ڈاکٹر زین رامشؔ
شعبہ اردو
ونو بھا بھاوے یونیورسٹی،ہزاری باغ
جھار کھنڈ
بالغ نظر افسانہ نگار پرویزؔ
ڈاکٹر اسلم جمشید پوریؔ کتاب میں شامل اپنے مضمون بعنوان”مہتاب عالم پرویز ؔکے افسانوی بال و پر“کے دوسرے پیرا گراف میں اطلاع فراہم کرتے ہیں کہ:
”مہتاب عالم پرویز ؔنے 1985ءسے اپنے افسانوی سفر کا آغاز کیا تقریبا25/سال کے اپنے افسانوی سفر میں مہتاب عالم پرویزؔ نے بڑے نشیب و فراز دیکھے‘کبھی کہانی ان کے اندر اٹھکھیلیاں کرتی‘ کبھی انگڑائیاں لیتی تو کبھی وہ کہانی سے عشق فرمانے لگتے اور کبھی ایسا ہوتا کہ دونوں کے درمیان ہجر اپنے پاؤں پسارنے لگتا کہانی اور پرویز ؔکے درمیان کے تعلقات گزشتہ ایک دہائی تک بالکل ختم سے ہوگئے تھے لیکن ادھر پرویزؔ نے پھرسے مراجعت کی ہے۔“
علاوہ ازیں جن دانشمندانہ خیالات سے مستفیض ہوا وہ ڈاکٹر محمد زکریا،جناب اسلم بدرؔ،جناب احمد بدرؔاور ڈاکٹر اختر آزادؔکے خیالات تھے۔یہ ساری آرا، سارے خیالات اور سارے تاثرات قدرِ مختلف بھی تھے اور قدرِ مشترک بھی۔لیکن اس بات پر بہر حال اتفاق دکھاکہ افسانہ نگاری کے تعلق سے پرویز ؔکے یہاں روشن امکانات موجود ہیں۔روشن امکانات کی یہ موجودگی اس لیے بھی نظر آتی ہے کہ پرویزؔ نہ تو افسانے کے فن کے تعلق سے تکنیکی بھول بھلیوں میں اپنے کو گرفتارکرتے ہیں‘ نہ ہی بہت زیادہ اس فکر میں مبتلا ہوتے ہیں کہ میں افسانے کیوں لکھ رہا ہوں اور نہ ہی جدیدیت یا ترقی پسندانہ افکار و نظریات سے دانستہ طور پر اپنے فن کا ڈانڈا ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ خود ہی اس حقیقت کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ:
”دل کے جذبات‘،’آنکھوں کے خواب‘،دنیا کے تماشے اور کہانی کے تانے بانے کب لفظوں اور جملوں سے بر سرِ پیکار ہوئے، کب کاغذ پر تحریر کردہ لکیریں زندہ ہو اُٹھیں اور انہیں لوگوں نے افسانہ کہہ دیا،یہ سب مجھے تاریخ کے طالب علم کی طرح یاد نہیں۔“
زیرِ تذکرہ مجموعہ افسانہ’ریت پر کھینچی ہوئی لکیر‘میں شامل افسانوں میں دو افسانے ’رشتے کی بنیاد‘ اور ’ریت پر کھینچی ہوئی لکیر‘ کو متفقہ طور پر بہ نظرتحسین دیکھا گیا۔میں نے بھی ان دونوں افسانوں کو بہ کیفیت اشتیاق پڑھا انتہائی گھسے پٹے موضوع کو دائرہ تخلیق میں لاکر مہتاب عالم پرویز ؔنے اپنے انفرادی فن کارانہ ٹریٹمنٹ کے ذریعہ جس طرح زندہ جاوید کردیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔حقیقتا ان دونوں افسانوں کے ذریعہ پرویزؔکی خلاقانہ اہمیت کا جواز فراہم ہوتا نظر آتا ہے۔
مہتاب عالم پرویزؔکے اہم ترین اور متاثر کن افسانوں میں ان کا ایک افسانہ ’جلتی دھوپ میں رِم جھم‘اس افسانے کو ہم موضوع اور پیش کش دونوں اعتبار سے اہمیت کا حامل اس لیے بھی قرار دے سکتے ہیں کہ اس میں ایک بہت ہی نازک ترین نفسیاتی نکتے کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔پرویز ؔکے اس افسانے کو پڑھنے کے بعد جناب اسلم بدرؔ کی اس رائے کی معنویت کھلتی ہے کہ:
”افسانہ نگار فرائڈ اور ڈی ایچ لارنس کو بھی خوب خوب پڑھاہے اس لیے نہ صرف نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں سے واقف ہیں۔بلکہ اکثر افسانوں میں انفرادی اور سماجی مسائل کا نفسیاتی تجزیہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔“
شام ہوتے ہی دُکانوں کے سجنے،گلیوں کے روشنیوں کی آماجگاہ بن جانے‘لوگوں کے ذریعہ اندھیرے کی پناہ ڈھونڈنے گھنگھروؤں کی جھنکار اور ڈھولک کی تھاپ جیسے منظر سے کہانی کی ابتدا ہوتی ہے اور لمحہ بھر کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی جنس زدہ افسانہ نگار کی تفریحی تحریر کی شروعات ہے۔یہاں تک کہ کہانی یہ منظر بھی پیش کرتی ہے کہ اس نے مجھے بستر پہ کھینچ لیا۔اور بلاؤز کا ہک کھولنے لگی‘۔لیکن کہانی کا اختتام یہاں ہوتا ہے:
”.....کیا تم میری ماں نہیں بن سکتیں؟ ’ماں‘ کا لفظ سن کر اس کے لب کپکپا اٹھے....وہ میری باہوں میں جھول گئی اور زارو قطار رونے لگی۔اسے اس طرح اچانک روتے دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ اس کی جلتی تپتی سی زندگی میں بارش کی رم جھم پھوار گر گئی ہو۔“
اس کہانی پر طویل گفتگو کی بہت ساری گنجائشیں موجود ہیں،لیکن میں نے مختصراشارے صرف اس لیے کیے ہیں کہ تجسس قائم رہ سکے،اور اس کہانی کا مطالعہ ضرور کیا جائے۔
پرویز کی کہانیوں کا ایک قابلِ ذکر معاملہ ان کی رواں نثر اور زبان کا تخلیقی استعمال بھی ہے جس پر گفتگو پھر کبھی....!
٭٭٭
ڈاکٹر زین رامشؔ
شعبہ اردو
ونو بھا بھاوے یونیورسٹی،ہزاری باغ
جھار کھنڈ