معروف شاعر محترم بی ایس جین جوہر ؔ کے انتقالِ پر ملال پر تعزیتی جلسہ
بی ایس جین جوہر ؔ کا انتقال نہ صرف میرٹھ بلکہ پوری اردو دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے : پروفیسر سید احمد شمیم
(پریس ریلیز)
میرٹھ 28/ جون 2019ء
شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ کے منشی پریم چند سیمینار ہال میں میرٹھ کے معروف شاعر مرحوم بی ایس جین جوہرؔ کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت پروفیسر سید احمد شمیم نے کی اور مہمانان میں پروفیسر خالد حسین خاں، محترم نپن جین شریک ہوئے مہمانان کے لیے استقبالیہ کلمات ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے ادا کیے اور تعارف ڈاکٹر شاداب علیم، نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے بحسن و خوبی ادا کیے۔
تعزیتی جلسہ کا آغاز شعبے کے طالب علم اسرار احمد نے مرحوم بی ایس جین جوہر ؔ کی خوبصورت غزل سے کیا۔بعداذاں ڈاکٹر شاداب علیم نے معروف شاعر محترم بی ایس جین جوہر ؔ کا تعاروف پیش کرتے ہوئے کہا کہ محترم جوہرؔ جیسے شاعر،ملنسار اوربا کردار انسان کبھی کبھی پیدا ہوتے ہے۔شاعری کے ذریعے ان کی لگن و کام جو انھوں نے اپنی زندگی میں جاری رکھے اور غریبوں کو آگے بڑھانے میں مدد کی ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری انکے رشتہ داروں اور دوستوں کی بنتی ہے کہ وہ محترم بی ایس جین جوہر ؔکے کام کو آگے بڑھائیں۔اس موقع پر پروفیسر خالد حسین نے کہا کہ مرحوم بی ایس جین جوہرؔایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے تاجر بھی تھے۔ان کے ساتوں شعری مجموعوں سے ہندو مسلم یکجہتی کی نمائندگی ہوتی ہے۔ مرحوم کے بیٹے محترم نپن جین نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تاجراور خوش اخلاق تاجر بھی تھے۔ ان کی شاعری سے محبت کا پیغام جاتا ہے۔ انہوں نے کبھی ہندو، مسلمان میں فرق نہیں کیا۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ان کا چلے جانا ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ محترم بی ایس جین جوہرؔ اردو کے بڑے ادیب اور بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار،دیش بھکت اورسچے انسان تھے۔ ان کے کلام پر جب رسرچ ہوگی تو ادب کے نئے نئے گوشے سامنے آئیں گے۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سید احمد شمیم نے کہا کہ استاد شاگردی کا رشتہ اب کمزور ہوتا جا رہا ہے۔آج ایک دوسرے سے محبت، ہمدردی، انسیت جیسی صفات ختم ہوتی جارہی ہیں۔یہاں پر بہت سی زبانیں ہیں جن کے ملنے سے ایک گلدستہ بنتا ہے۔ شاعری کی طرح اردو افسانے کی رسرچ کے لیے بھی کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔لیکن آج اسکالررسرچ پر ہونے والی محنت سے دور بھاگ رہے ہیں۔اردو زبان پورے ملک کی تہذیبی زبان ہے۔ اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر فرحت حسین خوشدل(ہزاری باغ) کی مرتب کردہ کتاب ”انتخاب ِ کلامِ جوہر“اور فرحت حسین خوشدل کی ہندی نظموں کا مجموعہ پشپانجلی(جسے انہوں نے بی ایس جین جوہر کے نام کییا ہے)کا اجرا بھی مہمانوں کے ہا تھوں عمل میں آیا۔
اس موقع پر بھارت بھوشن شرما، رام اوتار بنسل،محمد دانش، آفاق احمد خان، ڈاکٹر ارشاد انصاری، معراج الدین انصاری، الکا وششٹھ،مکیش جین، ادت جین، اشونی گیرا، راجیو جی،منوج جی، پروین گرگ، آلوک شرما،فرح ناز، گل ناز، شبشتہ خان، ڈاکٹر سیدہ،فیضان انصاری، عبدالواحد،محمد شمشاد وغیرہ شریک ہوئے۔
٭٭٭