الجمعة, 02 كانون2/يناير 2015 10:00

اسلم جمشیدپوری کے افسانوں میں دیہات : فرقان سنبھلی

Rate this item
(1 Vote)

  اسلم جمشیدپوری کے افسانوں میں دیہات
  فرقان سنبھلی


                اسلم جمشیدپوری کاشمار دورحاضرکے کامیاب افسانہ نگاروں میں ہوتاہے۔ انھوں نے جن موضوعات پر افسانے لکھے ہیں وہ نہ صرف شہربلکہ گاؤں کے مسائل کوبہ خوبی متعارف کراتے ہیں۔ اسلم جمشیدپوری نے فنی لوازمات کا لحاظ رکھتے ہوئے افسانے لکھے ہیں جس کی وجہ سے افسانے نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ سماجی، عصری مسائل کوخوبصورتی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ وہ جس نوع کے افسانہ نگارہیں اس میں افسانوں کا Categorization توممکن نہیں پھربھی الجھن کودورکرنے کے لیے موٹے طورپردوزمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک وہ افسانے جوشہرکی زندگی اوراس کے مسائل پرمبنی ہیں اوردوسرے وہ جوپریم چندکی روایت کاحصہ ہیں ساتھ ہی دیہی مسائل اوردیہی زندگی کے عکاس ہیں۔
               اسلم جمشیدپوری نے دیہی زندگی کے تعلق سے جوافسانے تخلیق کیے ہیں ان میں سے ”لینڈرا“،”عیدگاہ سے واپسی“،”شبراتی“،”بدلتاہے رنگ“،”دن کے اندھیرے رات کے اجالے“،”اندھیراابھی زندہ ہے“،”نہ بجھنے والا سورج“وغیرہ اہم افسانے ہیں۔ جنھوں نے نہ صرف مقبولیت حاصل کی ہے بلکہ ادب میں بھی گراں قدراضافہ کیاہے۔ ان تمام افسانوں میں گاؤں کی زندگی کے مختلف شیڈپیش کیے گئے ہیں جس طرح کی حقیقت نگاری ان افسانوں میں دکھائی دیتی ہے وہ ان افسانوں کوپریم چندکی روایت کاحصہ بنادیتی ہے۔قابل ذکربات یہ ہے کہ انھوں نے ان افسانوں میں اکثرانہی تکنیک کواپنے اندازمیں برتاہے جوکہ پریم چندکاخاصہ ہیں۔ ان افسانوں کااختتام بھی تقریباً اسی اسٹائل میں ہوتاہے جیساکہ پریم چندنے اپنے بہت سے افسانوں کااختتام کیاہے۔مثلاً
”ہائے اللہ …………“
               ایک دلدوز ودلخراش چیخ کے ساتھ شبراتن شبراتی کے بے جان جسم سے لپٹ گئی۔ اس کے دونوں بچے بھی روتے ہوئے لاش پرٹوٹے پڑرہے تھے۔
گاؤں والوں کی زبانوں پرتالے پڑگئے تھے۔ ان کے سروں پر مانومنوں بوجھ تھاکہ سب کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں۔ گاؤں سے دکھ نکل گیاتھا۔
شبراتی کے دونوں بچے اپنی ماں کادامن کھینچ رہے تھے گویاکہہ رہے ہوں، ماں ہمارے گھرمیں گھسے دکھ کوکون نکالے گا……؟“
(کہانی محل۔ص98)
”لینڈرا“اسلم جمشیدپوری کانہایت اہم افسانہ ہے جوکہ لینڈراکے کردارکی ذہنی و فکری کشمکش اوراس کے نفسیاتی پہلوپراس اندازمیں روشنی ڈالتاہے کہ دیہی زندگی کامکمل سچ ہمارے سامنے آکھڑاہوتاہے۔ افسانے کاتانابانانہایت چابک دستی کے ساتھ بناگیاہے۔ کہانی ایک ربط کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اورجزئیات ومفاہیم کی دنیاآبادہونے لگتی ہے۔ لینڈراکاکرداراسلم جمشیدپوری کے عمیق مطالعہ ومشاہدہ کی طرف اشارہ کرتاہے چونکہ لینڈراکے حقیقی کردارسے اسلم جمشیدپوری کاواسطہ پڑچکاتھااس لیے کردارکی پیش کش اورزیادہ حقیقی بن گئی ہے۔ لینڈراپرہونے والے ظلم،اس کے خلاف لینڈراکابے نیازانہ عمل اورپھراچانک خودی کے جاگنے پرخودکوانسانی جبلت کے عین مطابق پیش کش نے لینڈرا کوآفاقی کرداربنادیاہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”کون ہے……؟
آوازکلواکے ماموں کی شادی شدہ بہن کی تھی۔ جوشادی میں شریک ہونے ایک ہفتے سے آئی ہوئی تھی۔
”میں ……میں ……“
”میں کون……لینڈرا……“
”ہاں ……چلم بھرنے آیوتھو۔(آیاتھا)“
لینڈراکہنے پراس کے تن بدن میں آگ لگ گئی گویاچلم کی آگ نے اس کے بدن کے حقّے کوسلگادیاہو۔ نجانے کیوں وہ ایک عورت کے منہ سے لینڈراسن کرجل گیاتھا۔“
(کہانی محل۔ص32)
لینڈراکے ذریعے اسلم جمشیدپوری نے اس گاؤں کی زندگی کی بہترین عکاسی کی ہے جوکہ دلہن کے ساتھ جہیز میں آئے بچے کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کوتیارنہیں ہے۔ لینڈراایک چڑھ بن جاتی ہے اورفقیرمحمد”لینڈرا“کے نام سے ہی مشہورہوجاتاہے۔ مصنف نے ”لینڈرا“کے آغازمیں لینڈراکوبے ضرراورشریف النفس انسان بناکرپیش کیاہے جو کہ موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی نہیں کرتااوربے نیازی کے ساتھ اپنے اوپرہونے والے ظلم کربرداشت کرجاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پورے گاؤں کابے اجرت مزدوربن جاتاہے۔ گاؤں کی عورتیں اورنوجوان لڑکیاں بھی اس سے خوب گھلی ملی رہتی تھیں اورتمام ظاہراورخفیہ کام بھی کرواتی رہتی تھیں:
”گاؤں کی عورتیں جن میں بزرگ عورتیں بھی شامل تھیں اورنوجوان لڑکیاں اوربہوئیں بھی۔سب لینڈرا سے ایسے گھلی ملی تھیں جیسے لینڈراانھیں کی نسل کاہو۔ کسی کولینڈراکے مردہونے کایقین نہیں تھا۔ وہ اس کی موجودگی میں اپنی خفیہ باتیں بھی کرلیتیں۔ بغیردوپٹے اس کے سامنے آجاتیں۔ لینڈراسے نہانے کا گرم پانی غسل خانے میں رکھوالیتیں۔ کبھی کبھی ہاتھ پاؤں بھی دبوالتیں“۔
(کہانی محل 30)
لینڈراکابے ضرراورمخلصانہ رویہ دراصل گاؤں کے مردعورتوں کوبے حس بنا دیتا ہے اوروہ اس کی نفسی خواہشات کی طرف سے اس قدرلاپرواہ ہوجاتے ہیں کہ گھروالے اس کی شادی تک کے بارے میں خیال نہیں کرتے۔ سب خودساختہ طورپرمان لیتے ہیں کہ لینڈراشادی کے لائق ہی نہیں ہے؟یہی بات لینڈراکے ذہن میں ٹھہرجاتی ہے۔ پھرجب اس کے بھائی کلواکی ممیری بہن اس کو’لینڈرا‘کہتی ہے تواس کے اندرکامرد جاگنے لگتاہے۔ وہ جب اس کی ٹانگیں دبانے لگتاہے توپہلی مرتبہ اسے اپنے اندرجنسی تلذذکااحساس جاگتاہوامعلوم ہوتاہے۔ جب کلوااپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعداس سے دوبارہ نکاح کرناچاہتاہے توحلالہ کے لیے لینڈراکاانتخاب کیاجاتاہے۔ لینڈراکانکاح ہوجاتاہے اوراسے حجلہئ عروسی میں رات گذارنے کے لیے بندکردیاجاتاہے انسانی فطرت کے عین مطابق اچانک لینڈرا کے اندردبی نفرت کی چنگاری سلگ اٹھتی ہے وہ اپنے اوپرہوئے ظلم کویادکرتاہے اورگاؤں والوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں پرغورکرتاہے۔ دھیرے دھیرے اس کاذہن بیدارہوتاہے۔ اس کے اندرشادی کی پہلی رات کاتجسس،ظلم کے بدلے کی چنگاری، جنسی تلذذکی خواہش جیسے جذبات ایک ساتھ ابھرتے ہیں۔انہی جذبات سے مغلوب ہوکروہ خود کو مرد ثابت کردیتاہے۔
”لینڈرا“افسانے کاپوراماحول دیہی زندگی کانمونہ ہے اسلم جمشیدپوری نے اس افسانے میں جزئیات پرخاصا زوردیاہے۔ انھوں نے گاؤں کی تہذیب اورفضاکی بڑی حقیقی تصویرکشی کی ہے۔ فقیرمحمدعرف لینڈراکے پیچیدہ کردارمیں بڑی جاذبیت ہے۔ وہ جب انتقام بھی لیتاہے توقاری اس کے عمل کوہمدردی کے ساتھ دیکھنے پرمجبورہوجاتاہے کہ یہ سماج ہی توہے جس نے اس کی طرف سے بے حسانہ رویہ اختیارکررکھاتھااوراسے توڑنے کی صورت شایداس کے پاس کوئی اور نہیں تھی۔ افسانے کاپلاٹ مربوط ہے جس کی وجہ سے تجسس کی فضامسلسل برقراررہتی ہے۔ حالانکہ اختتام بے حد فطری ہے۔ آخری حصے میں لینڈراکے پھرسے فقیرمحمدبن جانے کے احساس اورذہنی کشمکش کواسلم جمشیدپوری نے خوبصورت بیانیہ کے ذریعے پیش کیاہے۔ لینڈرانے مواقع ملنے کے باجودبھی گناہ نہیں کیے تھے جس کی وجہ سے اس کے بارے میں غلط فہمی یایوں کہیں کہ بے حسی کارویہ عام ہوگیاتھا۔ اختتام پروہ اپنے جائزحق کااستعمال کرکے نہ صرف خودکو مکمل مرد ثابت کردیتاہے بلکہ کیاہواوعدہ بھی نبھادیتاہے۔اقتباس ملاحطہ فرمائیں:
”کتنااطمینان ہے حرام زادی کے چہرے پر……کیوں ہے یہ اطمینان،صرف اس لیے ناکہ میں لینڈراہوں۔ لینڈرا جو شاید مرد نہیں ہوتا۔ گاؤں کی ساری عورتیں مجھے یہی سمجھتی ہیں نا۔ انھیں یہ نہیں پتہ لینڈرا،مردہے،لیکن بدکردار نہیں۔ کبھی کسی لڑکی کونہیں چھیڑا، کسی عورت کی طرف نگاہ اٹھاکرنہیں دیکھاتواس کامطلب یہ تونہیں کہ میں مردنہیں …… نامردہوں۔ سارے گھرکو،پورے گاؤں کواطمینان ہے۔ سب مجھے نامردسمجھتے ہیں ……آؤ،گاؤں والودیکھ لو……میں نامرد نہیں ہوں۔
رات کے پچھلے پہرلینڈراکے کمرے سے ابھرنے والی چیخوں اورکراہوں نے فضامیں ارتعاش پیداکردیاتھا۔ صبح کی نمازکے بعد لینڈرا،نہیں فقیرمحمد، جوآج بادشاہ وقت سے کم نہ تھا، نے حسب وعدہ گہناچکے چاندپراپنے دروازے ہمیشہ کے لیے مقفل کردیے۔“
(کہانی محل۔ص38)
”شبراتی“افسانہ اسلم جمشیدپوری کادیہی پس منظرمیں لکھاگیاایساافسانہ ہے جوکہ گاؤں کے سیدھے سادے عوام میں اندھ وشواس اورٹونے ٹوٹکے کے ذریعے مسائل کاحل نکالنے کی کوششوں پرچوٹ کرتاہے۔’شبراتی‘کامرکزی کردارشبراتی ہے جوکہ مشترکہ تہذیب کی علامت ہے اورگاؤں سے دکھ نکلوانے کی خاطرخودکی جان گنوادیتاہے۔ افسانہ کا آغاز گاؤں کے لوگوں کی اس فکرکے ساتھ ہوتاہے کہ ان کے جانورکسی نامعلوم بیماری کی وجہ سے مرتے جارہے ہیں گاؤں والے اس بیماری سے نجات پانے کے لیے طوفانی رات میں شبراتی کوگاؤں سے باہردکھ سے بھرے گھڑے کودفنانے بھیج دیتے ہیں۔ شبراتی گاؤں سے دکھ نکالنے کی خاطراپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس مشن پر جاتاہے۔ اس مشن میں اس کے ساتھ بھیجے گئے دوسرے لوگ طوفانی بارش سے گھبراکرچپ چاپ اسے اکیلاچھوڑکرگاؤں واپس چلے آتے ہیں لیکن شبراتی کام کوکامیابی کے ساتھ مکمل کرکے واپس لوٹتے وقت ٹیوب ویل کی نالی میں گرکرڈوب جاتاہے اوراس کی موت ہوجاتی ہے۔ افسانے کااختتام قاری کوسوچنے پرمجبورکردیتاہے کہ پورے گاؤں کے دکھوں کوختم کرنے والے کے گھرمیں درآئے دکھ کواب کون نکالے گا۔ شبراتی کی لاش کے پاس شبراتن اوراس کے دونوں بچے بین کررہے ہیں۔ ان کی آنکھیں سوال کرتی ہیں جس کاجواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اسلم جمشیدپوری نے افسانے کوفنی چابک دستی کے ذریعے نہایت متاثرکن اندازمیں پیش کیا ہے۔ ہندواکثریتی گاؤں میں مسلمان شبراتی کوہی کیوں اس خطرناک کام کے لیے چنا جاتا ہے یہ واضح نہیں ہوپاتا۔ افسانے میں اندھے یقین کی روایت، طوفانی رات کابیان اور منظرکشی کوبہترین ڈسکرپشن کہاجاسکتاہے جوکہ افسانہ کے بیانیہ کوبڑی تقویت دیتاہے۔ یہ افسانہ آج کے حالات میں بھی بے حدموثرافسانہ ہے جوکہ گاؤں کی زندگی میں پنپنے والے اندھ وشواس کی جیتی جاگتی تصویرپیش کرتاہے۔ افسانے کی زبان میں برج بھاشا کا اثر دکھائی دیتاہے جوکہ گاؤں دھنورا(بلندشہر)کی عام بول چال سے میل کھاتاہے۔افسانے کے مکالمے فطری ہیں جوکہ گاؤں کی زبان میں ہی پیش کیے گئے ہیں۔مثلاً:
”رات تاریک تھی۔ چاروں طرف ایک ہوکاعالم تھا۔ آسمان کالے کالے بادلوں سے بھراتھا۔ کبھی کبھی بجلی کی چمک اوربادلوں کی گرج ماحول کوپرہول بنارہی تھی۔ ملکھان سنگھ کی بیٹھک پرگہماگہمی تھی۔ گاؤں کے نوجوان اور بوڑھے جمع تھے۔ شبراتی نے سر پر منڈاسہ (پگڑی)اوردھوتی کولنگوٹ کی صورت پہن رکھاتھا۔ اس کے پورے جسم پر کالی سیاہی ملی ہوئی تھی۔ چہرہ بھی کالک سے پوت دیاگیاتھا۔ دس ہٹے کٹے نوجوان بھی کچھ اسی قسم کاحلیہ بنائے ہوئے تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں لاٹھی اوربلم تھے۔ تیاری مکمل تھی۔ بس مکھیاکی اجازت دینے کی دیرتھی“۔
(کہانی محل۔ص94)
شبراتن کے کچھ مکالمے ضروراٹپٹے محسوس ہوتے ہیں جیسے:
”اے اللہ میرے پتی کوسپھل واپس لائیو“
مسلمان گھروں کی خواتین اس زبان کااستعمال گاؤں میں بھی نہیں کرتی ہیں۔ زبان کے معاملے میں یہ اختلاف رائے پایاجاتاہے کہ کچھ ادیب ہندی الفاظ کے زیادہ استعمال کوبھی برانہیں مانتے جب کہ زیادہ ترکی رائے ہے کہ اردوزبان لکھتے وقت صرف اسی حالت میں غیر زبان کالفظ استعمال کیاجائے جب کہ اس کامتبادل اردومیں موجود نہ ہو۔ لیکن گاؤں کی زبان کے بارے میں کیاکہاجاسکتاہے کہ اس پربرج اورکھڑی بولی کے جواثرات مرتب ہوئے ہیں اس کے سبب ہندی کے الفاظ اورگؤ، آگو، میروپتی جیسے الفاظ بھی افسانے میں استعمال ہوئے ہیں۔ اسلم جمشیدپوری نے شبراتی کے کردار میں حقیقت کے خوب رنگ بھرے ہیں۔ اس کے کردارکی مضبوطی اسے آئڈیل کرداربنادیتی ہے جوکہ اپنے کام کے لیے خودکوپوری طرح وقف کردیتاہے گاؤں اورگاؤں کے لوگوں کے لیے اس کی عقیدت دورحاضرکے مشترک تہذیب والے گاؤں کے لیے مثال بن جاتی ہے۔
”مکھیاجی کی رہنمائی میں ساراگاؤں پنڈت گوپال کے کھیت کی طرف چل پڑا۔ چاروں طرف پانی کی حکومت تھی۔ گوپال کا کھیت بھی پانی سے لبالب تھا۔ شبراتی کادوردورتک پتہ نہیں تھا۔ سب کے چہروں پرہوائیاں اڑرہی تھیں۔ اچانک کسی کے زورسے چلانے کی آوازآئی۔
”شب…………شبراتی …………!!
سب اس طرف لپکے۔ جمن کاکاسرکاری نالی پرکھڑے تھے۔ وہاں شبراتی کابے جان جسم پڑاتھا۔ اس کاجسم پھول کرکافی موٹاہوچکاتھا۔جابجا کالک لگااس کاجسم بہت ہی ڈراؤنالگ رہا تھا۔ نالی کے گہرے پانی سے بڑی مشکل سے اس کی لاش کونکالاگیا۔ لوگوں کی آنکھوں سے زاروقطارآنسوبہہ رہے تھے“۔

Read 2106 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com