السبت, 08 تشرين2/نوفمبر 2014 08:12

’’لیمی نٹیڈ گرل ‘‘ نئے موضوع پر لکھا گیا منفرد ناول : ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

Rate this item
(0 votes)

 ’’لیمی نٹیڈ گرل ‘‘ :نئے موضوع پر لکھا گیا منفرد ناول
 ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

                          اردو ناول ہمیشہ ترقی پذیر رہا ہے۔ ادھر نئے اردو ناول نے ایک نئی انگڑا ئی لی ہے۔ اکیسویں صدی میں اردو ناول نے موضو عات کی سطح پر اور تکنیک کے طور پر بھی خا صی ترقی کی ہے۔ 10-12برسوں میں اردو کوکئی اہم اور معیاری ناول میسر آئے ہیں ۔شمس الرحمن فاروقی، مشرف عالم ذوقی، غضنفر، پیغام آ فاقی، ترنم ریاض، رحمن عباس، صا دقہ نواب سحر، شا ئستہ فاخری، عبد الصمد، نور الحسنین ،احمد صغیر، محمد علیم، شموئل احمد وغیرہ کے کئی ناول زیور طبع سے آ راستہ ہو کر با زار میں آ ئے ہیں۔کئی ناولوں نے ادب میں اپنا مقام متعین کرلیا ہے اور کئی کا مقام ابھی وقت طے کرے گا۔ ناول نگاروں کے اس قافلے میں ایک نئے نام ڈا کٹر اختر آزاد کا اضا فہ ہوا ہے۔ ناول کی دنیا میں اختر ضرور نو وا رد ہیں لیکن وہ اس سے قبل افسا نے کی دنیا میں اپنا لو ہا تسلیم کر وا چکے ہیں۔ اس سے قبل ان کے کئی افسا نوی مجمو عے بابِل کا مینار، ایک سمپورن انسان کی گاتھا، سو نامی کو آ نے دو منظر عام پر آکر مقبو لیت کی سند حا صل کر چکے ہیں۔
                         ڈا کٹر اختر آزاد کاناول’’لیمی نٹیڈ گرل ‘‘ نئے موضوع پر لکھا گیاایک منفرد ناول ہے۔ بڑھتی ہو ئی صا رفیت میں ہر چیز با زار کا سامان بن کر رہ گئی ہے۔ خصوصاً عورت تو اب گوشت پوست کے بجائے پلاسٹک کو ٹیٹڈ چمچماتی ہوئی شئے بن کر رہ گئی ہے اور عورت کو اس مقام تک لانے میں جہاں اس کی اپنی بے راہ روی،فیشن اور دو لت کی فرا وا نی کا ہاتھ رہا ہے فلم اور ٹی وی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ خصوصاً ٹی وی کے مختلف چینلز پر تقریبا روزانہ نشر ہو نے وا لےReality Shows نے عورت کو فروخت ہو نے والی اشیاء بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بظا ہرTalent Show کے نام پر منعقد ہو نے وا لے یہ Reality Shows آج معاشرے میں بے شرمی، بے حیا ئی، فحا شی، پھو ہڑ پن اور جسم فرو شی کے کا رو بار کو فروغ دینے کا کام کررہے ہیں۔ یہی نہیں ان شوز کے ذریعے یہ سا ری برائیاں فیشن اور رو زگار کے نام پر برا ئی نہ رہ کر خوبی، Talent اورStatus بن گئی ہیں۔ سماج میں آج اپنے نو نہالوں کو TV Show میں بھیجنے،ان کوTrainingکرانے اورپیسہ کما نے کی مشین بنانے کی ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ اختر آزاد نے اپنے ناول’’ لیمی نیٹڈ گرل‘‘ میں سماج میں پھیلی اس بیماری بلکہ نا سور بنتے اس روگ کو بے نقاب کیا ہے۔ پورا ناول سماج میں پھیلتے اس مرض کے خلاف احتجاج ہے۔
                         اختر آزاد نے نا ول میں بڑی فن کا ری سے ایک ماں کو اپنی بیٹی کو ایسے شوز کے لیے تیار کرتے ہو ئے دکھایا ہے۔ جو اپنی بیٹی کو ٹریننگ سے، Selection اور پھر کامیابTV Girl بنانے کے لیے وہ ہر امتحان سے گذرتی ہے۔ امتحان نہیں، خود کو ہر طرح کی رشوت کے طور پر پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ یہی نہیں وہ اپنے یہ سارے اوصاف اپنی معصوم بیٹی کے ذہن میں بھی سرایت کردیتی ہے کیونکہ اس کے سر پر تو شہرت، پیسے اور نام کا بھوت سوار ہے اور جب ایسا ہو تا ہے تو پھر انسان اپنا سب کچھ لٹا نے پر بھی تیار ہو جاتا ہے۔ شو بھا ناول کی مرکزی کردار ہے جو ہر ممکن اقدام کے بعد اپنی بیٹی کو ایک کامیاب ڈا نسر بنا دیتی ہے۔ ایک ایسی ڈا نسر جو اپنے ناظرین کی دیگر خوا ہشات کو بھی پورا کرتی ہو۔ ماں بیٹی شہرت کی بلندیوں کو تو پالیتی ہیں لیکن بالآخر وہی ہو تا ہے جو ایسے حا لات میں ہوا کرتا ہے۔ اختر آزاد نے اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہو ئے ناول کا اختتام کیا ہے، انہوں نے با ور کرادیا ہے کہ ایسےReality Shows ہمارے معاشرے کوسنوارنے کا کام نہیں کررہے ہیں بلکہ معا شرے میں برا ئیوں کے جنم لینے کا سبب بن رہے ہیں۔ ناول کے دو اقتباسات ملا حظہ ہوں:
                        ’’اب آپ یہ بتائیں کہ جب بچوں کی عمر کھلو نے کھیلنے کی ہو تی ہے تب ماں باپ قانون کی آنکھوں میں آرٹ کلچر اور انٹر ٹینمنٹ کی پٹی باندھ کر ’’ رئیلٹی شو‘‘ کے نام پر معصوم بچوں سے شفٹوں میں کام کروا تے ہیں۔ اس میں کتنی سچا ئی ہے اور کیا یہ بال مزدوری نہیں ہے اور اگر بال مزدور ایکٹ کے دائرے میں یہ آ تا ہے تو ان گارجین کو کیا سزا ملنی چا ہیے جو بچوں سے اس طرح کی مزدوری کروا تے ہیں......؟‘‘(صفحہ نمبر108)
اختر آزاد نے یہاں ایک اہم سوال اٹھایا ہے۔بچوں سے محنت مزدوری کروانا اور پیسے کموانا بال مزدوری کہلاتا ہے اور جو ہمارے ملک کے آئن کے مطابق غیر قانونی ہے۔لیکن فلوں،سیریلوں،ریلیئٹی شوز میں کام کرنے والے بچوں سے دن رات محنت کروائی جاتی ہے،ماں باپ ان سے پیسے کماتے ہیں،مگرہمارا قانون اسے غلط نہیں سمجھتا۔آج کے پروگراموں کی بے حیائی کا ایک منظر دیکھیں۔اختر آزاد نے عمدگی سے لفظوں کا پیرہن دیا ہے:
                         ’’تالیوں کے شور کے ساتھ منچ پر رنگ برنگی روشنیوں کا جال سا پھیل گیا۔ جلتے بجھتے رنگین قمقمے کی سانسیں رکتی ہوئی دکھائی دینے لگیں۔ پھر یکایک جھماکے کے ساتھ روشنی کا کھیل شروع کیا۔چھم چھم کرتی ہوئی پریتی سرخ دائرے کا چکر کاٹنے کے بعد کیمرے کی طرف پشت کر کے ڈانسنگ پوز میں کھڑی ہو گئی۔ سر سے پیر تک ٹرانسپرنٹ گولڈن ڈوپٹے میں وہ خود کو ڈھکی ہو ئی تھی۔ میو زک کے ساتھ ہی وہ ڈو پٹہ ایک طرف پھینک کر کیمرے کی طرف مڑتی ہے۔‘‘(صفحہ نمبر150۔149)
                          پریتی کی ماں شو بھا کا کردار پورے ناول پر چھایا ہوا ہے۔اختر نے کمالِ فن کا ری سے کردار کو زندگی بخشنے کا کام کیا ہے۔ ایک نئے موضوع پر زندگی کے اوراق پلٹتے پلٹتے اختر آزاد نے بتا دیا ہے کہ بدلتے ہو ئے زمانے کے ساتھ اقدار بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہیں اور اب والدین برائیوں کو شہرت،Talent اور سماج میںStatus کا نام دے کر جائز اور وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔
                          اختر آزاد نے فن کا ری کے ساتھ سماجی برا ئی کو ظا ہر کرنے کا کام کیا ہے۔ شو بھا، شوبھا کے شو ہر ڈاکٹر کپل سنگھ، پریتی، پرنسپل، ایم ایل اے سلیم کانے، منتری جی ،شیام سندر،راج ملہوترہ ناول کے اہم کردار ہیں۔ مرکزی کردار کے طور پر شو بھا پو رے ناول پر چھا ئی ہو ئی ہے۔ ناول نگار نے شو بھا کے کردار کو بڑی فن کا ری سے ڈھالا ہے۔ شو بھا آج کی فیشن پرست، شہرت اور پیسوں کے لیے کچھ بھی کر نے کو تیار ہو جانے وا لی ایک ایسی عورت کی تصویر ہے جو ہر وقت خود کو اور اپنی بیٹی کو منظر عام پر لانے میں مصروف رہتی ہے۔ ویسے اس کا مقصد اپنی بیٹی کو سجا سنوار کر، بازار میں اس طرح پیش کرنا ہے کہ با زار میں اس کی بو لی سب سے زیا دہ لگے اور ہر طرف پریتی ہی پریتی ہو۔ اس کے دروا زے پر ریلٹی شو وا لوں کی قطار لگی رہے۔ در اصل وہ خود کو اس مقام پر دیکھنا چا ہتی ہے۔ لیکن عمر زیا دہ ہو نے کے سبب اب وہ اپنی معصوم بیٹی پریتی کو ہر طرح سے اس کے لیے تیار کر تی ہے۔ معصوم اور پاک صا ف ایک بچی کو زمانے کے فیشن اور عیا ری و مکا ری کے انجکشن دیے جاتے ہیں۔ وقت سے پہلے بچی کو جوان بنا دیا جاتا ہے اور شو بھا ظا ہری عیش و عشرت، نام اور پیسے کے لیے نہ صرف خود کو کہیں بھی پیش کردیتی ہے بلکہ اپنی بیٹی کو بھی اسی راہ پر ڈا ل دیتی ہے۔ یہ سماج کا انتہا ئی کریہہ چہرہ ہے۔ یہ چہرہ آج کل ہائی فا ئی سو سائٹی میں خوب نظر آ تا ہے۔ یہ ایسے چہرے ہیں جو اپنے مفاد کی خا طر نئی نسل کا حال تو حال، مستقبل بھی خراب کررہے ہیں۔ پو رے معا شرے کو تنزلی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
                        ’’ارے میں ویسی ساس نہیں کہ دا ماد کو صرف بیٹی کے ساتھ ہی با ندھ کر رکھوں گی۔ موڈرن زمانہ ہے جب جو جس کے ساتھ رہنا چا ہے رہے۔ دنیا میں اور رکھا ہی کیا ہے۔ اسی محور پر تو دنیا گھوم رہی ہے.....‘‘ پھر اس نے کلنڈر میں بنے شو لنگ کی طرف اشارہ کیا۔’’ہم سب تو ان کے انویائی ہیں۔ اس لیے دل کرے تو پریتی کے ساتھ عیش کرنا نہیں تو دوسرے کے ساتھ___اور اگر دونوں جگہ دل بھر جائے تو مجھے یاد کر لینا‘‘ شوبھا یہ کہہ کر آنکھ ما رتے ہو ئے وہاں سے جانے لگی۔‘‘ (صفحہ نمبر273) 
اختر آزاد نے اپنے نا ول میں ایسے چہروں کو بے نقاب کر نے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ سوسائیٹی کے نام پر کلنک شو بھا جیسی جنس و شہوت کی دیوانی عورت ،جو جنسی ملن کو ہی سب کچھ سمجھتی ہے۔اس کے آگے رشتے ناطے سب بے مقصد اور بے وقعت ہیں۔ان جیسے لوگ دراصل سماج کے ناسور ہیں،جو سماج کو اندر اندرکھوکھلا کر رہے ہیں۔ اختر نے اپنے ناول میں ان سب کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے ،سا تھ ہی ساتھ رئیلٹی شو کے نام پر اندر ون میں چلنے وا لے جنسی کھیل کو بھی رو شنی میں لا نے کا بڑا کام انجام دیاہے۔
                          ڈا کٹر کپل جو شو بھا کو شو ہر اور پریتی کا باپ ہے، کی شکل میں ایک ایسا کردار بھی ناول میں موجود ہے جو یہ سب نہ صرف پسند نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے خلاف حتی الامکان لڑا ئی لڑ تا ہے۔ لیکن وہ اکیلا پڑجاتا ہے اور بے بس بھی۔ ایک شریف باپ اپنی بیٹی کو غلط راہ پر جا تا ہوا دیکھتا رہتا ہے۔بیوی کی علیحدگی اور بیٹی کے ماں کے ساتھ چلے جانے سے وہ ٹوٹ جا تا ہے۔اختر نے ڈاکٹر کپل کا زندہ جاوید کر دار پیش کیا ہے۔
’’ ڈاکٹر کپل کو اب یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ شوبھا کے لئے خوبصورتی کے کیا معنی ہیں۔اور جب بیٹی اے ٹی ام کارڈ لگنے لگے تو پھر آپ چاہے جتنے بھی پاس ورڈ بدل لیں،لیکن شوبھا جیسی عورت جسمانی سسٹم کو ہائک کر کے سب کچھ کیش کرا لے گی‘‘ ( صفحہ نمبر 35 )
اختر آ زاد کا یہ ناول موجو دہ زمانے کا کچا چٹھا ہے۔ آج کے سماجی اور سیاسی منظر نامے کی ایک زندہ تصویر ہے۔ ناول میں عصری حسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ہر باب، ہر واقعہ سماج کے مختلف پہلو ؤں کی بھر پو ر عکا سی کرتا ہے۔
                           ناول میں نئے زمانے کی تکنیک بھی موجود ہے۔ اختر آزاد ناول میں خود بھی شریک ہیں اور قاری کو ابتدا، درمیان اور آخر میں ناول میں شریک کرتے رہتے ہیں۔ ناول کے ابواب کے سر نامے بھی اختر کے اپنے ذہنی اختراع ہیں۔مثلا مغربی ڈش اور لیگس فرائی چکن،حسن کی منڈی اور اے ٹی ایم کارڈ،اینٹی وائرس ویکسین اور سنہری دلدل،موسم ،بارش اور بھیگے بدن کا لمس،ناطرین ،ووٹنگ سسٹم اور جج صاحبان،عورت ،لیسن پلان اور قانون کے جوتے، وغیرہ۔
پورے ناول میں ناول نگار نے منفرد زبان کا استعمال کیا ہے۔موجودہ زمانے کی مکس زبان کو تخلیقیت کے سانچے میں ڈھال کر اختر آزاد نے ایک الگ لطف پیدا کیا ہے۔جو ناول کے موضوع اور ماحول کے اعتبار سے ضروری بھی ہے اور ناول میں دلچسپی بھی پیدا کرتا ہے۔
                        ’’ ........اور بھیگے بدن کا لمس آلود پانی،سوچ کی ٹیڑھی میڑھی نالیوں سے ہو کر ڈاکٹر کپل کی زندگی کے تالاب میں جمع ہوتا رہا۔‘‘
                        ’’ وقت شام کی سواری کرتے ہوئے جب بھی محوِ سفر ہوتا سورج احتراماً راستہ دیتا ہوا پہاڑی چوٹی سے نیچے رات کے آنگن میں اُتر جا تا۔‘‘
                           ’’جب ڈاکٹر کپل نے اپنی آنکھوں کی گولیاں گھمائیں تو انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ بچے چاہے کسی سوسائٹی کے ہوں،آج ان کے اندر                                     ’رئلیٹی شوز‘ کا ایسا وائرسداخل ہو گیا ہے۔جو پڑھ لکھ کر آئی اے ایس ڈاکٹر ، انجینئر،پروفیسر اور وکیل بننے کو بے وقوفی سمجھتے ہیں۔ ‘‘
اختر آزاد نے ناول کے انجام کو بھی ایک نیا پن دینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ناول کے دو انجام تحریر کئے ہیں اور قاری پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک انتخاب کر لے تا کہ قاری ناول میں ہر طرح سے شریک رہے۔یہ اردو ناول میں نیا پن ہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ یہ بات ادب میں قابلِ قبول ہے یا نہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ایک اور بات ناول کی ایک خوبی اور خامی یہ ہے کہ مرکزی کردار کے طور پر ناول نگار نے پریتی کو پیش کیا ہے،لیکن پریتی کی ماں شوبھا ناول کی مرکزی حیثیت سے کہیں بھی بار نہیں ہوتی اور پورا ناول پریتی کے بجائے شوبھا کے گرد گھومتا ہے۔قاری مرکزی کردار کا تعین نہیں کر پاتا۔وہ مصنف کے بنائے فارمولے کے مطابق نہیں سوچتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول شوبھا نامی کردار کا ناول ہے۔ویسے بھی کنگ سے بڑا کنگ میکر ہوتا ہے اور لیمی نیٹیڈ گرل سے زیادہ اسے لیمینیٹ کرنے والا کردار ،یعنی شوبھا بڑی ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اختر آزاد کا ناول’’ لیمی نیٹیڈ گرل‘‘ اردو میں نئے موضوع پر لکھا گیا ایک بہتر ناول ہے،جو ناول نگار کے طرزِ تحریر کا اچھا نمونہ ہے۔اختر آزادسے بہت سی امیدیں ہیں، وہ آئندہ اور بہتر ناول تحریر کریں گے۔ *** 
, عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته., 09456259850 University, Meerut HOD, Urdu, CCS ، Dr. Aslam Jamshedpuri

Read 2994 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com