تنویراختررومانی کا افسانوی شجر " ببول" اور ڈاکٹراخترآزادؔ
تنویر اختر رومانی نے اپنے افسانوی سفرکی شروعات افسانہ ” ندامت کے آنسو“ سے کی۔ یہ افسانہ ماہنامہ بتول ، رامپور کے دسمبر 1975کے شمارے میں شائع ہوا۔اس طرح اگر آ پ دیکھیں تو ان کا افسانوی سفر چالیس سالوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔اس عرصے میں بقول ان کے کہ انہوں نے باسٹھ افسانے لکھے۔شب وروز کے ترازو کے ایک پلڑے میں اگر ایک سال کابٹکھرا رکھیں تو دوسرے پلڑے میں صرف ڈیڑھ افسانے ہی چڑھتے ہیں۔
دوسری طرف اگر دیکھیں اور دیگر اصناف میں لکھی گئی تصنیفات جس میں بچوں کے لئے کہانیاں، افسانچے،،ڈرامے،انشایئے،مضامین، تبصرے ،نظمیں اور غزلیں اور اردو سے ہندی اور ہندی سے اردو افسانوں کے تراجم کو جو ڑ دیا جائے تو یہ تعداد تقریبا پونے تین سو ہو جاتی ہیں۔ یعنی سال میں سات تخلیقات جس میں تراجم بھی شامل ہیں۔
1990 سے 2014 تک تقریبا 25 سالوں کے دوران انہوں نے صرف دو افسانے لکھے ۔ گزشتہ بیس سالوں سے وہ جماعت کے ساتھ بھی جڑے رہے ہیں ۔ ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جماعت کی مصروفیت کے باعث وہ ادب کے لئے وقت نہیں نکال پائے ۔ہم جیسے ادب کے طالب علموں کو بھی لگتا تھا کہ تنویر صاحب ان دنوں ادب کے ساتھ انصاف نہیں کر پارہے ہیں۔میں نے ان سے کئی بار دبی زبان میں کہا بھی کہ جماعت کے ساتھ ساتھ آپ ادبی سفر بھی جاری رکھیں آپ کی شناخت شہر سے باہر ایک ادیب کی بھی ہے۔خدا کا شکر ہے کہ ہم جیسے طالب علموں کی دعائیں کام آئیں اور 2014سے ایک بار پھرنئے دم خم کے ساتھ ان کی ادب میں زور دار واپسی ہوئی۔ آجکل اور ایوان ارود جیسے اہم رسالوں میں تواتر کے ساتھ ان کی چار پانچ کہانیاں شائع ہو گئیں ، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ خواب جو برسوں سے ان کی آنکھوں کے صحرا میں ایک بیج کی صورت میں موجود تھا ،حوصلے کی نمی پاتے ہی انکُر کر افسانوی شجر کی صورت میں سامنے آ گیا۔اور وہ شجر جسے تنویر اختر رومانی نے ببول کا نام دیا۔کسی افسانوی مجموعے کا نام ببول ہو شاید کم لوگوں نے سوچا ہو گا۔ ویسے جب اس مجموعے کو ترتیب دیا جا رہا تھا تو مرتب نے اسے ”بند مُٹّھی کا کرب“ رکھا تھا لیکن شاید آخری وقت میں انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ بند مٹّھی کے کرب سے سکّے کو نجات دلانے سے بہتر ہے کہ چالس سالہ افسانوی ببول کو قاری کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ اسے گڑیں بھی ، خون بھی نکلیں اورجب درد ہو تو وہ سبق بھی سیکھیں ۔
اگر ہم جمشید پور کی سو سالہ ادبی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو جہاں ہربنس سنگھ دوست، زکی انور ، گر بچن سنگھ ، شمیم چواروی، محمود واجد ، اور منظر کاظمی جیسے چمکتے آفتاب ومہتاب یہاں موجود تھے آج بھی انور امام ، ابرار مجیب ، اسلم جمشید پوری ، مہتاب عالم پرویز ، نیاز اختر اور آج کے دُلہا تنویر اختر رومانی آسمانی اُفق پر اپنی چمک بکھیر رہے ہیں ۔
حضرات ! افسانوی مجموعہ ”ببول “ میں چھوٹے بڑے 20 افسانے ہیں ۔ سبھی اصلاحی نقطہءنظر کو سامنے رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ یوں تو سبھی افسانے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لیکن اس میں سات افسانے ”ببول ، بھروسہ ، دنگل ، بند مٹھی کا کرب، بدولت، روٹی مانگتی زندگی “اور بڑے دالان والا آدمی “ ایسے افسانے ہیں جو آنے والے دنوں میں ان کی شناخت کی وجہ بنیں گے۔قیمت 200 روپئے ہے ۔عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی نے بڑے اہتمام سے اسے شائع کیا ہے ۔