الأحد, 19 نيسان/أبريل 2015 07:52

مہتاب عالم پرویزؔ کے گرم افسانے MAHTAB ALAM PERVEZ KE GARM AFSANE : رضوانؔ واسطی

Rate this item
(0 votes)

  مہتاب عالم پرویزؔ کے گرم افسانے

   MAHTAB ALAM PERVEZ KE GARM AFSANE


   از:...رضوانؔ واسطی


         برسوں قبل کی بات ہے ایک دن ٹاٹا اسٹیل شعبہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے بلا کر کہا۔”رضوان صاحب! آپ کا تعلق ساہتیہ سے ہے، ذرا اس کتاب کو دیکھئے، خاص طور پر پنسل سے نشان شدہ سطروں کو...، ایک گارجین کی شکایت ہے کہ یہ اشلیل(فحش) کتاب ان کے بیٹے کو اپنے کلاس میں اول آنے کے سلسلے میں بطور انعام دی گئی ہے۔“ انہوں نے اپنے کیبنیٹ کے دراز سے ایک لفافہ نکالااور اس میں سے جو کتاب نکالی وہ سعادت حسن منٹو کا واحد ناول ’ بغیر عنوان‘ تھا..میں نے کہا۔”سر، اسے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، اسے میں اسی وقت پڑھ چکا ہوں جب میں خود ہائی اسکول کا طالب علم تھا۔یہ اردو کے اس ا فسانہ نگار کی کتاب ہے جسے لوگ شہنشاہِ افسانہ کہتے ہیں۔ دنیا کے عظیم افسانہ نگاروں کی صف میں کھڑے کئے جاتے ہیں، یہ ان کا واحد ناول ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ کچے ذہنوں کے بچوں کو یہ کتاب پڑھنے کے لیے نہیں دینی چاہئے تھی، بچے غلط اثر لے سکتے ہیں۔میں دیکھو ں گا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوا“ بہر حال بعد میں پتا چلا کہ جن کتابوں کی فرمائش کتاب دُکان میں کی گئی تھی اس فہرست میں یہ کتاب نہیں تھی، اس کی جگہ ایک مذہبی کتاب تھی۔اور اس کتاب کی نایابی کی صورت میں لگ بھگ اسی قیمت کی دوسری ’اہم‘ کتاب دُکان کی طرف سے ڈال دی گئی تھی جو اردو کے عظیم افسانہ نگار کی لکھی ہوئی تھی۔اور اس طرح طا لب علم کے ہاتھوں تک یہ کتاب پہنچ گئی۔ یہ عجیب حقیقت تھی جو افسانہ بن گئی۔
اس سے پہلے کہ میں مہتاب عالم پرویز ؔاور ان کے افسانوں یا گرم افسانوں کے بارے میں کچھ عرض کروں آپ کی توجہ ا ن مہتاب عالموں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو لاکھوں کی تعداد میں اپنے بیوی بچوں، خاندان کے افراد اپنے گھر شہر اور ملک سے ہزاروں کلو میٹر دور انہیں کی پرورش اور مستقبل اور روٹی روزی کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے ہیں اور دن بھر کی محنت کے بعد اپنے تابوت نما کمروں میں آکر قید ہوجاتے ہیں۔ سوچتے سوچتے شاید سو بھی جاتے ہیں۔ اپنے دکھ درد سنانا بھی چاہیں تو سننے والا کوئی نہیں۔ مہتاب عالم پرویزؔبھی انہی میں سے ایک ہیں، لیکن ان سے ان معنوں میں مختلف ہیں کہ اپنی یادیں نہ صرف افسانوں کی شکل میں سمیٹ کر رکھتے ہیں بلکہ موقع اور وقت ملتے ہی اپنے خون پسینے کی کمائی سے ان حقیقتوں کو آپ کے ہاتھوں اور آپ کے اذہان تک کتابی شکل میں پہنچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک ساتھ ان کی تین کتابیں منظرِعام پر آجاتی ہیں۔ کمال کی بات یہ کہ کتاب کی طباعت و اشاعت سے متعلق سارے تکنیکی، فنی اور عملی خدمات خود ہی انجام دیتے ہیں۔یہ بات تعریف کی مستحق ہے، تنقیص کی نہیں۔ انسان اپنی زندگی کئی پہلووں میں جیتا ہے۔ پرت در پرت، خانہ درخانہ، پہلو در پہلو.... نجی اور ذاتی زندگی، معاشرتی اور قومی زندگی اور کڑیوں کی شکل میں جوڑنے والی نجی اور سماجی پہلووں سے ہم آہنگ زندگی۔ مہتاب عالم پرویز ؔنے ان سب کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ نجی زندگی اپنی ہو یا اوروں کی، انسان پردے میں رکھنا چاہتا ہے۔ڈرتا ہے کہ اپنے عیب نمایاں نہ ہوجائیں۔ عصمت چغتائی نے اگر اپنے بلاؤز کا کونا اُٹھایا ہے تو اپنے سینے کے زخم دکھانے کے لئے۔ واجدہ تبسم نے اگر یہ کام کیا ہے تو نفسانی تلذذ کے لیے ... لطف لینے کے لیے۔ مزہ لینے کے لیے تو کچھ لوگ ’چھوٹی کتابیں‘بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن ان تینوں قسموں کو ایک ہی خانے میں نہیں رکھ سکتے۔ جنسیات، عریانیت اور فحش نگاری میں بہت فرق ہے۔ مہتاب عالم پرویز ؔکی کچھ کہانیاں جنسی ضرور ہیں، لیکن انہیں فحش اور عریاں نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں اگر پڑھنے والے کا ذہن گرم ہوتا ہے تو انہیں گرم افسانیکہنے میں کوئی ہرج نہیں، بلکہ ضرور کہہ سکتے ہیں۔ یہ زندگی کی حقائق بیان کرتے ہیں۔ اب منٹو کے ایک مشہور مِنی افسانے کو لے لیجئے۔ صرف نام ہی لینا کافی ہے۔ کسی کا بھی ذہن و دل کہیں تک پرواز کرسکتا ہے...”کھول دو“ ۔ جبکہ اصل افسانے میں ڈاکٹر نرس سے صرف کھڑکی کھولنے کو کہتا ہے۔ مہتاب عالم پرویزؔ کہتے ہیں:
”شام ڈھلنے لگی تھی اور سورج کی لالی نیلم کی آنکھوں میں اُتر آئی تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہونے لگی تھیں، جیسے وہ نشے کی عادی ہو۔ جب وہ کمرے میں دوبارہ واپس لوٹی تو حویلی کا نوکر اس کی پشت پہ موجود تھا اس کے ایک ایک ہاتھ میں خوبصورت سے ٹرے میں رنگین مشروب کے دو گلاس سجے ہوئے تھے۔ اور دوسرے ہاتھ میں جو ٹرے تھا اس میں ایک مرغ مسلم سجا ہوا تھا۔ ٹرے میں مرغ مسلم کچھ اس انداز سے سجایا گیا تھاکہ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ نیلم مکمل برہنہ بستر پر دراز ہے اور اس کی دونوں ٹانگیں اوپر اُٹھی ہوئی ہیں۔ نوکر دونوں ٹرے سنٹر ٹیبل پر رکھ کر جاچکا تھا۔ نیلم نے ایک گلاس میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔آج کی شام تمہارے نام“
افسانہ (...کُتیا)
       کیا حقیقتیں ہی افسانوں کا روپ اختیار کرلیتی ہیں؟ یا حقیقت افسانے کی ضدہے؟؟..... یہ اور ایسے ہی نہ جانے کتنے لامتناہی سوالات افسانوں سے متعلق تنقیدی وادیوں میں گونجتے رہتے ہیں۔لیکن جہاں تک لسانی قواعد کی دنیا ہے، افسانہ اور حقیقت کو ایک دوسرے کی ضد ہی مانا جاتا رہا ہے۔تو پھر اتنی اختلافی بحث کیوں؟ دراصل وقت کے دریا نے اپنے بہاؤ کے ساتھ ایک ایسے جزیرہ نماکی تشکیل کی ہے، جہاں ایک طرف تو مفروضات کا ایک سمندر ہے اور دوسری طرف حقیقتوں کاایک پہاڑ...کسی قوم کے لیے سو سال کا فاصلہ بہت بڑا نہیں ہوتا، لیکن قوموں کی روِش میں تبدیلی ضرور آجاتی ہے۔ ادبی دنیا میں افسانوں کا بھی یہی حال ہے۔ قواعد کی دنیا کے الفاظ ’افسانہ‘ اور’حقیقت‘ آج سے سو سال پہلے ضرور ایک دوسرے کے بالمقابل نظر آتے رہے ہوں گے لیکن اب تویہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ ساتھ ادب کی دنیا میں چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر اس حیثیت سے دیکھیں تو آج کے دَور کے تیزی سے پھلتے پھولتے افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام مہتاب عالم پرویز ؔکا ہے۔یوں تو مہتاب عالم پرویزؔکا خیال ہے کہ انہوں نے نہ تو اردو کے گوناگوں افسانوں کا مطالعہ بغور کیا ہے اور نہ ہی وہ کسی افسانہ نگار سے شعوری یالاشعوری، باضابطہ یا بے ضابطہ طور پر تأثر قبول کیا ہے۔ اگرچہ دل ان کی بات مان بھی لے، لیکن میرا ذہن ان کی اس دلیل کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے؛ کہ آج کے دور کا کوئی بھی تخلیق کار آگے بڑھنے کے لیے کسی بھی تخلیق کار سے نہ تو متأثر ہوا ہو اور نہ ہی اس کے زیر مطالعہ عظیم اور شہرت یافتہ مقبولِ زمانہ افسانہ نگاروں کی تخلیقات رہی ہوں۔ معاملہ تخلیقات کا ہو یا ننھے بچوں کا، ... Aping کی راہ پر چلنا ہی پڑتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ آگے بڑھنے کے بعد اپنی نجی آزادی کا اعلان ببانگ دُہل کردیا جائے۔ اور شعوری رَو سے لے کر ریلزم اور سر ریلزم کے بخیے اُدھیڑتے ہوئے دنیا کھنگال ڈالے، یا ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعدجدیدیت اور اس کے آگے پرواز کرجائے۔Aping یا پیروی اور نقل بری چیز نہیں ہے۔سرقہ بُرا ہے۔ آج کا کوئی بھی اردو نثر نگار اگر یہ دعویٰ کرے کہ اس نے ابنِ صفی کو نہیں پڑھا ہے اور ایک ادیب کی حیثیت سے اسے کوئی مقام بھی نہیں دینا چاہتا، تو بات عجیب ہوتے ہوئے بھی مجھے ان کی بات تسلیم کرتے ہوئے خاموش ہوجانا پڑے گا،کہ میرے پاس اس کی نفی کی کوئی دلیل یا ثبوت نہیں ہے۔ حُجت تو کرنے سے رہا۔کچھ ایسے بزرگ تخلیق کاروں سے بھی میرا واسطہ پڑا ہے جنہوں نے ابن صفی کے ادیب نہ ہونے پر گھنٹوں بحث کرڈالی ہے، لیکن گفتگو کے آخیر میں ابن صفی کی دو تین کتابیں مجھ سے چھین لے گئے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ”دے دو میں وقت گزاری کے لیے پڑھ کر واپس کردوں گا“ یہ اور بات ہے کہ کتابیں مجھے واپس نہ ملی ہوں۔ یہاں ابن صفی کا نام لینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہی وہ معتبرفنکار ہے جس نے افسانوی ادب کو قصہ گوئی اور داستان گوئی کی پراسرار دنیا سے نکال کر موجودہ دور کے پراسرار جاسوسی ناولوں کااَوتار دیا۔ ساتھ ہی سرعت کے ساتھ تقریباڈھائی سو ناول لکھ ڈالے اوران کے اسلوب و آداب نے زبان کو اتنا چست درست اور شائستہ بنادیا کہ ان کا کوئی بھی قاری جو خود بھی افسانہ نگار بن گیا ہو،ان کے اندازِ بیان کے سحر سے آزاد نہ ہو سکا۔ اس بات کا اعتراف میں نہیں اردو کے تقریبااکثر و بیشتر معتبر اور مستند نقادوں اور محققوں نے کیا ہے۔ بہر حال مہتاب عالم پرویز ؔنے جاں فشانی اور ایمانداری سے قلم کی بھرپور دوستی کا حق نباہیاہے اورنباہ رہے ہیں۔ ان کے افسانوں کو سلسلہ وار پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں افسانوں کی اپنی سرگزشت کا آئینہ دار کہا جاسکتا ہے۔ افسانہ نگار دراصل زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔روٹی، کپڑاور مکان... بھوک بیماری اور کمزوری یا لاچاری... اسی سوچ نے پریم چند کی نمائندگی کی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں آیا۔کم و بیش تمام افسانہ نگار اسی راہ پر چل نکلے۔افسانہ نگار اور ادیب و شاعر کا کام ہوگیا کہ وہ سماج کی ناکامیوں اور کمزوریوں کی آئینہ داری کرے، لیکن اچھے افسانہ نگار وہ ہیں جو نہ صرف ناکامیوں اور کمزوریوں کو اُجاگر کریں بلکہ اس کے علاج کی دریافت کی کوشش بھی کریں۔ سب سے اچھے افسانہ نگار وہ ہیں جو کمیوں کو ظاہر تو کریں لیکن ان کا علاج ڈاکٹر کی حیثیت سے خود نہ کرنے لگیں بلکہ قاری کو ایک ایسی سوچ عطا کریں کہ وہ خود اس کی طرف راغب ہوجائے۔ یہ کام انجمن ترقی پسند مصنفین سے الگ ہٹ کر بھی منٹو نے کیا۔عصمت چغتائی یہ نہ کرسکیں۔ تفصیلی بحث کی ضرورت بھی نہیں۔
             سعادت حسن منٹو اردو کا واحد کبیر افسانہ نگار ہے جس کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار ہے۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھا جس نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی-’افسانہ مجھے لکھتا ہے‘ منٹو نے یہ بہت بڑی بات کہی تھی۔ منٹو کی زندگی بذات خود ناداری انسانی جدو جہدبیماری اور ناقدری کی ایک المیہ کہانی تھی جسے اردو افسانے نے لکھا۔ منٹو نے دیکھی پہچانی دینا میں سے ایک ایسی دنیا دریافت کی جسے لوگ قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے یہ دنیا گمراہ لوگوں کی تھی۔ جو مروجہ اخلاقی نظام سے اپنی بنائی ہوئی دنیا کے اصولوں پر چلتے تھے ان میں اچھے لوگ بھی تھے اور بُرے بھی۔ یہ لوگ منٹو کا موضوع تھے اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی تھی جو معمار افسانہ نویس کی پہلی اینٹ تھی۔ اس کے افسانے محض واقعاتی نہیں تھے ان کے بطن میں تیسری دنیا کے پس ماندہ معاشرے کے تضادات کی داستان موجود تھی۔
مہتاب عالم پرویز ؔکے کچھ افسانے گرم ضرور ہیں مثلا اس کتاب ”مہتاب عالم پرویز ؔکے گرم افسانے“کی تقریباسبھی کہانیاں۔یہ کتاب سعادت حسن منٹو کے نام منسوب کی گئی ہے۔اور مہتاب عالم پرویزؔ نے لکھا ہے۔

ادیب کبھی نہیں مرتا
اُن کے لکھے ہوئے افسانے
اُن کی لکھی ہوئی کہانیاں
اُنہیں سدا زندہ رکھتی ہیں ......
” ریت پر کھینچی ہوئی لکیر “ کی طرح
جیسے ریت پر اُنگلی سے کوئی لکیر کھینچ دی جائے
اور ہوائیں اُسے معدوم کر دیں، لکیر پھر بھی اندر ہی اندر زندہ رہتی ہے.....
اور
یہ کوئی افسانہ نہیں
بلکہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے
ایک ایسی ہی حقیقت جس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔
افسانے ہر دور میں لکھے جائیں گے۔
لیکن
کل
اور
آج
میں کافی اُتھل پتھل ہو گیا ہے۔
اور پھر بھی
وقت کا افسانوی
”کارواں“
رواں دواں ہے۔
لیکن
فرق صرف اتنا ہے۔
کل
قیاس آرائیوں کی صدی تھی
اور
آج
عینی شہادت کا زمانہ ہے۔
سماجی بے راہ روی کے قصے
تو صدیوں پُرانے ہیں۔
آج
جُھوٹ کی تشہیر
اس طرح سے
ہورہی ہے کہ

سچائی کا
زوال ہوتا جا رہا ہے۔
ویسے میں بھی کہانیاں لکھتا ہوں
میں بھی افسانے لکھتا ہوں ......
مجھے یقین ہے کہ میری لکھی ہوئی کہانیوں
اور
میرے لکھے ہوئے افسانوں کی
” بازگشت “
صدیوں قائم
رہے
گی۔

         ان افسانوں کو آپ ضرور پڑھیں تبھی آپ ان کی گہرائیوں میں اُتر سکیں گے۔ افسانوں کو تنقیدی اصولوں کے تحت پرکھیں۔نکتہ چینی تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔


٭٭٭

از:...رضوانؔ واسطی

Read 5779 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com