الجمعة, 19 كانون1/ديسمبر 2014 11:21

”آخری پرواز “ پرویز ؔ کی پہلی افسانوی پرواز: ڈاکٹر اسلم جمشید پو ریؔ

Rate this item
(0 votes)

   ڈاکٹر اسلم جمشید پو ری

 

 ”آخری پرواز “  پرویز ؔ  کی پہلی افسانوی پرواز

 

            مہتاب عالم پرویز، جمشید پو ر کے80ء کے بعد اُبھرنے والے تازہ کا ر افسانہ نگار ہیں۔ مہتاب نے شہر آہن کی فضا ؤں میں آنکھیں کھو لیں، قلم سنبھا لا اور واقعات کو قصے اور کہا نیوں کا لباس عطا کیا۔ پھر عمر کا ایک بڑا حصہ خلیج کے ریگ زاروں میں گذا را......سنگ، آہن، سفر،پرندہ، پرواز، ریگستان،نخلستان، وطن سے دوری، اپنوں کی بے پناہ محبتیں، قربتوں اور فاصلوں کے درمیان جھولتی زندگی، تنہا ئی،اندرون کا سفر، شناخت اورباز یافت کا مسئلہ وغیرہ ایسے مو ضو عات ہیں جن سے پرویز کا سامنا ہمیشہ ہو تا رہا ہے۔ یہی باعث ہے کہ پرویز کی کہا نیوں میں کچھ اشیاء نے مستقل علامت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ پرندہ، پرواز، ریت، کبوتر،باز، سفر....... ان کے یہاں صرف الفاظ کی صورت استعمال نہیں ہو ئے ہیں بلکہ گنجینہئ معنی کا طلسم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ لفظ اپنے اندر معنی کی پوری کائنات رکھتا ہے شرط لفظ کے در، وا کر نے کی ہو تی ہے معنی کا طلسم خود ظا ہر ہو نے لگتا ہے۔ پرویزؔ کی متعدد کہا نیاں اس کی عمدہ مثال کہی جا سکتی ہیں۔

            ’آخری پرواز‘ مہتاب عالم پرویز ؔکی ایسی ہی ایک عمدہ کہا نی ہے۔ بظا ہر ایک رو مانی کہا نی ہے۔ کبوتر اور کبوتری کے عشق و وصال کا قصہ ہے۔ ہر طرف پیا رہی پیا ر۔کبوتری نے انڈے دیے۔ بچے نکلنے کا وقت آ یا تو بالکل فلمی کہا نیوں کی طرح ایک ولن یعنی حضرت باز کہیں سے کہانی میں داخل ہو جاتے ہیں اور اپنی طے شدہ لائن کی طرح گھونسلے میں توڑ پھوڑ، انڈوں اور ان میں سے باہر آ نے کے منتظر نو زائیدہ بچوں اور کبو تری کو اپنے ظلم و ستم کا شکار بنا کر چلے جاتے ہیں۔ کبو تر واپسی پر یہ منظر دیکھتا ہے تو کراہ اٹھتا ہے۔ اُ جڑا ہوا گھو نسلہ، ٹوٹے اور بکھرے کبو تر ی کے پر،  لہو لہان ٹوٹے پڑے انڈے، انڈوں سے آدھے ادھو رے چو زے مردہ حا لت میں ادھر ادھر پڑے ہیں۔دور زخمی حا لت میں کبوتری بھی مل جاتی ہے جو قریب المرگ ہے۔ کبوتری، کبوتر کی گود میں اس دارِ فانی کو الوداع کہہ جاتی ہے۔.....اوپر آسمان پر باز کو منڈلاتے دیکھ کر کبوتر اپنی ساری طاقت مجتمع کرکے اس پر حملہ آ ور ہو تا ہے۔ جنگل کے پرندے اس کے ہمراہ ہیں۔باز یہ سب دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ کہا نی مکمل ہو جاتی ہے۔

            کہانی اپنی اوپری سطح پر ایک المناک رو مانی کہا نی ہے۔ پرویز ؔنے عمدگی سے کبوتر،کبوتری اور باز جیسے کرداروں پر ایک عام سے عشقیہ مو ضوع پر، خوبصورت اور منفرد کہانی لکھی ہے۔ یہاں وصال کی عکاسی بھی لا جواب ہے۔ ایسا لگتا ہے دو انسان آپس میں پیار کررہے ہیں۔

”آنسوؤں کے دو موٹے قطرے ایک کے رخساروں پر ڈھلک آ ئے اور ایک نے اپنی چونچ میں ان آ نسو ؤں کو سمو لیا اور بڑے ہی پیار بھرے انداز میں کہا۔”یہ آ نسو زمین میں جذب ہو نے کے لیے نہیں، بلکہ میرے وجود میں جذب ہوجانے کے لیے ہیں۔ تم رو کیوں رہی ہو آج تو خوش ہو نا چاہیے تم اتنی جلدی گھبرا کیوں گئیں ......اس طرح نہیں رو یا کرتے پگلی، دیکھو آج کا سورج ہم دو نوں کے لیے تو طلوع ہوا ہے۔“اور پھر ان کے درمیان خا موشی کی چادر تن گئی۔“

            وصل کا اُجالا جب ہجر کے اندھیرے میں ضم ہو نے لگا اور ہجر سیاہ رات کی مثل چھا جاتا ہے تو کبوتر، کبوتری سے یوں گویا ہو تا ہے۔

”در اصل مجھے جانا ہے....... نا معلوم منزل کی اور.......

ایک تو جانے کا کہہ رہے ہو اور دوسرے گم سم اور اداس، کوئی زندگی بھر کے لیے تو نہیں جارہے ہو۔تم کوئی انسان نہیں کہ بے وفا نکلو، مجھے تمہارے وعدے پر اعتبار ہے۔“

            مہتاب عالم پرویزؔ نے باز کے ذریعے گھونسلے، انڈوں اور کبوتری کی تباہی کے بعد کبو تر پر گذرنے وا لی قیامت کو عمدگی سے لفظوں کے پیرا ئے میں بیان کیا ہے۔ قاری اپنے آنسوؤں پر بڑی مشکل سے قابو رکھ پا تا ہے۔

”وہیں پر کبوتری بھی خون میں شرا بور تڑپ رہی تھی۔ اس کی آ نکھوں سے گرم گرم آ نسو امڈ پڑے۔ اس نے کبو تری کا زخمی سر اپنی گود میں لے لیا۔ میں اپنا وعدہ نہیں نبھا سکی مجھے معاف کردو“کبوتری اتنا ہی کہہ سکی۔اب کی بار کبوتری کے منہ سے چیخ نکل کر ساری کائنات پر پھیل گئی۔“

            ہر افسا نے کی ظا ہری سطح ہوتی ہے۔’آخری پرواز‘ اپنی ظا ہری سطح پر بھی ایک مکمل سبق آ موز کہا نی ہے جس میں افسانہ نگار نے فنکاری سے مظلوموں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر کے ہر مصیبت کا متحد ہو کر مقابلہ کر نے کی عملی رائے دی ہے۔

            اچھا اور بڑا افسا نہ متعدDimentionsرکھتا ہے۔ اس کی ظا ہری سطح کے اندر ایک اور سطح ہو تی ہے جس کا ادراک اور تفہیم متجسس قا ری کے ہی حصے میں آ تی ہے۔’آخری پرواز‘ ایسی ہی ایک کہا نی ہے۔ کبو تر کو ہم امن و امان، صلح وآشتی اور صبرو سکون کی علا مت کے طور پر بھی جانتے ہیں جو ایسے انسا نوں کی نمائندگی کرتا ہے جو صلح پسند ہیں،زمین پر امن و امان چاہتے ہیں۔دوسرے کبوتری، صنف نازک، کمزور طبقے، مجبور و بے بس انسا نوں کی علا مت ہے۔ باز، ولن، دشمن،مکار، عیار، دہشت پسند، آتنک وادی، شر پسند انسان نما شیطان کی علا مت ہے جو جسم و ہیئت، تیزی وطراری میں کبوتر سے کئی گنا زیادہ ہو تا ہے۔جس کا کام اپنے پیٹ کے لیے شکار کرنا، دہشت پھیلا نا اور تشدد کر نا ہو تا ہے۔ اُ سے اس کی پرواہ نہیں ہو تی کہ کسی کی جان جائے یا کوئی دہشت زدہ ہویا کہیں تباہی رقص کرے........ازل سے دو نوں طرح کے انسان ہو تے آ ئے ہیں۔ کہانی ظلم کی کسی بھی داستان میں فٹ نظر آ ئے گی۔ باز کا کردار دہشت اور تشدد پھیلا نے والے ہر اس شخص جیسا لگتا ہے جو انسانیت کا دشمن ہے۔ باز کا کبوتر کے گھونسلے کو تباہ و برباد کرنا کیا گجرات کی یاد تازہ نہیں کرتا۔ نا مکمل چو زوں کا خون، کیا بے گنا ہ ماؤں کے رحم میں پل رہے بچوں کا وحشیانہ قتل نہیں لگتا۔ ایسا لگتا ہے کہا نی گجرات کے فساد کا آ نکھوں دیکھا حال بیان کررہی ہے۔ ہمیں خود کے کردار پر سوچنے کی بھی دعوت دے رہی ہے کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں، اس وحشی باز کے خیمے میں شامل ہوکر ظلم و ستم کی نئی نئی داستان رقم کررہے ہیں۔ یا بے کس و مجبور کبوتری کی طرح ہر ظلم کو خاموش سہنے وا لوں میں ہیں یا پھر ظلم کے حد سے گذر جانے کے بعد خالی ہاتھ ہی اُ ٹھ کھڑے ہو نے وا لے اس مظلوم کی طرف،جس نے اپنا سب کچھ کھو کر سر پر کفن باندھ کر اپنی، اپنے گھر اور وطن کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے اور طا قت ور سے طاقت ور باز سے بھی ٹکرا جانے کو اپنی پو ری قوت کے ساتھ میدان جنگ میں آ چکا ہے۔جس کے تیوروں اور اس کے پیچھے، اس جیسوں کا ہجوم دیکھ کر باز کے دل میں یکبارگی کو تو خوف گھس جاتا ہے۔ یہ کہا نی کا وہ مقام ہے جہاں سے ایک انقلاب کروٹیں لے کر منظر عام پر آ نے کو بے تاب ہے۔ یہ غریب، دبے کچلے، پسماندہ اور محروم طبقے کی ہنکار ہے جس نے حکمراں طبقے کواور ایوان کی بلند و بالا عمارتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تصور کیجئے، کیا آ پ کو پر عزم کبوتر اور اس کے پیچھے بے شمار پرندوں کے ہجوم میں انا ہزارے اور اور ان کی حمایت میں امڈے انسانی سیلاب کی تصویر نظر نہیں آتی۔ غور کریں گے تو کبوتر آپ کو عوا می انقلاب کا نما ئندہ نظر آ ئے گا۔ یہی نہیں ظلم کے خلاف آواز اُ ٹھا نے وا لے ہر شخص کی تصویر آپ کو کبوتر میں نظر آ ئے گی۔

            کہا نی کے عنوان نے بھی مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ میں نے بہت غور کیا تو سمجھ میں آ یا کہ اس کا عنوان تو ’پہلی پرواز‘ ہو نا چاہیے تھا۔ وہ پہلی پرواز، جو شاید سب سے آخر میں شروع ہو رہی ہے۔ یہ پرواز ظلم و ستم کے خلاف پہلی پرواز ہے۔ یہ ہر اندھیرے کے بعد طلوع ہونے وا لے اجالے کی مانند تھی۔اسی سبب کہا نی کا نام پہلی پرواز ہو تا تو بہتر تھا۔ لیکن مجھے لگتا ہے پرویز اپنی جگہ درست ہیں۔ وہ ظلم و بربریت کی پرواز کو اب اور زیا دہ برداشت نہیں کر  سکتے۔ اس لیے انہوں نے کمزور اور مظلوم کبوتر اور دوسرے پرندوں کی متحد ہو کر اپنے دشمن کے خلاف حملے گھبرا کر، اپنی جان بچانے کے لیے باز جیسے ہمت اور طاقت ور، تیز رفتار، باز کی انتہا ئی بزدلانہ اور جان بچاکر بھاگنے وا لی پرواز کو آخری پرواز کہا ہے کہ اب ظالم نہیں بچے گا اور بس یہی اس کی آخری پرواز ہو گی اور شاید اسی لیے انہوں نے کہا نی کا آخری جملہ”ظلم و ستم کی داستان کا شاید اب انت ہو نے وا لا ہے۔“ تحریر کیا ہے۔

            کہا نی کا اختتام قدرت کے ایک اور اصول کی طرف خوبصورت اشارے کرتا ہے۔ ہر انجام کسی نہ کسی آ غاز کا با عث ہو تا ہے۔ ایک دنیا ختم ہوتی ہے تو کئی نئی دنیا ئیں آ باد ہو جاتی ہیں۔ بظا ہر کہا نی ختم ہو رہی ہے لیکن کبوتر کے حوصلے اور ہمت کے سہا رے ایک نئی دنیا کا آ غاز ہو رہا ہے۔

            کہا نی کی لسانی تفہیم بھی ہمیں کہا نی کے مرکزی خیال سے قریب کرتی ہے۔ پرویز ؔنے کہانی میں علامتی زبان کا بہتر استعمال کیا ہے۔ پوری کہانی میں جس لفظیات کا استعمال ہوا ہے وہ کہا نی کے طلسم کی اجتماعی صورت گری کرتی ہیں۔ کبوتر، کبوتری، باز، بھوک، پیاس، اندھیرا، سناٹا، چمگادڑ، رات، صبح، سورج، سمندر،خاک، خون، دھوپ، خوف، چیخ، حیرت، ظلم و ستم،جیسے الفاظ کہانی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لفظوں کی عمدہ ترتیب سے وجود میں آئے جملے، وا قعہ کو حقیقت کی شکل عطا کرنے میں کامیاب ہیں۔

            ’آخری پرواز‘ میں افسا نہ نگار سے کئی جگہ سہو بھی ہو ا ہے۔ کہا نی کا آخری جملہ وہ نہ بھی لکھتے تو بھی کہانی قا ری کے اندر اپنے وسیع تر امکا نات کے ساتھ اُ تر جاتی بلکہ یہی زیا دہ بہتر ہو تا۔کہیں کہیں ماحول کی عکاسی کرتے وقت، ماحول،کردار اور مو سم کے توازن کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ ان چھو ٹی موٹی اغلاط کے باوجود کہا نی کا مرکزی خیال، یا کہا نی کی ترسیل متاثر نہیں ہوتی۔ پرویز کی یہ کہا نی ان کی نما ئندہ کہا نی کہلائے جانے کی مستحق ہے اور پرویز کی افسانوی پرواز کی ابتدا ہے   ؎  ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

٭٭٭

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ؔ

Read 3020 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com