عید چراغاں
از قلم: احمد نثارؔ
دنیا کے لگ بھگ اقوام میں یہ رواج عام ہے کہ خوشی کے موقعوں پر گھر، گلی، کوچوں، اداروں، درسگاہوں اور عبادت گاہوں کو چراغاں کرے۔ یہ عمل ایک قسم کا اظہار خوشی ہے۔ ماحول کو روشن کرنااور روشنی کو عام کرنا، روشن دانوں اور فانوسوں کو روشن کرنا ایک ثقافتی فعل تصور کیا جاتا ہے۔ خواہ اس چراغاں کرنے کی نسبت مذہب سے ہو یا نہ ہو، مگر چراغاں کرنا اپنی تذہیب و تمدن کی عکاسی یا اس کا نمونہ مانا جاتا رہا ہے۔
فانوس یا قمقمے جلانا، دیے جلانا مشرقی ممالک اوربرصغیر میں عام ہے، تو فانوس جلانا عرب کے علاقے بی الخصوص مصر میں اور سلطنت عثانیہ کے ماثر علاقوں میں عام ہے، یہاں تک کہ آج کل متحدہ عرب امارات، کویت جیسے ممالک میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ وسط ایشیائی ممالک جیسے ازبکستان، تاتارستان، آذربائجان و دیگر ممالک میں بھی یہ رواج عام ہے۔ مصر کا فانوس روشن کرنے کا رواج کافی دلچسپ رہا اور اس کلچر کو مختلف اقوام نے بھی اپنا لیا ہے۔مصر میں خلافتِ فاطمیہ کے دور سے یہ رواج چلا آرہا ہے۔ ماہِ رمضان میں اور خاص طور پر ماہِ رمضان کے آخری ایام میں اور عیدالفطر کے موقع پر دلکش ڈیزائنوں کے فانوس جلا کر گھروں کو سجانا عید کی خوشیوں میں شامل ہے۔ ملیشیا اور انڈونیشیا میں دیے اور قمقے جلانے کا رواج آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس رواج کے پیچھے ہندو ثقافت کا اثرہے یا اس ہندو رواج پر مسلم کلچر کا اثر ہے، اس بات کا پتہ کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ تہذیبیں اپنی ثقافتوں کو دیگر تہذیبوں کے ساتھ شیئر کرتی ہیں اور ان کو آفاقی بنا دیتی ہیں۔
بھارت کے مسلم طبقوں میں یہ رواج ابھی عام نہیں ہوا ہے۔ غالبا برصغیر کے دیگر ممالک کے مسلم طبقوں میں بھی یہ رواج عام نہیں ہے۔ غالبا اس کی وجہ ہندو کلچر میں دیوالی پر جلائے جانے والے دیپ یا دیے ہوسکتے ہیں، یا پھر عیسائی برادری کرسمس کے موقع پر جلانے والی موم بتیاں۔ شاید مسلم یہ نہیں چاہتا ہوگا کہ دیگر مذاہب کے کلچر کو کیوں اپنایا جائے۔ لیکن اس خبر سے بے بحرہ ہے کہ یہ کلچر عربی ہے اور مصر سے آیا ہے۔ مزید مزے کی بات یہ ہے کہ آج کل دیوالی میں جلائے جانے والے فانوس یا روشن دان عرب ممالک اور ترک میں بنائے جانے والے روشن دانوں کے ڈیزائن ہیں۔
ترکی میں بننے والے ڈیزائن کے فانوس اب بھارت میں بھی مشہور ہیں، اکثر دیوالی اور دیگر تہواروں کے موقعوں پر اس قسم کے فانوس پچھلے دس سالوں میں زیادہ مقبول ہوئے ہیں۔ اب بھارت کے کاریگر اور فنکار بھی اس فانوس کو بنانے میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ چین تو اس کی مارکیٹنگ خوب کررہا ہے اور چھایا بھی ہوا ہے۔ دنیا کی کئی کمپنیاں بھی ان فانوس اور روشندانوں کو بنانے اور فروخت کرنے لگی ہیں۔ یہ روشن دان اور فانوس لکڑی کاغذ، لوہے اور دیگر اشیاء سے بنائے جاتے ہیں۔ آنلائن پر اشیاء فروخت کرنے والی کمپنیاں بھی ان فانوس اورروشن دانوں کی تصارویر اپنے پورٹلز پر رکھ کر ڈور ڈیلیوری سپلائی بھی کر رہی ہیں۔
رمضان کے دوران مساجد کو سجانا، خاص طور پر شب قدر کوبجلی کے قمقموں سے سجانا، دیدہ زیب ڈیکوریشنس کرنا بھارت کے ہر شہر اور گاؤں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
یعنی رمضان ماہ چراغاں تو عید الفطر عید چراغاں ہے۔
٭٭٭٭
از قلم: احمد نثارؔ
E-mail: عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.