السبت, 01 حزيران/يونيو 2013 15:50

منٹو بحیثیت ڈراما نگار : شاہد اقبال‘ کولکاتا Featured

Rate this item
(1 Vote)

 منٹو بحیثیت ڈراما نگار

 شاہد اقبال‘ کولکاتا

 اردو نثر کی اگر بات کی جائے تو چند قدآور ناموں میں سے ایک سعادت حسن منٹو کا بھی ملے گا۔ اپنی زندگی کی صرف بیالیس ’بہاریں‘ یا ’خزائیں‘ دیکھنے والے اس فن کار کے فن میں حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ معنویت کا ایک جہاں آباد ہے ۔ منٹو اردو کے ان معدودے چند نثر نگاروں میں سے ہے جس نے جس کسی بھی صنفِ نثر پر قلم اٹھایا ‘ انصاف کیا۔ منٹو کی سلطنتِ نثر نگاری کی سرحدیں صرف افسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس احاطے میں خاکہ نگاری ، ڈراما نگاری ، مکتوب نگاری ، مضامین نویسی اور ترجمہ نگاری جیسے اصنافِ نثر بھی بخوبی ملتے ہیں۔ منٹو کے افسانوں میں جہاں ہمیں بیسویں صدی کے نصف اول کے قومی اور عالمی مسائل کا بھرپور اظہار ملتا ہے ‘ وہیں ان کے خاکوں سے ان کی ذاتی زندگی کے مصائب اور ذہنی اذیتوں کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ قاری غیر محسوس طریقے سے منٹو کی کشاکشِ حیات سے بھی واقف ہوجاتا ہے۔ 
دورِجدید میں اولین برقی ذرائع ابلاغ میں سے ریڈیو کو کافی اہمیت حاصل تھی۔ خصوصاً ٹیلی ویژن کی ایجاد سے قبل اور اس کے کچھ عرصے بعد بھی ریڈیو عوام الناس کے لیے تفریح کا بہترین ذریعہ تھا۔ ریڈیو کی نشریات میں مذہبی ، تعلیمی ، سماجی ، فلمی پروگرام بھی شامل تھے۔ فلموں کی ایجاد کے بعد بھی سنیما ہال کی کمی کے سبب عوام کی اکثریت اسٹیج کیے جانے والے ڈراموں سے ہی محظوظ ہوتی تھی۔ اس دلچسپی نے قلم کاروں کو ریڈیائی ڈرامے لکھنے پر راغب کیا۔ ریڈیائی ڈرامے کی ایجاد بیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی ۔ خصوصاً عالمی جنگوں کے بعد ریڈیو کے بڑھتے ہوئے امکانات کے دوران ریڈیائی ڈراموں کا نشریہ شروع ہوا۔ حالاں کہ ریڈیائی ڈراما سننے میں ابتداً بڑا عجیب لگا کیوں کہ ڈراما کے معنی ’’کر کے دکھائی ہوئی چیز‘‘ یا باالفاظِ دیگر کسی قصے یا واقعے کو کرداروں کے ذریعہ تماشائیوں کے روبرو پھر سے عملاً پیش کرنے کو ڈراما کہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ریڈیو جسے صرف ایک سمعی آلے کی حیثیت حاصل تھی اور ڈراماجس کا تعلق بصارت سے تھا ‘ کے انضمام سے پیدا ہونے چیزریڈیائی ڈراما بہرحال اجتماعِ ضدین ہی تھا ۔شروع میں تو لوگوں نے اسے ’’اندھوں کا ڈراما ‘‘ کے خطاب سے نوازا ‘مگر قلم کاروں نے اس صنفِ ادب کو سنبھالا دیا اور دھیرے دھیرے یہ مقبولیت کے مدارج طے کرنے لگی ۔ ہندستان میں سب سے قبل بمبئی ، کلکتہ ، دہلی اور مدراس میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ ان اسٹیشنوں سے تمام زبانوں کے قلم کاروں کی ایک بڑی تعداد منسلک تھی۔ ہندی میں رام کمار ورما اور دھرم ویر بھارتی، گجراتی میں سی سی مہتا اور شیو کمار جوشی ، بنگلہ میں بیریندر کرشن بھدرا ، تمل میں وی راؤ آئینگر اور کے وی جگن ناتھ وغیرہ ابتدائی دور کے ریڈیائی ڈراما نگار تھے۔ 
اردو میں ریڈیائی ڈراموں کی تاریخ کافی پرانی ہے۔اظہار اثر کی تحقیق کے مطابق اردو میں ریڈیائی ڈراموں کا سب سے پہلا مجموعہ کرشن چندر کا ’’دروازہ‘‘ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس کے بعد اردو کے بہتیرے قلم کاروں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ۔ اس ضمن میں کرشن چندر کے علاوہ چند اہم نام راجندر سنگھ بیدی ، اوپندر ناتھ اشک ، عصمت چغتائی ، امتیاز علی تاج، سیّد عابد علی عابد ، میرا جی ، عظیم بیگ چغتائی ، میرزا ادیب ، ابوسعید قریشی ، شوکت تھانوی ، ممتاز مفتی ، کرتار سنگھ دگل ، قرۃ العین حیدر ، قاضی عبد الستار ، محمد مجیب ، حبیب تنویر ، سردار جعفری ، خواجہ احمد عباس ، انتظار حسین ، ابراہیم جلیس اور سعادت حسن منٹو کے ہیں‘ جنھوں نے اس صنفِ ادب کی نشو و نما میں اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔ 
سعادت حسن منٹو اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ اردو ناقدوں نے افسانہ نگار منٹو سے کبھی بے اعتنائی نہیں برتی ۔گذشتہ نصف صدی کے دوران جو افسانہ نگار ناقدوں کی زد میں سب سے زیادہ آیا وہ بلاشبہ منٹو ہی ہے ۔ یہاں اس سے بحث نہیں ہے کہ ان تنقیدوں میں محاسن اور معائب میں سے کس کا حصہ زیادہ تھا ۔بہرکیف ناقدوں کے نزدیک افسانہ نگار منٹو کا فن عصری زندگی کے تیزی سے بدلتے منظر نامے میں زندہ جاوید کرداروں کا استعارہ ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا جس قدر بے باکی سے اظہار منٹو نے اظہار کیا ‘ ان کے ہم عصر اس معاملے میں ان سے بہت پیچھے رہ گئے۔ ان وجوہات نے ہی ناقدوں کو منٹو کے فن پر قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ مگر دوسری جانب منٹو نے جن دیگر اصنافِ نثر پر طبع آزمائی کی‘ نقادوں کی دلچسپی حیرت ناک طور پر ان میں نہیں ملتی ۔ محمد اسلم پرویز اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :
’’۔۔۔ حیرت ہوتی ہے کہ منٹو کے ایک ایک افسانے پر دس دس مضامین مل جاتے ہیں جب کہ منٹو کے ڈراموں پر جو اس وقت کسی بھی طرح افسانوں سے کم مقبول نہیں تھے ‘ایک ایسا مضمون ہمیں نہیں ملتا جسے قابلِ قدر تو جانے دیجیے قابلِ ذکر بھی کہا جاسکے سوائے ممتاز شیریں کے ، جنھوں نے منٹو کے ڈرامے ’’اس منجدھار میں ‘‘ کے حوالے سے منٹو کے آرٹ کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی وگرنہ ایمان کی تو بات یہ ہے کہ منٹو پرلکھی گئی بیشتر تنقید منٹو کے ڈراموں کے ذکر سے یکسر خالی ہے ۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ ڈراما نگار منٹو سے بے توجہی اصل میں افسانہ نگار منٹو کی مقبولیت اور شہرت کا شاخسانہ ہے یا پھر منٹو کے ڈرامے سچ مچ اتنے بے جان ، کم زور اور ناقص ہیں کہ اس پر کسی نوع کی سنجیدہ گفتگو ممکن نہیں۔‘‘
(مضمون ’’ منٹو کی ڈراما نگاری ‘‘ مطبوعہ ماہنامہ ’’آج کل ‘‘ نئی دہلی شمارہ )
اس اقتباس سے فاضل مضمون نگار کے تاسف کا اظہار ہوتا ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اسے ہمارے ناقدوں کی بے اعتنائی کہیے کہ انھوں نے ڈراما نگار منٹو پر توجہ نہیں دی یا ان کے نزدیک ریڈیائی ڈراموں کی ادب میں زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ منٹو نے افسانوں کی طرح ڈرامے بھی کافی تعداد میں لکھے۔ منٹو کے عرصۂ حیات کے ساتھ ساتھ ان کے فن کی عمر بھی کافی چھوٹی (تقریباً ۲۰؍ سال ) رہی مگر اس کم عرصے میں انھوں نے جو بلند پایہ شاہکار اردو ادب کو دے دیے ‘ اتنے کم عرصے میں یہ کام دوسروں سے نہیں ہوسکا۔ منٹو کے ریڈیائی ڈراموں کے کل سات مجموعے ’’آؤ ‘‘ ، ’’منٹو کے ڈرامے، ’’جنازے‘‘ ، ’’تین عورتیں‘‘ ، ’’افسانے اور ڈرامے‘‘ ، ’’کروٹ ‘‘ اور ’’تین تحفے‘‘ مرحلۂ اشاعت سے گزرے۔ ان میں شامل ڈراموں کی تعداد سو سے زائد ہی تھی ۔ حیرت اس بات پر ہوتی منٹو کے یہ تمام ریڈیائی ڈرامے صرف اس ڈیڑھ دو سالہ عرصے کے دوران لکھے گئے جو منٹو نے بحیثیت ریڈیو ملازم گذارا تھا۔ منٹو نے ۱۹۴۱ء میں آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت اختیار کی تھی اور ۱۹۴۳ء میں ن. م. راشد سے اختلافات کی بنا پر ملازمت چھوڑ بمبئی لوٹ آئے۔ منٹو کی سریع القلمی اور لکھنے کے تئیں بے چینی کے متعلق محمد اسلم پرویز نے لکھا ہے :
’’افسانوں کی طرح منٹو نے زیادہ تر ڈرامے ایک ہی نشست میں لکھے۔ جس طرح افسانہ لکھنے سے پہلے چند ساعت کے لیے وہ بے چین ہوتا تھا اسی طرح ڈراما شروع کرنے سے پہلے اس کے عنوان کے لیے پریشان رہتا ۔ ایک بار عنوان مل گیا تو تیزی سے ڈراما لکھ لیتا تھا۔ اپنے وقت کے اہم اور مقبول ڈرامے بھی منٹو نے اتنی ہی سہجتا اور casual انداز میں لکھے ہیں۔ ‘‘
(مضمون ’’ منٹو کی ڈراما نگاری ‘‘ مطبوعہ ماہنامہ ’’آج کل ‘‘ نئی دہلی شمارہ )
منٹو کی ڈراما نگاری کو بہتر طریقے سے جاننے کے لیے لازمی ہے کہ ان کے چند نمائندہ ڈراموں کا اجمالی جائزہ بھی لیا جائے ۔منٹو نے جو ریڈیائی ڈرامے تحریر کیے ‘ ان میں عوام کی پسند اور تفریح کا خاص خیال رکھا ۔ ان ڈراموں میں تکلیف دہ عناصراور مصائب کا بیان کم ہوتاتھا۔ کوشش اس بات کی کی جاتی تھی کہ ڈرامے کا اختتام مسرت آمیز ہو۔ اس بات کے لیے منٹو کے ایک ڈراما ’’محبت کی پیدائش‘‘ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ خالد اور حمیدہ اس ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں اور دونوں کالج میں ہم جماعت ہیں۔ خالد حمیدہ سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اور اس سے شادی کرنے کے لیے اپنے والدین کے ذریعہ پیغام بھیجتاہے۔ حمیدہ کے والدین کو بھی رشتہ منظور ہے مگر خود حمیدہ اس شادی کے خلاف ہے۔ جب خالد اس سے شادی نہیں کرنے کی وجہ دریافت کرتا ہے تو حمیدہ کہتی ہے کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی تاہم وہ اس کے علمی استعداد اور برد بادی کی قائل ہے۔ خالد کو اس بات سے سخت تکلیف پہنچتی ہے اوروہ حمیدہ کے غائبانے میں کالج میں شراب پی کر طوفانِ بدتمیزی برپاکرتا ہے جس کی پاداش میں پرنسپل اسے ایک سال کے لیے کالج سے Expel کردیتا ہے ۔ حمیدہ کو جب اس بات کا علم ہوتا ہے تووہ محسوس کرتی ہے کہ شاید یہ تمام کچھ اس کے شادی سے انکار کے سبب ہوا ہے ۔ خالد کے محاسن یکے بعد دیگرے اس پر ظاہر ہونے لگتے ہیں اور معائب پر پردہ پڑنے لگتا ہے ۔ وہ خالد سے مل کر دریافت کرتی ہے کہ اس نے کالج میں ایسی حرکت کیوں کی ۔ تو خالد جواب میں کہتا ہے کہ میں زہر پی کر خود کا خاتمہ نہیں کرسکتا تھا ‘ اس لیے اپنا غم غلط کرنے کی خاطر شراب پی۔ ڈرامے کا اقتباس ملاحظہ ہو جو خالد کی منطقی استدلال کا ایک عمدہ نمونہ ہے :
خالد : ۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتا ۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں مگر میں اس محبت کی شکست پر خود کو ہلاک کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ پرانے عاشقوں کا فلسفہ میری نگاہوں میں فرسودہ ہو چکا ہے ۔ جب تک میں زندہ رہ سکوں گا تمہاری محبت اپنے دل میں دبائے رہوں گا۔ تم میری آنکھوں کے سامنے رہو گی تومیرے زخم ہمیشہ ہرے رہیں گے۔ جب ایک روگ اپنی زندگی کو لگایا ہے تو کیوں نہ وہ عمر بھر تک ساتھ رہے ۔ تم مجھ سے محبت نہیں کرتیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی محبت کا گلا گھونٹ دوں۔ 
(ڈراما ’’محبت کی پیدائش ‘‘ ص۔۱۳)
اور پھر جب اس طویل مکالماتی گفتگو کے بعد حمیدہ خالد کو یہ بتاتی ہے کہ وہ بھی شادی کے لیے راضی ہے تو ڈراما اپنے خوش گوار اختتام کی جانب پہنچتا ہے ۔ چند چھوٹے مکالمے ملاحظہ فرمائیں جن سے خالد کی مسرت آمیز حیرت کا بخوبی اظہار ہوتا ہے :
حمیدہ : مجھے آپ سے شادی کرنا منظور ہے۔۔۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ کا ایک سال ضائع ہوگیا۔
خالد : ایک برس ضائع ہوگیا۔۔۔ میں تمھیں اپنا بنانے کے لیے اپنی زندگی کے سارے برس ۔۔۔ پر میں کیا سن رہا ہوں ؟
حمیدہ : اب میں جاتی ہوں۔ مجھے پرنسپل صاحب سے مل کر یہ کہنا ہے کہ میں اس سال امتحان میں شریک نہیں ہو رہی ہوں۔ 
اگلے برس ہم اکٹھے امتحان دیں گے۔ ‘‘
(ڈراما ’’محبت کی پیدائش ‘‘ ص۔۱۵ مجموعہ ’’کروٹ‘‘ ساقی بک ڈپو‘ دہلی )
محبت جیسے لطیف جذبے پر خامہ فرسائی کرنا آسان نہیں ۔ اور یہ جذبہ صرف دو مخالف جنسوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ماں اور بچے اور استاد و شاگرد کے تقدس آمیز رشتوں میں بھی ایک پاکیزہ محبت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ تاہم ہماری زندگی میں اکثر ایسے واقعات بھی پیش آتے جب یہ رشتے ہمیں بوجھ محسوس ہوتے ہیں ۔ ہمیں ایسا لگتا ہے گویا کوئی ہمارے اپنوں کو ہم سے چھین رہا ہو۔ حسد میں ہم اس قدر دیوانے ہوجاتے ہیں کہ دماغ میں صرف اور صرف منفی خیالات ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی جذبات اور رشتوں کا تانا بانا منٹو نے اپنے ڈرامے ’’مامتا کی چوری‘‘ میں کیا ہے۔ یہ ڈراما ایک رئیس خاتون اور اس کے بچے کی استانی کے گرد گھومتا ہے۔ رئیس خاتون مسز بھاٹیہ انتہائی درجے کی شکی ہے۔ جس کا اظہار ڈرامے میں اس کے پہلے مکالمے سے ہی ہوتا ہے :
مسز بھاٹیہ : تم یہ جھگڑا ہی ختم کیوں نہیں کردیتے۔ یہ نئی بلا جو تم نے پالی ہے اسی کے ہو رہو اور مجھے زہر دے کر ہلاک کردو۔ یہ روز روز کی کلکل تو ختم ہو۔ میرا تو اس گھر میں ہونا نہ ہونا برابر ہے ۔ یہ چپلا جب سے آئی ہے‘ ایسا جادو اس نے تم پرکیا ہے کہ میں کیا کہوں۔ اب تو گھر میں اسی کا راج ہے ۔ میں کون ۔۔۔ تین میں تیرہ میں سعی کی گرہ میں ۔۔۔تم تو خیر اس کے ہوہی گئے تھے ‘پر اس موئی نے تو میرے بچے پر بھی قبضہ جما لیا ہے ؟‘‘
(ڈراما’’ مامتا کی چوری ‘‘ )
مسز بھاٹیہ کو اس بات کا شک ہے کہ اس کے بچے گوپال کی استانی چپلا نے اپنے التفات سے نہ صرف اس کے بچے کو اُس سے دور کردیا ہے بلکہ اپنے حسن و ادا کے جال میں اس کے شوہر کو بھی پھانس لیا ہے ۔ بھاٹیہ کا بیٹا حالاں کہ سخت بیمار ہے اور کسی مہلک چھوت کے مرض میں مبتلا ہے ۔ اس کے باوجودوہ چپلا کو بہت برا بھلا کہتی ہے اور اسے اپنے گھر سے نکل جانے کو کہتی ہے جب کہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ گوپال کی تیمارداری کرنااس کے بس کی بات نہیں اور چپلا کے چلے جانے سے گوپال مر بھی سکتا ہے پھر بھی اس کی مامتا پر حسد حاوی ہوجاتی ہے ۔ جب مسٹر بھاٹیہ کو ان باتوں کا علم ہوتا ہے تو وہ مسز بھاٹیہ کو سخت سست کہتے ہیں۔ آخر میں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گوپال کے مرض کا چھوت چپلا کو بھی لگ جاتا ہے ۔ گوپال تو ٹھیک ہوجاتا ہے مگر چپلا موت کے منہ میں پہنچ جاتی ہے ۔ جب چپلا نزع کے عالم میں ہوتی ہے تومسز بھاٹیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ معافی مانگنے کے لیے اس کے پاس جاتی ہے ۔ آخری وقت میں چپلا اسے یہ بتاتی ہے کہ اس کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا جیسا اب مسز بھاٹیہ کے ساتھ ہورہا ہے ۔ اس نے بھی کبھی اپنے شوہر ‘ بچے اور اس کی استانی کے رشتے پر شک کیا تھا جس کی سزا اسے اب مل رہی ہے۔ یہ ایک طرح سے اس کے گناہوں کا ازالہ ہے اس لیے وہ خوش ہے ۔ ملاحظہ ہوں اس موقع پر ادا کیے گئے چند مکالمے جن میں منٹو کا فن اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے :
مسز بھاٹیہ : میں نے غلط فہمی میں تم سے کئی بار ایسی باتیں کیں جن سے یقیناًتمھیں بہت دکھ پہنچا ہے۔ اب میں سوچتی ہوں اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو میرے دل کی کیا حالت ہوتی ؟
چپلا : میری جگہ پر آپ ہوتیں تو یہ حالات نہ ہوتے۔ لیکن آپ میری جگہ پر کیوں ہوتیں؟ ہر ایک آدمی کے لیے ایک جگہ مقرر ہے ۔ میرے لیے یہی جگہ مقرر تھی جہاں آ کر مجھے اپنی زندگی کے سب سے بڑے پاپ کا پرائشچت کرنا تھا ۔
مسز بھاٹیہ: پاپ ۔۔۔ پرائشچت۔۔۔؟
چپلا : میں اب سوچتی ہوں کہ اگر یہاں سے میں اس روز چلی جاتی تو میرے من کی من ہی میں رہ جاتی ۔ کوئی زمانہ تھا کہ میں بھی آپ ہی کی طرح تھی ۔ میرا پتی تھا جو آپ کے پتی کی طرح بڑا شریف کاروباری آدمی تھا۔ مگر میری حاسد اور بات بات پر شک کرنے والی طبیعت کا برا ہو کہ میں نے اس کو ہمیشہ پریشان رکھا۔ وہ جی ہی جی میں کڑھتا تھا۔ میں ہر گھڑی اس کو جلی کٹی سناتی مگر وہ چپ رہتا ۔ اس کو خاموش دیکھ کر میں سمجھتی چوں کہ یہ مجرم ہے اس لیے کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی ۔۔۔
مسز بھاٹیہ: یہ تو میری ہی کہانی ہے ۔۔۔
چپلا : گوپال جیسا میرا بھی ایک بچہ تھا اور میری طرح اس کی بھی ایک استانی تھی جس پر میں شک کرتی۔کئی جھگڑے ہوئے۔ میں نے اپنے پتی اور اپنی دونوں کی زندگی کو نرک بنا دیا تھا۔۔۔ اور ۔۔۔اور اس کا انجام یہ ہوا کہ میں اس معصوم عورت نے جو میرے بچے کو مجھ سے زیادہ عزیز سمجھتی تھی کچھ کھالیا اور مر گئی ۔ اور اس کے بعد بھونچال آیا اور بچہ اور اس کا باپ دونوں ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہوگئے۔ ‘‘
اس ڈرامے کی قرات کے دوران ہمارا ذہن پریم چند کی مشہور کہانی ’’حجِ اکبر‘‘ اور اس کے کرداروں صابر ، شاکرہ ، عباسی اور نصیر کی طرف بھی کچھ دیر کے لیے چلا جاتا ہے مگر دونوں میں فرق اتنا ہے کہ ’’حجِ اکبر‘‘ میں شاکرہ کو عباسی کی جانب سے صرف یہ ڈر تھا کہ وہ اس سے اس کا بچہ چھین لے رہی ہے جب کہ اس کے برخلاف ’’مامتا کی چوری‘‘ میں شک کی سوئی شوہر اور استانی کے رشتے کی طرف بھی گھوم جاتی ہے ۔ منٹو کے اس ڈرامے میں جذبات و رشتوں کی کامیاب عکاسی کی گئی ہے جسے برتنا منٹو جیسے عظیم المرتبت فن کار کا ہی خاصہ ہے ۔ اپنی بات کا اختتام محمد اسلم پرویز کی ان سطور کے ساتھ کرتا ہوں جو منٹو کی ڈراما نگار کی عظمت پر دال ہیں :
’’منٹو کے یہ ڈرامے کوئی عظیم ڈرامے نہیں ہیں مگر عظمت کی پرچھائیاں ان پر جا بجا ملتی ہیں کہ یہ ایک عظیم فن کار کے قلم سے لکھے گئے ہیں اور انھیں ہم وقتی ، صحافتی اور ہنگامی کہہ کر discard نہیں کرسکتے کیوں کہ کم زور سے کم زور ڈرامے کے پیچھے سعادت حسن منٹو کی روح محفوظ ہے ۔ ایک ایسے جینیس کی روح جس نے اپنے متعلق بجا دعویٰ کیا تھا کہ ’’میں ایک سطر بھی لکھ دوں ‘ وہ آرٹ ہے ۔ ‘‘

***

Read 4336 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com