السبت, 01 حزيران/يونيو 2013 16:19

جیلانی بانو کا افسانہ ’’عباس نے کہا‘‘ : ڈاکٹر نعیم انیس ۔۔۔۔۔۔۔ صدر شعبۂ اردو‘ کلکتہ گرلس کالج Featured

Rate this item
(0 votes)

 جیلانی بانو کا افسانہ ’’عباس نے کہا‘‘

 ڈاکٹر نعیم انیس
 صدر‘ شعبۂ اردو‘ کلکتہ گرلس کالج 

 اردو افسانہ نگاری کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اس کے ابتدائی دور میں ہرچند کہ مرد ادیبوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے نمونے پیش کر کے صنف افسانہ کو فروغ اور وسعت دینے کا فریضہ انجام دیالیکن ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ مرد ادیبوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اس میدان میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ادب ہو یا سماج ، یہاں ہمیشہ سے مرد کا پلہ بھاری رہا ہے اور عورتوں کی صلاحیتوں کو وہ مقام دینے سے گریز کیا جاتا رہا ہے جس کی وہ صحیح معنوں میں مستحق ہیں۔ اپنے ساتھ کی جانے والی اس حق تلفی کے باوجود ادب ہو یا سماج یا ہماری زندگی سے وابستہ کسی بھی شعبے کا ذکر کیا جائے تو ہر جگہ ایک خاصی تعداد ایسی خواتین کی نظر آتی ہے جنھوں نے اپنی محنت صلاحیت اور تخلیقی جوہر کے بل پر منفرد شناخت قائم کرکے اپنی حقیقت منوالی ہے ۔
جب ہم اردو میں افسانوی ادب کے ارتقائی دور کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ خواتین نے بھی اس میدان میں اپنے جذبات و احساسات کے علاوہ گردوپیش کے ماحول اور اس ماحول میں رہنے والوں کے مسائل کو نہایت سلیقے سے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے ۔ ویسے تو اردو ادب کے منظرنامے پر خواتین انیسویں صدی میں ہی نظر آنے لگی تھیں‘ لیکن بیسویں صدی میں اردو افسانے کے افق پر ایسی خواتین کے نام تیزی سے ابھرے جنھوں نے اپنے فن کے ذریعہ نئے اور اچھوتے موضوع کو اظہار کا ذریعہ بنا کر افسانوی ادب میں خاص اضافے کیے۔ ان میں جیلانی بانو کا نام اہم ہے۔ 
جیلانی بانو عہدِ حاضر میں اردو کے افسانوی ادب کا وہ معتبر اور باوقار نام ہے جس نے اپنی فنی عظمتوں کا اعتراف اپنے پہلے افسانے ہی سے کرالیا تھا۔ جیلانی بانو نے اپنی ادبی سفر کے آغاز کے بعد پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھااور مسلسل تخلیقی کام سے منسلک رہیں ۔ آج ان کا نام ادب کے میدان میں بین اقوامی سطح شہرت کا حامل ہے اور وہ ایک کامیاب افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے اپنی انفرادیت ثابت کرچکی ہیں۔
جیلانی بانو نے 2002ء میں ایک افسانہ لکھا تھا جس کا عنوان ہے ’’عباس نے کہا ‘‘ جسے صلاح الدین پرویز نے ادبی جریدے’’استعارہ ‘‘ میں شائع کیا۔ یہ افسانہ عراق پر ہونے والی جنگ میں امریکہ کی بربریت کی کہانی سناتا ہے۔ اس میں انھوں نے امریکہ کے جابرانہ رویے ، عراق پر اس کے پے در پے حملے اور دہشت و تباہی کی حقیقی تصویریں نہایت فن کارانہ انداز میں پیش کی ہیں۔ عراق میں ہونے والی جنگ انسانی ظلم و بربریت کی ایک ایسی لرزہ خیز داستان ہے جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دل خراش آہوں، سسکیوں اور قتل و غارت گری کی وہ ساری تصویریں زندہ ہوجاتی ہیں جو امریکہ کے اشارے پر عراق کے چپے چپے کی بے بسی کی داستانیں سناتی ہیں۔ وہ ستم زدہ داستانیں جو سفید حویلی میں مقیم اربابِ اقتدار کے اشارے پر رقم کی گئیں اور اپنی رعونت اورگھمنڈ کی تسکین کا سامان فراہم کیا۔ 
جیلانی بانو نے اس جنگ کا پس منظر اور اس میں شریک ہم نوا ممالک کے سربراہان کی حد درجہ بے حسی کا کھلا اظہار طنز کے پیرائے میں اپنے اس افسانے میں کیا ہے۔ عراق کے خلاف فضا ہموار کر کے جنگ کا بگل بجانا تو ایک بہانہ تھا ۔ اس کے پس پردہ امریکی حکام نے عالمی منڈی سے تجارت کے در کھول کر اپنی تجوریاں بھرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ سے پہلے ہی ذہنی طور پر امریکہ کے غلام ممالک مختلف کاموں کے ٹنڈر حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ گئے تھے ۔ اس شرم ناک عمل کو جیلانی بانو نے اپنے افسانے میں یوں پیش کیا ہے :
’’اس یدھ کے بعد عراق کی تعمیرِ نو کے ٹھیکے حاصل کرنے کی دوڑ ساری دنیا کے بازاروں اور امریکہ کی تجارتی منڈیوں میں شروع ہو چکی ہے۔ 
امریکی گورنمنٹ ساری دنیا کی مارکیٹ سے ٹنڈر طلب کر رہی ہے ۔ تیل کے چشمے کون جلائے گا ۔۔۔؟ تیل کے ان چشموں کی آگ بجھانے کا کنٹریکٹ کسے ملے گا۔۔۔ ؟ ایئر پورٹ اور بندرگاہوں کو کیسے تباہ کیا جائے گا ۔۔۔؟ ان ٹھیکوں کے حق دار صرف وہی ملک ہوں گے جو عراق کو تباہ کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیں گے۔ ‘‘
(’’عباس نے کہا ‘‘ جیلانی بانو ’’ استعارہ ‘‘ جولائی تا دسمبر 2002ء مدیر : صلاح الدین پرویز ص113-)
اس افسانے کو انھوں نے مختلف نیوز چینل کی خبروں اور ان کے نمائندوں کے تاثرات کی بنیاد پر لکھا ہے اور اس میں اپنے جذبہ احساس نیز عالمی سطح پر ہونے والے عمل اور ردِ عمل کو بھی بیان کیا ہے ۔ اس جنگ سے پورے عالم میں ہلچل مچ گئی تھی۔ لوگ کام پر نہیں گئے۔ عورتوں نے ساس بہو والی لڑائی کے سیریل نہیں دیکھے ۔بچے اسکول نہیں گئے۔ کارٹون نیٹ ورک اور پوگو کی بجائے سب عراق پر بمباری کے بعد انسانی جسم کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں اور جلتے ہوئے شہروں کا تماشہ دیکھتے رہے۔
جیلانی بانو نے اس میں سعودی عرب ، کویت اورایران کے شاہوں پر طنز کے نشتر چبھوئے ہیں۔ 
’’ اب آپ سی این این سے وصول ہونے والا ایک وشیش چتر دیکھیے۔ سعودی عرب ، کویت اور ایران کے ملکوں کے شاہوں نے اس یدھ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایسے شاندار محل بنائے ہیں جن پر کسی میزائل کا اثر نہیں ہوتا ۔ ان محلوں میں دنیا کی ہر آسائش ہے۔ تمام شاہ اور شاہ بچے ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھے ہیں اور عراق کی مقدس مذہبی عمارتوں، میوزیم، لائبریری اور کربلا پر بمباری کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ ان شاہوں نے طے کر لیا ہے وہ اس یدھ کے خلاف کچھ نہ بولیں گے۔ مگر اس یدھ میں لڑنے والے بہادر سپاہیوں کے سر پر دستارِ فضیلت رکھیں گے ۔ اس کے لیے ان جاں باز سپاہیوں کو حضور کے آگے سر جھکانے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ حضور کے آگے ان سپاہیوں کے صرف سر لائے جائیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمیشہ بادشاہوں نے اس طرح فن کاروں ، ادیبوں اور بہادر سپاہیوں کو نوازا ہے۔‘‘
(’’عباس نے کہا ‘‘ جیلانی بانو ’’ استعارہ ‘‘ جولائی تا دسمبر 2002ء 
مدیر : صلاح الدین پرویز ص113-)
امریکی بمباری سے نجف میں ہر طرف دھواں اور آگ ہے ۔ لوگ یا علی یا مولاعلی مشکل کشا سے مدد مانگ رہے ہیں ۔ اپنے پاس بلانے اور اپنے سائے میں لینے کی التجا کر رہے ہیں ۔ حضرت علیؓ کے مزار کی دیواریں بم کے دھماکوں سے ٹوٹ رہی ہیں ۔ بش کی فوج نے عراق کی درس گاہوں ، لائبریریوں ، میوزیم اور مقدس مقامات پر آگ برسائی ہے جہاں اسلامی تاریخ و تہذیب بندہے ۔ یہاں بمباری کا مقصد یہ تھا کہ اب حضرت علیؓ ، امام حسینؓ اور اپنے اسلاف کے کارنامے پڑھنے سے عراق کے بچے محروم ہوجائیں کیوں کہ پھر حسین ، علی اور عباس جیسے بچے کی پیدائش کا کوئی ڈر نہیں رہے گا ۔ امریکیوں کے نزدیک جانوروں کی جان کی اہمیت تو ہے مگر انسانوں کی جان کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب سمندر میں تیل پھیلنے سے بحری پرندے بیمار ہو نے لگے تو پوری امریکی فوج غم زدہ ہوگئی تو پھر ان پرندوں پر لاکھوں روپئے خرچ کر کے انھیں زندگی کی طرف موڑا گیا ۔ عراق کی بمباری سے ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر میں لوگ اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔ عورتیں آہ و بکا کر رہی ہیں ۔ ان ہی میں ایک عورت جس نے کالی چادر اوڑھ رکھی ہے اس کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ ہے ۔ وہ ادھر سے ادھر بھاگ رہی ہے ،رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ عباس تو کہاں ہے بیٹے ، مجھے پیاس لگی ہے ۔ میرا بچہ پیاسا ہے اور جب ایک ٹی وی چینل کا نمائندہ اس سے پوچھتا ہے کہ تم کون ہو ؟ اپنا نام بتاؤ۔ تو وہ عورت اپنا سر اونچا کر کے کہتی ہے :
’’ میں اس زمین کی ماں ہوں جہاں غرور کا ہر شیشہ شکستہ ہوا ہے ۔ ‘‘
پھر وہ اپنی گود کے بچے کا سر اونچا کر کے اس سے کہتی ہے ۔ 
’’دیکھ ۔۔۔ دیکھ میرے بیٹے ۔۔۔ اوپر کی طرف دیکھ ۔۔۔ تیرا بھائی 
عباس اب پانی کی مشک لے کر آئے گا ۔ جب بھی دشمن ہمیں مارنے آئے ہیں عباس اپنی مشک میں پانی بھر کے زخمیوں کو پلاتا ہے ۔‘‘ 
(’’عباس نے کہا ‘‘ جیلانی بانو ’’ استعارہ ‘‘ جولائی تا دسمبر 2002ء مدیر : صلاح الدین پرویز ص117-)
دریائے فرات کے کنارے بمباری سے تباہ ہونے والے بغداد میں ہر طرف آگ لگی ہے ۔ لاشیں ہیں ۔ مکانات گر کے زمین بوس ہوگئے ہیں اور ان ٹوٹی ہوئی عمارتوں کے نیچے جو لوگ زخمی ہوکے زندہ ہیں انھیں امریکی فوج کی لاریاں اٹھائے لے جارہی ہیں ۔ ان ہی زخمی لوگوں کے درمیان سے ایک بچے کے رونے کی آواز آرہی ہے ۔ اس بچے کی عمر دس گیارہ برس کی ہے ۔ نیوز چینل کے نمائندے کو اس زخمی بچے تک پہنچنے کے لیے کتنی لاشوں کو پھلانگنا پڑتا ہے ۔ ہر طرف خون بہہ رہا ہے ۔ بچہ زخموں سے بلک رہا ہے ۔ اس کا نام علی اسمٰعیل عباس ہے جس کے دونوں ہاتھ تن سے جدا ہو چکے ہیں ۔ جیلانی بانو نے اس بچے کے ذریعہ افسانے کو اختتام تک جس طرح پہنچایا ہے وہ نہ صرف ہمیں چونکا دیتا ہے بلکہ ہم عباس کی عظمت اور بہادری کے دل سے معترف ہوجاتے ہیں۔
’’وہ زور زور سے چلا رہا ہے ۔ 
’’میرے ماں باپ کو بش نے مار ڈالا۔ میرے دونوں ہاتھ کٹ گئے ۔ اب میں پیاسے زخمیوں کو پانی کیسے پلاؤں گا ۔ میری ماں میرا انتظار کر رہی ہوگی ۔ ‘‘
’’تم ٹھیک ہوجاؤ گے عباس ۔‘‘ وہ فوجی بچے کو تسلی دے رہا ہے ۔ ’’ہم تمھیں امریکہ بھیج رہے ہیں ۔ وہاں تمھارا علاج ہوگا۔ تمھیں ہاتھ پھر مل جائیں گے۔ ‘‘
’’نہیں ‘‘ عباس نے غصہ میں فوجی سے کہا ۔ 
’’مجھے امریکہ کے ہاتھ نہیں چاہیے ۔ ‘‘ وہ نفرت سے پاؤں پٹکنے لگا ۔ 
’’میں امریکہ نہیں جاؤں گا ۔ مجھے تو امریکہ سے لڑنا ہے ۔ عرا ق کے پیاسے سپاہیوں کو پانی پلانا ہے ۔ ‘‘
’’مگر تمھارے ہاتھ کٹ گئے ہیں عباس ۔تم کیسے لڑو گے ؟‘‘
خون میں ڈوبا ہوا عباس لڑکھڑا تا ہوا اٹھ کر کھڑا ہوا اور غصہ میں چلا کر بولا ۔ 
’’بش نے میرے ہاتھ کاٹ دیے مگر میں اسے لات مار سکتا ہوں ۔‘‘ 
(’’عباس نے کہا ‘‘ جیلانی بانو ’’ استعارہ ‘‘ جولائی تا دسمبر 2002ء 
مدیر : صلاح الدین پرویز ص113-)
جیلانی بانو کا یہ افسانہ بش کے ساتھ ہونے والے حالیہ واقعات کا عکس نظر آتا ہے کہ اسی سرزمین بغداد سے جہاں عباس نے بش کو لات مارنے کی بات کہی تھی وہیں سے ایک باہمت اور پرعزم صحافی منتظر الزیدی نے بھری محفل میں بش پر جوتا پھینک کر زندگی بھر کے لیے اس کے گلے میں لعنت و ملامت کا طوق ڈال دیا ۔ جیلانی بانو نے اس افسانے کے حوالے سے ذاتی ملاقات میں کہا کہ عباس اس صحافی کی شکل میں بڑا ہوگیا ہے ۔ عباس کو اپنے خواب کی تعبیر مل گئی ہے ۔ 
جیلانی بانو نے افسانوں میں اپنے ماحول کے گرد و پیش کی زندگی اور اس زندگی سے وابستہ شب و روز کے مسائل کو ایمان داری کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ ان کے افسانے ان معنوں میں انفرادی اہمیت کے حامل ہیں کہ اس میں ماضی ، حال اور مستقبل کے اشارے بھی واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ اردو کے نسائی ادب میں وہ فکشن کے حوالے سے بہت بلند مقام پر نظر آتی ہیں اور یہ مقام انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل پر حامل کیا ہے ۔

Read 3050 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com