الأربعاء, 15 أيار 2013 11:14

آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو ڈراما اور کمال احمد : ڈاکٹر محمد کاظم Featured

Rate this item
(0 votes)

 ڈاکٹر محمد کاظم
 شعبہ اردو، دہلی یونیور سٹی

 آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو ڈراما اور کمال احمد


  ہندوستان کی آزادی کے بعدیوں توپورے ہندوستان کی ڈرامائی سرگرمیوں کی روشنی ماندپڑتی ہوئی نظرآتی ہے۔ لیکن ۱۹۵۰ء کے بعدیہ پھرسنبھالا لیتی ہے۔ اب چند نامور ادیب وشاعرڈراماکی جانب اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ان لوگوں نے پرانی روش سے ہٹ کرجدیدطرزپرڈرامے لکھے۔ ۱۹۵۰ء کے بعدپروفیسرمجیب کا ڈراما’کھیتی‘ سجادظہیرکا’بیمار‘ اوپندرناتھ اشک کا ’پاپی‘ راجندسنگھ بیدی کا مجموعہ’سات کھیل‘ سعادت حسن منٹوکا ’اس منجدھارمیں‘ سردارجعفری کا ’یہ کس کا خون ہے ‘ اورحبیب تنویر کا ڈراما’آگرہ بازار‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان ڈراموں کا شورہندوستان کے مختلف علاقوں میں تھا اورانھیں پیش بھی کیا جارہاتھا لیکن بنگال اس سے محروم نظرآتا ہے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم، ملک کے بٹوارے کے تحت ہوئے فسادات اورقحط بنگال نے نہ صرف بنگال بلکہ پورے ہندوستان میں خوف وہراس کا ماحول پیداکردیا تھا۔ چہارطرف لوگ سہمے سہمے نظرآتے تھے۔ غرض عوام ہنسنا بھول چکے تھے۔ اس خوف وہراس کے ماحول میں بنگال میں ایک ایسا شخص منظرعام پرآتاہے جوان سہمے ہوئے عوام کے چہرے پرخوشی دیکھنا چاہتاہے اوراپنی بقیہ تمام زندگی اسی کام میں صرف کردیتا ہے۔ وہ شخصیت پروفیسر نیاز احمد خاں کی ہے۔ نیاز احمد خاں نے بہت سے مزاحیہ ڈرامے لکھے اور کلکتہ کے مختلف اسٹیج پر پیش کیے۔ان کے اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دو ایسے شاگرد تیار کیے جو اردو ڈرامے کا پرچم نہ صرف بنگال بلکہ ہندوستان گیر سطح پر بلند کیا۔
موجودہ دورمیں اگربنگال کے اردوڈرامے پرنظرڈالتے ہیں توکئی ایسے ڈراما نگارنظرآتے ہیں جونہ صرف بنگال بلکہ ہندوستان گیرسطح پراپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں نیاز احمدخاں کے محبوب شاگردکما ل احمداورظہیرانور کے ساتھ ساتھ نوجوان اظہر عالم نمایاں ہیں۔ ان تمام لوگوں نے اپنی شناخت الگ سے قائم کی ہے۔ ان کے ڈرامے صرف بنگال میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان گیر سطح پر مقبول ہیں۔
کمال احمدموجودہ دورکے ایک اہم ڈرامانگارہیں۔ یہ نہ صرف بنگال بلکہ ہندوستان گیرسطح پراپنی شناخت رکھتے ہیں۔ کمال احمدنے ڈرامائی زندگی کی ابتداء اداکاری سے کی اوربہت جلدڈرامے کے نکات سے واقف ہوگئے۔ انھوں نے پہلی بارنیازاحمدخاں کی ہدایت میں کھیلے جانے والے ڈرامے میں اداکاری مولانا آزاد کالج کے اسٹیج پرکی۔ اس زمانے میں وہ مولانا آزاد کالج میں طالب علم اور پروفیسر نیاز احمد خاں استادتھے۔ پروفیسرنیازاحمدخاں کمال احمدکی اداکاری کے سلسلے میں رقم طراز ہیں:
’’ان(کمال احمد) کی اداکاری میں فطری اندازتکلم کے علاوہ مصنف کے جذبات سے یگانگت نمایاں تھی۔ بعض اداکارمکالموں کی ظاہری گھن گرج سے مرعوب ہوجاتے ہیں اوراس یگانگت کوحاصل نہیں کرپاتے جواداکاری کی جان ہے۔ کمال احمدنے اس رازکوسمجھااورمصنف کے ذہن میں اترنے کی کوشش کی۔ بعض مرتبہ وہ ہدایت کارکی نظربچاکرایک معمولی سی حرکت کے اضافے سے ڈرامائی عنصرکوزیادہ نمایاں کردیتے ہیں۔ ‘‘ 
کمال احمدنے ساتویں دہائی میں ڈراما لکھنا شروع کیا۔ اب تک ان کے پانچ ڈراموں کے مجموعے ’’دوڈرامے تجرباتی، کشکول، مورکے پاؤں، گرداب اورالٹی گنگا‘‘ کی شکل میں منظرعام پرآکرمقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ حالانکہ ان کا سفرمختصرمدت پرمبنی ہے لیکن انھوں نے نہایت تیزرفتاری سے اسے طے کیا ہے۔ کمال احمداب تک تقریباً چالیس ڈرامے تحریرکرچکے ہیں۔ جن میں سے تقریباً سبھی ڈرامے کئی کئی باراسٹیج کی زینت بن کرقبول عام کی سندحاصل کرچکے ہیں۔
کمال احمدحقیقت میں ایک طنزنگارہیں اورانھوں نے اپنے جذبات کے اظہارکے لیے ڈرامے کی صنف کا انتخاب کیا ہے۔ حالانکہ انھوں نے افسانے بھی لکھے ہیں لیکن ان کے ڈراموں میں جوبات ابھرکرسامنے آتی ہے افسانے میں اس کا دوردورتک پتہ نہیں ہے۔
کمال احمدکی نظرموجودہ سماج پرگہری ہے۔ وہ سماج میں ہورہی تبدیلی کومحسوس کرتے ہیں اورعہدحاضرکے بدلتے ہوئے سماجی وسیاسی حالات کواپنے ڈراموں کا موضوع بناتے ہیں۔ وہ ان موضوعات کوطنزیہ اندازمیں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے ہورہے واقعات لگتے ہیں۔ اس زمرے میں ہم کشکول، مورکے پاؤں، ریلیف، گرداب وغیرہ کورکھ سکتے ہیں۔ ان ڈراموں میں کمال احمد نے مختلف طبقوں کی سرگزشت پیش کردی ہے جوہمارے سماج میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ ایک بیٹا باپ کی جان لے کراس کی جائیدادجلدازجلد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہرشخص اپنے آپ کوکسی سے کم نہیں سمجھتا یعنی ہرشخص ’میں‘ کے علاوہ اورکچھ نہیں سوچ رہا ہے۔ ہرشخص دوسروں کونقصان پہنچاکراپنا فائدہ چاہتا ہے وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں کمال احمدکے ڈراموں میں مل جائیں گی۔
ہماراسماج اس قدرCORRUPT(کرپٹ) ہوچکا ہے جس میں یاتوغنڈوں کا بول بالا ہے جوشریف لوگوں کی پگڑیاں اچھال کرانھیں کمتری کا احساس دلارہا ہے یا دوسر جانب وہ سیاست داں ہیں جوغنڈوں کوخریدلیتے ہیں۔ اس طرح اگردیکھیں توآج ہمارے سماج پرحکومت یاتوغنڈوں کی ہے یا پھران CORRUPT سیاست دانوں کی۔ جولوگ ایماندارہیں ان کی سماج میں کوئی وقعت نہیں۔ ایسے لوگ کوڑی کوڑی کے محتاج رہتے ہیں اورکبھی کبھی زندگی بسرکرنے کے لیے کوئی غلط راہ اختیارکرنے پرمجبورہوتے ہیں۔ اس طرح کے کردارکمال احمدکے ڈراموں میں اکثرپائے جاتے ہیں۔
کمال احمدغنڈوں اورسیاستدانوں سے اس قدربیزارنظرآتے ہیں کہ یہ کردار غیر ارادی طورپراکثران کے ڈراموں میں مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ ان کی فنکاری کا کمال ہے کہ کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ پہلے بھی پیش کیے جاچکے ہیں۔ وہ ان کرداروں کومختلف روپ میں پیش کرتے ہیں۔ ’گرداب‘ اور’مورکے پاؤں‘ میں اس طرح کے کردارموجودہیں پردونوں میں اس کی نوعیت مختلف ہے۔ ان کرداروں میں کہیں بھی تکرارکا احساس نہیں ہوتا۔
کمال احمدکے ڈراموں کوپڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کا کوئی اثرنہیں لیتے۔ دوسرے لفظوں میں اگریہ کہا جائے کہ وہ اپنے طورپراصول پرست ہیں توبے جانہ ہوگا۔ ان کے اندرایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ اصول پرست ضرور ہیں لیکن اپنے مقصدکواپنے قاری وناظرین پرجبراً نہیں لادتے بلکہ اسے نہایت ہی شگفتگی سے طنزومزاح کے پیرائے میں پیش کرتے ہوئے مزاح کا ہلکا سارنگ ہرجگہ برقراررکھتے ہیں جس سے ڈرامے کی دلچسپی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپر’گرداب‘ میں ’عبدل‘ اور’غفور‘ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ کردارطنزکے ساتھ تفریح کا خاصا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ایک ہکلاتاہے، اپنی بات پوری کرنے میں وقت محسوس کرتا ہے اوردوسرا اتنا باتونی ہے کہ ہرسوال کے جواب میں ایک طویل واقعہ بیان کرنے لگتا ہے۔
کمال احمدموجودہ سماج سے بیزارنظرآتے ہیں اوراکثرایک خیالی اورمثالی سماج کا تصورکرتے ہیں۔ اپنے اس مقصدکوانھوں نے ڈراما’پدیاترا‘ میں نہایت خوبی سے بیان کیا ہے۔ کمال احمداس ڈرامے میں ایک خیالی گاؤں کی تشکیل کرتے ہیں اورہمارے موجودہ سماج کے ایک ریاکارانسان کو’یاتری‘ کے طورپراس گاؤں میں بھیج دیتے ہیں۔ وہ یاتری حسب معمول تہذیب کے نام پروہ تمام برائیاں کرتا ہے جو ہمارے سماج میں بلا جھجھک رائج ہورہی ہیں اورہم اسے قبول کرتے جارہے ہیں۔
کمال احمدنہایت ہی بے باک ڈرامانگارہیں۔ وہ اپنی بات کہنے سے کبھی بھی کسی بھی حالت میں نہیں چوکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمرجنسی کے خلاف قلم اٹھانے میں انھیں ذرابھی جھجھک نہیں ہوئی۔ اورسماج کو مدنظررکھ کرڈراما’ایک تھا راجا‘ تحریرکیا۔ اس ڈرامے کے سلسلے میں ڈراما’ضحاک‘ (جوایمرجنسی پرمبنی ہے) کے خالق محمدحسن رقم طرازہیں:
’’کمال احمداپنے ڈراموں میں بالخصوص ’ایک تھا راجا‘ میں طنزکے کوڑے برسائے ہیں اوراپنے طورپراحتجاج کارخ اپنایاہے۔ ’ایک تھا راجا‘ ایمرجنسی کے زمانے کا بڑا بلیغ اورجامع مرقع ہے۔ گواس کی معنویت محض کسی ایک ہنگامی واقعے تک محدودنہیں بلکہ وسیع ترسماجی نظام پرمحیط ہے۔‘‘ 
کمال احمداپنی بات کہنے کے بعداکثرہمارے سامنے یہ سوالیہ نشان چھوڑدیتے ہیں کہ آخر ہم ظالم اورمظلوم، اچھائی اور برائی، حق اور ناحق یا محبت اور نفرت کی اس لڑائی میں کس کے ساتھ ہیں؟
کمال احمدکے ڈراموں کوپڑھنے سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اسٹیج کرافت سے پوری واقفیت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ روشنی کے استعمال کوبھی نہایت خوبی کے ساتھ بروئے کارلاتے ہیں۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ اول تویہ کہ انھوں نے ڈرامائی سفرکا آغازبحیثیت اداکارکیا۔ دوسرے یہ کہ وہ خودہدایت کاری کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔
کمال احمدکے تحریرکردہ ڈراموں میں ’کشکول، مرض بڑھتا گیا، اورپھربیاں اپنا، گرداب، پدیاترا، ریلیف، مورکے پاؤں، ایک تھا راجا، کوئی تعبیرنہیں، الٹی گنگا‘‘ وغیرہ کوخاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کا ڈراما’مورکے پاؤں‘ بھاگل پوریونیورسٹی کے ایم۔ اے۔ کے نصاب میں شامل ہے۔
کمال احمدنے نہ صرف طبع زادڈرامے لکھے بلکہ ترجمے بھی کئے ہیں۔ انھوں نے بنگلہ زبان کے ڈراموں کواردوکا جامہ پہنا کرانھیں ایک نیاروپ عطاکیا ہے۔ کمال احمدنے منوج متراکے بنگلہ ڈراما کو ’وہ بھی چور‘ اندرجیت سین کے ڈراما کو’گرم بھات‘ اورشانتی چکرورتی کے ڈرامے کو’دیوئیّس‘ کے نام سے اردومیں منتقل کیا ہے۔ بادل سرکارکے ڈراما’باگھ‘ سے متاثرہوکرڈراما’رہائی‘ لکھا۔ انھوں نے ریڈیائی ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ جوآل انڈیاریڈیوسے نشرہوئے ہیں۔ جن میں’اورپھربیان اپنا‘ اہم ہے۔
کمال احمدسماج کے کڑوے سچ کوڈراماکا پیرہن عطا کرکے عوام کے سامنے لاکھڑاکرتے ہیں۔ان کی ڈراما نگاری کے سلسلے میں ڈراما کے مشہور ناقد ابراہیم یوسف رقم طراز ہیں:
’’کمال احمدبنیادی طورپرطنزنگارہیں۔ انھوں نے زندگی اورسماج میں بھری ہوئی تلخیوں کوبے نقاب کرنے کے لیے ڈراموں کو ذریعہ بنایا ہے۔ انھیں کردار نگارکی کا سلیقہ ہے اوراس سلیقہ کو انھوں نے اپنے ڈراموں میں بڑی خوبصورتی سے برتا ہے۔ انھوں نے اس ریشم کے دھاگے کو نہیں پکڑاجوخول پرچڑھاہوا ہے بلکہ اس کیڑے کی تلاش کی ہے جواس خول میں بندہے۔‘‘ 
ان الفاظ کے بعداب کمال احمدکے فن پرمزیدکچھ کہنے کی شایدضرورت نہ ہوکیوں کہ ابراہیم یوسف نے ان الفاظ میں کمال احمدکے پورے ڈرامائی سفرکوبیان کردیا ہے۔ کمال احمدکا تخلیقی سفرجاری ہے اوروہ نہایت ہی تیزی سے مختلف موضوعات پرڈراما لکھ رہے ہیں جواکثررسالوں واخباروں میں نظرآجاتے ہیں۔ ان دنوں انھوں نے نکڑناٹک کی جانب خاص توجہ مبذول کی ہے۔
کمال احمد کے ڈرامے کلکتہ میں مسلم اسٹی ٹیوٹ، مولانا آزاد کالج، کلامندر، گیان منچ وغیرہ کے اسٹیج پرخاصی مقبولیت حاصل کرنے کے بعداب مضافات کا سفرکررہے ہیں جن میں رانی گنج، آسنسول، بردوان، انڈال اورکلٹی خاص ہیں۔
***

Read 3674 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com