ڈاکٹر صالحہ رشید
ایسوسییٹ پروفیسر
شعبۂ عربی و فارسی یونیورسٹی آف الہ آبا د
آشوب دھلی اور دستنبو
ہندوستان ہمیشہ سے ہی باہری حملوں کی آماجگاہ بنا رہا۔ غزنویوں نے ہندوستان پر پے در پے حملے کئے اور بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ھوئے ۔ شہاب الدین غوری نے پر تھوی راج کو شکست دی اور سرزمین ھند پر جو قدم جمائے تو انکے نقوش آنے والی کئی صدیوں تک محفوظ رھے۔ غزنویوں اور غوریوں کے بعد تیموری خاندان آیا۔اس دروان سلطنت ھندکو بارہا انقلابات کا سامنا کرنا پرا ۔ کئی خاندان بر سرِ اقتدا ر آئے اور زوال پزیر ھوگئے۔ سولہویں صدی میں بابر جیسے مدبر بادشاہ نے عظیم مغلیہ سلطنت قایم کی جسے ھمایوں کے عہد تک خاص استحکام نصیب نہ ہوا لیکن اکبر نے بڑے استقلال سے حکومت کرکے اسے مستحکم بنایا اور تاریخ ہند کو وقار بخشا۔ سلطنت مغلیہ اورنگ زیب کے بعد زوال پذیر ھوئی ۔ اس کی وفات ۱۷۰۷ ء کے بعد مغل سلطنت کی مرکزیت منتشر ھوگئی ۔ اس مستحکم عمارت کی بنیادیں ھل گئیں۔ جدوناتھ سرکار کے مطابق مغل سلطنت کا زوال اورنگ زیب کی زندگی میں ھی شروع ھو گیا تھا لیکن اس نے حکمت عملی اور تدبر سے کام لیکر اسے نمایاں نہیں ھونے دیا ۔ اس کی وفات کے بعد دس سال کے عرصے میں تخت کی وراثت کی خاطر سات بار نبرد آزمائی ھوئی جس سے زوال کی رفتار تیز ھو گئی ۔
اورنگ زیب کے بعد جو بھی حکمران دھلی کے تخت پر متمکن ھوئے وہ سیاسی سوجھ بوجھ سے بے بہرہ تھے ۔ چنانچہ اورنگ زیب کی جانشینی کے سوال پرہی جنگ ہوئی اور معظم شاہ تختِ حکومت پر قابض ھوا اور بہادر شاہ کے نام سے تخت نشیں ھوا۔ اس کے بعدتخت و تاج جہاندار شاہ کے حصے میں آیا جبکہ حکومت کا اہل عظیم الشان تھا ۔ جہاندار شاہ طبعاً بہت عیاش اور ظالم تھا۔اس نے اپنے خاندان کے تمام شاہزادوں کو قتل کروادیا۔اس کی عیاشیوں کا خاتمہ عظیم الشان کے بیٹے فرخ سیر کے ہاتھوں ھوا مگر فرخ سیر کے زمانے میں بھی ظلم و ستم کا بازار گرم رہا۔ اس نے بعض مغل شاہزادوں کو قتل کیا‘بعض کو اندھا کیا ۔ جس سے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہی ۔ شرفا خوف و ہراس کے شکار ھوئے ۔ فرخ سیر کو قدرت نے اس طرح سزا د ی کہ بارہہ کے سیدوں نے پہلے تو اسے اندھا کیا پھر ۱۱۳۱ ھ میں اس کو قتل کر دیا۔ یہ ایسا وقت تھا کہ دھلی کے تخت کا کوئی معتبر وارث نظر نہیں آ رہا تھا ۔ مولوی ذکاء اﷲ کے مطابق اورنگ زیب کے مرنے کے بعد سلطنت مغلیہ کی آنکھیں اندھی‘ کان بہرے ‘دانت ٹوٹے‘ پوپلے ‘ ٹانگیں لنگڑی ‘ کمر ٹوٹی ‘ ہاتھ لنجے ھوگئے۔ کوئی کل سیدھی نہ رھی۔ جیتے جی مر گئی ۔ اگرچہ شہنشاھی کاسر چشمۂ بزرگ دھلی بنی رہی مگر اس سے میلا گدلا پانی ان باغوں میں جاری رھا جو خس و خاشاک سے پر تھے۔
ایسے میں تحزیبی قوتوں نے سر اٹھایا۔ شاھی تخت سیدوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا ۔ حرم سرا میں دادِ عیش پانے والے شہزادے تخت نشین ھوئے ۔ سب سے پہلے رفیع الدرجات تخت نشین ھوا۔ اس کے بعد روشن اختر جسے محمد شاہ رنگیلا کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ محمد شاہ رنگیلا کو مغلوں کے انحطاط کا نمایندہ حکمران کہا جاتا ہے۔ اس کے تخت نشین ھونے پر معاشرہ کی اجتماعیت خطرے مین پڑ گئی ۔ دھلی بار بار اجڑی ۔ ۱۷۳۹ ء میں نادرشاہ حملہ آورھوا ۔
اسکی ظالمانہ لوٹ کھسوٹ کا ذکر سید ظہورالحسن نے ان الفاظ میں کیا ہے
’’بے گناہ دھلی والوں کے سر کٹنے لگے اور ہر گلی کوچے میں نادریوں کی خونریز تلواروں نے قیامت برپا کر دی ۔ خدا کی بیگناہ مخلوق ایک ایسی کثیر تعداد میں قتل کی گئی کہ شاھراھوں کے راستے رک گئے۔‘‘
۱۷۴۱ ء احمد شاہ ابدالی کی نگاہِ قہر ہندوستان کی جانب اٹھی اورپانچ چھ سال تک دھلی کو اجاڑنے میں اس کی ہوس رانی کارفرما رھی۔ نادر شاہ اور احمد شاہ کے حملوں نے دھلی کی شان و شوکت کو مٹی میں ملا دیا ۔ خانہ جنگی کے حالات پیدا ھوگئے ایک وقت ایسا آیا کہ مرکز کی سلطنت ’از دلّی تا پالم‘
ھو گئی۔ شاھانِ مغلیہ اندرونی خلفشار و انتشار سے اس لایق نہ رہے کہ بیرونی حملوں کا مقابلہ کر سکیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی جس نے ۱۶۰۱ ء میں ہندوستان کو اپنا بازار بنایا تھا‘رفتہ رفتہ اس نے اپنے قدم جمائے اور پورے ھندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ یہاں تک کہ یہ بات عام ھوگئی کہ خلق خدا کی ‘ ملک بادشاہ کا‘ حکم کمپنی بہادر کا ۔ شاہ عالم کے انتقال کے بعد۱۸۳۷ ء میں اکبرشاہ ثانی تخت نشین ھوا۔ اس کے اور لارڈ لیک کے درمیان تسخیر دھلی کے موقعہ پر جو معاہدے ھوئے اس سے عوام مایوس ھوگئی ۔ شاہانِ مغلیہ کے پنشن خوار ھو جانے کے بعد انگریزوں نے نہ صرف ان سے نفرت کا اظہار کیا بلکہ انکو حقیر سمجھنے لگے۔ یہاں تک کہ آخری مغل تاجدار یعنی بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کے بعد انگریزوں نے کھل کر گستاخانہ اعلان کیا کہ بہادر شاہ ظفر کے بعد مغل خاندان لال قلعہ سے نکال دیا جائیگا اور شاہ کا لقب بھی ختم کر دیا جائیگا۔
انگریزی مظالم بتدریج بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ عوام کا غم و غصّہ ۱۸۵۷ ء کی بغاوت کا شعلہ بن کر میرٹھ سے بھڑکا ۔ اس کی لپٹیں بہت تیزی سے دہلی تک پہونچیں ۔ حالات بدترین ھوگئے ۔ بادشاہ ‘ رؤسا‘ امرا‘ علما‘ شعراء‘ عوام سب اس کی زد میں آگئے۔ ۱۸۵۷ ء کی زبردست جنگ آزادی اور دھلی کی تباھی غالبؔ نے اپنی آنکھوں دیکھی۔ یہ موجِ خون ان کے سر سے بھی گزری ۔ جس مغلیہ دور میں غالبؔ نے آنکھ کھولی اس کے عروج کی داستان انھوں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھی تھی اور اس کا زوال اپنی آنکھوں سے دیکھ رھے تھے۔ جن واقعات و مناظر کی گواہ انکی آنکھیں بنیں انھوں نے وہ سب قلمبند کئے اور اسے دستنبو نام دیا۔
بہادر شاہ ظفر برای نام بادشاہ رہ گئے تھے ۔ انگریز برملا انکی توہین کرتے تھے۔ اندرون محل سازشوں کا بازار گرم تھا ۔ سپہ سالار کس کا حکم بجا لا رھے تھے؟ بادشاہ یا کسی اور کا ؟ غرضکہ محل کے حالات معمہ بنے ھوئے تھے۔ حساس طبع غالب نے یہ سب محسوس کیا ۔ ان کا دل پارہ ۔پارہ ھوا ۔ دستنبو میں درج انکے بیانات اس کے بیّن ثبوت ہیں ۔ بادشاہ کی ناگفتہ بہ حالت کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ بادشاہ اس چاند کی طرح تھا جسے گہن لگ جائے۔
انگریز پے در پے ہندوستانیوں پر کاری ضرب لگا رہے تھے۔ ملک کی صنعت تباہ ھو چکی تھی۔ زمینوں کی جبراً قرقی اور نیلامی ھو رھی تھی۔ بادشاہ کی اہانت، ریاستوں کے جبری الحاق، عیسائی مذہب کی ترویج وغیرہ انگریزوں کے ایسے اقدامات تھے جن سے ہندوستانیوں کا ذھن مکدر ہو گیا ۔ ان میں غم و غصہ کی زبردست لہر دوڑ گئی اور یہی لہر ۱۸۵۷ ء کی بغاوت کی شکل اختیار کر گئی۔یہ ایسی آگ تھی جس نے پورے ملک کو اپنی لپٹوں سے جھلسا دیا ۔ دھلی تو دارالحکومت تھا اور غالبؔ کا مسکن بھی۔ دستنبو میں غالبؔ نے گیارہ مئ۱۸۵۷ ء سے لیکر جولائ ۱۸۵۸ ء تک دھلی میں رونما
ھونے والے واقعات کا احاطہ کیا ہے۔قلعے کی تباھی کے ساتھ ساتھ انگریزوں پر جو بیتی اس کا بھی ذکر کیا ھے۔شہر میں قتل وغارت کے ساتھ لوٹ مار بھی اوج پر تھی۔کافی لوگ شہر چھوڑ کر چلے گؤ۔جو رہ گۂ وہ اپنے گھر میں تقریباً قید رہے۔بازار کی رونق سناّٹے میں تبدیل ھو گء۔ سڑکوں پر لٹیرے آزاد گھوم رھے تھے۔غالبؔ نے اس منظر کی تصویر کشی کچھ یوں کی ہے۔
۱۱،مئ ۱۸۵۷ ء کو اچانک دھلی کے قلعے اور فصیل کی دیواریں لرز اٹھیں۔شہر دھلی میں ہندوستانیوں کے ساتھ ساتھ انگریز افسروں کے بھی مکانات تباہ ھوئے اور قتل و غارت کا منہ انھیں بھی دیکھنا پڑا۔کچھ لوگ جو انگریزوں کے نمک خوار تھے شہر سے دور چلے گؤ۔کچھ لوگ جنھیں تیر وتبر سے کام نہ تھا وہ غمگین اور ماتم زدہ اپنے گھروں میں بیٹھے رھے۔(غالبؔ بھی انھیں میں سے ایک تھے۔وہ بھی گھر میں بیٹھے تھے کہ شورو غوغا ھوا)زمین ھر طرف گل انداموں کے خون سے رنگین ھو گئ وہ بچیّ جنھوں نے دنیا کو اچھی طرح دیکھا بھی نہ تھا ایکدم قتل و خون کے بھنورمیں پھنس گئ اور بحر فنا میں ڈوب گؤ۔اندرون قلع شاھی باغ گھوڑوں کا اصطبل بنا۔شہر حاکموں سے خالی اور بندہ ہای بے خداوند سے بھرا ھوا جیسے باغ باغبان سے خالی اور درختان بے ثمر سے پر ھو۔لٹیرے ہر قسم کی پابندیوں سے اور سوداگر محصول ادا کرنے کی ذمہ داریوں سے آزاد۔گھر ویرانے معلوم ھوتے ہیں اور مکانات لوٹ مار کرنے والوں کے لؤ خوانِ مفت۔امن پسند اور نیک نہاد لوگ گھر سے بازار تک آتے ھو ئے راستے میں بیسیوں جگہ عاجزی اور مغلوبیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔لٹیرے دن میں دلیری کے ساتھ لوٹ مار میں مصروف ہیں اور رات میں ریشمی بستر پر محو خواب۔
یہ تباھی اور غارتگری با برگ و بی برگ پر یکساں طور پر اثر انداز ھوئی ۔عالی مرتبت لوگوں کا حال زیادہ برا ھوا کیونکہ وہ تو عیش و عشرت کے عادی تھے۔دستنبو میں درج بیان کے مطابق۔
بڑے بڑے عالی خاندان لوگوں کے گھروں میں چراغ جلانے کو تیل نہیں۔اندھیری رات میں جب پیاس کی شدّت بڑھتی ہے‘ بجلی چمکنے کے منتظر رہتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ کوزہ کہاں رکھا ہے اور پیمانہ کدھر ہے۔زمانے کی اس بے نیازی اور بے امتیازی کو کیا کہوں کہ وہ کم رتبہ لوگ جو سارا دن مٹی بیچنے کے لئ زمین کھودتے تھے ان کو مٹی میں سونے کے ٹکڑے مل گؤ اور جن لوگوں کی محفل میں آتش گل سے چراغ روشن رہتے تھے‘ اندھیرے گھروں میں ناکامی و نامرادی کے غم میں مبتلا ہیں۔کوتوال شہر کی زن و دختر کے علاوہ ساری نازنینان شہر کا زیور بزدل اور سیہ کار رہزنوں کے قبضہ میں ہے۔
اہل علم و دانش بھی اپنی آبرو بچانے میں نا کام رھے۔وہ لوگ جنھیں اپنی قوت بازو پر ناز تھا وہ بھی خوفزدہ و ہراساں نظر آئے۔
بڑے بڑے عالموں اور ناموروں کی آبرو مٹی میں ملا دی گئ ہے۔غالبؔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ میرا درد بھرا حال سن کر ستاروں کی آنکھوں سے خون جاری ھو جائیں۔بڑے بڑے بہادروں کا یہ حال ھے کہ وہ اپنے سایے سے ڈریں۔دھلی کے اندر اور باہر تقریباً پچاس ہزار سواروں اور پیادوں کی فوج پڑی ہوئی ہے۔شہر کی مغرب جانب پہاڑی پر انگریزوں کا قبضہ ہے۔
کثیر تعداد میں انگریزی فوج دارلحکومت دھلی میں موجود تھی۔ھندوستانی گو کہ جنگی تکنیک میں انگریزوں سے پیچھے تھے لیکن انکا جوش وولولہ انھیں انگریزوں سے مقابلے کی ترغیب دیتا تھا۔اس بابت غالبؔ یوں رقمطراز ہیں۔
’ توپوں اور بندوقوں کے دھوئیں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے اور اس سے اولے برس رہے ہیں ۔رات دن دونوں طرف سے گولہ باری ہوتی ہے۔مختلف مقامات سے آئے ھوئے سپاھی دن چڑھے شیردل انگریزوں سے لڑنے کے لئے جاتے ہیں اور سورج ڈوبنے کے پہلے واپس آجاتے ہیں۔‘
حکیم احسن اللہ خاں بہادر شاہ ظفر کے دربار میں وزیر اعظم ‘ شاہ کے طبیب اور با اثر مشاور تھے نیز صاحب علم وفضل۔وہ اپنے عصر کے علماء و فضلا کودوست رکھتے تھے۔غالبؔ سے بھی انکے دوستانہ تعلقات تھے۔انکے شاندار آراستہ وپیراستہ محل نما گھر کو بھی نذرِ آتش کیا گیا۔خوف وہرا س کا یہ عالم کہ گلیوں کے دروازے بند کر دئے گئے اور کسی میں اتنی ہمّت نہ رہی کہ باہر جا کر کھانے پینے کی اشیا مہیّا کر سکے ۔ دستنبو میں درج ہے کہ ’حکیم احسن اللہ خاں کا گھر جو خوبصورتی اور آرائش میں نگار خانۂ چین ھوا کرتا تھااسے لوٹا گیا۔اس کی چھت کو آگ لگا دی گئی۔چھت کے شہتیر اور منقش تختے جل کر راکھ ہو گئے۔ دیواریں سیاہ پڑ گئیں ۔دھلی دروازہ ترکمان دروازہ اور اجمیری دروازہ تینوں دروازے باغیوں کے قبضہ میں رہے ۔ غالب ؔ کا مکان جہاں واقع تھا اس گلی کا دروازہ بند کر لیا گیا۔اتنی ہمت نہ رہی کہ باہر جا کر خورد و نوش کا انتظام ہو سکے ۔‘غالب ؔ خود بھی اپنے مکان کے اندر بیٹھے رھے ۔
آخر گلی کے دروازے بند کر لینے پر کھانے پینے کاسامان کتنے دن ساتھ دیتا ۔ باہر کشت وخون سے لوگوں کا دل لرز لرز جاتا تھا ۔ کھانے کے ساتھ ہی پینے کا پانی ختم ھوا۔ حلق خشک ھو گئے۔ محلہ میں گندگی پھیل گئی ۔ غالبؔ گو کہ اپنے گھر میں مقید تھے لیکن ان سکا دل کراہ اٹھا ۔ ان حالات زار کا تذکرہ انکی پثر مردہ انگلیوں سے یوں رقم ھوا
’انگریزوں نے شہر میں داخل ہوتے ہی بے سروسامان لوگوں کو قتل کرنا اور مکان جلانا جایز سمجھا ۔ بے شمار مرد عورتوں کے گروہ جن میں معمولی لوگ بھی تھے اور صاحب حیثیت بھی ان تینوں دروازوں سے باہر نکل گئے ۔ شہر کے باہر جو چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں مقبرے تھے ، ان میں پناہ گزیں ھو گئے ۔ غالبؔ بھی اپنے مکان کے ایک گوشے میں بے سروسامانی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ ۱۸ستمبر کو انگریزوں نے شہر اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔ کشت و خون اور پکڑ دھکڑ غالبؔ کے گھر کی گلی تک پہونچ گئی۔ خوف سے لوگوں کے دل دہل گئے۔ ’اس گلی سے زیادہ تر لوگ چلے گئے اس طرح کہ عورتیں بچوں کو چھاتیوں سے لگائے ہوئے تھیں اور مردوں کے سر پر سامان کی گٹھریاں۔ سارے شہر میں پندرہ ستمبر سے ہر گھر کا دروازہ بند ہے ۔ دوکاندار اور خریدار دونوں غایب ہیں ۔ نہ گندم فروش ہے کہ گندم خریدیں نہ دھوبی ہے کہ کپڑے دھلوائیں ۔ حجام کو کہاں ڈھونڈیں کہ بال تراشے اور مہتر کو کہاں سے ڈھونڈھ کر لائیں کہ صفائی کرے۔ گھروں میں کھانے کا جس قدر سامان تھا ختم ہو گیا۔ پانی بیحد احتیاط سے پیا گیا لیکن آخر کار کوزہ یا گھڑے میں ایک قطرہ نہ رہا۔چوک کے آگے قتل و خون کا بازار گرم تھا۔ نہ کھانے کو روٹی نہ پینے کو پانی۔ ایک دن اچانک بادل آگیا ۔پانی برسا۔صحن میں ایک چادر باندھی گئی۔ اس کے نیچے ایک مٹکا رکھ دیا گیا اور اس طرح پانی حاصل کیا گیا ۔ شہر کے بیشتر لوگوں کو باہر نکال دیا ہے۔ جو لوگ ویرانوں اور گوشوں میں مقیم ھوئے ہیں ان کے بارے میں ابھی کوئی حکم صادر نہیں ھوا ہے۔ اندرون شہر یا بیرون شہر جو لوگ مبتلائے پریشانی ہیں ان کے درد کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ شہر کے اندر رہنے والے مجبور لوگ ہوں یا باہر کے پریشان حال، سب کے دل درد سے بھر ے ھوئے ہیں اور سب قتل عام کے خوف سے ہراساں ہیں ۔
نہ فقط دھلی بلکہ گرد و نوح کی جاگیریں مثلاً جھجھر ،بلب گڑھ اور فرخ نگر وغیرہ بھی اس آتش میں جھلس کر رہ گئیں ۔ وھاں کے جاگیرداروں اور شاہزادوں کا انجام دردناک ھوا۔ عوام کو بری طرح جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اس طرح کہ اعداد و شمار کی کوئی گنجائیش نہ رھی۔
’محل لوٹ لئے گئے ۔ قیمتی سامان نذرِ آتش کئے گئے ۔ جھجھر، بلب گڑھ اور فرخ نگر کے جاگیرداروں کو محل میں قید کیا گیا۔ پھر انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا‘۔ شاہزادوں کے بارے میں لکھتے ہیں ’بعض کو گولی مار ی گئی‘ بعض آوارہ اور پریشان پھر رہے ہیں ۔ کمزور اور ضعیف بادشاہ پر مقدمہ چل رہا ہے ۔ کچھ لوگ جو شہر سے نکل کر چلے گئے ہیں وہ اتنی دور چلے گئے ہیں گویا وہ سرزمین دھلی کے باشندے ہی نہیں تھے۔ بہت سے عالی مرتبہ لوگ شہر کے ارد گرد دو دو چار چار کوس پر ٹیلوں ،گڑھوں ، چھپروں اور کچے مکانوں میں اپنے نصیب کی طرح آنکھیں بند کئے پڑے ہیں ۔ قید خانے میں اتنے لوگوں کو بھر دیا گیا ہے گویا آدمی میں آدمی سمایا ہے۔ کتنے افراد کو پھانسی دی گئی انکی تعداد فرشتۂ موت ہی جانتا ہے‘۔
غالبؔ کے مطابق ایسے پٗر آشوب حالات میں مہر و محبت اور مسرت و انبساط کی کیا گنجائیش۔
ہر روز تنم زسایہ لرزاں گردد
ہر شب دلم از داغ چراغاں گردد
مآخذ و منابع
۱۔اسباب بغاوت ہند از سر سید احمد خاں۔
۲۔تاریخ ہند از مولوی ذکاء اﷲ جلد نہم۔
۳۔شارٹ ہسٹری آف دی انڈین پیپل از تارا چند۔
۴۔جنگ آزادی ۱۸۵۷ ء از خورشیدِ مصطفیٰ رضوی۔
۵۔دستنبو از غالبؔ ۔
۶۔دستنبو اردو ترجمہ از پروفیسر خواجہ فاروقی۔
***
ڈاکٹر صالحہ رشید
ایسوسییٹ پروفیسر
شعبۂ عربی و فارسی یونیورسٹی آف الہ آبا د