الإثنين, 02 أيلول/سبتمبر 2013 18:32

پاپی پیٹ کا سوال : ڈاکٹر آصف علی Featured

Rate this item
(0 votes)

  ڈاکٹر آصف علی
  شعبۂ اردو
  چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی
  میرٹھ

 پاپی پیٹ کا سوال 

                             افسا نہ عالمی ادب کی سب سے مقبول صنف ہے ،اُسے اردو کے نثری ادب میں وہی حیثیت حا صل ہے جو شعری اصناف میں غزل کو۔ ادب کے اس دور انحطاط میں بھی غزل ہی کی طرح اس کے قارئین اور تخلیق کاروں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ غزل کی طرح افسانہ بھی زندگی کے کسی ایک گو شے، واقعے یا کسی ایک نفسیاتی حقیقت کو پیش کرتا ہے مگر اس کے پس منظر میں معنی کا ایک پو را جہاں آ باد ہو تا ہے جو بڑے بڑے عصری مسائل کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔لیکن افسا نے میں تاثر اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب وہ حقیقت سے قریب تر ہو۔ بعض حضرات موضوع کے اچھوتے پن کو افسا نے کی کا میابی کی دلیل مانتے ہیں جو غا لباً صحیح نہیں کیوں کہ بے شمار ایسی مثا لیں موجود ہیں ۔کہ ادیبوں نے اپنے گہرے مطالعے وسیع مشا ہدے اور عمیق تجربے کی بنیا د پر عام اور بالکل سامنے کے موضو عات کو اچھو تا اور بے مثال بنا دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو ما دھو، گھیسو، بدھیااورہو ری یا کسا نوں کے مسائل، مزدوروں کی پریشانیاں ،گھریلو الجھنیں، مہنگائی و بے رو زگاری کے بھوت ، سماجی نا برا بری اور شادی بیاہ کے حو صلہ شکن سودے جیسے عام مو ضوعات کبھی افسا نے کی تاریخ کی معراج نہیں بن سکتے تھے۔ 
گویاکوئی ادیب جب روز مرہ کے حادثات کا محض مشاہدہ کر نے کے بجائے ان کے کرب کو اپنے اندر جذب کر کے اپنی قوت متخیلہ کے ذریعے حقیقت کا ادراک کرادے تو وہ لافا نی بن جاتا ہے اور ایسا ہی کو ئی ایک فن پاری تخلیق کار کو امر بھی بنا دیتا ہے۔
مہتاب عالم پرویز کا زیر تبصرہ افسانہ ’’رشتے کی بنیاد‘‘ مجھے اسی قبیل کا نظر آ تا ہے ۔کیوں کہ میں مصنف سے نہ تو ذا تی طور پر واقف ہوں اور نہ ہی اپنی بدقسمتی سے ان کی دیگر تخلیقات پڑھ سکا ہوں ۔مجھے یہ بھی علم نہیں کہ ان کا نسلی و ادبی جغرا فیہ کیا ہے؟ اور انہوں نے ادب کی دیوی کے کن کن پہلوؤں کو منور کر کے اپنا ادبی قد کتنا بلند کر لیا ہے۔مجھے تو محض ڈاکٹر اسلم جمشید پو ری کے ذریعے ان کی کی یہ کہا نی پڑھنے کو ملی تھی جس کی بنیاد پر محض یہ قیاس کرسکتا ہوں کہ ان کا ادبی قد کافی بلند ہوگا۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی اس کہا نی میں اعلیٰ اخلا قی قدروں کی پامالی اور انسانی غلبہ سماج میں عورتوں کے استحصال کے اس عام موضوع کے بطن میں چھپے کرب کو جس انو کھے انداز میں بیان کیا ہے وہ کافی مشاق اور منجھے ہو ئے فن کا ر کا ہی حصہ ہے۔ کیوں کہ عموماً افسانہ نگار تین مرا حل سے گذرنے کے بعد ہی صحیح معنی میں افسا نہ نگار بنتا ہے۔ وہ پہلے رو مانی کہانیوں اور عام دلچسپی کے چھوٹے موٹے روایتی واقعات پر ہاتھ صا ف کرتا ہے پھر رفتہ رفتہ اس کے مزاج میں تبدیلی آ تی جاتی ہے اور عصری موضو عات حا وی ہونے لگتے ہیں تب کہیں جاکر وہ منزل آ تی ہے کہ وہ فن کار ان موضوعات میں کوئی اچھوتا یا نادر رنگ بھرنے میں کامیاب ہو تا ہے۔’’رشتے کی بنیاد‘‘ میں مجھے اس کا تخلیق کا ر اسی تیسرے درجے پر فائز نظر آ تا ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ یہ کہانی عورت کے استحصال کی ایک عام کہا نی دکھا ئی دیتی ہے ۔ کہا نی کے مرکزی کردار نوری کے باپ عالم صا حب ایک عام کہا نی کے کرداروں کی طرح غریب اور ایماندار ہیں ،جو بینک کی معمولی ملازمت سے اپنے اور اپنی ا ہلیہ و بچی کے جسم و جاں کے رشتے کو کسی طرح با قی رکھے ہو ئے ہیں۔ لیکن آسمان کج رفتار کو یہ بھی گوارا نہیں ہو تا اور وہ نوری پر اپنا دائرہ مزید تنگ کردیتا ہے۔ پہلے عالم صا حب فالج کے حملے میں اپنے دو نوں پیروں سے معذور ہو کر صا حب فراش ہو جاتے ہیں اور پھر نو ری کی ماں رشیدہ گھر کا تمام اثاثہ علا ج و معالجے پر خرچ کر دیتی ہے۔کھلنے والی کلی کی طرح گداز ہو تی نو ری کی قربت حا صل کرنے کے لیے مدد کے لیے بہت سے ہاتھ آ گے آ تے ہیں جو رفتہ رفتہ رشیدہ اور نوری کی بے اعتنائی سے نہ صرف پیچھے ہٹ جاتے ہیں بلکہ دی ہو ئی مدد پر دوگنے تین گنے بیاج کا مطالبہ کر کے ماں بیٹی کو اپنے مطالبات ماننے کے لیے مجبور کرنا چاہتے ہیں ۔انور ان سب میں سبقت لے کر سینہ زوری پر اتر آ تا ہے جس کی تاب نہ لاکر بالآخر رشیدہ اللہ کو پیاری ہو جاتی ہے۔
یہاں تک کہانی بالکل ایک عام روایتی انداز کے مطابق آ گے بڑھتی ہے اور اپنا کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑتی۔لیکن کہا نی کے اختتا م سے قبل یہ جملے :
’’نو ری کا سر چکرا نے لگا ۔اس نے یہ کبھی نہیں سو چا تھا کہ زندگی کا مختصر سا فاصلہ طے کرنے کے لیے ایک باپ اپنی بیٹی کے بدن سے اس کا آ خری لباس تک نوچنے کی سازش کرے گا۔ ‘‘
’’نوری......‘‘
بڈھے نے کھانے وا لی نظروں سے نوری کی طرف دیکھا اور گرجا ’’اس گھر میں تمہاری نہیں بلکہ میری مرضی چلے گی۔سمجھی، میں جو کہوں گا تمہیں وہی کرنا ہوگا۔‘‘
قاری کے سامنے معنی کا ایک نیا جہان آ باد کرتے ہیں اور اس کا ذہن اپنے آس پاس ہو نے وا لے روز مرہ واقعات اور اخبارات میں بھری ان جیسی خبروں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے بھٹکتے سماج میں پھیلی برائیوں اور اخلا قی قدروں کی پامالی کی اصل تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کہا نی کے یہ دو جملے :
’’ میں اب کسی کام کا نہیں رہا کہ ایک وقت کی روٹی بھی جٹا سکوں ۔‘‘
’’اور اگر یہ سب نہیں کرسکتیں تو کھاؤ گی کہاں سے۔‘‘
قاری کی بڑی مدد کرتے ہیں اور وہ شدت سے یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اگر خدا سے دن بہ دن درکتے انسانی اعتماد کے رشتے کی بنیادوں کو اگر فوراً استوار نہ کیا گیا تو خدا کی بنا ئی یہ خوبصورت دنیا مزید جہنم کا نمو نہ بن جائے گی۔ 
کہا نی اس کے بعد اور آ گے چلتی ہے ۔لیکن میرے نزدیک کہا نی کا اگلا پو را پیرا گراف کہانی کو کہانی کی ماہیت سے دور لے جاتا ہے۔ کیوں کہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ :
’’ایک باپ اپنی بیٹی کے لیے یہ نہیں چاہتا کہ اس کی عزت خاک میں ملا دی جائے ۔کاش .......آپ عورتوں کے مقام کو پہچانتے ۔ ہم عورتوں کا سب سے قیمتی سرمایہ ہماری عزت ہے اور سا تھ ہی والدین کی بھی، گلاب کی پنکھڑیوں جیسی ملا ئم اور نازک ہماری ہستی ہے ایک بار بھی اگر ہماری عزت پر دھبہ لگ گیا تو زندگی بھر رو نا مقدر ہو جاتا ہے۔‘‘
تو وہ تخلیق کار کے منصب سے ہٹ کر واعظ کی مسند پر براجمان نظر آتا ہے ۔البتہ دوسرے پیرا گراف میں کہا نی دو بارہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آتی ہے اور اخلا قیات کے زوال آ مادہ اس دور میں بھی عورت کا وہ روپ پیش کرتی ہے جو دنیا وی تمام اشیا سے مقدس ہے یعنی وہ گو ہر آ برو کو برباد کر نے کی بجائے موت کو گلے لگانا پسند کر تی ہے۔اور کہتی ہے :
’’ دیکھئے ،میں بھوکی مر جاؤں گی.......مگر اپنی عزت کا سودا نہیں کرسکتی۔میری زندگی پر آ پ کا حق ہے ،میری موت پر تو نہیں۔میں موت کو گلے لگا لوں گی......مگر...... ‘‘
مگر صنف نا زک کے تقدس ،اولوالعزمی اور برا بری کا بکھان کر نے وا لا اکیسویں صدی کا یہ مرد بھی اسے عملاکمزور ، ناتواں ،صرف زبان کا غازی اور دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے۔ اور وہ اپنی خود ساختہ برتری کے زعم میں ایسا فرعون ہو جاتا ہے کہ اپنی خطا ؤں اور زیا دتیوں سے تو بہ کرنے کی بجائے بیٹی کے معصوم جذبات کو محض ایک طفلا نہ دھمکی سمجھتا ہے ۔لیکن اگلے ہی لمحے حیا کی دیوی کا پختہ عزم عملی شکل میں سامنے آ تا ہے تو :
’’عالم صاحب کے ہا تھوں سے بیساکھیاں چھوٹ کرگر پڑیں اور وہ پھٹی آنکھوں سے نوری کو گھورنے
لگے..........پیٹ کے کنویں میں پھر کوئی بھاری چٹان گر پڑی تھی،جس کی وجہ سے ان کے سا رے وجود میں زلزلے کے آ ثار پیدا ہو گئے۔ 
کمرے کا اندھیرا اس قدر گھنا ہو چکا ہے کہ اب کوئی بھی رو شنی اس میں اجالا نہیں کر سکتی۔ ‘‘
صرف عالم صاحب کی کہا نی نہ رہ کر پو رے عالم کی کہا نی بن جاتی ہے اور اس کھو کھلے مہذب سماج کے سامنے یہ سوال کھڑا کر دیتی ہے کہ اس اکیسویں صدی میں عورتوں کے ساتھ نا انصا فی اور جبرو استحصال کے بڑھتے گراف کا آخر جواز کیا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم عورت کے حقوق کی بحا لی اور اس کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اسے دور جاہلیت سے بھی زیا دہ سخت امتحان میں تو مبتلا نہیں کررہے ہیں ۔
کسی کہانی میں مختلف شیڈز کے بر آ مد ہو نے کوبھی کہانی کی کامیابی کی علا مت سمجھاجاتا ہے۔ میرے نزدیک انسان کی ضعیف الاعتقادی اور عورت کے استحصال کے علا وہ کہا نی کے یہ جملے:
’’شام کے لیے چاول تو نہ ہو ں گے، دو دن سے اب انور بھی نہیں آیا۔‘‘
بوڑھے کی آواز میں ایسی تھرتھرا ہٹ تھی جیسے پیٹ کے خالی کنویں میں بہت بھا ری چٹان پھینکنے کی دھمک گونج رہی ہو ۔‘‘
پیٹ کے کنویں میں پھر کوئی بھا ری چٹان گر پڑی تھی جس کی وجہ سے ان کے سارے وجود میں زلزلے کے آثار پیدا ہو گئے ۔‘‘
کہا نی کا ایک تیسرا رنگ سامنے لاتے ہیں ،جس کے آ گے سارے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور وہ رنگ ہیں......پاپی پیٹ کا سوال........اور یہ سوال کل بھی تھا ، آج بھی ہے اور کل بھی اسی طرح باقی رہے گا اور جب تک یہ سوال باقی رہے گا۔کہا نیاں اسی طرح نئے نئے روپ میں جنم لیتی رہیں گی۔
کہا نی کی زبان سادہ ، سلیس اور عام فہم ضرور ہے لیکن اس میں زنجیر کی کڑیوں جیسا منطقی ربط موجود نہیں ہے۔عبارت میں کہیں کہیں الفاظ یا جملے کم بھی کر دیے جائیں تو اس کے تسلسل اور روا نی میں کمی نہیں آ ئے گی۔
مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مہتاب عالم پرویز ؔ کی یہ کہا نی ایک اچھی کہا نی ہے جو سماج کے کئی سلگتے موضوعات کو سامنے لاتی اور سادہ نگاری کا نمو نہ پیش کرتی ہے۔ 
***


ڈاکٹر آصف علی
شعبۂ اردو
چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی
میرٹھ

Read 3429 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com