ترکی سے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ؔکی رپورٹ
ترکی میں پہلی عالمی اردو ادب کانفرنس بیاد احمد ندیم قاسمی منعقد
ترکی کے شہر انتالیہ میں سہ روزہ کانفرنس13 تا 15 اکتوبر 2016کا شاندار اہتمام
کسی ادیب کو اس کی وسیع النظری بقائے دوام عطا کرتی ہے: پروفیسر ارتضیٰ کریم
احمد ندیم قاسمی بڑے مدیر، ادیب و شاعر کے علاوہ اچھے انسان بھی تھے: ناہید قاسمی
ترکی کے دارالسلطنت انقرہ میں واقع شاندار انقرہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے زیراہتمام یونیورسٹی کے انتالیہ مرکز کے ہوٹل Orsem میں معروف شاعر و افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کی صدسالہ یوم پیدائش کے موقعے پر پہلی بین الاقوامی اردو ادب کانگریس کا افتتاح کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی محترمہ ناہید قاسمی (احمد ندیم قاسمی کی بڑی صاحب زادی) نے کہا ”مجھے وہ آج بے حد حساب یاد آرہے ہیں وہ ایک بڑے شاعر، افسانہ نگار، کالم نویس اور اعلیٰ پائے کے مدیر تو ہی تھے لیکن ایک بہترین انسان اور شفیق و بہترین باپ بھی تھے۔“ محترمہ ناہید قاسمی نے اس موقع پر اپنے والد احمد ندیم قاسمی کے بعض ذاتی واقعات سنائے اور ان کی ادبی نگارشات پر کھل کر گفتگو کی۔
پہلی بین الاقوامی اردو ادب کانگریس کی روح رواں صدر شعبہ اردو انقرہ یونیورسٹی پروفیسر آسماں بیلن آزگن نے استقبالیہ خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً نو مہینے کی محنت رنگ لائی اور آج یہ یادگار تاریخ ساز کانفرنس منعقد ہوئی۔ گذشتہ 15 جولائی کو ترکی کے سیاسی حالات کی تبدیلی نے ہمیں خوف زدہ کردیا تھا۔ ہم لوگوں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری۔ ہم اپنی سرکار کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہمیں اپنے کانفرنس کے انعقاد میں بھرپور تعاون دیا۔ میں ہندوستان،پاکستان، جرمنی،جاپان اور ترکی کی مختلف یونیور سٹیز سے آئے مند و بین کا خیر مقدم کرتی ہوں۔مجھے افسوس ہے کہ ہمارے کئی اسکالرس حالات خراب ہونے کے سبب نہیں آپائے۔
اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہا کہ ترکی جیسے ملک میں اردو ادب کانفرنس کا انعقاد اردو کی بین الاقوامیت کا ثبوت ہے۔ یہ کانفرنس بین الاقوامی سطح پر اردو کی مقبولیت اور تشہیر و تبلیغ کے نئے در وا کرے گی۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم نے مزید کہا کہ کسی ادیب کو اس کی وسیع النظری بقائے دوام عطا کرتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی اپنی انسان دوستی اور وسیع النظری کی بنا پر انتقال کے بعد بھی زندہ ہیں۔ بڑا ادیب کسی بھی تحریک سے بڑا ہوتا ہے۔ انھوں نے منتظمین کو مبارک باددیتے ہوئے کہا کہ آج جب کہ ہندو پاک میں اردو کے زوال پذیر ہونے کا رونا رویا جارہا ہے ترکی میں انقرہ یونیورسٹی کے ذریعے منعقدہ یہ کانفرنس ہم اردو والوں کے لیے ایک سبق ہے۔
افتتاحی اجلاس میں احمد ندیم قاسمی پر مبنی ایک دستاویزی فلم ’ندیم کہانی‘ دکھائی گئی جس میں احمد ندیم قاسمی کے بچپن، جوانی، تعلیم، ملازمت اور ادبی تخلیقات پر مفصل روشنی ڈالی گئی۔احمد ندیم قاسمی کے تعلق سے معروف ادبا و شعرا اشفاق احمد، علی سردار جعفری، مالک رام،شفیق احمد،شرہت بخاری وغیرہ کے تاثرات بھی دکھائے گئے۔ اس موقع پر پاکستانی سفیرمحترم سہیل محمود کا ویڈیو کانفرنسنگ سے خطاب ہوا اور ترکی کا قومی ترانہ بھی ویڈیو کے ذریعہ پیش کیا گیا۔
کانفرنس کا پہلا باضابطہ اجلاس معروف ناقد پروفیسر انوار احمد کی صدارت میں شروع ہوا۔ اس سیشن میں جاپان کی اوساکا یونیورسٹی سے پروفیسر مرغوب حسین طاہر نے ’احمد ندیم قاسمی کی غزل‘ کا بھرپور جائزہ لیا۔ انھوں نے کہا کہ قاسمی کی غزل دل کی آواز ہے جس میں تصوف بھی ہے اور تغزل بھی۔جو ہمیں نئے جہان عطا کرتی ہے۔
ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری صدر شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ انڈیا نے’’احمد ندیم قاسمی کے افسانوی ابعاد“ پر مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں میں انسان دوستی، جاگیر دارانہ ظلم و جبر، مفلوک الحال کسان اور مزدور، مظلوم عورت جیسے موضوعات پر کامیاب افسانے تحریر کیے۔ احمد ندیم قاسمی کے یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے ڈاکٹر عقیلہ بشیر (پاکستان) نے’’احمد ندیم کے افسانے تانیثی تناظر میں“ پیش کرتے ہوئے.
دوسرا اجلاس محترمہ پروفیسر روبینہ ترین (ملتان یونیورسٹی) کی صدار ت میں شروع ہوا۔ اس اجلاس میں معروف شاعر و ناقد اصغر ندیم سید نے”احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے نچلے طبقے کے کردار“، شاہد اقبال کامران نے”احمد ندیم قاسمی: دل دانش اور دنیا کے درمیان“، جاپان کے پروفیسر سویامانے یاسر نے ”جدید اردو ادب کے فروغ میں احمد ندیم قاسمی کی خدمات“ اور راشدہ قاضی نے احمد ندیم قاسمی کی غزل و نظم پڑھ کر سنائی۔ اس موقعے پر اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر روبینہ ترین نے ترکی میں اردو کانفرنس کے انعقاد کو اردو کے فروغ میں سنگ میل قرار دیا۔
دوسرے دن(14اکتوبر) کے پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر عقیلہ بشیر نے کی۔اس اجلاس میں پروفیسر یعقوب یاور (صدر شعبہ ء اردو،بنارس ہندو یونیورسٹی) نے”سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری“ پر مقالہ پیش کرتے ہو ئے فرمایا ”منٹو اپنے عہد کا ہی نہیں،آج تک کا بڑا افسانہ نگار ہے۔اس کے افسانے تنوع کی اعلیٰ مثال ہیں۔اس کے افسانون کو عالمی سطح کے بڑے افسانہ نگاروں کے مقابل رکھا جا سکتا ہے۔“ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ”احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں انسان دوستی“ میں کہا ”قاسمیکے افسانوں میں انسانی ذات کا افسانہ پورے شد ومد کے ساتھ ملتا ہے۔ان کے نسوانی کردار پریم چند کے نسوانی کرداروں سے یکسر مختلف ہیں اور سادگی کے ساتھ باغیانہ تیور بھی رکھتے ہیں۔“ محترم نیر حیات قاسمی (احمد ندیم قاسمی کے نواسے) نے ”احمد ندیم قاسمی کے اداریوں کی انفرادیت و اہمیت“ میں کہا کہ قاسمی کے اداریے اپنے عہد کی ادبی تاریخ بھی ہیں۔ڈاکٹر عقیلہ بشیر نے صدارتی تقریر میں اس اجلاس کو بے حد کامیاب بتایا اور تینوں مقالوں کو بلیغ اور جامع بتایا
دوسرے اجلاس کی صدارت پرو فیسر ارتضی ٰ کریم نے کی۔اس اجلاس میں فرخ سہیل گوئندی نے ”احمد ندیم قاسمی کا اردو ادب کے ذریعہ سماج کی تعمیر میں کردار“ مقالہ پیش کرتے ہوئے ان کے افسانوں اور شاعری کے ذریعہ سماج کی مثبت تعمیر پر مفصل بحث کی۔انقرہ یونیور سٹی کے رسرچ اسسٹینٹ کینن اردمیر اور طلعت الطاف نے بھی اپنے مقالے پیش کئے۔صدارتی خطبے میں پروفیسر ارتضیٰ کریم نے احمد ندیم قاسمی کے تخلیق کردہ ادب کی اہمیت و معنویت پر اظہار خیال کیا۔انہوں نے مشورہ دیاکہ ہمیں اقبالیات اور غالبیات کی طرح احمد ندیم قاسمی کی تخلیق کردہ ادب کے لئے قاسمیات یا ندیمانہ ادبی رویے استعمال کر نا چاہئے۔ان کے مشورے کو سامعین نے کافی سراہا۔
تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر یعقوب یاور نے کی۔اس اجلاس میں پروفیسر روبینہ ترین نے”اردو کی رومانی تحریک کے لئے ترک سر چشمہ ء فیض“، دہلی یو نیورسٹی کے پروفیسر انل کمار رائے نے ”عظیم اردو شاعر میر اور اس کی شاعری“، ڈاکٹر رجب درگن نے ”احمد ندیم قاسمی کی شاعری میں حب الوطنی“ پر مقالات پیش کئے۔ پروفیسر یعقوب یاور نے صدارتی خطبے میں اردو ہندی کو ایک ہی زبان قرار دیا۔انہوں نے کہا دونوں میں اسکرپٹ کا فرق ہے۔دونوں زبانوں کا ادبی سرمایہ خاصا مشترک ہے۔
دوسرے دن کے چوتھے اجلاس کی صدارت محترمہ راشدہ قاضی نے کی۔اس اجلاس میں ہندوستان کے، ترکی میں مقیم ڈاکٹر سائیں ناتھ نے ”اردو میں خواتین پر تحریر کردہ پہلا ناول مراۃ العروس“، جرمنی سے ڈاکٹر سرور غزالی نے ”خواتین کی اردو ادب میں دین“،ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے”احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں دیہی خواتین کے مسائل“ پیش کیا۔راشدہ قاضی نے انقرہ یونیورسٹی کے اس عالمی کانفرنس کو بے حد کامیاب بتایا۔
تیسرے دن ( 15اکتوبر)کے پہلے اجلاس کی صدارت دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر انل کمار رائے نے کی اور دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد قادری نے ’ریاست جموں کشمیر میں ترجمے کی روایت‘ پر اپنا مقالہ پیش کر تے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ترجمے کی روایت کو ریاست جموں کشمیر کے دارالترجمہ نے خاصی تقویت عطاکی۔ مہاراجہ رنبیر سنکھ نے ریاست میں ترجمے کے کام کو دوام عطاکیا۔ ان کے علمی کارناموں کے سبب انہیں سرسید ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ مولانا آزادیونیور سٹی،حیدرآباد کے ڈاکٹر ابوالکلام نے ”ترجمے کے نئے اصول وضوابط: ایک جائزہ“ پیش کیا۔جس میں انہوں نے ترجمہ نگاروں کے تعلق سے مغربی دانشوروں کی آراکا جائزہ لیا۔مدورائی یونیور سٹی،چینئی کے ڈاکٹر کھنڈوے چندو
نے ”اردو شاعری کا ہندی پر اثر،غزل کے خصوصی حوالے سے“میں امیر خسرو سے بیسویں صدی تک کی اردو غزل کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے ہندی غزل پر اس کے اثرات پر گفتگو کی۔پروفیسر انل کماررائے نے صدارتی خطبے میں کہا”یہ حسن ِاتفاق ہے کہ یہ پورا اجلاس ہندوستانی ہو گیا ہے۔اس اجلاس میں عمدہ پر چے پڑھے گئے۔“
تیسرے دن کے دوسرے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر رجب درگن نے کی اور ڈاکٹر فرحت جبیں ورک نے ’کرنل مسعود اختر شیخ کے تراجم کا ترک پاک رشتوں پر اثر‘ میں کرنل مسعود کے ذریعہ ترکی کے 32 ادیبوں کی کہانیوں کے ترجمے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی محترمہ پروفیسر انوپما (شعبہ ہندی، انقرہ یونیورسٹی) نے ترکی اور ہندوستانی زبانوں کا تعلق کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو اور ہندی میں بے شمار الفاظ ترکی کے پائے جاتے ہیں۔ شلوار، چہرہ، کتاب، قلم جیسے بہت سے لفظ ہیں جو ترکی اور ہندوستان میں بولے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر رجب نے دونوں مقالات کو بہتر قرار دیا۔
اختتامی اجلاس
ترکی کے معروف مقام سیاحت انتالیہ میں انقرہ یونیورسٹی کی جانب سے منعقد پہلی بین الاقوامی اردو کانفرنس کا شاندار طریقے سے اختتام ہوا ۔
ا ٓ خری اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پرفیسر ارتضیٰ کریم (ڈائرکٹر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی) نے کہا ”یہ پہلی بین الا قوامی کانفرنس ’مطا لعہ ندیمیات‘کے نئے دروا کرے گی۔ انقرہ یونیورسٹی کی یہ کوشش ہند و پاک میں بھی اپنے اثرات قائم کرے گی۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اس موقعے پر اعلان کیا کہ احمد ندیم قاسمی پر پڑھے گئے مقالات کو قومی کونسل احمد ندیم قاسمی نمبر کی شکل میں اپنے سہ ماہی مجلہ فکر و تحقیق میں شائع کرے گی۔
اختتامی اجلاس کو خطاب کر تے ہوئے محترمہ ناہید قاسمی نے کہا کہ مجھے بے انتہا خوشی کا احساس ہورہا ہے کہ میں اپنے والد کے صد سالہ یوم پیدائش پر منعقدہ پہلی عالمی کانفرنس میں بہ نفس نفیس موجود رہی۔ کانفرنس میں احمد ندیم قاسمی کی تفہیم کے نئے نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔
کانفرنس کی روح رواں انقرہ یونیورسٹی کی صدر شعبہ اردو محتر پروفیسر آسماں بیلن آزگن نے بے حد جذباتی لہجے میں شرکا کا شکریہ اداکیا۔ معروف نقاد پروفیسر انوار احمد نے اس موقعے پر کہا کہ ہم سب انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے شکر گزار ہیں جس کے سبب ایک اتنا بڑا ادبی جشن منعقد ہو پایا۔ محترم اصغر ندیم سید، پروفیسر انل کمار رائے اور پروفیسر شاہد اقبال کامران نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا۔
کانفرنس کے دوران شاندار Dance and Songs،احمد ندیم قاسمی کا 100 واں یومِ پیدایش (بڑا سا کیک کا ٹا گیا، پاکستانی قوالیاں اور ہندوستانی گانے سنوائے گئے)، سمندری ساحل پر شب میں مخصوص پارٹی،وغیرہ کا بھی انعقاد ہوا۔رقص و موسیقی کے پروگراموں میں صدر شعبہ ء اردو،دیگر اساتذہ اور انقرہ یونیور سٹی کے طلبہ اور طالبات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور مست ہو کر ترکی رقص کیا۔
کانفرنس کا اختتام 15اکتوبر کو لنچ سے پہلے ہو گیا تھا۔لنچ کے بعد آس پاس کے سیاحتی مقامات کی سیر کرائی گئی۔16اکتوبرمولانا رومی کے آستانے پر حاضری دیتا ہوا کچھ مخصوص لوگوں پر مشتمل یہ ادبی کارواں،شام میں انقرہ یونیورسٹی پہنچا۔آہندہ کے منصوبوں پر غور وفکر،لیکچر اور سیاحت کے بعد سبھی اپنے اپنے ممالک کو واپس ہوئے۔
یہ کانفرنس انقرہ یونیورسٹی، ترکی کی مہمان نوازی کے لئے بھی یاد ر ہے گی۔تمام جدید سہولیات سے مزین یونیورسٹی کے ہو ٹلORSEM کی شاندار عمارت۔ناشتہ،ظہرانہ،عشائیہ،شام کی چائے۔۔سب کچھ اپنے وقتِ مقررہ پر۔۔۔مختلف اقسام کے شہد، زیتون اور انجیر،دودھ،سوفٹ ڈرنکس انڈے مختلف انداز میں پکے ہوئے،انواع اقسام کے پھل،پھلوں کے رس،متعدد قسم کے سوپ،مچھلی کی طرح طرح کی ڈشیز۔۔بے مزہ چکن، روٹی کی شدید خواہش اور کالی کلوٹی بے کار سی چائے اور مچھلی نما بڑی بڑی بریڈ۔سبزیوں کی عجیب وغریب کائنات، کھانے سے کئی گنا کھانا برباد کرنا،ہر ڈش کو چکھنا اور پسند نہ آنے پر چھوڑ دینا،ہر لمحے برتن اٹھانے پر معمور انتہائی خوبصورت مستعد نوجوان لڑکے لڑکیاں۔ہر طرف ترکی زبان۔انگریزی کی بے قدری۔اپنا مافی الضمیر ادا کرنے میں ہونے والی پریشانیاں اور اشاروں کا استعمال۔ سمندری ساحل کی سیر و تفریح۔ ہر خریداری میں لیرا (ترکی کرنسی)،ڈالر اور روپیہ کا حساب کتاب، کانفرنس کی یہ یادیں ہمیشہ تازہ رہیں گی۔ ( ترکی سے ڈاکٹر اسلم جمشید پوریؔ کی رپورٹ)