائع کیاہے۔ کتاب   کی طباعت، سرورق، ترتیب اور متن اچھا لگا اِس لیے حقِ مطالعہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ شامل اشاعت فرما کر شکریہ کا موقع دیجئے۔ 
آپ کا
پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین، لیہ
گورنمنٹ کالج، لیہ۔ موبائل: 0300-6767911

 ناصر ملک کی ’’تریل‘‘۔۔۔ ایک مطالعہ

 تحریر: پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین 



  *تخلیقی ادب میں شاعری کا رتبہ سب سے بلند تصور ہوتا ہے۔ شاعری جہاں انسان کو فکر و شعور سے بہرہ مند کرتی ہے، وہاں اس کی حسنِ جمال کو بھی ترفع بخشتی ہے۔ شاعری میں لفظ و خیال کا امتزاج ایسی کیفیات کو جنم دیتا ہے جن کی بدولت قاری یا سامع روزمرہ کے دکھوں، المیوں اور تفکرات سے خود کو ایک لمحے کے لیے آزاد محسوس کرتا ہے۔ بطور خاص علاقائی زبانوں میں تخلیق ہونے والی شاعری میں ایک خاص طرح کی چاشنی، مٹھاس، کوملتا اور لطافت ہوتی ہے۔ سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی اور پنجابی شاعری اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ 
علاقائی زبانوں کی شاعری میں جمالیاتی احساس کی اہم وجہ یہ تصور ہوتی ہے کہ اس کے عقب میں ماں دھرتی کی خوشبو اور بڑی حد تک فطرت کے ساتھ محبت اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ علاقائی زبانوں میں ہمارے صدیوں کے تہذیبی، تاریخی اور سماجی رویوں سے مزین ان حالات و واقعات کا اظہار ہوتا ہے جن کا تعلق یہاں کی مٹی اور لوگوں کے ساتھ ہے اور ماں بولی میں کیا گیا اظہار ہمارے بنیادی جذبات اور باطنی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی لیے مقامی زبانوں کے شعر و ادب میں گہرائی اور وسعت بدیسی زبانوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں ناصر ملک کی پنجابی شاعری جمالیاتی احساس کی ایک بڑی مثال ہے۔ 
ناصر ملک ایک زود نویس شاعر و ادیب ہیں۔ وہ محقق، افسانہ نگار، کالم نگار، مبصر اور پنجابی اور اردو کے معروف شاعر ہیں۔ اب تک ان کی کئی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ان کتب کا غالب پہلو اُن کا برجستہ اندازِ تحریر ہے۔ وہ نثر اور شاعری دونوں شعبوں میں برجستگی اور فطری اندازِ بیان کو اختیار کرتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا شائع ہونے والا پنجابی شعری مجموعہ ’’تریل‘‘ ان کے فطری اندازِ تحریر کا بڑا ثبوت ہے۔ ’’تریل‘‘ شبنم کا پنجابی معانی ہے۔ جس طرح شبنم تروتازہ، پاکیزہ اور صاف شفاف قطروں کی شکل میں ہوتی ہے، اسی طرح ناصر ملک کی یہ پنجابی شاعری خوب صورتی اور تازگی کی ایک علامت ہے۔ 
شعروادب میں فکر و خیال کی ندرت، اچھوتا پن اور نیا پن ایک کائناتی قدر تصور ہوتی ہے۔ گھسے پٹے خیالات، فرسودہ الفاظ، تراکیب، استعارات اور تشبیہات بڑی شاعری کی راہ میں بڑی رکاوت سمجھی جاتی ہیں۔ اگر فن کار باشعور ہے اور لسانی اور فنی شعور رکھتا ہے تو وہ اپنی شاعری میں نئے خیالات اور نئی شعری لسانیات کو پیش کرے گا۔ ناصر ملک کی زیرِ نظر شعری تصنیف میں نئے فکروخیال اور لطیف زبان کا استعمال فنکارانہ سلیقے سے ہوا ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔ 
پیرا اَج تے بول، کرامت کس لیکھے
منگتے ہتھاں نال سخاوت کس لیکھے
***
کدیں عشق دا سورج نئیں ڈُبدا
بس روپ سروپ دی چھاں ڈھلدی
***
جت کے روندا راہسیں ناصر
ہر کے یار مناون چنگا
***
روگ اولڑے گھات سیانی
بے دردے دی ذات سیانی
***
منھ تے بیٹھی کرماں ماری
کونجاں ویکھے تے کرلاوے
***
’’تریل‘‘ میں نعت، حمد، ہائیکو، نظم اور غزل، تمام اصناف موجود ہیں۔ نعت، حمد، ہائیکو اور نظم میں ناصر ملک نے خوب صورت عنوانات کا انتخاب کیا ہے۔ ان کے علاوہ اس مجموعے میں انہوں نے ’’وین‘‘ کے عنوان سے ایک اور صنف بھی متعارف کرائی ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں شامل نظموں کی تعداد صرف تین ہے مگر ان میں جو انہوں نے ہست کے تجربے کئے ہیں وہ ان کے فنی شعور کی بڑی دلیل ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں کہیں قطعات بھی دکھائی دیتے ہیں۔ 
ہجر و فراق، جدائی اور وچھوڑا، انسانی دلوں کی اداس کہانی ہے اور یہ ایسا دکھ ہے جو ازل سے انسان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ ہماری پنجابی کی صوفیانہ شعری روایت ہو یا جدید شاعری کا جدید لہجہ ہو، جدائی اور وچھوڑا ایک بڑے موضوع کے طور پر اپنی جگہ اختیار کرتا ہے اور ناصر ملک کے ہاں یہ موضوع ایک نئے انداز میں اپنا اظہار پاتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے ان کی ایک نظم، جس کا عنوان ’’کونجاں‘‘ ہے۔ 
ڈونگھے من دے تارو ہڑ وِچ لُڑیاں، فر ناں لبھیاں
واجاں اُتے کچے پیریں مُڑیاں، فر ناں لبھیاں
تھل پنھل دا ویہڑا، ایتھے رُڑیاں، فر ناں لبھیاں
جد وِی راہیاں نال بھلیکھوں جُڑیاں، فر ناں لبھیاں
ستیاں جو سرہاندی رکھ کے پُڑیاں، فر ناں لبھیاں
رسماں نے جو دَبیاں سن اُہ کڑیاں، فر ناں لبھیاں
یوں لگتا ہے کہ ناصر ملک کو کسی بڑے وچھوڑے کا سامنا ہے اور اس وچھوڑے میں وہ بعض اوقات نہایت خوف زدہ ہو کر چلا اُٹھتے ہیں۔ 
جدائی والا پل جدوں 
نیویں پا کے اَوندا اے
رات بن جاندا اے
(نظم: تریل والی رات)
***
اوہنوں بھل اے سَٹ کے مینوں اُہ وِی وسدا رہسی
رت وِی پیندے، مار چھڑیندے، یار وِچھوڑے، غم
ناصر ملک کے ہاں مختصر اور طویل بحروں کا ایک جہان آباد ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں دونوں انواع کی بحروں کا خوب استعمال کیا ہے۔ بعض جگہوں پر تو یہ غزلیں نظم کی طرح تسلسل کی کیفیت کو پیدا کرتی ہیں۔ مثلاً
ادھی راتیں جاگن چنگا
کلھا بیہہ کے روون چنگا
بلھیاں چتھن چیکن نالوں
دوہڑے ماہیے گاون چنگا
***
ربا دل ناں توڑ
تینوں کاہدی تھوڑ
دریا دے وِچکار
بیڑی دِتی بوڑ
اپنی جاتی سانبھ
اُچا بولن چھوڑ
ناصر ملک کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری میں کہیں کہیں پنجابی کافی کا رنگ بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ کافی کا رنگ، سوز وگداز اور فراقیہ لہجے سے تشکیل پاتا ہے۔ ناصر ملک کی اکثر نظموں اور غزلوں میں یہ انداز اس بات کا پتا دیتا ہے کہ ناصر ملک کو پنجابی شعری روایت کا نہایت گہرا شعور ہے۔ اس کی ایک مثال اس نظم میں دیکھیے۔ 
اکھاں دے وِچ یاد سنیہڑے
مائے! میں نی کجلا پَوناں
پتی پتی وِینی کھاوے
مائے! میں نی گجرا پَوناں
چُنی پھڑ کے بیٹھا ریہندا
مائے! میں نی کوکا پَوناں
سیت ناں دین اجازت مینوں
مائے! ہُن شنگھار نی کرنا


جے کر تیتھوں سردا ہے تے
مائے! میرا یار ملا دے
(نظم: مائے نی مائے)
ناصر ملک کی نظموں اور غزلوں میں ایک پہلو ایسا بھی ہے جو بہت کم شعراء کے ہاں موجود ہوتا ہے، وہ پہلو، دلچسپی کا ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کا آغاز کسی افسانے کی طرح ڈرامائی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نظم اور غزل کے شروع میں ہی قاری مکمل طور پر ان کی گرفت میں چلا جاتا ہے اور خاتمے پر مکمل طور پر متحیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگرچہ غزل کا ہر شعر الگ سے معنی اور خیال کا حامل ہوتا ہے، لیکن ان کا ہر شعر الگ الگ خیال کا حامل ہونے کے باوجود غزل کے دیگر اشعار کے ساتھ کلی طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ناصر ملک نے بطور خاص پنجابی غزل میں ایک بالکل نیا فکری اور فنی تجربہ کیا ہے یہی بات انہیں آج کی پنجابی شاعری میں ایک منفرد مقام دینے کے لیے کافی ہے۔ 
***

Read 2076 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com