دلاور علی آزر کی شاعری : ایک جہانِ حیرت
ابرار مجیب
جمشیدپور ، انڈیا
شاعری جہانِ حیرت کی تخلیق کا نام ہے۔ یہ جہانِ حیرت کیا ہے ؟ انسانی سطح پر شاعر کے تجربات و مشاہدات وہی ہیں جو ایک عام آدمی کے ہیں، وہ اسی دنیا میں سانس لیتا ہے ، آفتاب کے طلو ع و غروب کا نظارہ کرتا ہے۔ چاند کی ٹھندی کر نو ں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ندیوں کی روانی اور ہو ا کی اٹھکھیلیاں ، زندگی کے سرد و گرم ، خوبصورتی اور بدصورتی، نفرت اور محبت ، موت و حیات کی کشمکش یہ سب کچھ کسی شاعر کے تجربات و مشاہدات کا بھی حصہ ہوتے ہیں ۔ آخر یہ تجربات و مشاہدات کس طرح ایک جہانِ حیرت میں ڈھل جاتے ہیں جب شاعری کی صورت اپنی جلوہ گری دکھاتے ہیں؟ کس طرح ہمیں ایک شعر اس محسوس دنیا سے نکا ل کر ایک ماوئرائی کائنات کی سرحدو ں میں داخل کر دیتا ہے۔ ایک ایسے تجربے سے گزارتا ہے جو نہ صر ف یہ کہ حیرتناک ہے ، پراسرار اور تفہیم کی اقلیم سے باہر بلکہ ہماری بصیرت اور بصارت پر ایک سوالیہ نشان لگاتا ہوا ہمیں اس چھوتھے کھونٹ میں داخل کردیتا ہے جو ہمارے لئے بالکل ایک نئی جہت ہوتی ہے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی محض اس جہانِ رنگ و بو تک محدود نہیں بقول آزر زمیں کی تہہ سے نیا آسماں نکلتا ہے۔ شعر دیکھیں:
میں اپنی جستجو میں یہاں تک پہنچ گیا
اب آئینہ ہی رہ گیا ہے درمیان میں
کس کے درمیان ہے یہ آئینہ؟ وہ کون سی جستجو ہے جس نے شاعر کو یہاں تک پہنچا دیا؟ ایک اسرار ہے اس شعر میں جو اسرار بھی ہے ، اور اس اسرار سے اٹھتے ہوئے پردے کا نظارہ بھی۔ یہی وہ دنیا ہے جو تمام حقیقتوں میں سب سے بڑی حقیت ہے اور خود اس حقیقت کا التباس بھی۔ دلاور علی آزر کی شاعری حقیقت اور اس کے التباس کی آمیزش سے خلق کردہ ایک جہانِ حیرت ہے۔
اس قبیلے میں کوئی عشق سے واقف ہی نہیں
لوگ ہنستے ہیں مری چاک گریبانی پر
غزل کی روایت عشق اور اس سے ہم آہنگ واقعات و حادثات کے سلسلے سے وابستہ ہے۔ ’’ مضمون‘‘ جو کہ مشرقی شعریات کا بنیادی وصف ہے، شعری تجربے کے ایک نامختتم سلسلے کی عظیم داستان ہے۔ عشق شعری واردات میں تجرباتی سطح پر عہد بہ عہد اپنی صورت بدلتا رہا ہے ۔ اوپر جو شعر پیش کیا گیا ہے، ہمارے عہد کے ابھرتے ہوئے شاعر دلاور علی آزر کے مجموعہٗ کلام ’’پانی‘‘ کی ایک غزل سے ماخوذ ہے۔ یہ شعر وارداتِ عشق کو ایک بالکل مختلف تنا ظر میں پیش کرتا ہے۔ یہ لفظ کو مابعد الطبعیاتی تجربے میں ڈھالنے کا ہنر ہے لیکن یہ مابعد الطبیعات محض ایک غیر ارضی تجربہ نہیں ہے بلکہ انسانی فکر ومشاہدہ کی فلسفیانہ تاویل سے اس گہرا رشتہ ہے۔ عشق جب زندگی اور موت کی کش مکش میں ڈھل کر روحانی واردات بن جاتا ہے تو ارضی مابعد الطبیعاتی تجربے کا ظہور ہوتا ہے۔ دلاور علی آزر کی شاعری میں الفاظ کا معنوی نظام اسی ارضی وابستگی اور ما بعد الطبیعاتی فکر کی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔ چند اشعار دیکھئیے ع
درونِ خواب نیا اک جہاں نکلتا ہے
زمیں کی تہہ سے کوئی آسماں نکلتا ہے
بھلا نظر میں بھی وہ آئے تو کس طرح آئے
مرا ستارہ پسِ کہکشاں نکلتا ہے
بدن کو چھوڑ ہی جانا ہے روح نے آزر
ہراک چراغ سے آخر دھواں نکلتا ہے
دلاور علی آزر کی غزل کے یہ اشعار اور ان میں الفاظ و تراکیب کی دروبست اور ان کی معنویت پر غور کریں تو کوئی حیرانی سی حیرانی والی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ درونِ خواب۔۔۔۔۔ نیا جہاں۔۔۔۔ زمیں کی تہہ سے نکلتا آسماں۔۔۔ ستارہ پسِ کہکشاں نکلتا ہے۔۔۔۔ روح کا خروج، جیسے بجھتے چراغ کا دھواں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں الفاظ کو جس ترتیب سے میں نے پیش کیا ہے، معنویت کی انتہائی بلیغ سطح کا اظہار خود بخود ہوجاتا ہے۔ لیکن ارضی تجربات و مشاہدات کا مابعدا لطیعاتی منظر نامہ یہیں تک محدود نہیں۔شعری تجربے میں درونِ خواب ایک نئے جہان کی بازیافت جمالیاتی احساس کی ایک نہج ہے، لیکن جدید کائناتی علوم نے اسے ایک سائنسی حقیقت بھی بنادیا ہے۔ زمیں کی تہہ سے نئے آسماں کا نکلنا فلسفیانہ پس منظر میں وجود کا اثبات اور شکست و ریخت کی نفی ہے۔ زندگی کی معنویت اور امید ، اک نئے جہان کی بشارت ہے لیکن اس کی ایک دوسری نہیج جدید کاسمو لوجیکل ریسرچ کی روشنی میں ایک حقیقت کا حیرت انگیز انکشاف بھی ہے، اسی لئے میں دلاور علی آزر کی شعری کائنات کو ارضی مابعدالطبعیات سے منسوب کرتا ہوں۔ چند اشعار دیکھئے ع۔
چاروں سمتوں میں کوئی شئے بھی اگر ہے موجود
اس نے وہ لا کے گرانی ہے مرے کوزے میں
میں اپنی جستجو میں یہاں تک پہنچ گیا
اب آئینہ ہی رہ گیا ہے درمیان میں
منظر بھٹک رہے ہیں دروبام کے قریب
میں سورہا تھا خواب کے پچھلے مکان میں
لاکھ ترتیب کئے جاتے ہوں مٹی سے چراغ
کوزہ گر مان یہ گارہ نہیں روشن ہونا
اردو غزل کو بعض شدت پسند ناقدین نے اس لئے معتوب قرار دیا کہ غزل میں فکری تسلسل کا فقدان ہوتا ہے۔ فکر میں کوئی ارتقائی آہنگ نہ ہونے کی وجہہ سے غزل وحشت کا سماں پیش کرتی ہے، غزل کی معنویت کا تعین ممکن نہیں لیکن جدید تھیوری نے ان اعتراضات کی قلعی کھول دی ہے کہ معنی کی تجسیم کل میں نہیں جز میں ہوتی ہے۔ جیسے جوہر کا وجود مرکزہ کے وجود سے ہم آہنگ ہے اور مرکزہ کا انتشار توانائی کے اخراج کی صورت ظہور پذیر ہوتا ہے، یہی توانائی شعر کی اکائی میں معنویت کی حامل ہے۔ دلاور علی آزر غزل کی کلاسیکی روایت کے عین مطابق کل سے جز کی طرف سفر کرتے ہیں اور اشعار میں معنویت کی توانائی کو خلق کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ جہانِ آبِ گلِ اور سماوی مابعدالطیعاتی تجربات سے گزر کر تخئیل اور حقیقت کی آمیزش سے ایک ایسا جہان وجود میں لاتے ہیں جو معنی سطح پر جوہر کے مرکزہ کے مشابہ ہے اور پھر یہ مرکزہ بھی تحلیل ہوکر معنی کے فشار کی صورت نمو پذیر ہوتا ہے۔
اک لہر یہاں آتی ہے نیندوں کے سفر پر
اور خواب اترتا ہے سفینے سے ہمارا
سوچا ہے کہ دریافت کریں گے نئی دنیا
جی اوبھ گیا قصد میں جینے سے ہمارا
اک دن جو یونہی پردہٗ افلاک اٹھایا
برپا تھا تماشا کوئی تنہائی سے آگے
دلاور علی آزر کے یہاں عشق ایک بالکل مختلف سطح پر نظر آتا ہے۔ عشق کا مفہوم بے حد وسیع ہے۔ یہاں عشق محبوب کی دلجوئی کی بجائے محبوب سے بے نیازی کی کیفیت کا بیان ہے۔ دلاور علی آزر عشق کو ارضی واردات کی پناہوں سے نکال کر ایک کائناتی حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔ عاشق ومعشوق کا روایتی تصور دلاور کی شاعری میں منہدم ہوتا نظر آتا ہے۔ دلاور علی آزر کا معشوق لاموجود ہے، اور شاعر کا عشق ما بعد الطبیعاتی تجربے کی وہ انتہا ہے کہ لاموجود ، موجود نظر آتا ہے۔ ان اشعار میں تخئیل کی تجسیم اور فکری ماوٗرائیت ایک ٹھوس شکل اختیار کرتی نظر آتی ہے جیسے مصور نے تخئیل کو ہو بہو پینٹ کردیا ہو۔ لیکن ماوٗرائی تخئیل کا اسرار ہرگز فنا نہیں ہوتا۔ نامعلوم معلوم کی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے اور حقیقت اور فسانے کی تفریق ناممکن ہوجاتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔ ع
سب دیکھ رہی تھی پسِ دیوار وہ جو کچھ
تھی چشمِ تما شائی تما شا ئی سے آگے
ہوتی ہے نیند میں کہیں تشکیل خد وخال
اٹھتا ہوں اپنے خواب کا چہرہ اٹھا کے میں
اور کہاں خاک مری خاک سے نکلا ہوگا
کچھ گماں ہے بھی تو ادراک سے نکلا ہوگا
ایک لمحے کے لئے تنہا نہیں ہونے دیتا
خود کو اپنے ساتھ رکھا جس جہاں کی سیر کی
دلاور علی آزر کے مجموعہ کلام ’’پانی‘‘ کی معنویت پر جب میں نے غور کیا تو فورا’’ زندگی کا خیال آیا کہ پانی اور زندگی لازم ملزوم ہیں۔ عہد نامہ عتیق تخلیق سے قبل خدا پانیوں پر سانس لیتا تھا، جدید سائنس نے کہا کہ زندگی کی تخلیق پانی کی رہین منت ہے یعنی پانی زندگی ہے۔ پانی جس کا رنگ ہے نہ روپ، چاہے جس رنگ میں رنگ لو، جس روپ میں ڈھال لو۔ دلاور علی کی شاعری بھی پانی کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے، جدید تنقیدی افکار کی روشنی میں معنی کوئی جامد شئے نہیں ہے بلکہ سیال ہے، اچھے شعر کی اور خوبیوں کے علاوہ ایک خوبی یہ بھی ہے وہ معنوی سطح پر تکثیری مزاج رکھتا ہو۔ معنی کا ادراک بھی ان الفاظ سے نہ ہو جو شاعر نے لکھے ہیں بلکہ شاعر کی عظمت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ معنی کی کائنات کو ان خلاٗ میں روشن کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے یا نہیں جسے بین السطور کہتے ہیں۔ شعر کے ان کہے اسپیس میں معنی کی بنت کاری ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں یہ وہی کرسکتا ہے جس نے شاعری کے دشت کی سیاحی میں دماغ کا تیل اور جگر کا خون جلایا ہو۔ اس پس منظر میں دلاور علی آزر کے یہاں بین السطور موجود معنوی کائنات ایک جھلک مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھیں۔ع۔
میں ازل سے جل رہا ہوں از سرِ طاقِ ابد
اور بدن کی داستاں تک آگ روشن ہے مری
پاوٗں کے نیچے تھی زمین ابھی
آسماں بھی یہیں کہیں پر تھا
پاوٗں رکھتا ہوا ستاروں پر
میں پسِ کہکشاں چلا جاوٗں
زمیں سے کوئی تعلق نہ آسمان سے ہے
مرا خمیر کسی تیسرے جہان سے ہے
کس نے بدن کے طاقچے کو رنگ بخشا سرمئی
کون صحرا کو سنہرے سائباں تک لے گیا
خام لفظوں سے میں یہ تصویر بنا سکتا ہوں
عین ممکن ہے مجھے مصرعہٗ تر مل جائے
آئیے دلاور علی آزر کے خلق کردہ جہان حیرت کے ایک اور در کو وا کریں جہاں خواب بستے ہیں۔ خواب آزر کی شاعری میں ایک کلیدی لفظ ہے جو تواتر کے ساتھ آتا ہے۔ نفیساتی تجزیہ کی رو سے خواب دیکھنے کا عمل نیند سے فرار کی صورت ہے۔ یعنی مکمل نیند جسے عرصہٗ غفلت بھی کہتے ہیں خواب سے لاتعلق ہوتی ہے، خواب شعور اور لاشعور کے بین بین ہے، اور اسی نیم بیداری میں خواب کا نزول ہوتا ہے، شعور خواب سے برسر پیکار بیدار ہوتا ہے۔ دلاور کی شاعری میں خواب کوئی ناسٹلجیا نہیں ہے جو تاریخ کے نہاں خانوں سے نکل ذہن پر سوار ہوجائے۔ ماضی کے بوسیدہ محل سے نکل کر زہن کو غنودگی کے عالم میں بے دست وپا کرنے والے خواب موجود کی نفی کا اعلامیہ ہوتے ہیں۔ پانی کو زندگی کا استعارہ قرار دینے والا شاعر ایسے خواب نہیں دیکھتا۔ قابل غور بات یہ ہے دلاور علی آزر کی شاعری میں متواتر خواب کا ذکر کیوں ہے؟ کیا یہ عصر حاضر کے مسخ شدہ چہرے، آگ وخون کے خوفناک مناظر اور زندگی کی بے اعتباری ، مکروفریب کے جنگل سے گزرتے ہوئے ایک نئی صبح کے امکان کے خواب ہیں۔ ان اشعار سے ان سوالات کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ ع
درونِ خواب نیا اک جہاں نکلتا ہے
زمیں کی تہہ سے کوئی آسماں نکلتا ہے
اک لہر یہاں آتی ہے نیندوں کے سفر پر
اور خواب اترتا ہے سفینے سے ہمارا
منظر سے ادھر خواب کی پسپائی سے آگے
میں دیکھ رہا ہوں حدِ بینائی سے آگے
یک بہ یک خواب کھلے خواب میں ہو نیل پری
اچھی لگتی ہے مجھے کیفیتِ بے خبری
ہوتی ہے نیند میں کہیں تشکیل خدوخال
اٹھتا ہوں اپنے خواب کا چہرہ اٹھا کے میں
نیند سے جاگے ہیں کوئی خواب بھی دیکھا ہے کیا
دیکھا ہے تو بولیے شب بھر کہا ں کی سیر کی
یہ خواب ہے جسے جاگتے ہوئے دیکھوں
یہ آئینہ جو مرے چار سو کیا گیا ہے
دلاور علی آزر کا جہان حیرت خواب کی حقیقت کا سفر ہے جہان زندگی بے کراں پانیوں میں سانسیں لیتی ہے۔ اردو شاعری کے عصری منظر نامے میں آزر کی شاعری ایک خوشگوار واقعہ ہے، ایک تازہ جہانِ حیرت، جذب پانی جس سے زندگی کو نمو ہے۔
لہریں کچھ اس طرح سے دمکتی ہیں رات بھر
روشن ہوا ہو جیسے تہہَ آب اک چراغ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابرار مجیب
جمشیدپور ، انڈیا