الثلاثاء, 30 نيسان/أبريل 2013 14:52

ناصر ملک ۔۔۔ اپنی ماں بولی کا سوجھوان تحریر: خورشید بیگ میلسوی Featured

Rate this item
(0 votes)

 ناصر ملک ۔۔۔ اپنی ماں بولی کا سوجھوان
 تحریر: خورشید بیگ میلسوی


     ناصر ملک دنیائے شعر و ادب میں نووارد نہیں بلکہ عرصہ دراز سے شعر و ادب سے وابستہ چلے آرہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ بیک وقت اُردو اور پنجابی زبان کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوب صورت ادیب بھی ہیں۔ ان کے کالم اخبار کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ان کے ادیبانہ اسلوب کے تو ہم پہلے سے قائل تھے۔ اب ان کی شعری دنیا میں جھانکا تو مزید خوش گوار حیرت نصیب ہوئی۔ بلاشبہ جنوبی پنجاب کو ان جیسے قلم کاروں پر فخر ہے۔ 
ناصر ملک روشنی میں اندھیرے کی ’’بکل‘‘ مار کے بیٹھے تو انہیں پھولوں پر ’’تریل‘‘ کا پتہ چلا۔ دراصل نام نہاد روشنی لوگوں کو یہ بتاتی پھر رہی ہے کہ شکم کے فیصلے مانو، دل کے نہیں۔ روح کی پاکیزگی اور جسم کی آلودگی مل جائیں تو بھی انسان بنتا ہے اور جسم کی پاکیزگی اور روح کی آلودگی مل جائیں تو بھی انسان بنتا ہے۔ وہ اس روشنی کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے اس اندھیرے والی صبح کی آغوش میں جا بیٹھتے ہیں جب دونوں کے اشتراک کا موسم ہوتا ہے کیونکہ پھر روشنی کو یہ منافق دنیا دیکھ لیتی ہے۔ اندھیرے کے مقابل آنے والی روشنی کا حوصلہ جان کر حضرت انسان کی نظر بد لگتی ہے اور پھر روشنی دھوپ میں ڈھل جاتی ہے۔ جسموں کو جھلسا دینے والی دھوپ۔ ناصر ملک زمانے کے مفاہمتی فلسفے Compromising Therory کی ہر شکل سے دور رہتے ہیں۔ ان کی سوچ بھی آفاقی ہے۔ وہ مقامیت کے دائرے سے باہر آچکے ہیں۔ لیکن ایک صوفی انہیں بتاتا رہتا ہے کہ زمانہ رواجوں کی صلیب پر جذبوں کو کس طرح بھول چکا ہے۔ مادہ پرستی نے انسان کو مجبور و مفلوج کر دیا ہے ۔ اور پھر ان کے ہاں صرف تفکر کی بجلی ہی نہیں بلکہ الفاظ کی گھن گرج بھی ہے۔ اسی لئے ان کے اشعار دل اور روح پر نہ صرف کسی ’’چھمک‘‘ (تازیانہ) کی طرح پڑتے ہیں بلکہ روتے رُلاتے بھی نظر آتے ہیں۔ جیسے بھری دنیا میں ان کے ہم راز دوست اُن کے یہی اشعار ہیں۔ دوست بھی زمانہ دیتا ہے جس سے روح کا ملاپ ہوتا ہے۔ شعر بھی زمانہ دیتا ہے جو روح سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ ناصر ملک کے چند اشعار دیکھئے۔ 
ساڈے ننگ تے بھیتی ہسدے نیں
کاہنوں آؤندی نی لج لوکاں نوں
*
نئیں ناں مکے آخر تیرے میرے جھیڑے
دنیا نے فر سانوں ہون نہ دتا نیڑے
*
سچی گل تے اکھ ناں کھلدی لوکاں دی
ملاں کولوں جھوٹی جنت منگدے نیں
*
رب وِی جے کر پہلوں دسدا ساہ دا مُل
بندہ اوہدی چوکھت تے اِی دھر جاندا
مؤخر الذکر شعر زندگی کو نہ صرف دقیق بناتا دکھائی دیتا ہے بلکہ یہ اس زندگی کی جانب ہماری توجہ دلاتا ہے کہ زندگی کا مشکل نہ ہونا بتایا جاتا تو شاید بے نیاز کے فیصلے کو تسلیم کرنے میں فرشتوں کی سجدہ ریزی مزاحم ہونے کے امکان کا سوال پیدا ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کی صفت کو جس خوب صورت اور دل نشیں انداز میں ناصر ملک نے بیان کیا ہے، وہ قابلِ غور بھی ہے۔ اس سے پہلے کے شعر میں بھی انہوں نے عہدِ حاضر کی اس گمراہی کی جانب اشارہ کیا ہے جس کے ذریعے ’’ملاں‘‘ لوگوں کو گمراہ کر کے جنت کے حصول کے لیے وہ کردار ادا کررہے ہیں جس کی اسلام بھی اجازت نہیں دیتا ہے۔ محبت کے معاملے میں ان کے اظہار کی ندرت پر قربان جائیے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے آپس کے معاملات میں اگر دنیا بیچ میں نہ آئی تو ہمیں فراق کا ’’پینڈا‘‘ نہ کاٹنا پڑتا اور یہی کچھ پہلے شعر میں خود احتسابی کے حوالے سے دعوتِ فکر ہے۔ ناصر ملک کا حواسِ خمسہ کی دریافت کے بعد سے ان کا حسیاتی مشاہدہ اور ان کا شعری سفر بلندی کی حدوں کو چھوتا دکھائی دیتا ہے۔ جب داخلی حسیات کی بات ہوتی ہے تو ایک گہرے سمندر میں شعور کی کشتی پر شاعر اس وقت سفر کررہا ہوتا ہے جب طوفانوں کا موسم ہوتا ہے اور کہیں بھی ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مگر ناصر ملک کے تجربات کی بھٹی میں کندن ہونا ہی وہ ضمانت بنی جس نے انہیں سخت طوفانی لمحوں میں محفوظ رکھا اور وہ محسوسات کا سچا موتی سیپ سے نکال کر لائے اور اپنے چاہنے والوں کے روبرو رکھ دیا تاکہ ان کے شعری محاس کے علاوہ ان کے فنی و فکری تجزیے کا ادراک بھی چاہنے والوں کو ہو سکے۔ ناصر ملک کے چند اشعار کی سیاحت کرتے ہیں۔ 
جے بُلاں اُتے ہجراں دے کنڈے اُگ پین تے
پھلاں توں تریل ماہیا چٹیاں ناں لنگھدی
*
پیروں ننگے بال سکولے بھیجے نیں
ساڈی بھکھے پیٹ عبادت کس لیکھے
*
اوہدے موڈھے نیویں نیں
جیہدے ویہڑے لڑکی اے
*
مینوں قاتل کیہندا سی
سارے رستے کھلے نیں
پہلے شعر میں داخلی حسیاتی مشاہدے کی ترجمانی ہے۔ دراصل یہ لمحاتِ ہجر میں کیفیتِ جنوں کا اظہار ہے۔ اس میں لفظیات کا انتخاب خوب ہے۔ باقی تینوں اشعار میں بیرونی مناظر مختلف اندازِ فکر میں موجود ہے۔ میں ان کے مندرجہ بالا اشعار کو تین دائروں میں منقسم کروں گا۔ ان کے پہلے دائرے میں قناعت کا سبق ہے جو بظاہر صاف ستھری زندگی کا انعام ہے اور جسے بطور سزا پیش کیا گیا وہ ان کا دوسرا دائرہ ہے۔ دراصل ناصر ملک بتانا چاہتے ہیں کہ دینے والا بے نیاز تو ہے ، مگر عادل بھی ہے جس نے قناعت کی ترغیب کو پسِ پشت ڈال دیا اور خود اپنے معاشرے کو سماجی، معاشی اور عادلانہ مساوات سے دور کردیا یہ انسان کی اپنی کج روی ہے۔ اپنی ناقص پالیسیاں ہیں، خود غرضیاں ہیں کہ وہ انفرادی اور اجتماعی دونوں شکلوں میں یا پھر طاقت کے نشے میں چور اپنے فرائضِ منصبی کو بھول کر احکاماتِ الٰہی سے روگردانی کا مرتکب ٹھہرا۔ آج کا انسان خود کو مسلمان بھی سمجھتا ہے اور خدا کی ذات کو بے نیاز بھی مانتا ہے مگر اس کے کرتوت سراسر اسلام کے منافی ہیں۔ ناصر ملک ایک حساس شاعر ہے۔ وہ مشاہدے کی آنکھ سے سب کچھ دیکھ رہا ہے اور حتی الوسع اس سماجی تلخ حقیقت سے پردہ اُٹھاتا ہے۔ ناصر ملک کے اشعار کا تیسرا دائرہ آفاقی نظر کا مشاہدہ ہے۔ وہ قاتلوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ مختلف سوسائٹیوں، شہروں اور ملکوں کے ان درندہ صفت انسانوں کو معاشرے کو پراگندہ کرنے کا باعث ٹھہراتا ہے جو اپنے سے کمزور کا شکار کرنے میں مصروف ہیں اور شرفِ انسانی بھلا کر اپنے جنگلی ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ 
ناصر ملک نے اپنی نظموں میں بدلتے کلچر، مادیت پرستی، روحانی عروج اور صوفیانہ اخلاق نمائی کی بات کی ہے۔ ان کی نظموں میں ’’مائے نی مائے‘‘، ’’فرق‘‘ اور ’’عید دی رانی‘‘ ندرتِ خیال اور ریاضتِ فکر کی شاہکار نظمیں ہیں۔ ’’چپ دی بکل‘‘، ’’کناں سوہنا بابا سی‘‘ (ڈاکٹر خیال امروہوی کا مرثیہ یا خراجِ عقیدت) اور ’’فیملی پلاننگ‘‘ ہم سب کے لیے فکر انگیز نظمیں ہیں۔ 
آخر میں ہم ’’لہراں ادبی بورڈ لاہور‘‘ کے شکر گزار ہیں کہ اس ادارے نے ناصر ملک کی ’’تریل‘‘ جیسی خوب صورت کتاب شائع کرکے ادب دوستی کا ثبوت دیا ہے اور مصنف کے مداحوں کے لیے انمول تحفہ دیا ہے۔ ناصر ملک کے دیباچے کا ایک اقتباس پیش کرکے اجازت چاہوں گا جس میں ان کی ادب نگاری کی چھاپ نمایا ں ہے۔ وہ خوب صورت شاعر، خوب صورت انسان اور خوب صورت ادیب ہیں۔ اللہ اُنہیں سلامت رکھے (آمین)۔۔۔ 
وہ اپنی کتاب کے دیباچے میں یوں رقم طراز ہیں۔۔۔
’’لکھاری دے ہاں نوں جگ دیاں، جگ دے کُٹھے ڈنگے ہویاں دیاں، شودھے موئے مُکے غریباں دیا اَتے اپنے اندر دیاں پچھ پرتِیتاں اِی کھا جاندیاں نیں جیہڑیاں جمدے لا توں اوہدے نال نال حیاتی لنگھاؤندیاں نیں۔ اُہ ترٹھیا تِرہایا شاعر کسے نوں کجھ آکھدا اے ، کسے نوں کوئی لارا لپا لاؤندا اے تے جدوں بھج بھج کے ہَپھ جاندا اے تے فیر اپنی سِنی جُھلڑی دی بکل مار کے لکن دی تھاں لبھدا اے۔۔۔‘‘
***
مبصر: خورشید بیگ میلسوی
’’مرزا کلینک‘‘۔ فدا بازار۔ میلسی۔ ضلع وہاڑی
فون (موبائل): 0302-7397438

Read 1911 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com