غزلیں
اشرف علی اشرفؔ ، جمشید پور (جھارکھنڈ)
زخم جب جب بھی مرا تم کو دکھائی دے گا
پشت پہ کس نے کیا وار گو اہی دے گا
بے وفا دیکھ ذرا دل میں اتر کر میرے
ہر طرف درد بھرا نغمہ سنائی دے گا
حسن والے کا تو انصاف جدا ہوتا ہے
قید مانگو گے اگر تم تو رہائی دے گا
نیک کردار ، عمل اور وفا کا پودا
کوئی موسم ہو مگر سبز دکھائی دے گا
کوئی دے یا نہ دے لیکن تھا بھروسہ مجھ کو
وقت آیا تو سہارا میرا بھائی دے گا
دیکھ تو لاکے کبھی اپنے تصوّر میں اُسے
دل کی آنکھوں کو حسیں جلوہ نمائی دے گا
فرمانبردار جو فرزند ترا ہو اشرفؔ
اس سے بڑھ کر کے خدا کیسی کمائی دے گا
****
کلی ہے پھول ہے گلشن ہے کیا کیا جائے
عجب سی ذہن میں الجھن ہے کیا کیا جائے
پسند آئے نہ آئے تجھے تری مرضی
یہی غریب کا آنگن ہے کیا کیا جائے
شباب اور چڑھے گا حیا بھی آئے گی
ابھی ادا میں لڑکپن ہے کیا کیا جائے
بہار چھائی ہے ان کے چمن میں خوشیوں کی
ہماری آنکھوں میں ساون ہے کیا کیا جائے
وہ کوئی غیر نہیں جس نے گھر اُجاڑا ہے
ہمارا بھائی ہی دشمن ہے کیا کیا جائے
میں کیسے پیاس بجھاؤں نگاہ سے اشرفؔ
مرا رقیب یہ چلمن ہے کیا کیا جائے
****
اشرف علی اشرفؔ ، جمشید پور (جھارکھنڈ)