شموئل احمد کی افسانہ نگاری
ڈاکٹر پرویز شہریار
ایڈیٹر،این سی ای آر ٹی، نئی دہلی16-(انڈیا)
شموئل احمد کی پہچان اُن کے مشہور افسانہ ”سنگھاردان“ سے قائم ہوتی ہے،لیکن خود شموئل احمد کو ”عنکبوت“ میں شامل افسانہ ”ظہار“بہت پسندہے۔ بہر حال،”ظہار“ اگرشموئل کا سب سے پسندیدہ افسانہ ہے تو ”سنگھاردان“ کی بھی اپنی انفرادی شان ہے۔
شموئل احمد نے اس افسانے میں جس طرح ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی سائیکی پر سوار فسادات کے مضر اثرات کے آسیب کو بوتل میں قید کیا ہے۔اس کمال ِفن تک مابعد جدیدیت کے اچھے سے اچھے افسانہ نگار کی رسائی ممکن نہیں ہو پائی ہے۔ اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ آٹھویں دہائی کے بعد افسانہ نگاری کے نام پر زیادہ تر رپورٹنگ ہوئی ہے۔ایسے ناقدین ادب سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ وہ ایسے قلب کو بے چین کر دینے والے احساسات اورروح کو فگار کر دینے والے کٹیلے واقعات پر مبنی شموئل کے افسانے کی قرات سے خود کو کم از کم ایک بار ضرور گزاریں اور دیکھیں کہ اس افسانے میں موجود آتشیں شعلوں سے وہ کس حد تک اپنا دامن بچا پاتے ہیں۔ المختصر، یہ افسانہ شموئل احمد کا معجزہئ فن ٹھہرا ہے۔
شموئل نے ایسے ایسے موضوعات پر افسانے لکھے ہیں جن پر میں سمجھتا ہوں کوئی بھی میڈیا خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا رپورٹنگ نہیں کر سکتا ہے۔ادب اگر تہذیبی دستاویز ہے تو شموئل کے افسانے اپنی تمام تر جمالیاتی قدروں کے ساتھ فنکارانہ تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے اسلوب کی انفرادیت کے ساتھ ادبی دستاویز قرار دیئے جاسکتے ہیں۔
فسادات میں کشت و خون، آتش زنی اور لوٹ مار عام بات سمجھی جاتی ہے۔جس کا نوحہ قریب قریب سبھی افسانہ نگاروں نے لکھا ہے۔جانی اورمالی زیاں کا حساب بہتوں نے پیش کیا ہے۔دل و دماغ کے زخمی ہونے اور فوری ردّعمل کی صورت میں نفسیاتی طور پر اعضائے رئیسہ کے مفلوج ہونے کے واقعات بھی قلم بند کیے گئے ہیں۔لیکن سنگھاردان کے قلیدی کردار برجموہن اور اس کی تین جوان بیٹیوں اور بیوی کا قلب ماہیئت ہو جانا اور اپنے تمام ہوش و حواس کے ساتھ رنڈیوں اور دلال میں تبدیل ہو جانا، اپنے آپ میں ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ ہے جوکہیں نہ کہیں ہندوستانی مسلمانوں کی متاثرہ سائیکی کو چھو جاتا ہے۔یہی اس افسانے کے موضوع اور اس کے ٹریٹ منٹ کی غیر معمولی کامیابی کا راز ہے۔
اسی طرح،ان کا افسانہ ”ظہار“ بظاہر ایک مذہبی معاشرت سے تعلق رکھنے والا افسانہ ہے۔ لیکن جس طرح سے شموئل نے اس موضوع کو افسانہ کیا ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کہانی کے ہیروپر اس کی بیوی نجمہ حرام ہوگئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے خلوت میں جنسی عمل کے پس منظر میں بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دی تھی۔ ایسا کر کے وہ ظہار جیسے گناہ کا مرتکب ہوگیا تھا اور اس کے بعد وہ کفارہ ادا کیے بغیر بیوی سے جنسی تعلقات کے لیے رجوع نہیں کرسکتا تھا۔
شہر قاضی نے اس کے لیے مشورہ دیا تھا کہ -------
”شوہر کو چاہیے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزہ رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلائے۔“
نجمہ کے دو سال بعد بھی جب بچہ تولید نہ ہوا تو ساس نے مشورہ دیا کہ وہ چربیا گئی ہے اس لئے بچہ نہیں جن سکتی ہے۔ نجمہ کے شوہر کو لگتا ہے کہ ماں اس کی دوسری شادی نہ کردے کیونکہ وہ نجمہ سے بے انتہا پیار کرتا ہے حالات کے دباؤ میں وہ غیر فطری جنسی پیش رفت کر بیٹھتا ہے۔ نجمہ ایک موذن کی بیٹی، مذہبی خیالات کی لڑکی تھی وہ اسے گناہ سمجھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کفارہ کے طور پر کہانی کا ہیرو جو کہ پیشے کے اعتبار سے کاتب ہے وہ مجاہدہ کی ٹھان لیتا ہے۔ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھتا ہے اس کے بعد جب نجمہ کی صحبت میں جب اسے جنسی حاجت محسوس ہوتی ہے تو وہ وضو بنا کر نماز کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے اور خود پر لعنت بھیجتا ہے:
”تف ہے مجھ پر کہ پیشاب دان سے پیشاب دان کا سفر کروں ……“
اس کہانی کا اصل موضوع ملکوتی خواہشات کے ذریعے جبلی خواہشات پر قابو ہے۔ بے شک یہ عارضی کیفیت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عورت اور مرد کے فطری خواہشات کے ابلتے ہو سرچشمے کو سنگ ملکوتیت سے دبایا جاسکتا ہے۔ اخلاقی اور مذہبی اصول وضوابط کے تحت قابو میں کیا جاسکتا ہے؟
شموئل کا اپنا اسلوب بیان اس افسانے میں بھی جلوہ افروز ہے وہ عورت اور مرد کے خلوت کی جزیات اپنے انداز سے بیان کرتے ہیں۔ جب کہانی کا ہیرو اپنی غیر فطری پیش رفت پر تاسف کررہا ہوتا ہے تو اس کی جزئیات دیکھئے:
”نجمہ اسی طرح سوتی تھی……وہ اس کے لب ورخسار کو چومتا تھا۔ آخر کیا کمبختی سوجھی کو لبھانے لگے اور اس نے لواطت کو راہ دی……؟ اس پر شیطان غالب ہوا۔ اس کو حیرت ہوئی کہ کس طرح وہ اپنا ہوش کھو بیٹھا تھا……؟ اس نے نجمہ کے ساتھ زیادتی کی……وہ ڈر گئی تھی۔ ہر عورت ڈر جائے گی…… نجمہ تو پھر بھی معصوم ہے۔ نیک اور پاک صاف بی بی……جیسے خدا نے ایک ناہنجار کی جھولی میں ڈال دیا۔“
اس افسانے میں نفس امارہ کی کرشمہ زائیوں سے لڑنے کے لیے گر سنگی کو ہتھیار بتایا گیا ہے۔ گناہوں سے توبہ، معانی عبارت، روزہ، اپنے نفس سے مجاہدہ، دنیاوی لذتوں سے اجتناب کے ذریعے خباثت پر قابو پایا جاسکتا ہے بشرطیکہ یہ سبھی اعمال سچے دل سے کیے جائیں۔
”اس کو پہلی بار احساس ہوا کہ عبادت کا بھی اپنا سرور ہے۔ واپسی میں قاضی سے ملاقات ہوئی۔ قاضی اس کو دیکھ کر مسکرایا۔ ”مسجد نہیں آتے ہو میاں ……؟“
جواب میں وہ بھی مسکرایا۔
”جہنم کی ایک وادی ہے جس سے خود جہنم سو بار پناہ مانگتی ہے اور اس میں وہ
علما داخل ہوں گے جن کے اعمال دکھاوے کے ہیں۔“
”مصر کی ڈلی“ بھی نو بیاہتا جوڑے راشدہ اور عثمان کی ازدواجی زندگی سے جنسی کشش اور مدافعت کی کہانی ہے۔ ایسے باریک احساس کی کہانی ہے جہاں ایک شریف نوجوان عثمان اپنی بیوی راشدہ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے اور اسے اس کی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے درپے رہتا ہے لیکن اس کے جنسی رویوں تہہ وبالا کر دینے والی وہ عورت نہیں ہے اس کی بیوی راشدہ جس کی متمنی ہے۔ راشدہ جنسی اعتبار سے گرم اور پہل کرنے والی جوان عورت ہے تاہم راشد کی طرف سے وہ والہانہ پن کی کمی اسے اپنے گھر کے سامنے آئے نئے پڑوسی الطاف کی طرف ملتفت کر دیتی ہے۔ یہ دو اقتباس دیکھیں:
”عثمان کے ہاتھ کھردرے ہوں گے لیکن اس کی گرفت بہت نرم تھی……وہ بھنبھوڑتا نہیں تھا…… وہ راشدہ کو اس طرح چھوتا جیسے کوئی اندھیرے میں بستر ٹٹولتا ہے……!“
”جنسی فعل کے دوران کوئی شیشہ دیکھے گا تو کیا دیکھے گا……؟ جبلت، اپنی خباثت کے ساتھ موجود ہوگی۔ لیکن عثمان کے ساتھ ایسا نہیں تھا…… وہ اس کے لب ورخسار کو اس طرح سہلاتا جیسے عورتیں رومال سے چہرے کا پاؤڈر پونچھتی ہیں!“
عثمان کا نیا پڑوسی الطاف کسی نہ کسی بہانے سے ان کی ازدواجی زندگی میں آڑے آتا ہے اور عثمان کے دل ودماغ میں شبہ جڑ پکڑنے لگتی ہے، اس افسانے کے کردار اور واقعات کو شموئل نے ستاروں کی خصلت کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ عثمان کا ستارہ منگل ہے لیکن الطاف شنی ہے۔ شنی چمر چٹ ہے، وہ پیچھا نہیں چھوڑتا۔ شنی دکھ کا استعارہ ہوتا ہے اورمنگل خطرے کی علامت ہے کہتے ہیں کہ شنی اور منگل کا جوگ اچھا نہیں ہوتا۔ چوتھے خانے میں ہو تو گھر برباد کردے گا اور دسویں خانے میں ہو تو دھندہ چوپٹ کرے گا۔
راشدہ بہت پیار دینے والی عورت تھی۔ اس لیے عثمان کو الطاف سے زیادہ اپنی بیوی راشدہ سے خطرہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ جب بھی عثمان الطاف کی چوری پکڑ لیتا ہے راشدہ اس کا بیچ بچاؤ کرنے لگتی ہے۔
الطاف عثمانی کے غیر موجودگی میں موقع دیکھ کر راشدہ کی قربت حاصل کر لیتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ کھل کھیلنے لگتے ہیں الطاف کی نوازشیں جاری رہتی ہیں۔ کبھی مچھلی، کبھی باسمتی چاول کی کھبی تیل مصالحہ کبھی سبزیاں مٹھائی کے ڈبے وغیرہ وہ تحفے تحائف کے طور پر دے جاتا ہے۔
شنی کی ایک خوبی اور ہے شنی جس کا دوست ہو جائے،اسے اپنی نوازشوں سے لاد دیتا ہے۔ شموئل نے اس پہلو کو ’مصری کی ڈلی‘ میں عملاً ہوتا ہوا دکھایا ہے۔
آخر میں عثمان اس مداخلت بے جا کا اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ اسے ایک طرح سے اپنی ازدواجی زندگی کے تحفظ کے سمجھوتا کر لیتا ہے۔
”راشدہ آہستہ سے عثمان کے کانوں میں پھسپھسائی۔ ”ابی جب تک الطاف بھائی دوسرے کمرے میں آرام کرلیں تو کوئی حرج ہے؟“
عثمان اس وقت مچھلی کھا رہا تھا۔ اس کو لگا کانٹا حلق میں پھنس رہا ہے……
عثمان نے سادہ چاول کا نوالہ بنایا اور چاول کے ساتھ کانٹا بھی نگل گیا۔“
شموئل احمد نے اپنے افسانے ”سراب“ میں سماجیاتی تناقصات کا منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ ترقی یافتہ مسلم معاشرہ اور دقیانوسی یا Ghattoمسلم معاشرے کے تفاوت کو بہت ہی موثر اور دلچسپ ڈھنگ سے اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ پیش کیا۔
اس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے اسکول کے ایک ماسٹر خلیل کا اطاعت گزار بیٹا بدر الدین جیلانی آئی ایس آفیسر ہو جاتا ہے اور باپ کی انا اسے کامیابی کی منتہا پر دیکھنا چاہتی ہے۔ اس چکر میں اس کی شادی کسی کمشنر رحیم صمدانی کی بیٹی عاطفہ حسین سے کرا دی جاتی ہے۔ لیکن عاطفہ کی پرورش اونچی سوسائٹی میں ہوئی ہے اس لیے مسلم گھیٹوائزڈ محلے میں وہ رہنا پسند نہیں کرتی ہے۔ یہ لوگ آئی اے ایس کا لونی میں آباد ہوجاتے ہیں۔ لیکن تمام عمر جیلانی پلٹ کر اپنے محلے اور اپنے بچپن کے دوست حیات اور معشوقہ حسن بانو کی طرف دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ وقت کسی کو معاف نہیں کرتا۔ عاطفہ حسین کی موت ہو جاتی ہے۔ اپنی پہلی فرصت میں جیلانی اپنے آبائی محلہ میں واپس آتا ہے جہاں اس کے بچپن اور جوانی کے شب وروز گزرتے تھے۔ لیکن تب تک بہت کچھ بدل چکا تھا۔ محلہ شہر نما ہوگیا تھا۔ حتی کہ اس کی استانی کی بیٹی حسن بانو سے اس کی اتفاقیہ ملاقات ہوجاتی ہے۔ جس کے بالوں میں عمر رسیدگی کی وجہ سے چاندنی گھل چکی ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ جیلانی کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ دوسرے دن وہ شہر چلا آتا ہے۔ لیکن شہر آتے ہی اس کے بچپن کے دوست حیات کا فون آتا ہے کہ حسن بانو اب اس جہاں میں نہیں رہی۔ جیسے وہ جیلانی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہی اب تک زندہ تھی اور دیدار کے بعد اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔
اس درد بھری کہانی میں شموئل کے فن نے دل کو چھو لیا ہے۔ ہر چند کے شموئل کا فن موڈرن آرٹ کی طرح بہت تفصیل بیان نہیں کرتا ہے پھر بھی ان کے موئے قلم کی جنبش سے جو چند آڑی ترچھی لکیریں کھینچی ہیں ان میں انھوں نے درد انڈیل دیا ہے۔ مسلم معاشرے کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس میں وحدت تاثر اپنی جگہ موجود ہے۔ لیکن وہ واقعات کے بیان میں بیدی کی طرح چول سے چول نہیں کستے بلکہ منٹو کی طرح لفظوں کا بڑی کفایت شعاری سے استعمال کرتے ہیں۔ اختصار ہی ان کے افسانوں کا امتیازی وصف ہے۔ البتہ بیان میں راوی کہیں نمل نہیں ہوتا بلکہ پس پردہ واقعات بیان کرتا جاتا ہے۔ بیچ بیچ میں حکایت کی طرح پند ونصیحت کی سطریں بھی آجاتی ہیں جس سے قصے کی تفہیم اور رفتار میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
”انسانی رشتوں میں ان کی کیل جڑی ہوتی ہے۔ سب میں بھاری ہوتی ہے باپ کی انا……اضافہ ہوتا ہے مثلاً۔
باپ کا رول اکثر ویلن کا بھی ہوتا ہے۔“
مذہبی ریاکاری، جنس اور جرائم کے موضوعات پر بے شمار افسانے لکھے گئے ہیں لیکن شموئل احمد کا افسانہ ”اونٹ“ اب تک لکھے گئے تمام افسانوں سے ان معنوں میں مختلف ہے کہ شموئل نے یہاں منفی قدروں کی حامل سکینہ کے اندر موجود مثبت قدروں کو منظر عام کی کوشش کی ہے۔ انسان اور سکہ میں فرق ہوتا ہے۔ کھوٹا سکہ دونوں طرف سے کھوٹا ہوتا ہے لیکن انسان کا اگر ایک پہلو برا ہے تو دوسرا پہلو بھی برا ہو کوئی ضروری نہیں ہے بلکہ دوسرا پہلو اچھا بھی ہوسکتا۔ اس کہانی کی مرکزی کردار سکینہ ایک حرافہ اور فاحشہ عورت ہے جس کے شوہر کا کوئی پتہ نہیں اور وہ اپنے دو بچوں سمیت رحمت علی کے جواری بیٹے حشمت علی کے گلے پڑ جاتی ہے۔ محلے والے اسے حشمت علی کی رکھیل بتلاتے ہیں۔
مذہبی ریا کاری کے نمائندہ کردار مولانا برکت اللہ وارثی ہیں جو مسجد کے امام ہیں دوسری طرف توہم پرستی اور اندھی عقیدت کے شکار رحمت علی کا کردار ہے جن کا خیال ہے کہ ان کے گھر پر کسی نے سحر کردیا ہے جس سے ان کے گھر کی برکت جاتی رہی ہے اور اکلوتا بیٹا جواری نکل گیا ہے جو کہیں سے دو بچوں کی ماں سکینہ کو اٹھا لایا ہے۔ مولانا کی آمد ورفت دعا تعویذ کے بہانے گھر تک شروع ہوجاتی ہے اور سکینہ سے ان کے جنسی
تعلقات قائم ہوجاتے ہیں۔ لیکن سکینہ کے اندر موجود مثبت قدریں کروٹیں بدلنے لگتی ہیں اور وہ مولانا کے ساتھ اس کے ناجائزرشتے پر انگلی اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ جس کا انجام اسے اپنی موت کو گلے لگا کر بھگتنا پڑتا ہے۔
افسانے کے ابتدائی چند جملوں میں شموئل نے اشارہ کر دیا ہے کہ یہ افسانہ سانحات Eventsکا افسانہ ہے جہاں ایک عجیب وغریب صورت حال نے جنم لیا ہے اور اس کے کردار مذہب، جنس اور احساس جرم کی دلال میں گھر ے ہوئے ہوئے ہیں۔ یہ اقتباس دیکھیں:
”مولانا برکت اللہ وارثی کا اونٹ سرکش اور سکینہ رسی بانٹی تھی۔ مولانا نادم نہیں تھے کہ ایک نا محرم سے ان کا رشتہ اونٹ اور ارسی کا ہے، لیکن وہ مسجد کے امام بھی تھے اور یہ بات ان کو اکثر احساس گناہ میں مبتلا کرتی تھی۔“
در اصل، سگمنڈ فرائڈ نے جنس کی جبلت کو سب سے بڑا محرک بتایا ہے۔
یہاں مولانا برکت اللہ وارثی جیسا عالم جیسے نفس پر قابو اور ضبط کرنے کی تعلیم وتربیت حاصل ہے وہ بھی اس کی بھوک سے تڑپ اٹھتا ہے اور اپنی کی بہ نسبت ایک فاحشہ کے اندر زیادہ شہوانی کشش محسوس کرنا ہے اور اس پر اپنی جان چھڑکنے لگتا ہے۔ اس کی نار برداری کرتا ہے اوراس کی ہر فرمائشیں پوری کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ
”زندگی میں کبھی نتھ نہیں خریدی تھی……وہ بھی سونے کی ……زوجہ نتھ نہیں پہنتی تھی، وہ بلاق پہنتی تھی ناک کے بیچوں بیچ چاندی کی بلاق…… وہ خانقاہی تھی۔ بستر پر آتی تو دعائے مسنون پڑھتی اور مولانا نے محسوس کیا تھا کہ سکینہ میں جست ہے اور زوجہ ٹھس ہے۔“
لیکن فرمائشوں نے جب تحکمانہ انداز اختیار کر لیا تو مولانا سر سے پانی اوپر ہوتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ مولانا نماز جنازہ پڑھا کر اپنے گھر جانے کے بجائے سکینہ سے جنسی لگاوٹ کی خواہش لیے سیدھے سکینہ کے گھر پہنچتے ہیں۔ لیکن عین وقت پر سکینہ کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے اور وہ مولانا سے امامت سے استعفی دینے کی ضد پکڑ لیتی ہے۔ وہ کہتی ہے میں تو بری ہوں، لوگ مجھے برا سمجھتے ہیں لیکن آپ امام ہیں۔ قوم آپ کے پیچھے نماز پڑھتی ہے۔ آپ کو بحیثیت امام یہ سب حرکتیں زیب نہیں دیتی ہیں۔ مولانا ایک فاحشہ کی تنبیہ برداشت نہیں کر پاتے ہیں وہ ایک دم چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ مولانا یکلخت محسوس ہوتا ہے۔ سکینہ بھی زوجہ کی طرح ٹھس ہے سکینہ کہتی ہے۔
”بھلا آپ جیسا آدمی جنازے کی نماز پڑھائے……؟
”قوم ہر جگہ رسوا ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ جیسے لوگ امامت کر رہے ہیں۔ زندگی میں اگر صحیح نماز نہیں ملی تو کم از کم مرنے کے بعد تو نصیب ہو……“
مولانا برکت اللہ اس فاحشہ عورت سے نظر چرانے لگتے ہیں۔ وہ ہر وقت ان سے امامت سے استعفیٰ دینے کی نصیحتیں کرتی رہتی ہے۔ لیکن جب سکینہ انکشاف کرتی ہے کہ وہ پیٹ سے ہے اور بیٹا ہوا تو دیوبند میں پڑھائے گی اور عالم فاضل بنائے گی۔ تو یہ سنتے ہی مولانا کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سکینہ ضدی ہے اگر وہ کہہ رہی ہے تو بیٹے کا نام بھی قدرت اللہ وارثی ضرور رکھے گی۔
وہ اس فاحشہ کے بطن میں پلنے والے امام کے وجود کے تصور سے کانپ جاتے ہیں۔ مولانا کو محسوس ہوتاہے کہ سکینہ کی خم دار ثبت در اصل
جارحیت کی غماز ہے…… آگے کی طرف نکلا ہوا سینہ……تلوار کی طرح لہراتے ہوئے بازو عقاب جیسی آنکھیں ……ایسی عورتیں آسانی سے سپر نہیں ڈالتیں ہیں۔ مولانا کو اس وقت لوگ لاج ستانے لگتا ہے اور شہوت کا بھوت سر سے غائب ہوجاتا ہے۔
”مولانا کو خاموش دیکھ کر سکینہ کی آنکھوں میں نفرت کی چمک بڑھ گئی۔“
”ایمان کی حفاطت ضروری ہے۔“ پھر اس نے سر سے پاؤں تک آگ برساتی نظروں سے دیکھا اور انتہائی حقارت سے بولی۔
”آپ جیسا امام……؟ اونہہ……!“ اور کمر سے نکل گئی…… کمرے سے نکلتے ہوئے اس نے فرش پرتھو کا نہیں تھا لیکن مولانا کو لگا کہ حرامن نے باہر نکل کر تھوکا ہے……حرام زادی چھنال……!!“
مولانا برکت اللہ اپنی ہتک برداشت نہیں کر پاتے ہیں۔ جیسے ہی سفلی جذبہ شہوت کا عمل دخل کمزور پڑتا ہے اسی وقت بدلہ اور انتقام جیسے سفلی جذبے اس خلا کو پر کر دیتے ہیں۔ انسان کے اندر موجود ہوس کی آگ اب انتقام کی آگ میں بدل جاتی ہے۔ تبھی وہ اس راز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیئے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور موقع ملتے ہی وصال کے لمحات میں تکیہ سے منھ دبا کر اسے ہمیشہ کے کی موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔
”سکینہ کی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی……آنکھیں اُبل پڑیں ……زبان اینٹھ گئی ناک اور منھ سے خون ابل کر تکیے پر پھیل گیا۔“
شموئل احمد کا ”اونٹ“ معاشرکے دوہرے معیار زندگی اور Doxaکے تحت اپنی سماجی حیثیت منوانے والے مرد اساس معاشرے پر ایک زبردست طنز ہے جس میں تلخی اور ترشی دونوں گھلی ہوئی ہے۔ شموئل نے سماجی حاشیہ پر زندگی بسر کرنے والی ایک حرافہ اور فاحشہ عورت کے ذریعے سماج کے مقتدر علماکے طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص پر طنز سے بھرپور تازیانے لگائے ہیں۔ ایسے افراد معاشرے اور ملت کی رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور موقع بے موقع اپنی سفلی خواہشوں کی غلام گردش سے بھی باز نہیں آتے ہیں۔ ایسی صورت حال، سماج میں ناسور اور کینسر کی طرح پنپ رہی ہے اور اس کا اگر وقت رہتے انسداد نہیں کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ ایک دن پورا معاشرہ اس کی چپٹ میں آ جائے گا۔
شموئل کو علم نجوم سے بھی گہرا شغف رہا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ”مصری کی ڈلی“ کے علاوہ انھوں نے دیگر کئی افسانے لکھے ہیں مثلا ”القمبوس کی گردن“اور”چھگماس“میں کھل کر علم نجوم کی اصطلاحوں کا فنکارانہ اور تخلیقی استعال کیا ہے۔
شموئل کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ان کی نظر ہمیشہ جنس کی نفسیات پر رہتی ہے۔ لیکن معروضی نظر سے دیکھا جائے تو شموئل احمد روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ پختہ عصری حسیت کے بھی مالک ہیں۔ موضوعات کی ندرت ا ور بوقلمونی نے ان کے افسانوں کو ایک علیحدہ تشخص عطا کی ہے۔ ان کے اکثر افسانے پیچیدہ سیاسی بصیرت او ر عمیق عمرانی شعور سے بھی معمور معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے منفرد اسلوب اور دلکش انداز بیان کی ہی کرشمہ زائیاں ہیں کہ ان کے افسانوں کو عصری اردو ادب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
(ختم شد)
Dr. Perwaiz Shaharyar
Editor, NCERT
IV/48, NCERT Campus
Sri Aurobindo Marg
New Delhi-110016
(INDIA)