’’لیمی نیٹیڈ گرل ‘‘کی انفرادیت موضوع اور ٹکنک
پروفیسرسیّد احمد شمیم
اختر آزاد نے اپنی زندگی کی ابتداء مختصر افسانے سے کی اور بہت ہی قلیل مدّت میں اُنہوں نے افسانے کی صورت گری میں اپنی انفرادی حیثیت قائم کی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ہم عصروں میں بیانیہ پر اتنی مضبوط گرفت کم ہی لوگوں کو حاصل ہو گی ۔بیانیہ کا سارا معاملہ دراصل لفظوں کی ہنر کاری پر منحصر ہے ۔ کفایت لفظی لازماً ضروری ہے ۔ وقوعہ کے بیان میں اتنی چابکدستی حاصل ہونی چاہئے کہ کس واقعہ کو کتنا بیان کریں اور کتنا نظر انداز کردیں ،یہ سب سے اہم بات ہے ۔یہی وہ فن ہے کہ افسانہ نگار کے لئے جادوئی ٹوپی کا کام دیتا ہے کہ وہ سب کو دیکھتا ہے اور کوئی اُسے نہیں دیکھتا ۔ اس لئے اس فن کی معروضی وضاحت میرے خیال میں ناممکن ہے ۔
اختر آزاد نے اپنے ادبی سفر میں ایک قدم یہ بھی بڑھایا کہ انہیں ناول نگاری سے دلچسپی پیدا ہو گئی ۔ ان کا پہلا ناول ’’لیمی نیٹیڈ گرل‘‘ 2013ء میں منظر عام پر بھی آ چکا ہے ۔ اور موضوع گفتگو بھی بنا ہے ۔ اختر آزاد نے اپنی افسانہ نگاری کے فن سے اس میں اچھّا خاصہ فائدہ اُٹھایا ہے ۔ اس کا اندازہ ابواب کی تقسیم پر نظر دوڑاتے ہی ایک اچھّے قاری کو ہو جاتا ہے ۔ لفظوں کے انتخاب میں بھی کفایت لفظی کے فن کو برتا ہے ۔ کسی وقوعہ کو ضرورت سے زیادہ طول نہیں دیا ہے ۔ سوائے ان معاملات کے جنہیں ہم عرف عام میں ہوٹ لائن کہتے ہیں ، یا پھر سیکس کہہ لیجئے ۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں میں یہ سوچ کر ٹھٹھک جاتا ہوں کہ اختر آزاد کی اس دلچسپی پہ مجھے گفتگو کرنی چاہئے یا نہیں ........ کیوں کہ میری خوش قسمتی ہے کہ وہ میرے شاگرد بھی رہ چکے ہیں ۔ اور شاگرد اور استاد کا رشتہ آج بھی ہمارے یہاں پابند روایت سمجھا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس پر گفتگو میں اس لئے نہیں کروں گا کہ سیکس زندگی کی ایک حقیقت ہے اور کسی بھی فن کار کو اس پر حق پہنچتا ہے کہ ان حقیقتوں سے الجھنے کا اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنے کا ۔یہ حوصلہ اختر آزاد کے اندر موجود ہے ۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے کتنا کھلنا چاہئے اور کتنا بند رہنا چاہئے ۔ کیوں کہ یہ فنّی اظہار ، بالیدہ شرط اور اشاریت کو ہی سمجھا جاتا ہے ۔
اس ناول کو پڑھتے وقت ایک چیز میرے ذہن میں آئی کہ کیا ہندوستان میں اتنا بُرا وقت آ گیا ہے کہ اکیڈمک تعلیمی اداروں کو رقص و موسیقی کے ادارے اتنا نقصان پہنچا دیں کہ وہ دھڑا دھڑ بند ہونے لگیں۔شاید ابھی ایسا نہیں ہوا ہے......... مگر اختر آزاد کی تیسری آنکھ شاید مستقبل کو دیکھ رہی ہے ۔ اُنہیں یہ خوف ہے کہ آئندہ ایسا ہوگا ۔ اس لئے اُنہوں نے اپنے ناول کے ’مستقبل‘ کو’ حال ‘میں بدل دیا ہے ۔ اور ایسا کرنا ناول میں کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ قاری اگر ذہین نہ ہو اسے دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔ یا یہ کہیں کہ پہلی نظر میں دھوکہ ہو سکتا ہے ۔لیکن غور کریں تو مستقبل اسی روپ میں سامنے کھڑا ہو سکتا ہے جس طرح سے اختر آزاد نے اس میں دکھانے کی کوشش کی ہے ۔اس سے صاف ہوتا ہے کہ وہ اختر آزاد اپنے سینے میں ایک گداز دل بھی رکھتے ہیں اور چوں کہ خود مرکزی حکومت کے ایک ماڈل پلس ٹو تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں ، اس لئے انہیں اس سے گہری اور فطری محبّت بھی ہے اور ہونا بھی چاہئے جس کی جھلک ناول میں صاف دکھائی دیتی ہے ۔
ناول میں زندگی کی چہل پہل بھر پور دکھائی دیتی ہے ۔ اور یہی ناول اور افسانے کا فرق بھی ہے کہ افسانہ سب جانتے ہیں کہ وہ کسی ایک وقوعہ کی ہلکی سی نمائش کرتا ہے ، جب کہ ناول بھر پور زندگی کی کوشش کرتا ہے ۔ کسی ناول میں وقوعات کا ایک سیل رواں ہوتا ہے کہ جو موت در موت پھیلتا رہتا ہے ۔ ایک چیز اور یہ ہے کہ افسانے میں بہر حال کوئی نا کوئی پلاٹ ہونا چاہئے ۔ جدید پسندوں نے اس سے انکا ر بھی کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی انتہا پسندی دھواں بن کر اُڑ گئی ۔ناول میں ایک پلاٹ نہیں کئی پلاٹ ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹالسٹائی کے ’’وار اینڈ پیس ‘‘ کو پلاٹ لیس ناول کہا گیا ہے ۔ بلکہ مختلف پلاٹ کو جوڑ کر زندگی کا رزمیہ اُبھارا گیا ہے ۔ بظاہر اختر آزاد اپنے ناول میں بھی کسی ایک پلاٹ پر جم کر نہیں رہنا چاہتے ہیں ۔ لیکن ایسا ہے نہیں ........ اختر آزاد ’’لیمی نیٹیڈ گرل‘‘ میں قدیم آداب زندگی اور جدید آداب زندگی کو ایک دوسرے سے بدلنا تو نہیں چاہتے ۔ لیکن کہیں نہ کہیں نئی وحشتوں کے درمیان کی کشاکش سے ہر جگہ الجھتے نظر آتے ہیں ۔
زندگی کی اس رزمیہ میں ظاہر ہے بہت سے کردار اُبھرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں ۔ لیکن چند کردار ایسے ہیں جو اس ناول کی بنت میں بے حد اہمیت رکھتے ہیں اور زندگی کی کشاکش میں مستقل جوجھتے رہتے ہیں ۔ ان میں ایک تو خود لیمی نیٹید گرل یعنی ’پریتی‘کی معصومیت ہے ۔ دوسرے اس کی ماں’ شوبھا ‘ہے جو صارف زندگی کی نمایاں ترین شخصیت کی شکل میں اس ناول میں موجود ہے، جو زندگی کی نئی لذّتوں سے ہم کنار ہونے کے لئے ہی بے تاب نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ سیر یاب بھی ہونا چاہتی ہے ۔لہٰذا کس طرح پیسہ کمانا چاہئے ......... زیاددہ سے زیادہ دولت کمانے کی اس ہوس میں اس کے لئے اپنی آبرو اور اپنی بیٹی کی معصومیت بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ دوسرے کنارے پر لیمی نیٹیڈ گرل کا باپ ’’ڈاکٹر کپل ‘‘ہے جو کامیاب ڈاکٹر ہونے کے باوجود روایت کا پاسدار اور ہندوستانی تہذیب و معاشرت کا آئینہ دار ہے ۔ اس کی بوسیدہ چھتری بھی اس کا ایک استعارہ ہے ۔ جوہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے ۔ بوسیدہ ہونے کے باوجود اسے خود سے الگ نہیں کرتے ........ بہر حال شکست خوردہ لیمی نیٹیڈ گرل کی ماں کے لئے یہی چھتری ، جس سے اسے نفرت تھی ، جسے اس نے بالکنی سے نیچے پھینک دیا تھا ۔ وہی چھتری بُرے دنوں میں اس کے لئے آخری پناہ گاہ کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ جب کہ وہ پہلی پناہ گاہ بھی تھی۔
ناول چوں کہ عصری زندگی سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس لئے اس میں چمک دمک کافی ہے ۔ فلم ، ٹی وی اور ریئلیٹی شو کی چمک دمک سے لبریز ہے اور یہ ساری چیزیں ہمارے سیاسی رہنُماؤں کے زیرِ سایہ پر ورش پاتی ہیں ........ یعنی گندگی کا سارا چشمہ خود سیاست داں ہیں اور ان کے چمچے ہیں ۔ اس میں غنڈہ کانا سلیم جو خود کو بے جھجھک’ سلیم کانے‘ کہتا ہے ، یعنی زندگی کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔ اور پھر اس کے پاس وہ وزیر ہے جو عورتوں کے لئے ہڈّی توڑ ہے ۔ اس سے آگے نہیں بڑھوں گا کہ میری زبان جلتی ہے ۔
آج کے سماج کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے چمک دمک کم ہونے لگتی ہے حسیناؤں کی چاہت کا بازار بھی مندا ہو نے لگتا ہے ۔ لیکن وہ لوگ جو زیادہ ذہین ہوتے ہیں ، آخری وقت تک بازار میں ڈوبے رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ صرف تجارت کا رنگ اور معیار بدلتا رہتا ہے۔چناچہ اس ناول میں بھی یہی کہنا ہے کہ جیسے جیسے ہیروئن بلوغت کی طرف بڑھتی ہے اس کا ڈیمانڈ کم ہونے لگتا ہے ۔کیوں کہ بلوغت کی عمر طبعی کی بلوغت سے پہلے آ چکی تھی ۔ کوئی چیز اب اس کے تجسُّس ، تحیُّر یا حیرت کا سبب نہیں بنتی تھی ۔مگر اس کی شاطر چالاک ماں اسے رواں سکّے کی طرح رکھنے کی مستقل کوشش کرتی ہے ۔ کبھی ایڈ کے لئے استعمال کرتی ہے اور کبھی کچھ اور چیز کرنے کے لئے ۔ اور جب یہ تمام مرحلے طے ہو جاتے ہیں تو پھر وہ چاہتی ہے کہ ایک دولت مند سے اس کی شادی ہو جائے ۔ مگر اب لڑکی ہوشیار ہو چکی ہے ۔ ماں کا سارا کھیل جو اچانک بھک سے اُڑ جاتا ہے اور اس کی شادی اس لڑکے سے ہو جاتی ہے جس سے اس کی کمینہ فطرت ماں خود اپنے لئے کبھی اس لڑکے کے نوزائدگی میں استعمال کرنا چاہتی تھی ۔
ایک فکشن رائٹر کے لئے ضروری ہے کہ زبان وبیان پر بھر پور دسترس ہو ۔ اور یہ دسترس اختر آزاد کو حاصل ہے ۔ بہت ہی رواں کہیں کہیں سادہ ، کہیں کہیں نوکیلی اور کہیں کہیں پھولوں کی پنکھڑی جیسی زبان لکھنے پر ان کو قدرت حاصل ہے ۔یہاں حوالے کے طور پر ایک پیراگراف رقم کرنا چاہوں گا ۔ یوں تو یہ چوتھے باب کا پہلہ حصّہ ہے ، لیکن حقیقی معنوں میں یہ ناول یہیں سے شروع ہوتاہے۔جملے دیکھئے:
’’شام کا مغربی آنچل وقت کے دوش پر لہرا رہا ہے اور اُس کو چھو کر گذرنے والی ہوا مشرقی اُفق پر بیٹھی نئی نسل کی سانسوں کے راستے آہستہ آہستہ اُس کے اندر اُتر رہی ہے ۔زندگی اور موت کے درمیان سانس کی کڑی جہاں کمزور پڑی روح کا رشتہ جسم سے ٹوٹ جاتاہے ۔ڈاکٹر کپل اور شوبھا کے درمیان کے رشتے تب کمزور پڑنے لگے جب ٹی وی چینلزنے ٹی آر پی کی اُگاہی کے لئے نئی نسل کے جسموں پرمرچ مصالحہ لگا کر وقت کے توے میں مغربی تیل سے ڈیپ فرائی کیا اور ا سکرین نما پلیٹ میں موڈرنیٹی کا نمک چھڑک کر زندگی کے رنگین ٹیبل پر اِس طرح خوش نما بنا کر پیش کیاکہ چھُری کانٹے سے لیس لوگوں نے ٹیبل مینرکو بالائے طاق رکھ کر ریئلیٹی شوکے اِس نادرکباب پر چاروں طرف سے یلغار کر دیا۔
’’لیمی نیٹیڈ گرل‘‘ صفحہ ۔10
اختر آزاد نے ناول کے اختتام میں ایک مشاق فنکار کی طرح بہت خوبصورتی کے ساتھ تمام واقعات کو سمیٹا ہے اور بڑے ہی ڈرامائی انداز میں اسے کلائمکس تک پہنچایا ہے ۔ جس کے دو اختتام ہیں ۔ ایک خاص قاری کے لئے اور دوسرا عام قاری کے لئے ۔ لیکن جہاں تک میرا خیال ہے کہ کہ یہ اختتام نہیں ایک اختتام ہے جسے صرف ایک ٹکنک کے طور پر خاص و عام کے درمیان بانٹا گیا ہے ۔ کیوں کہ کوئی بھی قاری ایک انجام تک پہنچ کر نہیں رک سکتا ۔ اسے دوسرے انجام تتک پہنچنا ہی ہو گا ۔جس میں تجسّس بھی ہے اور انفرادیت بھی ۔جس کی داد دی جانی چاہئے ۔ میری دعا ہے اور یقین ہے کہ آئندہ کی فکشن کی دنیا میں وہ بہت زیادہ نمایاں ہوں گے ۔ نمایاں تو اب بھی ہیں ۔لیکن کل پوری اعتماد اور انفرادیت کے حامل بھی ہوں گے جسے چیلنج کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہو گا ۔
***